آنکھیں لہو لہو ہیں ، ہے ہر خواب تار تار ۔۔ ۔۔ برائے اصلاح

السلام و علیکم ۔۔۔
آپ سب سینئر حضرات کی نظر میری ایک چھوٹی سی کاوش، میں امید کرتا ہوں جو الفاظ تراشی کی نوک پلک سنوارنے کا ہنر آپ سب احباب کی پاس ہے مجھے اس سے ضرور مستفید کریں گے
میں ایک نوخیز لکھاری ہوں آپ کی راہنمائی اور اصلاح میرا حق ہے اور اگر ممکن ہو سکے تو اسکی کمی بیشی کو درست کر میری رہنمائی فرمائی جائے
۔ ایک غزل پیش خدمت ہے ۔آپ کی رائے کا منتظر ہوں


آنکھیں لہو لہو ہیں ، ہے ہر خواب تار تار
گل کاغذی مثل ہے، با سیم خار دار

آنکھوں پہ کیا گزرتی ہے یوسف کی یاد میں
آساں کہاں ہیں درد کی منزل کا آشکار

منظر ہیں چارسو،سب دھندلے ہوئے ہوئے
کچھ دیتا نہیں دکھائی ،اس دھند کے آر پار

اجڑے چمن کی اجڑی ادایں بتا رہی ہیں
کبھی گزری ضرور تھی ، یہاں نسیم پُر بہار

پر زور تھے تلاطم موجوں کے اس بحر میں
یہ ناؤ اس طوفاں سے گزری ہے بار بار

وہ خفگیوں میں شامل زہر گھولتا رہا
خاکی تھا یوں مگر ، لہجہ تھا نار نار

تھی رونقیں جنہیں سے تھے میلے لگے ہوئے
ارماں کہاں ہیں کھوئے وہ لوگ پر وقار
 

ابن رضا

لائبریرین
السلام و علیکم ۔۔۔
آپ سب سینئر حضرات کی نظر میری ایک چھوٹی سی کاوش، میں امید کرتا ہوں جو الفاظ تراشی کی نوک پلک سنوارنے کا ہنر آپ سب احباب کی پاس ہے مجھے اس سے ضرور مستفید کریں گے
میں ایک نوخیز لکھاری ہوں آپ کی راہنمائی اور اصلاح میرا حق ہے اور اگر ممکن ہو سکے تو اسکی کمی بیشی کو درست کر میری رہنمائی فرمائی جائے
۔ ایک غزل پیش خدمت ہے ۔آپ کی رائے کا منتظر ہوں


آنکھیں لہو لہو ہیں ، ہے ہر خواب تار تار
گل کاغذی مثل ہے، با سیم خار دار

آنکھوں پہ کیا گزرتی ہے یوسف کی یاد میں
آساں کہاں ہیں درد کی منزل کا آشکار

منظر ہیں چارسو،سب دھندلے ہوئے ہوئے
کچھ دیتا نہیں دکھائی ،اس دھند کے آر پار

اجڑے چمن کی اجڑی ادایں بتا رہی ہیں
کبھی گزری ضرور تھی ، یہاں نسیم پُر بہار

پر زور تھے تلاطم موجوں کے اس بحر میں
یہ ناؤ اس طوفاں سے گزری ہے بار بار

وہ خفگیوں میں شامل زہر گھولتا رہا
خاکی تھا یوں مگر ، لہجہ تھا نار نار

تھی رونقیں جنہیں سے تھے میلے لگے ہوئے
ارماں کہاں ہیں کھوئے وہ لوگ پر وقار
آپ کے اشعار مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن بحر کے قریب ہیں معمولی نشست و برخاست کی تبدیلی سے انہیں موزوں کیا جا سکتا ہے جیسے مطلع ہی لیں

آنکھیں لہو لہو ہیں ، ہے ہر خواب تار تار
گل کاغذی مثل ہے، با سیم خار دار
آنکھیں لہو لہو ہیں اور خواب تار تار

دوسرا مصرع
گل کاغذی مثل ہے، با سیم خار دار
اس کی مجھے کوئی سمجھ نہیں آئی تاہم مثل کا تلفظ ث ساکن کے ساتھ ہے دوسرے مصرع میں آنکھوں لہو خواب اور تار تار کی رعایت سے کچھ اور لائیں

اسی طرح دیگر اشعار کا وزن بھی درست کر سکتے ہیں پہلے

جیسے اگلا شعر لیجیے

آنکھوں پہ کیا گزرتی ہے یوسف کی یاد میں
آساں کہاں ہیں درد کی منزل کا آشکار
آنکھوں پہ خوب گزری یوسف کی یاد میں
آساں نہیں ہے غم کی منزل کا آشکار

تاہم دوسرا مصرع ابھی بہتری کا طلب گار ہے
 
آخری تدوین:
Top