آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

یہ گیان چند جین کی کتاب میں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ اس کے حوالے سے ایک کتاب میں نے اپنے ایک استادِ محترم کے ہاں دیکھی تھی۔ اس تنظیم نے پہلی بار ادبی تحقیق کو چار شعبوں میں تقسیم کیا تھا ۔ تنقید اس کا لازمہ تھی اور اس سکے شعبہ جات میں میں سے ایک تدوین بھی تھا۔ لسانیات کے حوالے سے نجانے اس میں کچھ دیا تھا یا نہیں، اب یاد نہیں آرہا۔میں نے اس میں زیادہ تر تدوین کے حوالے سے پڑھا تھا کیوں کہ میرا ایم فل کا مقالہ تدوین سے متعلق ہی تھا اس لیے اسے کچھ پڑھا تھا پھر تنویر احمد علوی کی کتاب سے زیادہ مدد لی تھی اور پھر لسانیات یا لنگوئیسٹک کے حوالے سے چند کتب کا مطالعہ کیا تھا جن میں سے اکثر انٹرنیٹ پر ہی موجود تھیں۔ ایک کتاب ہماری ایک استاد نے انڈیا سے منگوا کر دی تھی۔ اردو میں لسانیات کے حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے۔
 

ظل عرش

محفلین
یہ گیان چند جین کی کتاب میں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ اس کے حوالے سے ایک کتاب میں نے اپنے ایک استادِ محترم کے ہاں دیکھی تھی۔ اس تنظیم نے پہلی بار ادبی تحقیق کو چار شعبوں میں تقسیم کیا تھا ۔ تنقید اس کا لازمہ تھی اور اس سکے شعبہ جات میں میں سے ایک تدوین بھی تھا۔ لسانیات کے حوالے سے نجانے اس میں کچھ دیا تھا یا نہیں، اب یاد نہیں آرہا۔میں نے اس میں زیادہ تر تدوین کے حوالے سے پڑھا تھا کیوں کہ میرا ایم فل کا مقالہ تدوین سے متعلق ہی تھا اس لیے اسے کچھ پڑھا تھا پھر تنویر احمد علوی کی کتاب سے زیادہ مدد لی تھی اور پھر لسانیات یا لنگوئیسٹک کے حوالے سے چند کتب کا مطالعہ کیا تھا جن میں سے اکثر انٹرنیٹ پر ہی موجود تھیں۔ ایک کتاب ہماری ایک استاد نے انڈیا سے منگوا کر دی تھی۔ اردو میں لسانیات کے حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے۔
شکریہ اس تفصیلی جواب کا. میں کوشش کروں گی کہ اس سے مستفید ہو سکوں. جی بالکل آپ درست فرما رہے ہیں اردو میں لسانیات میں زیادہ کام نہیں ہوا اسی لیے اس میں تحقیق کے مواقع بہت زیادہ ہیں. کچھ عرصہ قبل ایک بچے نے. انگریزی کی طرز پہ اردو سابقے اور لاحقے پر ریسرچ کی تھی lexical, semantic level پہ. لٹریچر ریویو کے لیے اردو لسانیات پر مواد ڈھونڈنے میں بڑی مشکل پیش آئی. دراصل انگریزی میں تو Linguistics and literature کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے. اس لئے ریسرچ بھی ہو رہی ہے. لیکن اردو Linguistics میں بڑا کام ہونے والا ہے.
 

محمد وارث

لائبریرین
انڈیا اور بی جے پی پرمطالعے کی اگلی لڑی، اٹل بہاری واجپائی کی سوانح عمری
Atal Bihari Vajpayee: A Man for All Seasons by Kingshuk Nag
مصنف ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر ہیں اور بی جے پی پر کتابیں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ بی جے پی کی ہسٹری، واجپائی اور مودی کی سوانح عمریاں اور دیگر کتابیں لکھ چکے ہیں۔

