فارسی شاعری آورد جامِ زہر و دوا را بہانہ ساخت - امیر مینائی (با ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
آورد جامِ زهر و دوا را بهانه ساخت
افسونِ مرگ خواند و دعا را بهانه ساخت

خود رفت از کنارِ من و وقتِ شکوه‌ها
عیار، بی‌قراریِ ما را بهانه ساخت

از رویِ غمزه کرد به سویم نگاه و کشت
وین غمزهٔ دگر که قضا را بهانه ساخت

یکتایی‌اش نخواست که بیند نظیرِ خویش
آیینه را شکست و حیا را بهانه ساخت

زاهد به جلوهٔ صنمی مست بود امیر
نظّارهٔ جمالِ خدا را بهانه ساخت

(امیر مینایی)


ترجمہ:
وہ جامِ زہر لایا، لیکن اُس نے دوا کا بہانہ بنایا؛ اُس نے مرگ کا افسوں پڑھا لیکن اُس نے دعا کا بہانہ بنایا۔
وہ خود میرے پہلو سے گیا تھا لیکن شکایتوں کے وقت اُس عیار نے ہماری بے قراری کا بہانہ بنایا۔
اُس نے از روئے غمزہ میری جانب نگاہ کی اور (مجھے) مار ڈالا۔۔۔ اور اُس پر یہ غمزۂ مستزاد کہ اُس نے قضا کا بہانہ بنایا۔
اُس کی یکتائی نے نہ چاہا کہ وہ اپنی نظیر دیکھے؛ اُس نے آئینے کو توڑ دیا اور حیا کا بہانہ بنایا۔
اے امیر، زاہد کسی صنم کے جلوے میں مست تھا لیکن اُس نے جمالِ خدا کے نظارے کا بہانہ بنایا۔

غزل کا ماخذ
 
Top