آپ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے؟

جاسم محمد

محفلین
آپ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے؟
05/04/2019 ڈاکٹر طاہرہ کاظمی



حال ہی میں ایک وڈیو کلپ دیکھنے کوملا، جس میں ایک مسلمان نوجوان شدید کرائسس کی حالت میں بھی جیسنڈا کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہا ہے جس کا اختتام اس آرزو پہ ہے کہ وہ جیسنڈا کو مسلمان ہونا دیکھنا چاہتا ہے۔

اس سے اگلے دن ہم ایک محفل میں تھے جہاں جیسنڈا کی انسان دوستی کی تعریف ہو رہی تھی، ہماری ایک دوست ڈاکٹر بولیں، کیا ہی اچھا ہو کہ جیسنڈا مسلمان ہو جائے، میرے کیوں کے جواب میں مجھے گھورا اور بولیں وہ اتنی اچھی جو ہے۔ ہم بولے تو کیا اچھائی اور انسانیت کا درد صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اس حساب سے تو تمام پاکستان بلکہ تمام مسلمان دنیا نیوزی لینڈ سے ایک درجہ اوپر ہونی چاہیے۔ جبکہ شام کے مسلمانوں کی داستان ہمارے سامنے ہے جن کے لیے اپنا دامن وا کرنے والا صرف مغرب تھا۔

ہم نے ہوسٹل میں پانچ سال گزارے۔ ہم خیال اور ہم مزاج دوستوں کا حلقہ بنا اور یہ دوستی آج بھی ہم سب کے لیے سرمایہ حیات ہے۔ ہم بارہ سہلیوں کا گروپ، مختلف شہروں سے تعلق رکھتا تھا۔ بارہ میں سے گیارہ مسلمان اور ایک عیسائی تھی۔ پڑھائی بہت سخت تھی، اور شب وروز کی محنت۔ ہم اکٹھے رہے، اکٹھے ہنسے، اکٹھے روئے۔ دن رات کا ساتھ۔

ہماری عیسائی سہیلی، بہت پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی، ہر اتوار کو چرچ جاتی، رات کو بائبل پڑھتی۔ اس کی کوئی اور عیسائی سہیلی نہ تھی۔ وہ بچپن سے ہی مسلمان لڑکیوں کے ساتھ پلی بڑھی تھی اسلامیات بھی ساتھ ہی پڑھتی تھی اور تمام سورتیں بھی یاد کرتی تھی۔ ہمارے ساتھ میڈیکل کالج میں وہ ہمارے فنکشنز میں جاتی۔ میلاد، عید، محرم، سب ہی میں حصہ لیتی۔ مذہب ہمارے درمیان کبھی نہ آیا۔ اس کی شادی چرچ میں ہوئی، ہم سب صف اول کے مہمان تھے۔

کچھ برس بعد کینیڈا چلی گئی۔ اور وہیں سیٹل ہو گئی۔

ہم سب پہلے ای میل پہ جڑے رہے اور fb what ’s app کے بعد یہ اور آسان ہو گیا۔ ہماری عیسائی دوست سب سے زیادہ ایکٹو اور چلبلی۔ پچھلے ایک دو سال سے جانے کیا ہوا کہ اس نے ہر مذہبی پوسٹ کے بعد احتجاج کرنا شروع کیا کہ دوستوں کے فورم پہ اتنی زیادہ مذہبی تبلیغ نہ کی جائے، یار لوگ نہیں مانے سو اس نے گروپ ہی چھوڑ دیا۔

ہم علیحدہ سے رابطے میں رہے۔ اور کل جب میں نے اس کی کال و صول کی، تو زندگی میں پہلی دفعہ ہم نے مذہب اور اقلیتوں کے موضوع پہ بات کی۔

وہ پاکستان میں گزاری ہوئی زندگی کے متعلق بتانا چاہتی تھی۔ وہ پاکستانی تھی اور اب بھی پاکستان سے محبت کرتی ہے۔