واجپائی انڈیا کے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے جس نے اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی اور وہ اس وجہ سے کہ سخت گیر بی جے پی میں 'سافٹ لائنر' سمجھے جاتے تھے اور چونکہ بی جے پی حکومت ایک مخلوط حکومت تھی اور بی جے پی کے اتحادی صرف واجپائی پر متفق ہوئے۔ واجپائی گو نوعمری سے ہی آر ایس ایس کے رکن تھے اور آر ایس ایس کے باسز کا مکمل اعتمار بھی رکھتے تھے لیکن رام جنم بھومی مندر تحریک میں، جس سے بھاج پا کو عروج ملا، متحرک نہیں تھے بلکہ آڈوانی فرنٹ لائن پر تھے۔ اُن کو وی پی سنگھ کی جنتا دل میں شمولیت کی دعوت بھی ملی تھی لیکن نہیں مانے اور پس منظر ہی میں رہے۔

واجپائی کا صحیح عروج نوے کی دہائی کا وسط کا زمانہ ہے جب کانگریس "ڈوب" رہی تھی اور بی جے پی کو ایک ایسے نرم مزاج چہرے کی تلاش تھی جس پر اپوزیشن راضی ہو سکے اور وہ چہرہ واجپائی کا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی آر ایس ایس کے حلقہ اثر سے نکل گئے تھے اور آر ایس ایس کی بہت سی باتیں نہیں مانیں اور انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے جیسے نرم مزاج لوگوں کو اکھٹا کیا جیسے جسونت سنگھ اور جارج فرنینڈس اور آڈوانی کو دور رکھا۔ آر ایس ایس نے کوشش کی کہ واجپائی کو وزارت عظمی سے الگ کر کے انڈیا کا صدر بنا دیا جائے اور ان کی جگہ آڈوانی کو وزیر اعظم بنایا جائے اور اس سلسلے میں انکی صحت کے مسائل کو بھی اچھالا گیا لیکن بہرطور واجپائی ڈٹے رہے۔

واجپائی کا بی جے پی میں زوال کا زمانہ 2002ء میں گجرات کے بدنامِ زمانہ مسلم کش فسادات سے شروع ہوا جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ واجپائی مودی کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن آڈوانی اور آر ایس ایس ان کے راہ میں حائل ہو گئے۔ اسی سے مودی کو عروج ملنا شروع ہوا اور 2004ء کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست واجپائی کے لیے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور 2005ء میں وہ سیاست سے علیحدہ ہو گئے۔

واجپائی شاعر بھی ہیں اور انکی خطابت کا شہرہ تو ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ نہرو کے زمانے میں واجپائی نوعمر تھے لیکن پارلیمنٹ میں ان کے خطاب اتنے جاندار ہوتے تھے کہ نہرو بھی ان کو پسند کرتے تھے۔

واجپائی کی عمر اس وقت 92 سال ہے لیکن بہت بیمار ہیں، 2009ء میں اسٹروک کے بعد سے بول بھی نہیں سکتے۔ Alzheimer's کی بیماری بھی ہے اور کسی کو پہچان بھی نہیں سکتے۔ واجپائی کو بلاشبہ انڈیا کا سب سے مشہور غیر کانگریسی لیڈر کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

51-%2BIAo8YUL.jpg
 

فہیم

لائبریرین
انڈیا اور بی جے پی پرمطالعے کی اگلی لڑی، اٹل بہاری واجپائی کی سوانح عمری
Atal Bihari Vajpayee: A Man for All Seasons by Kingshuk Nag
مصنف ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر ہیں اور بی جے پی پر کتابیں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ بی جے پی کی ہسٹری، واجپائی اور مودی کی سوانح عمریاں اور دیگر کتابیں لکھ چکے ہیں۔

واجپائی انڈیا کے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے جس نے اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی اور وہ اس وجہ سے کہ سخت گیر بی جے پی میں 'سافٹ لائنر' سمجھے جاتے تھے اور چونکہ بی جے پی حکومت ایک مخلوط حکومت تھی اور بی جے پی کے اتحادی صرف واجپائی پر متفق ہوئے۔ واجپائی گو نوعمری سے ہی آر ایس ایس کے رکن تھے اور آر ایس ایس کے باسز کا مکمل اعتمار بھی رکھتے تھے لیکن رام جنم بھومی مندر تحریک میں، جس سے بھاج پا کو عروج ملا، متحرک نہیں تھے بلکہ آڈوانی فرنٹ لائن پر تھے۔ اُن کو وی پی سنگھ کی جنتا دل میں شمولیت کی دعوت بھی ملی تھی لیکن نہیں مانے اور پس منظر ہی میں رہے۔

