آواز تو اٹھائیے کہ ایک قانون بننا چاہیے۔
یہ قانون بنا کر دیکھیے آپ کے ہسپتال بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور تعلیمی ادارے بھی۔
ورنہ پھر یہی ہوتا رہے گا۔ ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف اپنے اپنے حصے کی نوکری کرتے رہیں گے۔ اشرافیہ مزے میں رہے گی اور قوم کے بچوں کو سڑکوں پر آوارہ کتے بھنبھوڑتے رہیں گے۔
(آصف محمود)
جسے یہ قبول ہے وہ سیاست کرے۔ جسے قبول نہیں وہ لوہا بیچے یا کرکٹ کمنٹری کرے اور مال کمائے۔ پھر وہ لندن جائے یا بھاڑ میں جائے ہماری بلا سےجس نے اس ملک پر حکومت کرنی ہے اس کا علاج بھی یہیں ہو گا اور اس کے بچوں کی تعلیم بھی یہیں ہو گی۔ جو بھی وفاقی کابینہ یا صوبائی کابینہ کا رکن رہے گا یہیں جیے گا یہیں علاج کرائے گا اور اس کے بچے بھی یہیں پڑھیں گے۔
یہ قانون بنا کر دیکھیے آپ کے ہسپتال بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور تعلیمی ادارے بھی۔
ورنہ پھر یہی ہوتا رہے گا۔ ہر رہنما کے حصے کے بے وقوف اپنے اپنے حصے کی نوکری کرتے رہیں گے۔ اشرافیہ مزے میں رہے گی اور قوم کے بچوں کو سڑکوں پر آوارہ کتے بھنبھوڑتے رہیں گے۔
(آصف محمود)