آنکھیں - سارا شگفتہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


رسیاں


وہ تنہائی سے بہت خوف زدہ تھی !
اور گھر کے کونوں کُھدروں میں اس کے جذبے پڑے تھے
وہ اپنے آپ سے بچھڑی بچھڑی بان کی چارپائی پر کسی پڑی تھی
اُس کے کپڑوں پر رَسیوں کے لمس پیوست ہو رہے تھے
اور وہ رسیوں کو کروٹ دے رہی تھی
وہ اپنے قدموں کی پائینتی سے اُلجھ رہی تھی
بان کی آواز اُس کے کورے بدن پر میں شامل ہو کے اُسے گننے لگی
وہ اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کی تنہائی کو بڑی تنہائی سے دیکھنے لگی
انسانوں کی ہجوم دار آنکھوں نے اُسے کنچوں کی دوکان سمجھ رکھا تھا
اور وہ رسیوں کو کروٹ دے رہی تھی
اب وہ دیوار کے کونے سے نکلنا چاہتی تھی ، اُس نے ایک جُوتیوں بھری کروٹ لی
نیند کے پھندوں سے آزاد کروٹ
وہ اپنی قید بھری جُوتی کو دیکھنے لگی
جو کسی بھی دُوکان سے مہنگی تھی
روز اس مہنگی رات میں آگ اُس کو سستی پڑ رہی تھی
اور مہنگی تنہائی کو وہ سستا نہیں کر پا رہی تھی
کہ جذبے گھر کے کونوں کُھدروں سے اُسے جھانک رہے تھے
ٹاٹ کے پردے کو کبھی کبھی ہَوا جھانک کر چلی جاتی تو اُس کا آسمان رَسیوں پر آن گرتا
رات کی لمبی چادر صبح ہوتے ہی کفن جتنی لمبی ہو جائے گی ! وہ کہتی رہی،
مگر جانے کس سے ، اور کیا ----
اُس نے بان کی چارپائی سے ایک لمبی رسی نکالی تو رسی اتنی لمبی نکلی کہ
چارپائی میں صرف ادوین رہ گئی
اب ادوین ، رسی اور وہ اپنی اپنی تنہائیون میں چُپ تھیں
کہ تنہائی کو وہ اور تنہائی اُسے گُنگنانے لگی تو اُس نے اپنے تنہا ہاتھوں سے کہا
سیاہ وقت کے بعد چراغ کو پُھونکنا لازمی ہوتا ہے !
کہ دُھوپ کے گیتوں کو وہ اپنے کپڑوں کی رسیوں سے کَس دے
تا آنکہ دُھوپ کی آواز کو تنہا کر سکے

رات کے زندہ پَر ابھی پھڑپھڑا ہی رہے تھے کہ
وہ پائنتی پر رسی کی طرح لیٹ گئی
دونوں رسیاں جب ایک ہوئیں ، چراغ کی زبان کو دُہرا کر گئیں
رسیاں چراغ سے زیادہ سچی نکلیں کہ اپنا تنہا بدن نہیں بُھولی تھیں

دونوں رسیاں اپنی اپنی تنہائی سے اُٹھیں !
اور تنہائی کو بڑی تنہائی سے دیکھنے لگیں ----

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


نیند جھوٹا پانی ہوئی


ہم دُھوپ کی تمنا میں ٹھٹھرے ہوئے تھے
کہ سورج کے نیزوں پہ
ہماری صبح ہوتی ہے
ہم کِس دُکھ سے
اپنے مکان فروخت کرتے ہیں
اور بھوک کے لئے چیونٹی بھر آٹا خریدتے ہیں
ہمیں بند کمروں میں
کیوں پرو دیا گیا ہے
ایک دن کی عمر والے
تو ابھی دروازہ تاک رہے ہیں
ہم آئینوں میں دفن ہوچکے ہیں
ہماری آوازیں زخمی کر دی گئی ہیں
ہمیں جھوٹی چال کے لئے
جھوٹی زمین پہ چلنے کی دعوت ہے
ہمارے لباس دفن کر کے
ہمیں شرم کے حوالے کر دیا گیا ہے
ہم اپنے بدن کے گناہ
اپنی ہی آنکھوں سے چُن رہے ہیں
جیسے ساکت اسٹیشن پر
ساکت گاڑی کھڑی ہو
اور ہمارے سفر ختم ہو چکے ہوں
دل جسم کے سارے اعضاء چاہتا ہے
آنکھوں پہ کنویں جاری کرنے کا حکم
صادر ہو چکا ہے
میں اپنی قبر کو
سانس لیتے ہوئے دیکھ رہی ہوں
دریا سمندر سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے
اپنے ہاتھ کٹوا لیتا ہے
اور کُھدی امین سُوکھی ہو جانے کے غم میں
کھیتوں کا مزاج برہم کر دیتی ہے
ہاتھ تاپنے کی قسم کھائی تھی
اور آگ میں پر دیئے گئے
اور گلیاں جب قسم کھاتی ہیں
انہیں چوراہوں میں پرو دیا جاتا ہے
پلڑوں پہ رکھے ہوئے پتھر بھی تلتے ہیں
اور دوسرے پلڑے پر
پُھول تولے جا رہے ہیں
نوکری کرنے کے شوق میں
زندگی کی تنخواہ چاہتے ہیں
ہم کیسے رہن رکھے گئے امینوں پر
کہ تم ہمیں
سانس کے لوٹ آنے کی مہلت تک نہ دو
اور پوچھو تمہارے کپڑے زندہ ہیں
اور گاڑ کے سفید پرچم زمینوں پر
کسی بھی وطن کی نشاندہی نہ کرو

وہ آنسو جو میرے مرنے کے بعد
میرے دامن کو تَر کریں
اُنہیں اِنہیں آنکھوں میں رہنے دینا
یہ آنکھیں ہیں کہ زخم
رات پرندہ ہوئی
نیند جھوٹا پانی ہوئی
کنوارے سمندر کا جوڑ نہ کوئی
چراغ تلے رات ہے یا ہاتھ کسی کا
بانسری میں اٹکی آواز
سناٹوں کی چہل قدمی
ریت پر چلتی ہوائیں
سانپوں کی شبیہیں بنائیں
اور پیڑوں نے اپنی چھاؤں
سورج کے حوالے سے ناپی
ہم نے اپنی چھاؤں اپنے دل سے ناپی

چاند آسمان پہ آنکھیں موندے
نابینا کی جھولی دیکھتا ہے
ایک دن ایک بات کہی تھی میں نے
آنسو ہو تو آنکھوں جیسا
اِس چلتے پھرتے سُورج نے بھی
لو ہماری عمر پہ آنکھ ماری
بند ہاتھوں کا گہنا مٹھی
تنگ گلیوں میں دوڑتے قدم
اپنے ایک پاؤں کے ساتھ
گندی نالی باندھ لیتے ہیں
اور باغبان کُلہاڑا لیے
صبحِ صادق سے گُلشن میں خاک کھودتا ہے
جس طرح سمندر میں ڈھونڈنا مشکل ہے
اسی طرح ہم شاخ پر کِھلے
پھول کی پوری پیدائش سے غافل ہیں
روٹی پر ختم ہو جانے والی زندگی
تتلیوں کو پھول سے
باندھ آنے کی سی عادت ہے
رفتہ رفتہ دہلیزیں
میرے پاؤں چھوٹے کرتی جا رہی ہیں
رفتہ رفتہ آنکھیں
اپنے ہی دل میں گڑی جا رہی ہیں
جنوں کے بادبانوں میں
چند شاخیں کاٹ کر بہا دی گئی ہیں
جن کی بہاریں مُردہ زمین پر
بے بس ہو چکی ہیں