واجپائی کا صحیح عروج نوے کی دہائی کا وسط کا زمانہ ہے جب کانگریس "ڈوب" رہی تھی اور بی جے پی کو ایک ایسے نرم مزاج چہرے کی تلاش تھی جس پر اپوزیشن راضی ہو سکے اور وہ چہرہ واجپائی کا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی آر ایس ایس کے حلقہ اثر سے نکل گئے تھے اور آر ایس ایس کی بہت سی باتیں نہیں مانیں اور انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے جیسے نرم مزاج لوگوں کو اکھٹا کیا جیسے جسونت سنگھ اور جارج فرنینڈس اور آڈوانی کو دور رکھا۔ آر ایس ایس نے کوشش کی کہ واجپائی کو وزارت عظمی سے الگ کر کے انڈیا کا صدر بنا دیا جائے اور ان کی جگہ آڈوانی کو وزیر اعظم بنایا جائے اور اس سلسلے میں انکی صحت کے مسائل کو بھی اچھالا گیا لیکن بہرطور واجپائی ڈٹے رہے۔

واجپائی کا بی جے پی میں زوال کا زمانہ 2002ء میں گجرات کے بدنامِ زمانہ مسلم کش فسادات سے شروع ہوا جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ واجپائی مودی کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن آڈوانی اور آر ایس ایس ان کے راہ میں حائل ہو گئے۔ اسی سے مودی کو عروج ملنا شروع ہوا اور 2004ء کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست واجپائی کے لیے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور 2005ء میں وہ سیاست سے علیحدہ ہو گئے۔

واجپائی کی عمر اس وقت 92 سال ہے لیکن بہت بیمار ہیں، 2009ء میں اسٹروک کے بعد سے بول بھی نہیں سکتے۔ Alzheimer's کی بیماری بھی ہے اور کسی کو پہچان بھی نہیں سکتے۔ واجپائی کو بلاشبہ انڈیا کا سب سے مشہور غیر کانگریسی لیڈر کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

51-%2BIAo8YUL.jpg
واجپائی کی ایک خصوصیت ان کا شاعر ہونا بھی ہے۔
اور آپ کے لیے تو یہ بات بہت پر لطف ہوگی :)
 

فہیم

لائبریرین
درست کہا فہیم، واجپائی عمدہ شاعر اور بے مثال خطیب بھی ہیں۔ :)
غالباً ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ہی انڈیا میں ایک سروے ہوا تھا کہ انڈیا کی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کون۔ جس میں کھلاڑی، اداکار، سیاستدان اور دیگر لوگ شامل تھے۔ تو انڈیا کی عوام نے سب سے زیادہ واجپائی کو پسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غالباً ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ہی انڈیا میں ایک سروے ہوا تھا کہ انڈیا کی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کون۔ جس میں کھلاڑی، اداکار، سیاستدان اور دیگر لوگ شامل تھے۔ تو انڈیا کی عوام نے سب سے زیادہ واجپائی کو پسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا۔
اسی کتاب میں ایک اور سروے کا بھی ذکر ہے جو واجپائی کا سیاست سے علیحدہ ہونے کے بعد یعنی 2005ء کے بعد کا ہے اس میں بھی واجپائی کافی مقبول تھے۔
 
آج کل ول ڈیورانٹ کی کتاب "انسانی تہذیب کا ارتقا" کا مطالعہ جاری ہے۔ اسے تنویر جہاں نے بڑی خوبصورتی سے ترجمہ کیا ہے۔ مارکسسٹ کے تہذیب کے ارتقا کے حوالے سے نظریات اسی کتا ب سے ماخوذ لگتے ہیں، شاید یہ کتاب بھی کہیں اور سے ماخوذ ہو۔
 