جب وہ چھوٹی تھی تو سب دوست مسلمان تھے کیونکہ وہ کسی مخصوص مسیحی آبادی میں نہیں رہتی تھی۔ دوستوں کے گھر آنا جانا تھا، زیادہ تر کی فیملی کو اس کے مذہب سے کوئی مسئلہ نہ تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی۔ معاشرہ شدتِ پسند ہونے لگا اور مذہبی رواداری گھٹنے لگی۔ اس نے یاد کروایا کہ کبھی کبھار ہم جماعت لڑکیاں اس سے کہہ دیتیں کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی تو وہ ہنس کے ٹال دیتی۔

کینڈا جا کے بھی حلقہ احباب پاکستانی ہی رہا کیوں کہ وہ عیسائی تو تھی پر انگریز نہیں، ایک ایشیائی عیسائی جس کی جڑیں پاکستان میں تھیں

”لیکن اب تو حد ہو گئی“

”کیوں! ایسا کیا ہوا“

”میں جس محفلِ میں بھی جاتی ہوں، تھوڑی ہی دیر میں پاس بیٹھنے والی مجھے کہہ دیتیں ہیں، آپ اتنی اچھی ہیں تو اسلام کیوں قبول نہیں کر لیتیں۔ اور کچھ محفلوں میں تو یوں ہوتا ہے کہ میرے خاموش رہنے پہ کوئی بول پڑتا ہے کہ ان کو ستر فیصد مسلمان تو ہم کر چکے ہیں بس تھوڑی کسر باقی ہے۔ اوریہ سب میرے ساتھ کے انتہائی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔

کیوں آخر کیوں؟ اگر مجھے مسلمان ہونا ہوگا تو میں خود یہ کام کر سکتی ہوں۔ میں پاکستانی ہوں، تم لوگوں میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے اسلام کی بہت سمجھ ہے۔ تمہارے سب فرقوں کے متعلق بھی جانتی ہوں۔ پھر مذہب تبدیل کرنا یا نہ کرنا، میرا درد سر ہے۔ میری ذات کا حصہ ہے۔ میری ذات پر ایسی چڑھائی، آخر کیوں؟

کیسا لگے تم لوگوں کو، اگر تم لوگوں کو عیسائی ہونے کا کہا جائے اور بار بار کہا جائے۔ مذہبی اقلیت کی زندگی کس قدر دشوار ہوتی ہے، یہ تم لوگوں کو تب اندازہ ہو اگر عیسائی معاشرہ تم لوگوں کو برداشت نہ کرے اور تمہارے پیچھے تبدیلی مذہب کے لیے لٹھ لے کے پڑ جائے ”

وہ رندھی آواز میں بول رہی تھی اور میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

امام جعفر صادق سے کسی نے سوال کیا کہ تبلیغ کیسے کرنی چاہیے، انہوں نے جواب دیا منہ بند کر کے۔ یعنی کوئی بات یا کوئی نصیحت کیے بغیر آپ کا عمل و کردار اس پائے کا ہو کہ سامنے والا آپ کی راہ پہ چلنے کا متمنی بن جائے۔

معاشرے میں بڑی تبدیلی پچھلے کچھ برسوں میں آئی جب مذہب کا تڑکا ہر چیز کو لگا اور دریافت ہوا کہ ہمارا درمیانی راہ پہ چلنا کافی نہیں ہے سو ہر پل اور ہر لحظھ ثواب کمانے کے آسان رستے دریافت ہوئے۔ سوشل میڈیا نے اس سب میں بڑا کردار اداکیا۔ سب مسلمانوں نے تبلیغ کا راستہ پکڑا۔ اپنے گریبان میں جھانک کے اپنی اصلاح کی بجائے مختلف مولویوں کے ٹوٹے سب کو فارورڈ ہونے لگے۔

اور پھر جب شوبز اور کھیل کی دنیا کے چمکتے دمکتے ستارے، دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد، شیطانی راہ چھوڑ کے، سیدھی راہ چلے اور کچھ زیادہ انتہا سے چلے۔ تبلیغی جماعتوں کی مفت پبلیسٹی ہوئی، تو گھر بیٹھے لوگوں نے بھی مفت کی تبلیغی راہ پر قدم رکھے۔ ہمیں ویسے ہی آسان ثواب کمانے کا بہت شوق ہے۔ کسی کی ذاتیات میں ہم کتنا گھس سکتے ہیں یہ ہمیں بحیثیت قوم نہیں آتا۔