میرے چلنے پہ
زمین نے صدا لگانا چھوڑ دی ہے
میرے پاؤں ‌کاٹ کے
گھٹنے لگا دیئے گئے ہیں
میں خلا میں گُم ہو جانے والا
شعلہ نہیں بننا چاہتی
میری مٹی میں
میری رُوح کو تشنہ کیا جا رہا ہے
آئینے پانیوں کے ساتھ تھم گئے
آدمی اپنا چہرہ دیکھنے سے محتاج ہو گیا
اس لئے دوسرے چہرے پر
اپنے زاویے بناتا چلا جا رہا ہے
قبروں پر پھیلی چھاؤں
پیڑوں کو اُداس کئے ہوئے ہے
کہ وطن تو میرا مہکار بانٹنا تھا
لفظ جیسے کسی نے زبان سے نوچ کر
کسی سُوکھے کنویں میں بند کر دیئے ہوں
ہوائیں صرف چیزوں کی آوازیں ہیں
اب مُنتظِر کو
میرے پہنچنے تک کا حوصلہ رکھنا چاہیے

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



انسانی گارے

مُسکراہٹ کتنے چہرے رکھتی ہے
لگنوں میں تو خالی مٹی ہے
میرے نمک کا اندازہ کیسے ہوگا
دیکھنے سے کچی پکی ہو جاتی ہوں
گھر ناپتی ہوں تو اینٹ ہاتھ آتی ہے
یہ کُتا تنہائی کُتیا کی زبان رکھتی ہے
اِن ڈھیروں کو ناخن سے نکال پھینکتی
آخر فیشن بھی کوئی چیز ہے

انسانی گارے کو ترتیب دیتے دیتے
حرامزادی ہو گئی ہوں
لفظ ماری کو کہیں نہ کہیں تو پہنچنا ہی ہوتا ہے
کیا دوپٹے کے پاتال میں مَیں موجود نہیں
میں تو جنم کے دن بھی ننگی تھی
زندگی بار بار بچے نہیں جنتی
جو سلوک کے پتھر چباتی رہتی
بس جس کروٹ جتنی چادر آگئی

نیند کے یہ دو موتی
کالے بھی تو پڑ سکتے ہیں
پھر شام ڈُوبے سُورج سے کیا کہنا
کیا قید خانوں میں
سورج کی تلاشی ختم ہو جاتی ہے
یہ دن میں گھومنے والے
میری رات کیسے بن بیٹھے
بکھری ہوئی آنکھوں والے
لیکن ان کی آنکھوں کے گودام میں
میرے جیسے بے شُمار گندم ہیں
بُھوک کی نیت ذخیرہ کرنے سے تو رہے
آگ کے ہاتھ پر
کوئی نہ کوئی چیز تو ضرور ہوتی ہے
تو پھر ثواب توبہ کے حوالے کر دوں
میرے عشق میرے بُت
صرف دُعاؤں کے لئے تو نہ تھے
میں نے کچھ اور مانگا اور پھر کچھ اور

آنکھ ہو کر رہ گئی ہوں
انسانوں کی نظر ایسے ہی لگتی ہے
اپنی آنکھ کے پاس رہنے سے
کیا عورت آوارہ ہوتی ہے
کیا مندروں کی آوازوں پر جاگا نہیں کرتے
کیا مسجد کی اینٹ چُرائی نہیں جا سکتی
اتنی تو دیانتی ہے مجھ میں
کوئی نظر آئے تو سجدہ کرتی ہوں
بھلا آنچل کا سجدے سے کیا تعلق
کہتے ہیں آنکھوں کے شور میں کیا لکھتی ہے
لکھ کیا رہی ہوں میں تو چل رہی ہوں
یہ گدلے لوگ کنول رکھنا نہیں جانتے
بس مورت سی ہنسی میں دفن ہیں
پانیوں کے مقدر میں بھنور ہوتا ہے
عورت کے مقدر میں ایک کے بعد دوسری چادر

زمین کا ساحل نہیں ہوتا
میں تو چلتے چلتے مٹی کو حاملہ کر دوں گی
پھر بھی کوری رہ جاؤں گی
کاش مجھے کوئی لکھتا
یہ ٹھاٹھیں مارتے بندے
سمندر سے زیادہ ہو سکتے تھے
لہو کی سات پُشتیں تو کوئی چہرہ نہیں رکھتیں
میں نے خاموش چاند کبھی نہیں دیکھا
نہ انسان کے ساحل پر نہ زمین کے ساحل پر
کسی روز اِس جسم کی بارگاہ سے نکل جاؤں گی
کون مانگے توبہ سے انصاف
ہم سب رحم کے سیلاب میں مارے گئے
اور جسم کی صلیب پر چڑھائے گئے
دو آنکھیں دو قدم ایک زبان کیسے رکھتے
سمجھتے ہیں بہا دیں گے مجھے یہ
کنکروں میں جیسے میں نے انہیں سہا نہ ہو
یہ سارا کا قید خانہ ہے
تمہارے خُدا کی دُعا نہیں
جسے عرش سے گرنے کا ڈر ہو
یہاں سر جُھکانے والے سے
دار کو محفوظ رکھا جاتا ہے
یہاں میری آنکھیں بچے نہیں جنتیں
نہ ہنسی سے گرو نہ آنکھ سے ہٹو
نہ قدم سے ہٹو
اپنے اپنے عذاب مجھے سنا دو
میں آنکھوں کو لاٹھیوں سے نہیں ہانکتی
میری قید چاند سورج پھینک چکی ہے
اور تمہاری آزادی زنجیروں کی صدا ہے
غافل آزاد ہے اور سہل
پتھروں میں ڈوب گئے
میں بٹی ہوئی رسی نہیں
بے لوث جھاڑی سہی
تماشے میری آنکھوں کے میدانوں میں ہوئے
دُھول اور پھر کشکول میں
مانگی جانے والی دُعائیں
گھر سے ڈری ہوئی عورت
کہیں نہ کہیں تو چلتی ہے
خواہ پیڑ کاٹے یا عُمر

یہ کون لوگ ہیں جو آگ کو
مٹی سے چھوٹا سمجھ رہے ہیں
سِکوں کی آوازیں میں نے کیوں گِنی تھیں
موت کا اعتبار نہیں آواز مجھے دیتے ہو
آنکھوں کی پیمائش سنگِ میل سے کرتے ہو
اپنے سوگ میں زبان کھول رہی ہوں
میری منڈیر سے رات اور سورج
اکٹھے اُڑ گئے ہیں
اپنے ہاتھ میں چُن دی گئی ہوں
ہاتھ مِلاتے ہی گر جاتی ہوں
قدم کو مٹی کی پھانسی دوں
آنکھ خاموش ہو نہیں سکتی
جسم کی تنخواہ ملتی نہیں
بُھوک کی لونڈی کو آزاد کر نہیں سکتی
ہاتھ اکیلے پکنک مناتے نہیں
ہنسی مذاق چھوڑتی نہیں

مروت ہاتھوں میں چُٹکی بجاتی رہتی ہے
صبر آگ دھوتا نہیں
انسان تو کنویں سے لوٹ آنے والی آواز ہے
پھر تو دھجیوں میں تروپے لگائے نہیں جا سکتے
میں کوئی سمندر کی سوتیلی بہن تھی
جو میرے لئے لباس رکھا گیا
اور میری چال میں گالی رکھی گئی
دُکھ کی ڈولی اُٹھانے والے
کیا گھونگھٹ میں قید ہو گئے
شام سے وقفے میں ہاتھ جوڑے
پھر رات دن کے ہاتھوں مارا گیا
اور ڈُوبتا سُورج صبح ہوتے ہی
میرے ۔۔۔ سے اُڑ گیا
میں دن بھر روتی اور رات بھر ہنستی

میری آگ کی کئی زبانیں تھیں
اناج کی میں پہلی قسم تھی
سو انسان کی قسم کھا سکتی تھی
میں نے ہاتھ سے وعدے پھینک دیئے
اور آنکھ جنگل میں چُرائی
میری آگ کُوڑے کرکٹ سے دُکھنے لگی ہے
تمہارے پاس دریا ہو تو پیاس کا وعدہ میں کرتی ہوں
رات ایک دُعا
کشکول میں گری تو ریزگاری بکھر گئی
موت کو میرا ذائقہ پڑ جاتا
تو کپڑے کبھی نہ دھوتی
لیکن مجھے گِن لو تو اچھا ہے
تا کہ تمہارا کشکول پُورا ہو جائے
اب تو آنکھ بُری لگتی ہے
میں نے اُسے گود لیا تھا
یہ میری رانوں تک پھسل گئی
آنکھ خوری کے کتنے کنچے کھیلوں
قید میں صرف سلاخوں کی ہنسی گونجتی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سائے کی خاموشی


سائے کی خاموشی صرف زمین سہتی ہے
کھوکھلا پیڑ نہیں یا کھوکھلی ہنسی نہیں
اور پھر انجان اپنی انجانی ہنسی میں ہنسا
قہقہے کا پتھر اپنے سنگریزوں میں تقسیم ہو گیا
سائے کی خاموشی
اور پُھول نہیں سہتے !
تُم !
سمندر کو لہروں میں ترتیب مت دو
کہ تم خود اپنی ترتیب نہیں جانتے !
تم !
زمین پہ چلنا کیا جانو !
کہ بُت کے دل میں تمہیں دھڑکنا نہیں آتا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


کانٹے پہ کوئی موسم نہیں آتا !


سات ستارے میں گن چکی تھی
اور آٹھویں رات کا چاند مر گیا تھا
فقیر کے سکے زمین پر گرتے ہی
میں کشکول جتنی بڑی ہو گئی
اٹھنی میں چُرا رہی تھی
کہ اٹھنی مجھے چُرا رہی تھی
اب ہماری گُلک اتنی بھر چُکی تھی
کہ اُس میں جھنکار پیدا نہیں ہوتی تھی
میرا باپ اکثر عورت چُراتا
اور اپنے بچے ہار جاتا
ماں کے جینے کے لئے
بچے کافی نہیں ہوتے
میں نے پُھول خریدنے والا دیکھ لیا
ماں نے گھونگھٹ نکالا
تو میں نے چودہ پُھول گنے
اور باپ سے ملتے جُلتے
آدمی کے پہلو میں جا سوئی
میری زُلفیں رات جتنی دراز ہو گئیں
میرے قدموں سے آواز آئی
میرے ہاتھوں میں اکنی کی طرح رہو
میرے ہاتھوں سے بچے جاتے رہے
میں بستر پر گڑی رہی
وہ مجھ سے کھیلتا رہا
میں نے خالی آنکھوں سے آسمان دیکھا
اور ساری خُدائی سمجھ گئی
میرا شوہر اب میرا آخری بچہ تھا
بے اینٹوں کی دیوار سے میرے بھائی نے جھانکا تھا
اور اُس کی سانسوں میں چاند پھنس گیا تھا
لیکن !
میری سات سالہ عمر کے پاس کوئی حیرت نہ تھی
میری دعائیں مجھ سے علاوہ تھیں
میں خُدا سے جسم کے علاوہ کچھ مانگ رہی تھی


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حالانکہ میرا سایہ
ہمیشہ مٹی سے سیراب رہتا تھا
میں نے انسان اور مٹی کو
ہمیشہ مختلف رنگوں میں دیکھا
میری آنکھیں کبھی فرار نہیں ہوئیں
آنکھیں نہ بہن رکھتی ہیں اور نہ بیٹا
پہاڑ بھی مٹی ہے !!
لیکن ہماری موج ساحلوں سے بھی ٹکراتی ہے
میں پہنچتی تھی زندگی کی موج تک
رات کی آخری چیخ مٹی میں رہنے لگی
تو مجازی میرے گھر کے چراغ کی طرف بڑھا
میرا چراغ دیوار شکن ہے
آنکھ فروشی کرنی ہے تو اپنی بیٹی کے ساتھ
مگر ایک پیڑ کا سایہ بھی تو ایک ہی ہوتا ہے
محبت ہے تو میری ماں کی آنکھیں
مجھ سے الگ کیوں ہوں
مٹی کی صدا اگر موسم ہے
تو میں کیوں نہ باپ کے کپڑے اُتار دُوں
ٹوٹے چاند کی چاندنی نہیں ہوتی
اسی طرح ہم آدھے لباس میں جیتے ہیں
دن میں گُم ہو جانے والے چاند کے دن
میرے بچے مجھ سے چھین لئے گئے
تو میں بغیر آسمان کے زمین پر بیٹھی تھی
آسمان ستاروں سے روتا
مجازی نے قرآن اٹھایا
چند دن بچہ میرا !
میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ قرآن کیا ہے !!
اعتبار کیا !
میں بچے کے آنسوؤں کی طرح ہوگئی
اور ابھی تک آنکھوں کی طرح ہوں
اور ابھی تک مسلمان ہوں !
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زندگی کی چھاؤں میں کوئی سُورج نہیں ہے
دریا سندر بن جاتا ہے میرا نہیں بنتا
نیند آنکھوں سے بھر گئی ہے
میری ماں میرے جنم دن پر آنکھیں جلاتی ہے
میں ہاتھوں سے گِری ہوئی دُعا ہوں
میرے چراغ سے لوگ اینٹ مانگتے ہیں
میری آنکھوں میں
ہاتھوں کا دُکھ جم کر رہ گیا ہے
کھوٹی زمین نظر آتی ہے
لیکن میں چھاؤں نہیں بو سکتی
میں آخری حد تک
انسان کی گواہی دیتی ہوں
مجازی اولاد دیکھتا !
اور میں اولاد کے علاوہ بھی
انسانوں میں پھنسی ہوئی ہوں
پھر، ہر اپاہج بچہ میرا ہی بچہ تو ہے
پھر میں ذہنی اپاہج بچوں سے محبت نہ کروں


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے آنکھوں میں سجنے کی ضرورت نہیں
یہ پرندوں کو رٹنے والے لوگ
میرے ایک لمحے کی خیرات ہیں
یہ اتنے چھوٹے لوگ ہیں
کہ اپنی بیویوں کی۔۔۔میں مر جاتے ہیں
سندر ہونے کے لئے جسم کے دریا سے گُزرنا پڑتا ہے
میں سِمٹی ہوئی اُنگلیوں کا انسان نہیں چاہتی
دیوار پر دُھوپ جم جائے
تو کپڑے سُکھانے ہی پڑتے ہیں
میں نے ماں کو آخری نگاہ سے دیکھا
بِن موسم کی شاخ جلائی
اور مٹی کا قد ناپا
میں ایک مکمل انسان نہیں تھی
انسان کی آنکھیں ہمیشہ مکمل کنواری رہتی ہیں
سو میں اپنی راتوں کا شُمار نہیں کر سکتی
راکھ کتنے موسم رکھتی ہے -----------
پچاس رنگوں کے لباس پر ٹانکے لگاتی
شام پر سُورج کا پہرہ اچھا نہ لگا
میں نے رات کی چادر میں سُورج کی دُعا مانگی

محبتوں کے دروازوں پر آہٹ رہتی ہے
جس دن میرے ہاتھ تین ہوئے تھے
میرے آنچل پر سکوں کا پہرہ تھا
مجھے حاملہ آنچل کی قسم
میں اینٹوں کا مکان ہو گئی تھی
پھر بھی مکان ایک کُٹیا کی خواہش رکھتا
میں ایک قدم کی قَسم
کھا سکتی تھی کسی تیرے قدم کے لئے
زمین انکار کی صُورت ہاتھ آئی
ہم لباس کا رنگ جانتے تھے
جسم کا رنگ بُھول چکے تھے

شاموں میں دوپہر نظر آئی
جیسے ایک کمرے میں ہم نے چراغ بانٹ رکھا ہو
اُس کی آنکھوں کا رنگ پھیکا پڑتا
تو میں سمندر سے سُورج نکال پھینکتی
اُس کی شرمندگی مجھے نِگل رہی تھی
حیا میں ، مَیں پھنس گئی تھی
ہم دونوں میں کبھی انسانی مکالمہ نہیں ہوا
وہ فُٹ پاتھ سے ڈرا ہوا تھا
ہم چراغ کی حدود تک ساتھ ساتھ تھے

سیڑھیوں میں ہی میں اپنے قدم بُھول آئی
سرگوشیوں کا میں لباس پہنے ہوئی تھی
کہ بغیر قبر کے کتبے کو میں نے پڑھا !
مٹی ماں کہتی تھی
بغیر کفن کے میں ماں نہیں بنتی
تو پھر میں بے کفن بچے کی ماں بن گئی
دیکھنا ! میرا مذہب ہو گیا
گھر کسی چھاؤں میں نہیں ہوتا
اور لہو کی صدا نہیں ہوتی
گلیاں بے قدم ہو جاتی ہیں
وہ لفظ فروش سا شخص
میرے قدموں کو جگا گیا
جُڑواں آنکھوں نے کب جنم لیا
ہمارا درد کون سا اکٹھا تھا
ہم ہاتھوں میں ضرورت رکھتے
ہم ننگوں کے پاس ایک ہی چادر تھی
سو ماں نے پیدا ہونے والے
بچے کا نام راز رکھا
سمندر کی بیداری مٹی کی خاموشی نے بھانپ لی
ہر شخص اپنے لئے ایک کمرہ رکھ چھوڑتا ہے
اپنے تیسرے قدم کی خواہش
انسان اپنی تنہائیوں میں بھی نہیں دُہراتا
حالانکہ انسان رہتا ہی تیسرے قدم میں ہے ۔۔۔

مجھے شوہر کی مُفلس نگاہوں سے
ایک لباس کی اُمید رہتی
کیونکہ !
مجھے خبر تھی کہ میں ایک ننگی بیوی ہوں ۔۔۔
ننگی نہ ہوتی تو ایک بے کفن بچے کی ماں کیسے ہوتی
زمین سے ہٹوں تو تمہاری طرف آؤں
عالم اتنا کہ کتابوں میں دفن تھا
اُس سے بات کرنے کے لئے
مجھے اُسے قبر سے نکالنا پڑتا

چونی ، اٹھنی میرے انکار و اقرار تھے
ہم دونوں لیٹے تھے
کہ احساس ہوا ہمارے نیچے بچھی چادر مر گئی ہے ۔۔۔
پیڑ کا سایہ مجھ سے ہمکلام ہوا
تیرا مرد چھاؤں سے چھوٹا ہے
سات پائی کو ٹاس کرتے ہوئے ، بولتی کم ہو !
ہاں کھوٹا سکہ چل گیا ہے
میں نے آنچل ہوا کے ہاتھ سے چُھڑایا
کمرہ اکیلا ہے اور انسان کا درد شدید ہے

میں نے مُردہ بچے سے پہلی بات کی !
تیرے باپ نے آج تک ایسا شعر نہیں کہا
جسے تیرا کفن کہتی
پیدائش اور موت کے ایک گھنٹے کے بعد
میرے پاس پانچ رُوپے اور مُردہ بچہ تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لاشہ سکوں کے عوض رکھا
جنم کے سکے تو مل گئے موت کا سکہ نہ ملا
ثواب کماؤ !
اور اِس بچے کی قبر کہیں بھی بنا دو
اِس کی اصل قبر تو میرے من میں ہے
میں قدم قدم گھر پہنچی !

کفن آنکھوں کے تھان بڑھا گیا
جس فرد کو دیکھتی قبر کی بُو آتی ۔۔۔
افسوس ! مرد نہ جان سکا اُس کے نطفے کی قبر کون سی ہے
میں گناہ اور ثواب سے رنگی باتیں کرتی
اور ایک ایک مرد سے پُوچھتی ، کفن کیسا ہوتا ہے !!
تو میرے پستانوں سے مُردہ دودھ بہنے لگتا
کیا ۔۔۔ کی ماں بھی کفن ڈھونڈ رہی ہے
مُردہ آنکھوں کی گواہی پر میں اپنے آُپ کو رکھتی
پھر مرد بھونکا ، تم نے " میں ننگی چنگی" لکھی ہے
پھر اپنی رات میں ہماری چادر کیوں نہیں بچھاتیں
اور لوگ اپاہج لفظ سے تکیہ کرتے
میرے معصُوم نے
شرم کے علاوہ عورت نہیں دیکھی تھی
ہر نوجوان اور بُوڑھا پتہ
میرے لئے خاص موسم رکھتا
میں مٹی سارے موسم جان چُکی تھی
تلاش صرف کفن کی تھی !

جنگل چراغوں سے نہیں بستا
اور نہ رات سے کوئی مرتا ہے
ہنسی میں انسان دفن ہونے لگے
تو چاند آسمان سا بین رکھتا ہے
میں ٹھہری مٹی کا کفن !
ماں زمین سے دُور نکل آئی
آواز میں انسان گونج گیا
سو میں جنگل نہ جا سکی
سمندر کے قدم میرے قدموں سے آن ملے
اور چاند میں آنکھیں سُکھاتی رہی
میں خواب سے کپڑے پہنتی
اور جاگتے میں لُٹ جاتی
میرے گُونگے بدن نے اشاروں کا لباس پہن لیا
وقت کے لئے میں اپنے دوستوں کی دائی تھی
یہ مجھ سے ۔۔۔ کے لئے مجھی سے اٹھنی طلب کرتے
کون سی لڑکیاں جاگ گئی ہیں
جو جنم دن کے بعد کنواری ہو جاتی ہیں
ان کی کوکھ سے قید جنم لیتی ہے
اور دار سے گُھونگھٹ نکالتی ہیں
پی گیا دودھ سانپ
آنکھوں کی مہندی رچاؤ
نہیں تو تمہارے بچے بے کفن رہ جائیں گے
میں نے لباس فروخت کر دیا ہے
کل تمہارے پاس دوپٹے نہ ہوں ،
تو سمجھ لینا میرے پاس پُورا لباس نہ تھا
بدن کی گواہی پر مت رہنا !
آنکھوں میں بس رہنا !
قبر بن جانا !
کہ آزادی کی خاک ہونا بہتر ۔۔۔
یوں ہم نے ایک غیرت مند ۔۔۔ تراشا !
سچ پُوچھو تو پُھول کتنی اذیت میں ہے
کانٹے پر کوئی موسم نہیں آتا


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


پتھروں کا پیمان


میرے سامنے اینٹ کے باطن میں دیوار
من میں میرے اپنا ہی ایک بے رنگ بُت
ٹھک ٹھک کر کے بھاگے
میرے گھر میں چور بھی دیکھو سیدھی راہ نہ پائے
رات کے جُوتے صبح چُرائے
صبح کے جوتے شام
ہم نے مُڑ کر آنکھ سنواری ، اَبد سے ازل تک
کُھلے دروزے کس نے کھٹکھٹائے !
خلائیں تو پرندوں سے پُر ہیں
غروبِ آنکھ کیسا سمندر
قیام کے عمدہ مکان اُلٹا

لحد پوش سُورج دِکھایا کس نے
اب ہماری باری آئی تو منتر پرائے :
دُکھ سُکھ دو فرشتے جنہوں نے جیون کھوج لگائے
اُس پیڑ تک جو پہلے پہنچے وہی راجہ کہلائے
ہاتھ نے شاخ سے کہا
کتنی شاخیں تیری کتنی شاخیں میری :
پیدا ہوئے لوگ رونے سے انجانے ڈر سے مر بھی گئے
چراغ بُجھا کر سحر دیکھتے ہیں
جو پانیوں سے مذاق کرتا ہے ساحل اُس سے مذاق کرتے ہیں :
سجدہ زمین پر عنایت عرش پر
مچھلی دریا میں کانٹا ساحل پر ۔۔۔
تار تار وقت کو سینا پڑتا
ذہانت تو تاریخ لے اُڑی
باندھ دیا ہے میں نے سوا رُوپیہ دھرتی کے بازو پر
میں اپنے دونوں ہاتھ چُھپا کر تم سے ملوں گی
مُردہ پتھروں سے لہو لہان ہوئے تو کیا ہوئے
خاموشی انسان کو جنم دیتی ہے
انسان لکڑ ہارا بن جاتا ہے
بندہ پروری پنجرے سے ہاتھ ملاتی
سُورج میں خم آ جاتا ، ستارے آدھے رہ جاتے
وہ نئے ورق دے جاتے
میں لکھتے لکھتے سیاہی میں ڈوب جاتی ۔۔۔

جنگل جانے والے !
دو پتے توڑ لانا ، یا تھوڑا سا حال خرید لانا
پہاڑوں کے دامن میں بہتے دریا
جانوروں کی پیاس بُجھا چُکے ہیں ۔۔۔
چڑیا اور دریا کی گفتگو کنارے تک کیوں لے آئے ہو
کنارے پہ کیا ڈُوبنے والے نہیں کھڑے تھے
وہ آواز کو جلا دیتے
اور خاک میں پتھر بھر دئے جاتے ذرا سے پانی کے ساتھ
کیوں نہ ہم ایک دوسرے کو گذارتے چلے جائیں

پہنچ کر مجھے راہ دکھا دینا
پُرانی دیواریں دل لئے پُکارتی ہیں
ارادہ پتلیوں کی حیرت میں پیوست ہوتا ہے
کُٹیا میں روشن چراغ
تختوں کی قبریں بن سکتا ہے
لیکن اسے تیرے گھر کا بھی تو خیال ہے
شہروں کے خاتمے بھی کچھ ابتدا کرتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چراغ مٹی میں نہیں جلتا
سُناتی ہوں ایک کٹاؤ !!
ایک مُردہ تھا ایک زندہ تھا
پہلے کی آنکھیں سمندر گنتیں ایک کشتی پسند نہ آتی
دوسرے کی آنکھ پلکوں سے
گندگی میں بھولی آیتیں اونچی جگہ رکھ دیتیں
سیکنڈ دوراہوں پہ چلتا
محفوظ چال سے وہ کسی کی طرف جا رہا ہوتا

تلواروں کے لباس سلوانے کی رسم کب سے ہے
کیا میرا مخاطب اتنا گھٹیا ہے !
انسان ٹھاٹیں مارتا توبہ کرنے لگا
جھوٹی راتیں اور گذرے دریا
لیکن سامنے دیکھنے کی عادت نہیں جاتی
دیوار کے پار آنگن بدنام ہوئے
کسی نے بیٹی کہا کسی نے جسم سنوارا
تیز و تند کپڑے پہن
وہ ٹہنیوں کے ٹوٹنے کی آوازوں سے
سفر پہ روانہ ہو جاتے
مُنہ اندھیرے سوچنا شروع کرتے
بوکھلائے بوکھلائے تیور ہمیں بُھگتنا پڑتے
زخمی چراغ بُجھا دئے گئے
سوگوار گناہ ننگی پوریں دِکھاتا ۔۔۔
لہو دار ! تیرا فرض تھا مکان کا کرایہ دیتا
دیواروں کا خیال کرتا
کیل ٹھونک ڈالی تُو نے کیلنڈر کے لئے
مہنگے جھوٹ کبھی سچ کے ہتھے چڑھے
پہیلی بنے تارے رات بھر بوجھتی کسے

نئے کپڑے مبارکباد ہوئے جاتے ہیں ۔۔۔
چاند کو دیکھ کر دُعائیں مانگ رہے تھے
تم نے کیا رات کو یتیم سمجھ رکھا ہے
اُجالے چراغوں کو پناہ نہیں دیتے
ایک دل دو آنکھیں ، ایک انسان دو فرشتے
لمحے بھر کا وعدہ گھر سے اُونچا ہوا
سورج نکلے گا تو پھر پرندے لوٹیں گے
جواری رنگ چُرائے دُھوپ
رات کے کونے مٹی کے کون سے گھروں میں بسے
انجانے ہاتھ مجھے ٹٹولیں ۔۔۔

کٹورے ہاتھ بھر بھر دُعا مٹی سے اُونچے
رات کو تھپڑ مارو ، بے پردہ دھرتی ، ننگے سمندر !
کھنڈر اُجڑی پناہ گاہیں ہیں
یہاں انسان بھی رہ سکتا ہے جانور بھی ۔۔۔
یہ عمارت پتھروں کے پیمان سے بنی ہے
شفق بُھوکی شیرنی ، سمندر بُھوکا شیر
سنگم پہ کس کی لحد ، شمع کو ڈھارس دینے والا خاک ہوا
پرکھ تو پتھر سمیٹ لائے ۔۔۔
ہوائیں کبھی مٹی نہ ہوں گی
ہوائیں انسان سے لے کر کائی تک حکم صادر کرتی ہیں
ہوائیں اشرف المخلوقات نہیں تو کیا ہیں !
نہ بُھوک سے کوئی رشتہ
اِس پگلی کا کوئی دیس نہیں
یہ زندہ ہے تو مُردہ بھی
کبھی قبروں کی ماں ہے
انسان کے چند سالوں کی یہ پڑوسن

مٹی پہ پاؤں ماروں تو گھر سے اونچی شام
ہجر کے پیچھے دو بُت ، تیور کے دو اَبرو
سفید پھولوں سے میرا جسم داغا جاتا ہے
دھوکہ دہی میں پوریں دِل میں ڈبوئیں
پتھر نما مُجسمے کو پایا

قرض خواہ وعدے مجھے پھلانگ چکے تھے
انگوٹھے سمیت میں نے جنم لیا
ہاتھ تھے پتھر ، باہیں دریا ، آنکھیں چڑھتا سورج تھیں
یہ جوگی رنگ تھا جیون کا
پھر دو پھولوں نے ، دو آنکھوں نے عہد کیا
میں جاگوں تو تم سونا ، تم سوؤ تو میں جاگوں
مور حرامی دُور کھڑا مجھے دیکھ رہا
اُن آنکھوں میں میری آنکھیں تھیں
دیپ تیرا رنگ ، سکھیوں کی مہندی جیسا
اور پھر میرے جیسا

پانی چھوتی تو پانی پتھر ہو جاتا
دُعا مانگتی تو فرشتے توبہ کرتے
سینے سے اُنچی بات تھی
فرشتوں کی جگہ خُدا نے دو مُردے میرے سنگ کر دئے
دوپہروں کا سُورج بڑا کمینہ ہوتا ہے
اُتار پھینک کھیت کی اُترن
یہ کپڑے ، یہ چہرے ، یہ بُھوک ۔۔۔
دُھول سے ڈرنے والے شہسوار
موت بھی تم سے کراہ کر گذر جائے گی !
میں سچے الزام سے کہہ رہی ہوں نہا لے !
پانیوں کے مقدر کسی گندگی کو نہیں اپناتے

میں نے اپنے آنگن میں تین رُوحیں گاڑی تھیں
جن کے جسم ابھی زندہ ہیں
اُن کی چُنی ہوئی کلیاں مجھے پُھنکارتی ہیں
اِن کی جلتی سانسوں سے میرے لباس جلتے ہیں
میں آنکھوں کے ڈر کے مارے بھاگتی ہوں
پتے جسم کے گرد لپیٹتی ہوں
یہ زَرد ہو کر ہوا کے ساتھ فرار ہو جاتے ہیں
میں پاگل نہیں
اعلٰی نسل کی کُتیا بھی نہیں
انسان تو دُور کی بات ہے یا نزدیک کی
مجھے تھام لے عذاب ، میں نے کون سا صبر کیا تھا
تلواروں کے سائے میں آنسوؤں کی تسلیاں
میری ماں نے کہا تھا
بیٹی میرے پسینے میں نہائے ہوئے دُکھوں کا خیال کرنا

میں مکروہ دُھوپ سے آلود ہو گئی
جھومتے ہاتھی کی طرح ۔۔۔۔
پھر سانپ کی چال چلی ، بچے بُوڑھے ہونے لگے
نماز ! وقت کا تعین کئے بغیر پڑھی
بات کی فکر کہاں تک لائی
لہو میں گوندھے پتھر ، دُنیا نے کہا ، کُتیا ۔۔۔

میں قبر پہ پہنچی اور پُوچھا !
اے فرشتو تم نے مجھے سجدہ کیا
اور دُنیا میں نظر اندازی بُھول گئے !
راہوں میں تم نے مجھے پریشان کیا !
کدھر ہے خضر !
اُس کو خبر نہیں تھی ، میں نے دنیا ہی کب دیکھی تھی ۔۔۔

دو نینوں کا گھرانہ ایک !
بتوں کے دیوتا میں تیرے جیسی ہونے لگی
بنجر پیاس پہ رونا کیسا
رات بھی گویا کوئی شاخ ٹھہری
مٹی کے سیاہ پلے !
برہنہ مٹی پہ برہنہ انسان آیا
برہنہ ماں ! یہ تیرا گھونگھٹ !

نمک حرام دل !
سڑکیں میرے جسم کے سنگِ میل گنیں !
چراغ تھک جائیں گے
پگڈنڈیاں دُور دُور تک پھیلی ہیں ۔۔۔
لوگ کہنے لگے اے خُدا !
میں نے کہا میری سنو !
میرے لہو کے چھینٹے پڑے جو پتھر پہ
نئے الزام تراشے گئے
مٹی سے گرتے گرتے میں ذرہ ذرہ بچی ۔۔۔

دوڑتا لہو لگام ہوا
روشنیوں بھرا پیڑ ہوں میں
لیکن نہ آنکھیں رہیں نہ خواب
آئینوں پہ جمی گرد پر کسی نے اپنا نام لکھا ۔۔۔
خلاؤں کی بانہیں ، ایک آسمان دوسری زمین
دل کاغذ کی ناؤ ہونے کو ہے
اے میرے دشمن لمحو ! تم کہاں ہو ۔۔۔
وقت تیرے بچوں کا پالنا ہو گا !
جلی روٹی پہ پل جائیں گے سانس
اے میری بہن کے لہو
تیری زنجیر بھری کڑیاں
خط کے کونے پہ ، فقط لکھتی ہیں ۔۔۔
چُپکے چُپکے پتھروں پہ چلنے لگے سائے
آس پنگھٹ کا پُھول ہوئی

دشمن کے سینے میں
میرے تیور گن ، مجھے کیوں گنتا ہے
ساحل پہ کھڑے
فقیروں کی ہتھیلیاں بند کر سکتے ہیں
لیکن رُوح کے ساتھ جسم گانٹھ دئے گئے
اُس وقت کہاں تھے چراغ
جب صبح صادق نے سورج کے تلوے چاٹے
آیا ہے جلے کپڑوں کا بدن لئے
حسرت کے بعد زمانے نے
ایک مُسکراہٹ خریدی ہے
میں نُچڑے کپڑے پہ تھوڑی سی دُھوپ رکھتی ہوں
اور ایسا چراغ جلاؤں گی
جسے کسی تہہ خانے نے زنگ آلود کیا ہو
وہ جنگل نہیں بُھولی !
جہاں میری پیدائش کا حُکم سُنایا گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پُھولوں پہ ابھی ابھی آسمان رویا ہے
سہمے پرندوں کو کیا شکار کرنا
تم اخلاقی بیساکھیوں کی روند میں ہو
ڈھال سے تلواریں زخمی ہیں
فیصلے کبھی فاصلوں کے سپرد مت کرنا
اور جہاں چاند کی تمنا کرنا وہاں چاندنی کی تمنا مت کرنا
نشانے کے وقت ایک آنکھ سے کام لینا اچھا ہے ۔۔۔
تم میرے گھر رہو کہیں تمہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے
گلاب بھی لال ، دل بھی لال ، پتھر بھی لال
اور جب جسم قتل ہوئے وہ بھی لال ۔۔۔
کیا حیرت آنکھ کا لشکارا ہے !
آج ایک تیرا وار بھی ہوگیا
خاک اور خون اکٹھے پیدا ہو رہے ہیں
رُوحیں جسموں سے آنکھیں مانگ رہی ہیں ۔۔۔
جانوروں کے اعضاء والا کہاں گیا !
چلو تیرے رنگ کی آگ جلا لیتے ہیں
پھر چوتھے رنگ سے اِسے بُجھا دیں گے ۔۔۔
برف ماضی کو شعاعیں مل گئیں
میری دو آنکھوں نے کبھی اپنے آپ کو نہیں دیکھا
قیامت کا انتظار ہے سُورج پر نظر ہے
کنول کو داد دینی چاہیے ، اپنی جائے پناہ خوبصورتی سے سجاتا ہے
پُھول کے دو رنگ ہیں
ایک خوشبو ایک رنگ ۔۔۔
وقت کے کانے چُٹکیوں پر زندہ تھے
سُرخ ، سفید ، کالا ۔ تینوں سائے خود حیران تھے
کہیں ہاتھ گرا ، کہیں آنکھ گری
ارادہ صدا کا تھا بُڑھاپے کے طعنے سُننے پڑے
کِس انتظار میں سمندر میں کنکر مارتے تھے
قبا کے رنگ اُڑائے اُنگلیوں کے داغ سہے
وصل میں بھی ڈھونڈا ہے ہجر
کبھی کبھی پھوار گھر کے اندر تک پہنچتی ۔۔۔
چونی گُمی تو بچپن یاد آیا
کتنے پارسا ہوئے جاتے تھے ہم
کہ آسمان کو غور سے دیکھتے ، کہیں خدا ہمارے کھلونے تو نہیں دیکھ رہا
قد دروازے سے اُونچا نہیں ، دِل کائنات سے چھوٹا نہیں
دُھوپ سے کہیں پھولوں کے رنگ اُڑے
آدمی کا رنگ پتھروں سے بھی بدل جاتا ہے
انسان کدھر گیا ! جنگل کی طرف ! فکر کی بات ہے
انسان کدھر ! زمین کے اندر ! اب فکر کی بات نہیں ۔۔۔
نہ خط آیا نہ انتظار تار تار ہوا
کسی کی چیز کھوئی ! میں ڈھوندنے والوں میں شامل ہوں
پُھولوں کا زنداں شاخیں ہیں
بستی بستی اُجڑ گئی میں ، شہر کی جانب تو دِل تھا
لہو نے کلائیاں کب تھامیں !
کون جانے کیا ہو؟ سایہ ہو یا بُت ۔۔۔
مٹی باہیں کھولے تو دُھول اُڑے
مجسمے کی عبادت کوئی کیا جانے
چنگاریوں میں جب آگ لگی
ہوائیں ہاتھ تاپتی پھریں ۔۔۔۔
بے لوث کبھی بھی نہیں تھی میں
میرے سچے جذبوں میں بھی تیری ملاوٹ تھی
لہو میں دوڑیں آوازیں ، یہ کس نے پُھول بکھیرے
پھر پتی پتی پُھول چُنا
ایک وعدہ میری عُمر بہا لے گیا
محبتوں کے کُھلے بادل جانے کہاں برسیں
چادر کو کائنات سمجھ بیٹھے ہو
ذرا سی بات ذرا سا آدم

