آواز اٹھائیے کہ

الف نظامی

لائبریرین
آواز تو اٹھائیے کہ ایک قانون بننا چاہیے۔
جس نے اس ملک پر حکومت کرنی ہے اس کا علاج بھی یہیں ہو گا اور اس کے بچوں کی تعلیم بھی یہیں ہو گی۔ جو بھی وفاقی کابینہ یا صوبائی کابینہ کا رکن رہے گا یہیں جیے گا یہیں علاج کرائے گا اور اس کے بچے بھی یہیں پڑھیں گے۔
جسے یہ قبول ہے وہ سیاست کرے۔ جسے قبول نہیں وہ لوہا بیچے یا کرکٹ کمنٹری کرے اور مال کمائے۔ پھر وہ لندن جائے یا بھاڑ میں جائے ہماری بلا سے
یہ قانون بنا کر دیکھیے آپ کے ہسپتال بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور تعلیمی ادارے بھی۔
ورنہ پھر یہی ہوتا رہے گا۔ ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف اپنے اپنے حصے کی نوکری کرتے رہیں گے۔ اشرافیہ مزے میں رہے گی اور قوم کے بچوں کو سڑکوں پر آوارہ کتے بھنبھوڑتے رہیں گے۔
(آصف محمود)
 

جاسم محمد

محفلین
آواز تو اٹھائیے کہ ایک قانون بننا چاہیے۔

جسے یہ قبول ہے وہ سیاست کرے۔ جسے قبول نہیں وہ لوہا بیچے یا کرکٹ کمنٹری کرے اور مال کمائے۔ پھر وہ لندن جائے یا بھاڑ میں جائے ہماری بلا سے
یہ قانون بنا کر دیکھیے آپ کے ہسپتال بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور تعلیمی ادارے بھی۔
ورنہ پھر یہی ہوتا رہے گا۔ ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف اپنے اپنے حصے کی نوکری کرتے رہیں گے۔ اشرافیہ مزے میں رہے گی اور قوم کے بچوں کو سڑکوں پر آوارہ کتے بھنبھوڑتے رہیں گے۔
(آصف محمود)
اچھی تجویز ہے۔ بات قانون بنانے کی نہیں عمل داری کی ہے۔ ماضی میں الیکشن لڑنے کیلئے بیچلر ڈگری کا قانون لایا گیا تھا تو کرپٹ، چور سیاست دان جعلی ڈگریاں بنا کر اسمبلیوں میں واپس آ گئے تھے۔
 

ام اویس

محفلین
نہ جانے کیسے احساسات ہیں۔ دکھ ، تکلیف ، بےبسی
یا ایک اجتماعی بے حسی
آج ایک مریض کے لیے قطر سے ائیر ایمبولنس آ رہی ہے۔
تاریخ کے اوراق میں وہ وقت بھی محفوظ ہے جب ایک جاں بلب مریض کے لیے ایک کھٹارا ، بغیر پٹرول ایمبولنس بھیجی گئی تھی۔
کس کو مارا گیا اور کس کو بچایا جا رہا ہے۔۔۔۔ کون یہ سب کرتا ہے اور کون اس پر پابندی لگاتا ہے۔
الله ہی جانے
 
Top