آغاز بتاتا ہے کہ کچھ ہو کے رہے گا

میاں وقاص

محفلین
آغاز بتاتا ہے کہ کچھ ہو کے رہے گا
انجام سے پہلے ہی کوئی رو کے رہے گا

اندر کا بشر تنگ ہے آلائش_جاں سے
ہستی کے سبھی داغ کبھی دھو کے رہے گا

بیدار رہے گا، تو یہ روتا ہی رہے گا
خاموش یقیناً یہ ذرا سو کے رہے گا

دہقاں ذرا سا بھی تو مایوس نہیں ہے
اس بانجھ اراضی میں بھی کچھ بو کے رہے گا

حالات کی جھولی میں ہی کیوں بیٹھ نہ جایں؟
جب حال ہمارا یہی رو دھو کے رہے گا

اب دل کو بھروسہ نہ رہا خود پہ بھی شاہین
یادوں کا خزانہ بھی کہیں کھو کے رہے گا

حافظ اقبال شاہین
 
Top