آپریشن فیئر پلے۔ ایک ایسا قصہ جو کبھی بھی پرانا نہیں تھا

آپریشن فیئر پلے۔

یہ خفیہ نام تھا پانچ جولائی انیس صد ستتر کو ہونے والے اس آپریشن کا جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے پاکستان پر مارشل لاء کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔اپنی تنفیذ میں یہ مارشل لاء خونی نہ تھا لیکن یہ نتیجہ تھا اس سے پہلے معاشرے میں بائیں بازو کی طاقتوں (پاکستان پیپلز پارٹی) اور دائیں بازو کی طاقتوں(قومی اتحاد) کے درمیان ہونے والی ایک طویل سیاسی رسہ کشی کا جو معاشرے کو بری طرح سے متاثر کر رہی تھی۔
قومی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا ۔ جبکہ اپنے مارشل لاء لگانے کے بعد کے پہلے خطاب میں ضیاء الحق نے نوے دن میں شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ بھی کیا جو وفا ہوتے ہوتے ضیاء الحق کی ہوائی جہاز کے حادثے میں فوتیدگی تک کا وقت لے گیا جو تقریبا گیارہ برس پر حاوی تھا- اس دوران انیس صد پچاسی میں ایک غیر جماعتی الیکشن کرائے گئے اور انہیں ایک جماعت کا لباس بھی پہنایا گیا لیکن عملی طور پر ضیاء الحق ہی ملک میں حکومت کرتے رہے-
یہ فوجی بغاوت ایسا واقعہ تھا جو روس امریکہ سرد جنگ کے عروج میں پیش آیا ۔ یہ بغاوت انیس صد اکہتر کے چھے برس بعد ہوئی جس میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ میں پاکستان اپنا ایک بازو مشرقی پاکستان کھو بیٹھا جو آج بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔
اس بغاوت کے بعد پاکستان نے ایک طرف اسلامی نظام کے نام پر بہت سی تبدیلیاں دیکھیں تو دوسری جانب افغان مجاہدین کی مدد اور تربیت پر ایک بہت بڑا منصوبہ بنا کر عمل میں لایا گیا جس کی فنڈنگ امریکہ اور سعودی عرب کر رہے تھے اور مقامی سطح پر پاکستان کی مشینری نے اس کے لیئے بنیادی سہولیات ۔ تربیت گاہیں۔ اسلحہ کی تقسیم کا نظام ۔ اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام قائم کیا گیا۔ اس سب کے کیا اثرات ہوئے اور کہاں تک یہ عمل درست یا غلط تھا ایک الگ بحث ہے فی الوقت ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں جو ہے آپریشن فیئر پلے-

پس منظر:-


انیس صد ستر میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں طاقت کی رسہ کشی اور مشرقی پاکستان میں ہونے والی ایک ایسی جنگ کے بعد جس میں آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ بڑی تعداد میں جنگی قیدی دشمن کی قید میں تھے۔ عوامی سطح پر لوگ بری طرح سے دکھی اور زخم خوردہ تھے۔ ملک میں زمام اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ تھمائی گئی جس کا نعرہ سوشلزم تھا۔
کچھ تاریخ دانوں اور لکھاریوں کی نظر میں پاکستان کے طاقت کے محور میں موجود کچھ طاقتیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو قبول نہ کر سکیں۔ انیس صد اکہتر، انیس صد بہتر، انیس صد چوہتر میں ایک سے زیادہ مرتبہ انٹیلی جنس اداروں نے فوج میں موجود کچھ عناصر کی جانب سے بغاوت کی کوششوں کو ناکام بنایا ان کیسز کی سماعت فوج کے اندرونی نظام انصاف کے تحت ہوئی اور کچھ سزائیں بھی سنائی گئیں-
انیس صد چھہتر میں سات سینیئر فوجی جنرلوں سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا تاکہ جنرل ضیاء الحق کو فور سٹار جنرل بنایا جا سکے جو آنے والے وقت میں چیف آف آرمی سٹاف بنے اور جنرل محمد شریف جنہیں چیئرمین جوائینٹ چیفس بنایا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی دور ہے جب بھٹو کو تاریخ پاکستان میں افواج پاکستان کا پہلا اور اکلوتا (نہ ان سے پہلے کوئی نہ ان کے بعد کوئی) کرنل کمانڈنٹ بنایا گیا ۔