ہمارے ایک سکاٹش ساتھی تھے، پی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ میں۔ کافی چیزوں پہ بات ہوتی تھی۔ ایک دن پوچھنے لگے تم ایشیائی لوگ ہر کسی سے اس کے ذاتی سوال کیوں پوچھتے ہو، آپ کا مذہب کیا ہے، پریکٹس کرتے ہیں کہ نہیں، شراب کتنی پیتے ہیں، سور کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ان کے پاس ایک لمبی لسٹ تھی اور بہت مثالیں۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے۔

جنت اور ثواب کے لالچ میں اقلیتوں کی جان عذاب میں ڈالنے کے عذاب کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ ایک دوڑ ہے زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کی، لیکن اپنی ذات پہ کشٹ کاٹے بنا۔ یہ سوچے بنا کہ اپنا مذہب ایک غیر مسلمان کو بھی ایسے ہی عزیز ہے جیسے کہ ایک مسلمان کو۔

آج کے انفارمیشن کے دور میں جب ہرقسم کی معلومات ایک انگلی کی جنبش سے حاصل ہیں۔ جاہل سے جاہل شخص بھی پورنوگرافی خود ڈھونڈ لیتا ہے، یہ قیاس کرنا کہ تبدیلی مذہب کے لیے اسے ہماری مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے، اور ہمارا کہنا اور بار بار کہنا رنگ لائے گا، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

وہ تمام اعلی اخلاقیات جس کا ایک مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی انسان کو دوسرے انسان سے ایذا نہیں پہنچنی چاہیے، کے متعلق کچھ یاد نہیں۔

خیال رہے، انسان اور انسانیت کا باربار ذکر ہے جس میں تمام مذاہب بلکہ مذہب نہ رکھنے والے بھی آتے ہیں۔ یہ تزکیہ نفس کا راستہ ہے اور پر پیچ بھی، سالوں اس راہ کا مسافر بننا پڑتا ہے اور پھر سلوک کی منزلیں حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن ہم تو بحثیت قوم شارٹ کٹ کے عادی ہیں، اب کون اپنا من جلائے پوری عمر۔ ہم تو بنا تحقیق و دلائل محلے کے مولوی کے ہر ارشاد پہ ایمان لائے بیٹھے ہیں۔ سو چلیے مسلمان کریں ان کافروں کو، میڈل لگائیں اپنے سینے پہ اور اعلان کرتے پھریے کہ ہم نے کتنوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔

اور

پھر وہی سوال جو جینے نہیں دیتا کہ پیدا کرنے والا تو ایک ہی رب ہے، کیوں اتار دیا مختلف لو گوں کو مختلف مذاہب کے ساتھ؟ پروردگار نے یہ بساط دنیا بچھائی کیوں؟ کچھہ مشکل نہ تھا ایک پروگریمڈ مخلوق پیدا کرنا، جہاں سب ایک ہی رستے کے مسافر ہوتے بنا کسی اختلاف اور سوال وجواب کے۔

اور اگر رستہ خود ڈھونڈنا ہے تحقیق کے بعد، آزادی رائے کے ساتھ، تو آپ نے کتنا غورو فکر کیا اس سلسلے میں اب تک؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سید جند وڈا شاہ ؒ ایک دفعہ نور پور تھل تشریف فرما ہوئے تو ہزاروں کا مجمع ہوگیا۔ ایک بدبخت نے کہا آج کل کے پیروں نے پکھنڈ بنایا ہوا ہے ۔ حقیقت کوئی نہیں۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور خاموش ہوگئے۔ اس نے پھر دہرایا۔ آپ نے اسے ایسا کہنے سے منع کیا۔ جب وہ باز نہ آیا اور بار بار اس بات کو زور زور سے کہنے لگا تو آپ نے فرمایا "میاں سارے پیر مکھیاں نہیں ہوتے" پھر اس کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اس کے قلب پر نظر کی تو اس کا قلب سینے سے باہر آگیا اور وہ اللہ ھو ، اللہ ھو کہتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔
اس واقعہ کو دیکھ کر سینکڑوں راجپوت اس وقت ہندو سکھ تھے ، مسلمان ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔
بحوالہ: فوز المقال فی خلفائے پیر سیال صفحہ 204
 
Top