انڈیا اور بی جے پی پرمطالعے کی اگلی لڑی، اٹل بہاری واجپائی کی سوانح عمری
Atal Bihari Vajpayee: A Man for All Seasons by Kingshuk Nag
مصنف ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر ہیں اور بی جے پی پر کتابیں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ بی جے پی کی ہسٹری، واجپائی اور مودی کی سوانح عمریاں اور دیگر کتابیں لکھ چکے ہیں۔

واجپائی انڈیا کے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے جس نے اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی اور وہ اس وجہ سے کہ سخت گیر بی جے پی میں 'سافٹ لائنر' سمجھے جاتے تھے اور چونکہ بی جے پی حکومت ایک مخلوط حکومت تھی اور بی جے پی کے اتحادی صرف واجپائی پر متفق ہوئے۔ واجپائی گو نوعمری سے ہی آر ایس ایس کے رکن تھے اور آر ایس ایس کے باسز کا مکمل اعتمار بھی رکھتے تھے لیکن رام جنم بھومی مندر تحریک میں، جس سے بھاج پا کو عروج ملا، متحرک نہیں تھے بلکہ آڈوانی فرنٹ لائن پر تھے۔ اُن کو وی پی سنگھ کی جنتا دل میں شمولیت کی دعوت بھی ملی تھی لیکن نہیں مانے اور پس منظر ہی میں رہے۔

واجپائی کا صحیح عروج نوے کی دہائی کا وسط کا زمانہ ہے جب کانگریس "ڈوب" رہی تھی اور بی جے پی کو ایک ایسے نرم مزاج چہرے کی تلاش تھی جس پر اپوزیشن راضی ہو سکے اور وہ چہرہ واجپائی کا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی آر ایس ایس کے حلقہ اثر سے نکل گئے تھے اور آر ایس ایس کی بہت سی باتیں نہیں مانیں اور انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے جیسے نرم مزاج لوگوں کو اکھٹا کیا جیسے جسونت سنگھ اور جارج فرنینڈس اور آڈوانی کو دور رکھا۔ آر ایس ایس نے کوشش کی کہ واجپائی کو وزارت عظمی سے الگ کر کے انڈیا کا صدر بنا دیا جائے اور ان کی جگہ آڈوانی کو وزیر اعظم بنایا جائے اور اس سلسلے میں انکی صحت کے مسائل کو بھی اچھالا گیا لیکن بہرطور واجپائی ڈٹے رہے۔


51-%2BIAo8YUL.jpg

بہت معلوماتی
انشااللہ اس مرتبہ چھٹیوں میں پڑھوں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
موجودہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی سوانح عمری
The Namo Story: A Political Life by Kingshuk Nag
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے بعد میں کم از کم بی جے پی پر پڑھنا چھوڑ دونگا لیکن تمام سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی اور مودی انڈیا کی مرکزی حکومت کو فی الحال بہت جلد چھوڑنے والے نہیں ہیں۔

مصنف ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر ہیں اور بی جے پی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اور اس جماعت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ واچپائی اور مودی کی سوانح عمریاں بھی لکھی ہیں، دیگر کتب اس کے علاوہ ہیں۔ یہ کتاب پہلی بار 2013ء میں شائع ہوئی تھی لیکن 2014ء کے کے انتخابات کے بعد جس میں مودی وزیر اعظم بنے، اس کتاب کو تبدیلیوں اور اضافوں کے ساتھ 2014ء میں نئے ایڈیشن کے طور پر چھاپا گیا۔

مودی بچپن ہی سے راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ RSS کا رکن تھا۔ گھر سے بھاگ کر جب احمد آباد میں اپنا ٹی اسٹال شروع کیا تو وہیں پھر آر ایس ایس کے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور مودی اپنا سب کچھ تیاگ کر آر ایس ایس کے احمد آباد ہیڈ کوارٹر اٹھ آیا اور اپنا سارا وقت آر ایس ایس کے لیے وقف کر دیا۔ یہ پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی کا اخیر تھا۔ آر ایس ایس کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ وہ خود سیاست میں براہِ راست حصہ نہیں لیتے بلکہ ایک سَنگھ پریوار بنا رکھا ہے جس میں بیس تیس سیاسی اور سماجی اور دیگر جماعتیں ہیں بشمول بی جے پی اور وی ایچ پی۔ آر ایس ایس ان سیاسی جماعتوں میں اپنے رکن بھیج کر ان کو ایک طرح سے کنڑول کرتی ہے اور ان جماعتوں پر چیک رکھتی ہے۔

