آہٹ تو ہو بہو دلِ درد آشنا کی تھی (خالد شریف)

عاطف بٹ

محفلین
آہٹ تو ہو بہو دلِ درد آشنا کی تھی
یہ گریۂ فضا تھا کہ سسکی ہوا کی تھی

چہرے پہ اس کے آج ہے سرسوں کھلی ہوئی
وہ جس کی بات بات میں خوشبو حنا کی تھی

سینے میں جو اتر گئی تلوار کی طرح
وہ بات تو مرے کسی درد آشنا کی تھی

ہم رہروانِ منزلِ امید کیا کہیں
تحریر یہ لکھی ہوئی دستِ قضا کی تھی

وہ چشم و لب وہی تھے جنہیں ڈھونڈتا ہوں میں
گو اس کی بات بات میں تلخی بلا کی تھی

ہر سنگِ راہ تھا، مرا مونس، مرا حبیب
کس کس جگہ پہ چھاپ ترے نقشِ پا کی تھی

خاؔلد شریف​
 
Top