آپ اپنا ہی احتساب ہوں میں

غزل ... !

میں تو خوشبو ہوں بے حساب ہوں میں
روشنی ہوں میں آب و تاب ہوں میں

اسکی آنکھوں میں اک سوال مگر
مجھ کو تسلیم لا جواب ہوں میں


طاق پر رکھ کہ بھول جائیں جسے
وہ خریدی ہوئی کتاب ہوں میں


جهوٹ کہتا نہیں ہے آئینہ
سچ ہے گزرا ہوا شباب ہوں میں

اپنی تطہیر کر رہا ہے جو
آپ اپنا ہی احتساب ہوں میں

مجھ کو سود زیاں نہیں معلوم
میں کہ پیری نہیں شباب ہوں میں

میکدے کی ہے آبرو مجھ سے
مستئی شوق ہوں شراب ہوں میں

میں خیالات کا جمود نہیں
مضطرب ہوں میں اضطراب ہوں میں

اس کتاب حیات کے رخ پر
ایک بے نام انتساب ہوں میں

میری جاگیر بس محبت ہے
اپنی جاگیر کا نواب ہوں میں

گر مروت نہیں مرے دل میں
پھر میں انساں نہیں دواب ہوں میں

میں تو خود پر ہی آشکار نہیں
آپ اپنے لیے حجاب ہوں میں

غیر کے ساتھ دیکھ کر اسکو
کوئلے پر جلا کباب ہوں میں

حسیب احمد حسیب​
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بہت خوب
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
اسکی آنکھوں میں اک سوال مگر
مجھ کو تسلیم لا جواب ہوں میں

جهوٹ کہتا نہیں ہے آئینہ
سچ ہے گزرا ہوا شباب ہوں میں

میری جاگیر بس محبت ہے
اپنی جاگیر کا نواب ہوں میں
 
Top