آمریت

Abdul Azeem Azmi

محفلین
بقلم: عبدالعظیم اعظمی



صبح مدرسہ جاتے ہوئے وہ انتہائی اُداس تھا کیونکہ آج تین سال بعد اُسکے ابّو سعودیہ سے واپس آرہے تھے۔ جب سے اُسے پتہ چلا تھا کہ اُسکے ابّو گھر آرہیں وہ انتہائی خوش تھا، آج مدرسہ جاتے ہوئے اس کی اُداسی اسی خوشی سے جڑی تھی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ جب اُسکے ابّو گھر آئیں تو وہ اُنکا استقبال کرنے کیلئے گھر میں موجود رہے مگر اسکی ماں نے زبردستی اُسے مدرسہ بھیج دیا، کیونکہ وہ حفظ کررہا تھا اور حفظ کرنے والوں کو جہاں مختلف قسم کی مراعات ملتی ہیں، وہیں ان سے انکی آزادی چھین لی جاتی ہے۔
اسکی یہ اُداسی مدرسہ جانے بعد بھی باقی رہی ۔
"منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، گھر سے مار کھا کر آئے ہو کیا؟" خورشید جو اُسکا قریبی دوست تھا ہنستے ہوئے پوچھا۔
"نہیں یار، بس ایسے ہی بلاوجہ موڈ خراب ہے ، شاید سوکر اٹھا ہوں تبھی" اسنے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
تبھی مولوی کریم الدین جو اُسکے استاذ تھے انکی آواز آئی "عفنان آموختہ یاد ہوا کہ نہیں "٬
"جی مولوی صاحب ابھی نہیں"، ڈرتے ہوئے اسنے جواب دیا ۔
"تو بات کیوں کررہے ہو ، عقل ہے کہ نہیں، نہ سبق ڈھنگ سے یاد رہتا ہے اور نہ ہی آموختہ، اور ہر وقت اِدھر اُدھر منہ لگائے بات کرتے رہتے ہو، میں نے پہلے ہی کہا تھا حفظ تمہارے بس کی بات نہیں ، تعلیم چھوڑو اور جاکر کہیں پہ کام وغیرہ کرو، پتہ نہیں کیسے ماں باپ ہیں جو تمہیں پڑھا رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں" مولوی کریم الدین نے تیز آواز میں ڈانٹا۔
انکے جواب میں اسنے صرف سر کو جھکا لیا، مسلسل اپنی ناکامیوں اور اپنے اوپر پڑنے والی ڈانٹ پھٹکار سے اُسکا دل اتنا مردہ ہوچکا تھا کہ اتنے سخت الفاظ پر بھی اُسکا دماغ مولوی صاحب کے خلاف نہیں جاپایا، یا پھر یہ جبرا کروائی جانے والی عزت کی وجہ سے تھا ۔

تھوڑی دیر بعد خورشید نے پھر سے سرگوشی کی، "یار تم بس پڑھو، تم پڑھ سکتے ہو ان سب باتوں پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں"،
جواب میں اسنے بس ہلکے سے سر کو اثبات میں ہلا دیا ۔
شام میں جب مدرسہ سے چھٹی ہوئی تو اُسکی ساری اُداسی چھٹ چکی تھی، اور وہ گھر جاتے ہوئے چہرے پر خوشی لیے ہوئے تھا کیونکہ اُسکے ابّو گھر پر اُسکا انتظار کررہے تھے۔
_______________

امتحان قریب آچکا تھا، کلاس میں موجود ہر لڑکا "پوزیشن" کا خطاب پانے کیلئے جی توڑ محنت کررہا تھا، بلکہ پورا مدرسہ اس وقت کسی مشین کی طرح مسلسل محنت کر رہا تھا، مگر وہ خاموش بیٹھا ہوا تھا اس سے محنت نہیں ہو پا رہی تھی، شاید اُسکا دل پڑھائی سے اُچاٹ ہوگیا تھا،
خورشید جو اُسے غور سے دیکھ رہا تھا، شاید وہ کچھ کچھ سمجھ چکا تھا کہ اُسکے ساتھ کیا چل رہا ہے، اسنے تسلی آمیز انداز میں اُسکا حوصلہ بڑھایا اور آخر کار وہ بھی محنت کرنے لگا،
امتحان کب آیا کب چلا گیا اُسے خبر ہی نہیں ہوئی، اُسے بس اس بات کا خوف کھائے جارہا تھا کہ کہیں مدرسہ اُسے باہر نہ نکال پھینکے، آخر چار سال تک مدرسہ نے اُسے برداشت کرلیا تھا،برداشت اس لیے کہ عام لڑکوں کی طرح وہ ذہین نہیں تھا اور اسے بہت مشکل سے یاد ہوا کرتا تھا، اور مدرسہ کا ظاہری تو نہیں مگر باطنی طور پر یہ اصول تھا مدرسہ میں صرف ذہین طالب علموں کیلئے جگہ تھی تاکہ مدرسہ کی پہچان کھونے نہ پائے، ہاں اگر وہ لڑکا ناظمِ مدرسہ یا کسی استاذ کے گھر کا ہے یا کسی دولت مند شخص سے اس کا تعلق ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ، کوئی قانون نہیں اور کسی طرح کا کوئی جبر نہیں۔

