فارسی شاعری آنان کہ وصلِ یار ہمی آرزو کنند - غالب دہلوی

حسان خان

لائبریرین
آنان که وصلِ یار همی آرزو کنند
باید که خویش را بگدازند و او کنند

وصلِ یار کے طالبوں کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو گداز کر دیں (ترکِ خودی کریں) اور سرتاپا وہ (یار) بن جائیں۔
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

وقت است کز روانیِ مَی، ساقیانِ بزم
پیمانه را حسابِ لبِ آب‌جو کنند

مناسب ہے کہ ساقیانِ بزم، شراب کو اس روانی سے بہائیں کہ اُن کے پیمانے (جس سے وہ شراب ناپ کر دیتے ہیں) ایک ندی کے کنارے کی طرح وسیع ہوں۔
یعنی ساقی شراب ندی کی طرح بہائیں جہاں لوگ پیتے جاتے ہیں اور وہ ختم نہیں ہوتی۔

می‌نالی از نَی‌ای که به ناخن شکسته‌اند
ای وای، ناخنی به دلت گر فرو کنند

لغت: "نے" = قضب۔
اگر چھلتر تیرے ناخن میں چبھ جائے تو تو فریاد کرنے لگتا ہے۔ اگر کوئی ناخن تیرے دل میں چبھے تو پھر کیا ہو۔
ناخن کا دل میں "اتر جانا" انتہائی درد کی علامت ہے۔ جو شخص معمولی دکھ سہہ نہیں سکتا، وہ عشق کا درد کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ اُس میں تو دل میں ناخن چبھونا ہوتا ہے۔

دیوانه وجهِ رشته ندارد، مگر همان
تاری کشد ز جیب که چاکی رفو کنند

دیوانے کے پاس دھاگے کی کہاں گنجائش؟ ہاں یہی ہے کہ گریباں سے کوئی تار کھینچ لے اور کوئی چاک (مثلاؐ چاک دامن رفو کرا لے)، یعنی چاکِ عشق رفو نہیں ہو سکتا۔ بلکہ رفو کی کوشش ایک اور چاک پیدا کر دیتی ہے۔

خونِ هزار ساده به گردن گرفته‌اند
آنان که گفته‌اند نکویان نکو کنند

لغت: "سادہ" = محبوب کو کہتے ہیں۔ یہاں بھولا بھالا عاشق مراد ہے۔ "نکویاں" = حسیں رو۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ معشوق وفا کرتے ہیں وہ ہزار سادہ لوح بھولے بھالے لوگوں کے خون کو اپنی گردن پر لے لیتے ہیں۔
(کیونکہ ان کے کہنے پر کئی نادان اعتبار کر کے اپنی جانیں عشق میں گنوا دیتے ہیں۔)

لب‌تشنه‌ جویِ آب شمارد سراب را
می‌زیبد ار به هستیِ اشیا غلو کنند

ایک پیاسا سراب کو جوئے آب سمجھ لیتا ہے، چنانچہ اگر کائنات کی اشیاء کے وجود کے بارے میں مبالغے سے کام لیا جائے تو بالکل جائز ہو گا۔
انسان فطرتاً حقیقت کی تلاش میں سخت بے تاب رہتا ہے اور یہ تشنگی اُسے سراب کو پانی سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی جستجو اور تڑپ کے باعث وہ مادی کائنات کے مظاہرات کو حقیقت سمجھ کر دھوکا کھا جاتا ہے۔
عرفی نے اسی تشنگی اور بے تابی کے بارے میں کمال کا شعر کہا ہے:
ز نَقصِ تشنه‌لبی دان، به عقلِ خویش مناز
دلت فریب گر از چشمهٔ سراب نخورد
یعنی اگر تیرے دل نے سراب سے دھوکا نہیں کھایا اور اُسے پانی نہیں سمجھا، تو نازاں نہ ہو، در اصل یہ تیری پیاس کے کم ہونے کی دلیل ہے، ورنہ تو سراب پر فوراً لپک پڑتا۔

از بس به شوقِ رویِ تو مست است نوبهار
بویِ مَی آید ار دهنِ غنچه بُو کنند

لغت: "بو کردن" = سونگھنا
نوبہار تیرے دیدار کے شوق میں اس قدر مست ہے کہ اگر کلی کے منہ کو سونگھیں تو اُس سے شراب کی بو آئے گی۔

پیمانه را به ماتمِ صهبا نشاندن است
ای وای گر ز خاکِ وجودم سبو کنند

زندگی بھر شراب میسر نہ آئی، اب مر کر خاک ہو گئے۔ اب اس خاک سے اگر پیالہ (سبو) بنایا گیا تو وہ بھی خالی رہے گا کیونکہ شراب نہیں ہو گی۔ چنانچہ پیمانہ جس سے شراب ناپ کر دیتے ہیں، گویا ماتمِ شراب کرے گا۔
اپنی محرومیِ قسمت کا تذکرہ کیا ہے۔

آلودهٔ ریا نتوان بود غالبا
پاک است خرقه‌ای که به مَی شست و شو کنند

غالب! ہم آلودۂ ریا نہیں ہو سکتے، کیونکہ جس گدڑی کو شراب سے دھویا جائے وہ پاک ہو جاتی ہے۔
شراب نہ پینے والے مصنوعی پارسائی کا شکار ہوتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک اس رقم کی ریاکاری سے شراب پینا بہتر ہے کہ وہ اس قسم کی آلودگیوں سے انسان کو پاک رکھتی ہے۔

(غالب دهلوی)

(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
دیوانه وجهِ رشته ندارد، مگر همان
تاری کشد ز جیب که چاکی رفو کنند

دیوانے کے پاس دھاگے کی کہاں گنجائش؟ ہاں یہی ہے کہ گریباں سے کوئی تار کھینچ لے اور کوئی چاک (مثلاؐ چاک دامن رفو کرا لے)، یعنی چاکِ عشق رفو نہیں ہو سکتا۔ بلکہ رفو کی کوشش ایک اور چاک پیدا کر دیتی ہے۔
میری نظر میں مندرجۂ بالا بیت کا مفہوم یہ ہے:
دیوانے کے پاس دھاگے [کے حُصول] کی [کوئی] راہ یا ذریعہ و سبب نہیں ہے۔۔۔ اِلّا یہ کہ وہ اُسی دھاگے کو [اپنے] گریبان سے کھینچ لے کہ جس سے [مردُم اُس کا] کوئی چاک رفو کرتے ہیں۔
 
Top