اندھے تقدیر ڈھونڈتے پھریں ۔۔۔۔
وہ ارادہ جسے کیڑے اپنے دل میں رکھتے ہیں
قدموں سے نہائی دھرتی میری خواہش سے بھی چھوٹی ہے
اور بلندیوں پہ اٹل ہے
بیگانی پوروں کی وہ اُجرت ہے

مجھے لپیٹ لپیٹ کر رکھتے ہیں یہ کُتے کمینے موسم !!
تنکوں کی لَو میں کتنے جذبے ہوں گے
جتنے قطرے لہو کے پاک ہوں گے
اُتنے جیون میں خدا سے مانگوں گی نہیں
بے خبری سمندر کالے کر دے گی
آگ کی ٹھنڈک زرد ہی رہے گی
پیڑوں کی کھوہ میں کتنے رنگ
اُلجھیں جسم پہ لپٹی ہزاروں آنکھوں سے
سو کے بُھلا دیا گیا ایک چراغ
بعض راستے تمہیں پسند کر رہے تھے اچھا ہوا سنگِ میل نظر نہ آیا
بدنامیوں کے ساتھ میرے ہاتھ جلے ہیں
لہو کے پھول لئے آنکھوں کی سہاگن نے
آنکھوں سے تیرا جُھولا بنایا
لَوٹایا تجھے تیرا بچپن
بخشی ہونٹوں میں دَبی اُنگلی
اور چراغ کے حوالے میں نے رات رکھی ۔۔۔
عذاب نہیں جو کپڑے چُرائے گئے میرے جسم سے
گھر کا مداوا کیوں کروں ، کوئی بھی سمندر میں رہ سکتا ہے
رُکا انسان آنسوؤں کی مالا دیوی کے گلے میں ڈالتا
کاغذ گلیوں گلیوں گذارہ کرتے
آہیں خدا کی باتیں تھیں ۔۔۔۔

راز ٹھنڈے سُورج کی طرح ہوتا ہے
شام چار بجے آئینوں پر چلنے کی دعوت ہے
سو سالہ بِکے ہوئے دِل کا تحفہ لے لے
اور حیرانیاں پیک کر دے ۔۔۔
بہتے دریا بہتے سانپ چاہتے ہیں
سات رنگوں پہ دوڑتی آنکھیں آواز طے کرتی ہیں

چراغ دِل نہیں اور دِل چراغ نہیں
سراغ لگایا تو میں ہی ٹیڑھی تھی
نہیں ، نہیں کہ ہاں میں مدتیں گذرتی ہیں
رات میں خنجر توڑا گیا راستے تو جوڑے بھی نہ تھے
رہائی منتوں کے طور تو میری موت ہے
بہروپیہ ہمارے باپ کے باپ کی رُوح سے لپٹا رہا ۔۔۔
میں نقد ہوں یہاں بیساکھیوں کی حدیں نہیں چلیں گی
قبر کتبے سے دُور نہیں ہوتی
خطا انسان کو پا ہی جاتی ہے کہ جلد بازی اتنے رسے کستی ہے
جتنے سچے لمحے کا انسان ہوتا ہے
پھر منت منت خاک اُڑاتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُدھر بھی دریا ، سامنے نینوں بھری خواہش
بستی میں کون جاگ رہا ہے ، جس کا جیون سوتا جائے
پُھول ہنسے ، خواہش بدلے کون جیا ہے
رُکا ہے صدیوں بیتا ، گلابی آنکھ میں آنسو
پڑاؤ میں سو جھونپڑیاں جلتی ہیں
تب گھر کتنا یاد آتا ہے ۔۔۔