ایل کے آڈوانی کو بھی پچاس کی دہائی میں آر ایس ایس نے جَن سَنگھ (بی جے پی) میں اسی لیے بھیجا تھا۔ اسی طرح مودی کو 1985ء میں آر ایس ایس نے بی جے پی کا رکن بنا دیا اور مودی بی جے پی میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ 1990ء میں آڈوانی کی رتھ یاترا اور 1992ء میں مرلی منوہر جوشی کی ایکتا یاترا کے گجرات میں ناظم مودی تھے۔ اور انہی یاتراؤں کو بہترین طریقے سے منظم کرنے پر مودی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی نظروں میں آ گئے اور ان کی شناخت ایک بہترین ناظم کے طور پر بن گئی۔ 1998ء تک جب بی جے پی کی انڈیا میں مرکزی سرکار بنی، مودی گجرات میں اپنے آپ کو ایک لیڈر کے طور پر قائم کر چکے تھے۔ 2001ء میں جب گجرات میں بی جے پی کی قیادت کو تبدیل کرنے کا وقت آیا تو مودی کو راتوں رات وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا جب کہ وہ اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے بلکہ تب تک کبھی بھی اسمبلی کے رکن نہیں رہے تھے۔

مودی کا عروج، 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات سے شروع ہوتا ہے۔ ان فسادات کے بعد وزیر اعظم واجپائی مودی کو فارغ کرنا چاہتے تھے لیکن آر ایس ایس اور مودی کے "گاڈ فادر" آڈوانی نے واجپائی پر شدید پریشر ڈال کو مودی کو بچا لیا اور مودی کی ڈھال بن گئے۔ اس کے بعد مودی تین بار گجرات کے ریاستی الیکشنز جیت کر وزیر اعلیٰ بنے۔ مودی کا گجرات میں اصل کارنامہ ترقیاتی کاموں کا تھا۔ انڈیا میں نوے کی دہائی کے شروع تک، "پرمٹ، لائسنس، کوٹہ" سسٹم رائج تھا اور معمولی مصنوعات کی تیاری پر بھی مرکزی حکومت کی گرفت تھی۔ نرسیما راؤ اور ان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 1996-1991ء کی کانگریسی حکومت میں اس سسٹم کو تبدیل کیا اور اس صدی کی پہلی دہائی میں مودی نے اس پالیسی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور گجرات میں پر کشش مراعات دے کر ملک کے بہت سے اہم صنعتی اداروں کو گجرات میں سرمایہ کاری پر راضی کیا بلکہ بیرونی ممالک سے بھی براہِ راست سرمایہ کاری حاصل کی اور یوں گجرات میں ترقیاتی کاموں کو فروغ ملا۔

بی جے پی (اور آر ایس ایس) کی اعلیٰ قیادت نے 2014ء کے مرکزی الیکشنز مودی کی زیر قیادت لڑنے کا فیصلہ کیا اور مودی نے ان انتخابات کو ایک طرح سے صدارتی انتخابات کے طور پر لڑا، جیسا کہ 2012ء کے ریاستی الیکشنز کو لڑا تھا، یعنی صرف مودی کو ووٹ دو، امیدوار مت دیکھ اور یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی اور بی جے پی پہلی بار انڈیا میں اس قابل ہوئی کہ بغیر کسی مدد کے اپنی حکومت بنا سکے۔ یوپی اور دیگر ریاستوں کے حالیہ انتخابات بھی مودی نے اسی حکمت عملی کے تحت لڑے اور یو پی میں بی جے پی کو ایسی کامیابی ملی کہ ندیدہ نشنیدہ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 2019ء کے مرکزی الیکشنز میں بھی مودی کی کامیابی کی امید کی جا رہی ہے اور یہ بھی کہ مودی آئندہ کئی برسوں تک بھارتی سیاست میں چھائے رہیں گے۔

