جاسم محمد
محفلین
آصف زرداری کا انٹرویو ’سینسر‘: ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے‘
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان میں پیر کی شب نجی چینل پر سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو کی نشریات روکے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں سینسر شپ اور صحافتی آزادی پر بحث چھڑ گئی ہے۔
یہ انٹرویو نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں پیر کی شب نشر کیا جا رہا تھا تاہم اسے چند منٹ کے بعد ہی روک دیا گیا۔
پروگرام کے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اُنھیں ادارے کی طرف سے صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ان پر دباؤ تھا اس لیے یہ پروگرام نشر نہیں کیا گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ان کا پروگرام رکوانے میں حکومت یا پیمرا کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’شاید یہ پروگرام ان اداروں یا افراد کی طرف سے رکوایا گیا ہے جو خود کو حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ابھی وہ اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ آصف زرداری آج کل نیب کی تحویل میں ہیں اور اپنے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد وہ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ انٹرویو اسی دوران ریکارڈ کیا گیا تھا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری جو اس وقت ملزم کی حیثیت سے نیب کی تحویل میں ہیں ان کے انٹرویو کو روک دیا گیا جبکہ اس کے برعکس کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان جو کہ ایک دہشت گرد ہےاور سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، ان کا انٹریو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
حامد میر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو اس پر اعتراض تھا کہ آصف علی زرداری چونکہ نیب کی تحویل میں ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نہیں چلانا چاہیے تاہم ان کے مطابق وزارت اطلاعات کو یہ باور کروایا گیا کہ آصف علی زرداری رکن قومی اسمبلی ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں نہ صرف تقریر کرتے ہیں بلکہ وہاں پر موجود صحافیوں سے گفتگو بھی کرتے ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نیب کے دفتر میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں کیا ہے۔
حامد میر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ نجی چینل ڈان کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ میں آصف زرداری کے انٹرویو روکے جانے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے کیمرے کے سامنے بیٹھے تھے جب انھیں ایک فون کال موصول ہوئی کہ پروگرام کی ٹیم پر دباؤ ہے لہذا ان کا انٹرویو نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
اطلاعات و نشریات سے متعلق وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان سے اس بارے میں بات کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے انٹرویو روکے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر لکھا ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔ صدر زرادری کا حامد میر کے ساتھ انٹرویو سنسر کر دیا گیا۔ ضیا کے پاکستان، مشرف کے پاکستان اور نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ وہ آزاد ملک نہیں رہا جس کا قائد نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر احسن اقبال نے ٹوئٹر پر لکھا ’کیپیٹل ٹاک اچانک سکرین سے غائب ہو گیا کہیں اسے بھی تو اے این ایف نے گرفتار نہیں کر لیا؟
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے لکھا ’سیلیکٹڈ حکومت میں اس بات کا انتخاب کیا جاتا ہے کہ کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا۔ حامد میر کے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ انٹرویو کو سینسر کرنا قابل مذمت ہے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا ’ پاکستان میں آزادی اظہار کی یہ حالت ہے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان میں پیر کی شب نجی چینل پر سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو کی نشریات روکے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں سینسر شپ اور صحافتی آزادی پر بحث چھڑ گئی ہے۔
یہ انٹرویو نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں پیر کی شب نشر کیا جا رہا تھا تاہم اسے چند منٹ کے بعد ہی روک دیا گیا۔
پروگرام کے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اُنھیں ادارے کی طرف سے صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ان پر دباؤ تھا اس لیے یہ پروگرام نشر نہیں کیا گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ان کا پروگرام رکوانے میں حکومت یا پیمرا کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’شاید یہ پروگرام ان اداروں یا افراد کی طرف سے رکوایا گیا ہے جو خود کو حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔‘

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ابھی وہ اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ آصف زرداری آج کل نیب کی تحویل میں ہیں اور اپنے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد وہ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ انٹرویو اسی دوران ریکارڈ کیا گیا تھا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری جو اس وقت ملزم کی حیثیت سے نیب کی تحویل میں ہیں ان کے انٹرویو کو روک دیا گیا جبکہ اس کے برعکس کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان جو کہ ایک دہشت گرد ہےاور سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، ان کا انٹریو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
حامد میر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو اس پر اعتراض تھا کہ آصف علی زرداری چونکہ نیب کی تحویل میں ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نہیں چلانا چاہیے تاہم ان کے مطابق وزارت اطلاعات کو یہ باور کروایا گیا کہ آصف علی زرداری رکن قومی اسمبلی ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں نہ صرف تقریر کرتے ہیں بلکہ وہاں پر موجود صحافیوں سے گفتگو بھی کرتے ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نیب کے دفتر میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں کیا ہے۔
حامد میر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ نجی چینل ڈان کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ میں آصف زرداری کے انٹرویو روکے جانے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے کیمرے کے سامنے بیٹھے تھے جب انھیں ایک فون کال موصول ہوئی کہ پروگرام کی ٹیم پر دباؤ ہے لہذا ان کا انٹرویو نہیں کیا جا سکتا۔

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
اطلاعات و نشریات سے متعلق وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان سے اس بارے میں بات کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے انٹرویو روکے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر لکھا ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔ صدر زرادری کا حامد میر کے ساتھ انٹرویو سنسر کر دیا گیا۔ ضیا کے پاکستان، مشرف کے پاکستان اور نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ وہ آزاد ملک نہیں رہا جس کا قائد نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔‘

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر احسن اقبال نے ٹوئٹر پر لکھا ’کیپیٹل ٹاک اچانک سکرین سے غائب ہو گیا کہیں اسے بھی تو اے این ایف نے گرفتار نہیں کر لیا؟

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے لکھا ’سیلیکٹڈ حکومت میں اس بات کا انتخاب کیا جاتا ہے کہ کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا۔ حامد میر کے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ انٹرویو کو سینسر کرنا قابل مذمت ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا ’ پاکستان میں آزادی اظہار کی یہ حالت ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER