محمد خرم یاسین
محفلین
یونیورسٹی سے گھر واپسی کا ارادہ کرکے گیٹ کی جانب بڑھا تو ایک آم پاؤں سے ٹکرایا۔۔۔یہ میرے سر پر موجود گھنے آم کے درخت سے ٹوٹ کر گرا تھا۔ اسے اٹھانے کا ارادہ کیا، مگر پھر خود کو روک لیا۔ معلوم تھا کہ جو پھل قبل از وقت گرتا ہے، اکثر کرم زدہ (کیڑا لگا) ہوتا ہے — اور یہ مشاہدہ برسوں پر محیط تجربے کا نچوڑ ہے کہ آندھی طوفان٫ برسات اور پکنے کے وقت سے قبل گرنے والے بیشتر آم ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔کرم زدہ اور پھسپھسے۔۔۔
پہلا خیال یہ آیا کہ جو بھی درخت (یعنی اپنی اصل، اپنی جڑ، اپنی برادری، اپنی فطری ترتیب) سے کٹ کر، الگ ہو کر زمین پر گرتا ہے، وہ اکثر کسی داخلی کمزوری یا خارجی مصیبت کا شکار ہوتا ہے۔ یہ گرا ہوا آم، محض ایک پھل نہیں بلکہ ایک علامت تھا — اُس فرد یا نظریے کی جو نظامِ فطرت سے ہٹ جائے تو یا تو روند دیا جاتا ہے یا بوسیدہ ہو جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیڑا آتا کہاں سے ہے اور کیا ہر ایک پھل کو لگ سکتا ہے ؟ یہاں بات صرف آم یا پھل کی نہیں، ہر انسان، ہر معاشرہ، ہر فکر، ہر تمدّن کے اندر یہی سوال چھپا ہے۔ کیڑا باہر سے آتا ہے، لیکن راہ اندر سے پاتا ہے— کبھی حرص و ہوس، کبھی خوف و خطر، کبھی دولت و شہرت، کبھی احساسِ برتر و کم تر کے ذریعے — جو کسی نرم گوشے کو ڈھونڈتا ہے اور وہیں اپنے وجود کے انڈے رکھ دیتا ہے۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والا جوہر، اندر سے کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔
اور یہی دوسری سچائی بھی ہے کہ جس پھل میں کوئی "نرم جگہ" نہیں، کوئی رعایت نہیں، کوئی ضعف نہیں — وہاں کیڑا نہیں لگتا۔ زندگی کا کیڑا ہمیشہ اُسی پھل کو چنتا ہے جو یا تو وقت سے پہلے پختگی کا دعویٰ کرے، یا اپنی جلد پر زمانے کی دھوپ، بارش اور آندھی طوفان کو نہ سہہ سکے۔ انسانی زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ گرنے کے بعد لوگ آپ کو چننے سے پرہیز کرتے ہیں، حقارت سے دیکھتے ہیں اور ٹھوکر مار کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
پہلا خیال یہ آیا کہ جو بھی درخت (یعنی اپنی اصل، اپنی جڑ، اپنی برادری، اپنی فطری ترتیب) سے کٹ کر، الگ ہو کر زمین پر گرتا ہے، وہ اکثر کسی داخلی کمزوری یا خارجی مصیبت کا شکار ہوتا ہے۔ یہ گرا ہوا آم، محض ایک پھل نہیں بلکہ ایک علامت تھا — اُس فرد یا نظریے کی جو نظامِ فطرت سے ہٹ جائے تو یا تو روند دیا جاتا ہے یا بوسیدہ ہو جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیڑا آتا کہاں سے ہے اور کیا ہر ایک پھل کو لگ سکتا ہے ؟ یہاں بات صرف آم یا پھل کی نہیں، ہر انسان، ہر معاشرہ، ہر فکر، ہر تمدّن کے اندر یہی سوال چھپا ہے۔ کیڑا باہر سے آتا ہے، لیکن راہ اندر سے پاتا ہے— کبھی حرص و ہوس، کبھی خوف و خطر، کبھی دولت و شہرت، کبھی احساسِ برتر و کم تر کے ذریعے — جو کسی نرم گوشے کو ڈھونڈتا ہے اور وہیں اپنے وجود کے انڈے رکھ دیتا ہے۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والا جوہر، اندر سے کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔
اور یہی دوسری سچائی بھی ہے کہ جس پھل میں کوئی "نرم جگہ" نہیں، کوئی رعایت نہیں، کوئی ضعف نہیں — وہاں کیڑا نہیں لگتا۔ زندگی کا کیڑا ہمیشہ اُسی پھل کو چنتا ہے جو یا تو وقت سے پہلے پختگی کا دعویٰ کرے، یا اپنی جلد پر زمانے کی دھوپ، بارش اور آندھی طوفان کو نہ سہہ سکے۔ انسانی زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ گرنے کے بعد لوگ آپ کو چننے سے پرہیز کرتے ہیں، حقارت سے دیکھتے ہیں اور ٹھوکر مار کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد خرم یاسین