آصف زرداری کا انٹرویو ’سینسر‘: ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے‘

جاسم محمد

محفلین
آصف زرداری کا انٹرویو ’سینسر‘: ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے‘
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
_107706126_mediaitem107706125.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان میں پیر کی شب نجی چینل پر سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو کی نشریات روکے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں سینسر شپ اور صحافتی آزادی پر بحث چھڑ گئی ہے۔

یہ انٹرویو نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں پیر کی شب نشر کیا جا رہا تھا تاہم اسے چند منٹ کے بعد ہی روک دیا گیا۔‬

پروگرام کے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اُنھیں ادارے کی طرف سے صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ان پر دباؤ تھا اس لیے یہ پروگرام نشر نہیں کیا گیا۔‬

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ان کا پروگرام رکوانے میں حکومت یا پیمرا کا کوئی ہاتھ نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’شاید یہ پروگرام ان اداروں یا افراد کی طرف سے رکوایا گیا ہے جو خود کو حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔‘

_107691562_hamidmir.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا‬ تو اُنھوں نے کہا کہ ابھی وہ اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‬

خیال رہے کہ آصف زرداری آج کل نیب کی تحویل میں ہیں اور اپنے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد وہ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ انٹرویو اسی دوران ریکارڈ کیا گیا تھا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری جو اس وقت ملزم کی حیثیت سے نیب کی تحویل میں ہیں ان کے انٹرویو کو روک دیا گیا جبکہ اس کے برعکس کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان جو کہ ایک دہشت گرد ہےاور سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، ان کا انٹریو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔‬

حامد میر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو اس پر اعتراض تھا کہ آصف علی زرداری چونکہ نیب کی تحویل میں ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نہیں چلانا چاہیے تاہم ان کے مطابق وزارت اطلاعات کو یہ باور کروایا گیا کہ آصف علی زرداری رکن قومی اسمبلی ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں نہ صرف تقریر کرتے ہیں بلکہ وہاں پر موجود صحافیوں سے گفتگو بھی کرتے ہیں اس لیے ان کا انٹرویو نیب کے دفتر میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس میں کیا ہے۔

حامد میر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ نجی چینل ڈان کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ میں آصف زرداری کے انٹرویو روکے جانے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے کیمرے کے سامنے بیٹھے تھے جب انھیں ایک فون کال موصول ہوئی کہ پروگرام کی ٹیم پر دباؤ ہے لہذا ان کا انٹرویو نہیں کیا جا سکتا۔

_107706334_hamiddawn.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
‬اطلاعات و نشریات سے متعلق وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان سے اس بارے میں بات کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔ ‬

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے انٹرویو روکے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔‬

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر لکھا ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔ صدر زرادری کا حامد میر کے ساتھ انٹرویو سنسر کر دیا گیا۔ ضیا کے پاکستان، مشرف کے پاکستان اور نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ وہ آزاد ملک نہیں رہا جس کا قائد نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔‘

_107691566_bilawalb.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر احسن اقبال نے ٹوئٹر پر لکھا ’کیپیٹل ٹاک اچانک سکرین سے غائب ہو گیا کہیں اسے بھی تو اے این ایف نے گرفتار نہیں کر لیا؟

_107706119_ahsaniqbal.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے لکھا ’سیلیکٹڈ حکومت میں اس بات کا انتخاب کیا جاتا ہے کہ کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا۔ حامد میر کے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ انٹرویو کو سینسر کرنا قابل مذمت ہے۔‘

_107706329_asfandyarwali.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا ’ پاکستان میں آزادی اظہار کی یہ حالت ہے۔‘

_107706330_asma1.png

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
 

جاسم محمد

محفلین
حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری جو اس وقت ملزم کی حیثیت سے نیب کی تحویل میں ہیں ان کے انٹرویو کو روک دیا گیا جبکہ اس کے برعکس کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان جو کہ ایک دہشت گرد ہےاور سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے، ان کا انٹریو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔‬
وہ انٹرویوز اعتراف جرم کیلئے نشر کئے گئے تھے۔ اس لئے نہیں کہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے جرائم کا دفاع کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سابق صدر آصف زرداری کا ٹی وی انٹرویو کس نے روکا؟
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ کے میزبان حامد میر نے کہا کہ جنہوں نے انٹرویو رکوایا ہے ان میں ہمت نہیں کہ وہ سر عام اس بات کا اعتراف کر سکیں۔

محمد ثاقب تنویر
پروڈیوسر، اسلام آباد

انڈپینڈنٹ اردو نے جب جیو ٹی وی کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور پوچھا کہ جیو اس معاملے پر اپنا ردعمل دینا چاہتا ہے تو انتظامیہ کے اہم رکن کی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا گیا کہ اس معاملے پر ’اگر ردعمل دے سکتے تو انٹرویو نہ چلا دیتے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ اس معاملے پر بولنا چاہتے ہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے ان کے ادارے کا کوئی نقصان ہو۔‘

پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک شو جو کہ ریکارڈ ہوا ہو اور جس کے ٹکرز چلے ہوں اسے ایک دم بند کر دیا جائے؟‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں پروگرام کو رکوانے کے پیچھے کون ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پروگرام ’حکومت نے رکوایا اور حکومت کے ماتحت اداروں نے رکوایا۔‘

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسی معاملے پر ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’سلیکٹڈ حکومت صرف سلیکٹڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔‘

الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی پیمرا کے جنرل مینیجر فخرالدین مغل سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کو اس بارے میں علم نہیں ہے اور اگر پروگرام رکا ہے تو چینل کی انتظامیہ نے خود روکا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’پیمرا جب بھی کوئی مواد روکتا ہے تو تحریری طور پر روکتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی سے حکومتی موقف جاننے کی کوشش کی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سینیئر صحافی روؑف کلاسرا نے اس معاملے پر ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ نیب کی حراست میں اور جسمانی ریمانڈ پر ملزم ٹی وی پر آتا ہے اور جمہوریت اور شفافیت پر درس دیتا ہے۔‘

رؤف کلاسرا کی ٹویٹ کے جواب میں حامد میر کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایسا بھی کہیں نہیں ہوتا کہ ایک دہشت گرد کو ریاست کا شاہی مہمان بنایا جایا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ انٹرویو چل جاتا تو شاید اتنی قیامت نہ آتی۔ قوانین سب کے لیے مساوی ہونے ضروری ہیں۔ جناب مشرف کے انٹرویوز پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اسی طرح یہ تاثر عوامی سطح پر نہیں جانا چاہیے کہ احتساب یک طرفہ ہو رہا ہے کیونکہ اس سے سیاسی انتقام کی چیخ پکار شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔ اسی طرح وزارتِ اطلاعات کسی حکومت نے نہ چلائی ہو گی۔ ہر ایک حکم جی ایچ کیو سے صادر ہو رہا ہے؛ گویا کہ حکومت کی اپنی کوئی آواز نہیں؛ اپنا کوئی نظریہ نہیں۔ ریاستی ادارے اپنے تئیں حب الوطنی کے تن تنہا ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں؛ یہ رویے ایک وفاق کو چلانے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ بدعنوانی کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ تاہم، اس کی آڑ میں یہ تاثر دینے سے گریز کرنا چاہیے کہ صرف خاکیان ہی ملک کے والی وارث ہیں اور واحد اسٹیک ہولڈر ہیں۔ جو سچ پوچھیں تو یہ بازو بھی ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔
 
Top