درد بڑھتے جا رہے ہیں دشمن کہیں دوست نہ ہو جائے
تم تو پہلی قبر سے چلے تھے ، دن نکلا تو دُھوپ سے شکوہ !
چاند اَن گنت آسمانوں پر داغا جاتا ہے
بھروسے کے پیچھے جُھکی آنکھیں
کہیں بے گھر زمین سُورج سے اپنا حال نہ کہہ دے
خوش تو اتنے ہیں
کہ شب و روز پنجرے میں بانٹے جاتے ہیں
جیسے ہی دروازہ کُھلا کمرے کی عُریانی نے قصے چھیڑے
دَر سُورج سے پردہ اُٹھاتا ہے
وجود والا دہلیز تک سفر کرتا ہے
کُھلے سمندروں میں لوگ کہیں تختوں کے مکین تو نہیں ہوگئے
دِل کوئی دوپہر نہ مانگنے پائے
کہ پَرائی بیٹیاں دُعاؤں کے گھونگھٹ مانگنے لگی ہیں
اِن آنکھوں سے صدیاں لُوٹ لو
اِن کے دیس چُنے گئے ہیں ، یہ وطنی کہاں کی ہوئیں ۔۔۔
دِل سے سُورج جلتا ہے
ہونٹوں پر چاند کے داغ پہنچائے گئے
وہاں بھی لوگ ہدایت کے طنگار نظر آتے ہیں
میرے ضمیر میں سات جنم جلتے ہیں
چراغ تو بُھولا ہوا راستہ ہے
بے خبری کا خنجر لئے وہ پیڑوں سے میرا نام پُوچھتا ہے
آگ کے پہلے قدم پر میرا ماضی ہے
چاند پُورا آسماں نہیں گھیرتا
ہوا کا بدن لگا تار آمادگی ہے
یقین کے ساکت پرچم پہ ٹھہرو
اور آبرو کے ہجوم سے باہر نکلو ۔۔۔۔
رنگوں کو جھڑکنے سے لباس پھٹنے لگتا ہے ۔۔۔
مٹی کی ہتھیلی پہ کراہتا سمندر
یہ سُورج تو ہماری آگ کا اہتمام ہے
زرد پُھول اور زرد چہرے جلائے جائیں
تو آگ زرد ہی رہے گی ۔۔۔
اور جہاں آگ لگائی جائے وہ مٹی کالی ہو جاتی ہے
سمندر کروٹ نہیں لیتا
جہاں تک ہاتھ نہ پہنچے وہاں لوگ قدموں کے نیچے اینٹیں رکھ لیتے ہیں
مٹی اور دل فریب نہیں دیتے
جسے پاگل نہ کہہ سکوں اُسے انسان کہہ دُوں
آنکھوں میں باندھا چاند
ایک چہرہ سمندر میں رکھتا ہے اور ایک دریا میں
چُپکے چُپکے چاند تکنے والے
وقت تو خود ایک تہوار ہے
آستینوں میں دل نہیں اٹکتا
ہواؤں نے جس پُھول کو چُوسا
اُس کا انجام نہیں بھولتیں
تاریکی آنکھیں منگتی ہے پھر میرا نام کیا ہے !
عادت ہاتھوں کے ملاپ پر کِھلتی ہے
گود تلاطم سے ہری ہوتی ہے
ہاتھوں کے بھنور سے انسان ٹلا ہے
چاند اپنی سادہ لوحی سے تمھیں قتل کرے گا
بہروپئے کو کہیں لے جاؤ
خاموشی جبر ہوئی جاتی ہے
اقرار کے ہاتھوں بیقراری بانٹوں
ہم خاک اچھے ہیں
چراغ کے عوض گھر دیں گے ، گھر کے عوض چراغ دیں گے
تیری مزدوری ہم تمہیں ضرور دیں گے

مٹی کا گھونگھٹ چاروں طرف پھیلا سمندر ہے
مَن مَن آنکھیں رکھتے ہو اور زرہ بھر پاؤں ۔۔۔
دیکھو میری نگری !
سانپ کے سر پر دِیا جلاتی ہوں
پہنچوں تو جنگل جاگے ، پھنکاری ہے
شاخ پر آدھا پُھول جاگا ہے ، تھوڑا سا دِل ہوگا
صُبح کے چراغ کی مانند آ میں تُجھے بُھول جاؤں
چاند کی چُغلی تو چاندنی کھاتی ہی رہتی ہے
چاند گہن سے مائیں ڈرتی ہیں ۔۔۔۔
سمندر کو ہاتھ پر رکھ کے دیکھیں تو کوئی رنگ نہیں ہوتا
مایوُسی کے خالی پیالے کتنے لبوں تک !
سنگِ میل کا مُسافر کِس تکلف پہ قربان ہے
ایک چاند مانگ کر مُفلس ہوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایک چاند مانگ کر مُفلس ہوئی

انتظار سے ٹُوٹا آدمی دیوار سے دُور تک جا چُکا ہے
وقت شرمندہ ہوتا ہے !
جس وقت لوگ جسم کے تِلوں پر خوشیاں رکھتے ہیں
مٹی سے بے تاریخ خط اُٹھایا
یہ بھی کوئی وقت تھا جو بِن مانگی بھیک کی طرح ملتا ہے
جب لوگ میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ بُھول جاتے ہیں
میں سوچتی ہوں
یہ پھر پُھول مارنے کی تیاری میں ہیں
ہزاروں لبوں کے عوض مُسکراتے ہیں

آنکھ پُکاری ! بہت غریب ہوں میں
سوچ پہ چہل قدمی نہ کرو تو اچھا ہے
یہاں نمستے ، مُسلمان ہے
کرنوں پر چلتی چلتی اگر سُورج تک گئی
تو دُھوپ سے نہا لوں گی
مٹی آج چھینک رہی ہے
رفو ہے زباں ہماری
جُھوٹ میں دُھت بٹن تمہارے سینے سے کھیل رہے ہیں
دہلیزوں پہ جمی دستکیں کسے بُلاتی ہیں
ہم ایک پیار کے عادی مُجرم ہیں۔۔۔۔

پرندے اپنے دُکھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے
سمندر کی حد میں کانٹا ڈال دیا جاتا ۔۔۔۔
وہ کالے دروازے پہ چاک داغ جاتا
مالی خُدا سے قریب تر ہو جاتا
اندیشوں کے پائنچے پَیروں کو کھری کھری سُناتے
کل پہ گھڑیاں لباس تبدیل کر دیں گی
دِن کو جوڑتے ہوئے میری اُنگلی پھنس جاتی
سفر کے نُکڑ پر بد کلام ٹہل رہے ہیں
لکڑی سے بندھا کپڑا سارے مکان سے سوال کرتا
زندہ گالی بن کر زندگی پہ قدم رکھنا۔۔۔۔
تمہارے پاس تو تمہارے دو ہاتھ بیٹھے ہیں
پیاس دیواروں سے اُونچی نہ ہونے پائے
ورنہ بچپن کے موزوں کا رنگ میری ماں کو بھی یاد نہیں
آجا کے کنویں سامنے رکھ دیتے ہو
میرے پاس کوئی رَسی تو نہیں
تلاش سیاحوں کی آنکھوں میں جھانکتی ہے




--××---------------××--




 
اتنا زیادہ لکھ لینے پر مبارک باد ،، فکر کی بات نہیں‌ کبھی ان الفاظ‌ کو معنیٰ‌ بھی ملیں‌ گے ۔۔ لیکن ایک بات اتنی آزاد نظمی ذرا شاعری کی معنویت سے جدا ہو جاتی ہے ۔۔ کوشش کر کے الفاظ‌ کو ردہم ( نظم ) دینے کی کوشش کریں‌ ۔۔۔ ویسے آپ کے پاس خیال کی کمی نہیں‌ ۔۔ اور الفاظ‌ کا چناو بھی اچھا ہے اور اس تمثیل گری پر اگر آ پ افسانہ کہیں‌ تو شاہکار کے قریب تر ہوگا ۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد احمد خان نے کہا:
اتنا زیادہ لکھ لینے پر مبارک باد ،، فکر کی بات نہیں‌ کبھی ان الفاظ‌ کو معنیٰ‌ بھی ملیں‌ گے ۔۔ لیکن ایک بات اتنی آزاد نظمی ذرا شاعری کی معنویت سے جدا ہو جاتی ہے ۔۔ کوشش کر کے الفاظ‌ کو ردہم ( نظم ) دینے کی کوشش کریں‌ ۔۔۔ ویسے آپ کے پاس خیال کی کمی نہیں‌ ۔۔ اور الفاظ‌ کا چناو بھی اچھا ہے اور اس تمثیل گری پر اگر آ پ افسانہ کہیں‌ تو شاہکار کے قریب تر ہوگا ۔۔
سارہ شگفتہ ایک مشہور شاعرہ تھیں جنہوں نے 1980 کے اوائل میں خود کشی کر لی تھی۔ یہ ان کا کلام ہماری باس صاحبہ جنابہ سیدہ شگفتہ پیش کر رہی ہیں
 
Top