__________________

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی چھٹی اُسکے لیے کچھ خاص نہیں رہی، اور پھر مدرسہ میں داخلہ کا وقت آگیا اور وہ اچھی طرح تیار ہوکر اپنے ابّو کے ساتھ مدرسہ کی جانب چل پڑا، مدرسہ میں داخل ہوتے ہی مولوی کریم الدین پر نگاہ پڑی جو لڑکوں کا اندراج کر رہے تھے،
"السلام علیکم، اور مولوی صاحب سب خیریت ہے" شہباز صاحب جو اُسکے والد تھے تعظیم کے ساتھ کہا کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ اُنکا بیٹا اُنہیں کی شاگردی میں ہے،
"وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، الحمدللہ سب خیریت ہے، آپ بتائیں کیسے آنا ہوا"،
"بس یہی عفنان کا داخلہ کروانا تھا، ماشاء اللہ 25 پارہ حفظ کرچکا ہے، مولوی صاحب ہوسکے تو اسی سال اسکا حفظ مکمل کروا دیجئے گا"
" معاف کیجئےگا مگر میں اسکا داخلہ نہیں لے سکتا کیونکہ مفتی صاحب نے منع کیا ہوا ہے"، مولوی کریم الدین نے اپنے چہرے پر شرمندگی لاتے ہوئے کہا،
"کیا بات کررہے ہیں آپ؟ بھلا کیوں آپ میرے بچے کا داخلہ نہیں لیں گے ؟ یہ کیا بات ہوئی؟"۔ شہباز صاحب نے حواس باختہ ہوکر پوچھا،
"میں کچھ نہیں جانتا، آپ کیلئے بہتر ہوگا کہ آپ ناظم صاحب سے بات کر لیں وہ اس وقت دفتر میں موجود ہیں "
___

"السلام علیکم، مفتی صاحب"
" وعلیکم السلام ، ارے آپ شباز صاحب ، آئیے آئیے ، کہیے کیسے آنا ہوا ؟"
" مفتی صاحب میں نے سنا ہے آپ نے میرے بچے کا داخلہ لینے سے منع کیا ہوا ہے"
"ہاں بالکل صحیح سنا ہے آپ نے"،
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیوں ؟" شباز صاحب نے مضطرب انداز میں کہا،
" دیکھئے آپ کا بچہ پڑھنے میں انتہائی کمزور ہے ، اور شرارت بھی بہت کرتا ہے، حفظ کرنا اسکے لیے مناسب نہیں"، مفتی حبیب اللہ صاحب جو گاؤ تکیہ لگائے پیر پھیلا کر بیٹھے ہوئے تھے انتہائی پر سکون انداز میں جواب دیا، ۔
"مفتی صاحب یہ 25 پارہ کر چکا ہے، صرف 5 پارہ بچا ہے ،جیسے اسنے 25 پارہ کیا ہے ویسے ہی یہ بقیہ 5 پارہ بھی کر لےگا، اور جہاں تک بات شرارت کی ہے تو انشاءاللہ آپ کو آئندہ شکایت کا موقع نہیں ملےگا "
"دیکھئے شہباز صاحب جب آپ اپنے بچے کا داخلہ کروانے آئے تھے تب بھی میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا بچہ حفظ کیلئے موزوں نہیں ہے ، بہتر ہوگا آپ اسے کسی کام وغیرہ میں لگا دیں اسی میں آپ کا فائدہ ہے"
"مفتی صاحب برائے کرم میرے بچے کا داخلہ لے لیجئے ، اپنے نقصان اور فائدہ کا میں زمہ دار ہوں " شباز صاحب نے انتہائی لجاجت کے ساتھ کہا ۔
" معاف کیجئے ! مگر میں آپ کے بچے کا داخلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اس کا حافظہ بہت کمزور ہے ، اور اگر یہ حافظ ہو بھی گیا تو یاد نہیں رکھ سکتا ، اور تراویح بھی نہیں پڑھا پائیگا اس لیے میں اسکا داخلہ نہیں لے سکتا " مفتی حبیب اللہ نے قطعی انداز میں کہا،


آخر کار وہ دونوں باپ بیٹے مایوس ہوکر اپنے گھر لوٹ آئے اور دو سال بعد عفنان کا دوبئی میں ڈرائیونگ کا ویزہ لگ گیا ، اور وہ گھربار چھوڑ کر ذمے داری کا بوجھ لیے پردیس چلا گیا ۔۔۔



*تمام شد* ۔۔
 
سادہ الفاظ میں لکھی عمدہ تحریر، ماں باپ کی اولاد پر بوجھ بھی بن جاتی ہیں ، اور پھر رہی سہی کسر تعلیمی نظام اور اساتذہ کا رویہ پوری کر دیتا ہے، بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی بجائے صرف رٹے پر زور رہتا ہے .
 
سادہ الفاظ میں لکھی عمدہ تحریر، ماں باپ کی امیدیں اولاد پر بوجھ بھی بن جاتی ہیں ، اور پھر رہی سہی کسر تعلیمی نظام اور اساتذہ کا رویہ پوری کر دیتا ہے، بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی بجائے صرف رٹے پر زور رہتا ہے .
 

محمداحمد

لائبریرین
جہاں پچیس سپارے ہو گئے تھے وہاں پانچ اور ہو جاتے۔

ایسے بھی کیا اصول کہ پچیس سپارے تک خیال نہیں آیا اور آخر کے پانچ سپاروں پر ہو ش آگیا۔
 
Top