انیس صد ستتر کے عام انتخابات اور سیاسی بحران:-

انیس صد چھہتر میں نو مذہبی اور ہم خیال پارٹی اتحاد تشکیل دیا گیا جسے پاکستان قومی اتحاد کا نام دیا گیا، جنوری انیس صد ستتر میں وزیر اعظم بھٹو نے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔ قومی اتحاد مذہبی اور اسلامی نعروں کے ساتھ متحد تھی، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی معاشرتی مساوات اور زرعئی اور صنعتی انقلاب کے نعروں سے میدان میں تھی۔ قومی اتحاد کے جلسوں میں بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کی شمولیت کے باوجود جب الیکشن ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی کو دوسو میں سے ایک سو پچپن سیٹیں ملیں جبکہ قومی اتحاد کو صرف چھتیس سیٹیں مل سکیں ۔ نتائج نے سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا کیوں کہ بھٹو جنکی جیت کہیں نظر نہیں آ رہی تھی وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے دعوے پر تھے۔ قومی اتحاد کی قیادت ان نتائج کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا-
قومی اتحاد نے فوری طور پر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کردیا اور بھٹو کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے اور ان پر قابو پانے کی کوشش میں سیکیورٹی اداروں (پولیس۔ایف ایس ایف ۔ رینجرز اور فوج ) کے ہاتھوں کم و بیش دوسو افراد جان سے گئے۔ اس دوران سول نافرمانی، مظاہرے، پولیس پر حملے جاری رہے۔ قومی اتحاد نے مساجد کو اپنا پیغام پہنچانے کے لیئے استعمال کیا اور عوام میں یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ نظام مصطفےٰ کے لیئے کام کر رہے ہیں۔
جنرل ضیاء نے اس موقعے پر بھٹو کے حمایتیوں کو سنبھالا اور پاک فوج میں موجود ایک بہت بڑے نام جنرل تجمل حسین ملک جو پینسٹھ اور اکہتر کی جنگ میں اپنی بے مثال شجاعت اور قیادت کی وجہ سے بہت سے حلقوں میں ہیرو کا مقام رکھتے تھے کو کو فوج میں مقدمے کا نشانہ بنایا ایسا کرنے کا مقصد صرف بھٹو کو اپنی وفاداری جتلانا تھا- اس کے نتیجے میں فوج میں ان کی حمایت کم ہو گئی اور یہاں تک سمجھا جاتا ہے کہ ضیاء کی موت میں بھی ایسے عناصر کا ہاتھ ہونا بعید از قیاس نہیں ہے جو جنرل تجمل والے واقعے پر ضیاء سے ناراض تھے-
جب بھٹو نے مظاہرین کو قابو کرنے کے لیئے ایف ایس ایف (بھٹو حکومت کی تیار کردہ فورس) کو استعمال کیا اور قومی اتحاد کے لیڈرز کو جیل میں ڈال دیا تو ایسے میں ان کی طرف سے ایک خط فوج کے نام خفیہ طور پر بھیجا گیا جس کے مخاطب چیف آف سٹاف اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین تھے- اس میں ان کو مداخلت کے لیئے کہا گیا اس طرح مارشل لاء لگانے کا راستہ ہموار ہوا- انیس صد ستتر میں بھٹو کو یہ خبر پہنچائی گئی کہ مارشل لاء لگنا لازم ہو چکا ہے اور اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی طرح قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کو جلد از جلد کسی معاہدے پر پہنچایا جائے۔ مذاکرات جاری تھے اور بھٹو نے قومی اتحاد کی تقریبا تمام مانگیں تسلیم کر لیں لیکن معاہدے سے پہلے ایک بین الاقوامی دورے پر نکل گئے-مشرق وسطی ٰ کے اس طویل دورے کو قومی اتحاد نے معاملے کی نزاکت کم کرنے اور تاخیری حربے کے طور پر دیکھا اور پرنٹ میڈیا میں ایسا تاثر دیا کہ جیسے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔ جب یہ خط جو قومی اتحاد کی طرف سے افواج پاکستان کے نام لکھا گیا تو ایک ہنگامہ خیز اجلاس بلایا گیا جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ فوج کو ایکشن لینا ہی پڑے گا۔ جب بھٹو ملک واپس پہنچے تو اس کے باوجود کہ معاہدہ دستخط ہونے والا تھا فوج نے مارشل لاء لگا دیا-

فوج کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی بھٹو کو ان کے وزراء سمیت حراست میں لے لیا گیا اور مارشل لاء کے نفاذ کے اعلان پر نوے دن میں شفاف انتخابات کا وعدہ کیا گیا۔ بظاہر بغاوت کا سبب بھٹو کا قومی اتحاد کے ساتھ کسی معاہدے پر نہ پہنچنا تھا ۔ تمام اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں ، آئین معطل کر دیا گیا اور مارشل لاء لگا دیا گیا۔ بھٹو پر سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کا الزام لگا اور مقدمات بنا دیئے گئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس انوار الحق نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا -
 
Top