مودی کی کہانی ایک "سیلف میڈ" انسان کی کہانی ہے، ایک تیل فروش اور چائے والا کا لڑکا جو صبح اسکول جانے سے پہلے اپنے باپ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹی سٹال سے مسافروں کو چائے پلایا کرتا تھا، جو نو عمری میں اپنے گھر سے اس وجہ سے بھاگ گیا کہ اس کے والدین نے اسکی بچپن کی شادی کر دی تھی جو گھر سے بھاگ کر احمد آباد، گجرات میں اپنے ایک رشتہ دار کے ٹی سٹال پر ملازم ہو گیا اور پھر وہیں اپنا ایک ٹی سٹال کھول لیا۔ اس شخص کی کہانی جو گجرات جیسی اہم ریاست کا وزیر اعلیٰ بغیر اسمبلی کا رکن بنے بن گیا اور پھر تیرہ سال تک اس ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک رہا اور اب انڈیا کا سب سے طاقتور انسان ہے۔
51o2OpkHmAL.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
سابقہ انڈین وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے متعلق کتاب
The Accidental Prime Minister: The Making and Unmaking of Manmohan Singh by Sanjaya Baru
یہ کتاب ڈاکٹر سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر نے لکھی ہے جو 2004ء سے 2008ء تک اس عہدے پر تھے اور یہ کتاب 2014ء میں اس وقت شائع ہوئی تھی جب ڈاکٹر سنگھ ابھی وزیرِ اعظم ہی تھے اور اس میں اپنی یادداشتوں کا ذکر مصنف نے کیا ہے۔ اس کتاب کے چھپنے کے بعد وزیرِ اعظم کے آفس سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کا سیاسی کیرئیر اور وزیرِ اعظم کا عہدہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔

-ڈاکٹر سنگھ انڈیا کے پہلے غیر ہندو اور اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم تھے۔
-ڈاکٹر سنگھ، نہرو-گاندھی خاندان کے دو ارکان (نہرو اور اندرا) کے بعد انڈیا کے واحد وزیر اعظم ہیں جو اتنے لمبے عرصے (دس سال) تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے۔
-نہرو کے بعد ڈاکٹر سنگھ انڈیا کے واحد وزیر اعظم ہیں جو پانچ سال مدت پوری کرنے کے بعد دوبارہ وزیر اعظم بنے۔ اندرا گاندھی بھی 1971ء میں دوسری بار مسلسل وزیر اعظم بنی تھیں لیکن یہ الیکشنز پانچ سال مدت پوری ہونے سے پہلے ہوئے تھے۔
-ڈاکٹر سنگھ کے دس سالہ دور میں انڈیا کی ایکسپورٹس میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
-ڈاکٹر سنگھ ہی نے 1991ء بطور وزیر خزانہ انڈیا میں "کوٹہ-پرمٹ-لائسنس" راج کا خاتمہ کیا تھا اور پھر اپنے دورِ حکومت میں ان پالسیوں پر شد و مد سے عمل کیا۔
-اور ڈاکٹر من موہن سنگھ شاید انڈیا کے واحد ایسے وزیرِ اعظم ہیں جن کا حد سے زیادہ مذاق اڑایا گیا۔

1991ء میں ڈکٹر سنگھ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئر مین تھے جب ایک دن ان کو نرسیما راؤ کے دفتر سے فون موصول ہوا کہ ان کو انڈیا کا وزیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے اور یہیں سے ان کے سیاسی کیرئیر کا آغاز ہوا، لیکن 2004ء میں ان کی وزارتِ عظمی کے پیچھے اصل ہاتھ سونیا گاندھی کا غیر ملکی ہونا تھا۔ جتنا شور انڈیا میں 1997ء سے 2004ء تک سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کا مچا اتنا شور شاید ہی کسی اور دوسرے موضوع پر مچا ہو اور یہی وجہ تھا کہ 2004ء میں الیکشنز جیتنے کے بعد سونیا گاندھی نے خود وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا اور اس عہدے کا قرعہ فعال ڈاکٹر من موہن سنگھ کے نام نکلا جو اس عرصے میں سونیا گاندھی کے دستِ راست کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔

لیکن یہی فیصلہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کا دس سال تک تعاقب کرتا رہا چونکہ اپوزیش تو دُور خود کانگریس اور کانگریس کے حکومتی اتحادی سونیا گاندھی ہی کو طاقت کا اصل سرچشمہ اور محور سمجھتے تھے اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کو فقط نمائشی وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا، ظاہر ہے ایسے حالات میں ایک وزیرِ اعظم کیسے بھی کماحقہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر سنگھ کا دور انڈیا میں کرپشن کے ریکارڈز کے لیے بھی بدنام ہے خاص طور پر ان کا دوسرا دور 2009ء سے 2014ء تک اور یہی وجہ تھی کہ 10 سال حکومت کرنے کے بعد 2014ء انتخابات میں کانگریس کا انڈیا میں صفایا ہی ہو گیا۔

51pZioa%2BxNL.jpg
 

عاطف ملک

محفلین

جاسمن

لائبریرین
میرے بیٹے کی فرمائش ہے کچھ کتابوں کے لئے جن کے نام اپس نے اپنی آٹھویں کی اردو کی کتاب میں کتابیات سے لئے ہیں۔ میں نے اب تک بڑی کوشش کی ہے کہ تقریباََ ہر کتاب اُسے پڑھنے کے لئے دینے سے پہلے خود پڑھوں لیکن اب عملی طور پہ یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ کہ اب تو جو کوئی کتاب خود اپبے پڑھنے کے لئے لا چکی ہوں ،اپنہیں پڑھنے کا وقت نہیں۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں،خالد حسینی کا ناول۔۔۔۔اور بھی کئی شروع کے چند صفحات پڑھ کے رکھے ہیں۔
محفلین سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل فہرست میں دی گئی کتابیں کسی نے پڑھی ہوں تواِن کتابوں پہ اپنی رائے دے۔۔۔تاکہ میں اِس رائے کی روشنی میں کتابیں منگوانے یا نہ منگوانے کا فیصلہ کر سکوں۔
میں انتہائی شکر گذار رہوں گی۔
فہرست
1:اُلٹا درخت۔۔۔۔۔۔کرشن چندر
2:خاکم بدہن۔۔۔۔۔۔مشتاق احمد یوسفی(پڑھی ہوئی ہے لیکن اب عرصہ ہوا۔ یاد نہیں۔ ویسے یوسفی کی تحاریر بہت اعلیٰ پائے کی ہیں تاہم بیٹے کے لئے مجھے پھر بھی رائے چاہیے)
3:دنیائے تبسم۔۔۔۔شوکت تھانوی
4:باغ و بہار۔۔۔۔میر امن دہلوی
5:خمارِ گندم۔۔۔ابنِ انشاء(عرسہ پہلے پڑھی تھی،اب یاد نہیں)
6:آزادی کے چراغ۔۔۔۔مشکور حسین یاد
7:زندگی،نقاب،چہرے۔۔۔۔۔غلام عباس
(کچھ کتابیں تو اس فہرست سے میں نے خود کاٹ دی ہیں جیسا کہ آوازِ دوست وغیرہ)
انگریزی کتابوں کی فہرست
1:(Danny the champion of the world(Roald Dahl
2:(Charlie and the great glass elevator(Roald Dahl
3:(The BFG(Roald Dahl
4:(The Witches(roald dahl
5:(The Twits(Roald dahl
6:(Fantastic MR.Fox(Roald dahl
7:(james and giant peach(Roald dahl
8:(Georges Marvellous Medicine(Roald Dahl
9:(The Getaway(Jeff Kinney
10:(The call of the Wind(Jack Condon
11:(Emma(Jane Austen
12:(Jane Eyre(Charlotte Bronte
13:(Little Women(Louisa M. Alcott
14:(The Lost Umbrella of Kim Chu (Eleanor Estes
15:(The Secret Garden(Frances Hodgson Burnett
16:(The Dagger with Wings(G.K.Chesterton
17:(The Flying Heads(david Flouds
18:(Gulliver's Travels - A Voyage to Lilliput(Jonathan Swift
19:(Life without Katy(O.Henry
20:(The Mill on the Floss(George Eliot
21:(The Stone Junk(J.H.Howe
22:(The Talking Tree(Through The Looking Glass(Lewis carroll
 
Top