آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیا ہے جس میں شہباز شریف گرفتار ہوئے ہیں؟

جاسم محمد

محفلین
آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیا ہے جس میں شہباز شریف گرفتار ہوئے ہیں؟
06/10/2018
غیور شاہ ترمذی

پنجاب کے سابق ”خادم اعلی“ اور موجودہ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کو قومی احتساب ادارہ (نیب) نے گزشتہ روز آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کر لیا تو مجھے 2012ء کے وہ لمحات یاد آئے جب نیشنل انجینئیرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) کے ساتھ آشیانہ قائد ہاؤسنگ اسکیم میں بنے فلیٹس نما گھروں میں مرکزی بیڈ روم کی اندرونی چھت میں پڑنے والے کریک اور اس کے اوپری منزل پر ٹھیک اسی جگہ پڑنے والے کریک کے حل کے لئے راقم الحروف کو بلوایا گیا تھا۔ یہ کریکس ناقص تعمیر کے ساتھ ساتھ ڈیزائن فالٹ کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے اور 3 مرلہ کے تمام گھروں میں یہ مسئلہ وقوع پزیر ہو چکا تھا۔ آشیانہ قائد اور آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیمیں چونکہ شروع سے ہی ہم چھوٹی سطح کے پرائیویٹ کام کرنے والے انجینئیرز کی نظر میں متنازعہ سیاسی پراجیکٹ تھیں لہذا راقم الحروف نے زبانی مشورہ دے کر اس معاملہ سے خود کو پرے رکھا۔ بعد میں نیسپاک نے اس معاملہ کو سیکا پاکستان (Sika) کے ماہرین سے ان کی ایک اچھی پراڈکٹ کاربن فائبر ری انفورسمنٹ پولیمر اسٹرپ کے استعمال سے حل کروا لیا جو اس مسئلہ کا واحد اور فوری حل بھی ہے۔

آشیانہ ہاؤسنگ اسکیمیں دراصل پیراگون کنسٹرکشن کے مالک ندیم ضیاء کے ذہن کا نتیجہ تھی۔ جس نے سابق 2008ء میں ن لیگی راہنماء خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کے ساتھ مل کر اس منصوبہ کا آئیڈیا شہباز شریف تک پہنچایا۔ شہباز شریف چونکہ ووٹ حاصل کرنے کے ہر اس طرح کے شور شرابا مچانے والے منصوبوں کو ہی اولیت دیتے ہیں تو انہوں نے اس منصوبہ کو زور و شور سے شروع کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ پنجاب حکومت غریب اور کم آمدنی والے افراد کو سستے داموں اقساط پر شہری علاقوں میں چھت فراہم کرے گی۔

اس مقصد کے لئے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کروا کر باضابطہ طور پر ایک خودمختار پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت فیصل آباد، ساہیوال اور لاہور میں ان رہائشی اسکیموں کا آغاز کیا گیا۔ پی ایل ڈی سی کی ابتدائی میٹنگوں میں ممبر قومی اسمبلی انجنیئر خرم دستگیر خان، چیئرمین پی ایل ڈی سی و ممبر صوبائی اسمبلی شیخ علاؤالدین، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، چیئرمین منصوبہ بندی و ترقیات، چیئرمین برائے خصوصی اقدامات، سیکرٹری ہاؤسنگ، کمشنر لاہور اور بنک آف پنجاب کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر کی شرکت کے بھی ریکارڈز موجود ہیں۔

اس سکیم کے تحت آشیانہ قائد نے تعمیر ہونا تھا بعد آشیانہ اقبال کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جانا تھا۔ آشیانہ قائد ہاؤسنگ اسکیم کے پہلے مرحلہ میں لاہور میں 10 ہزار اور فیصل آباد، سرگودھا، جہلم کے لئے 3 تین ہزار گھر فراہم کیے جانے تھے۔ تین مرلہ کے گھروں کی قیمت 6 لاکھ 90 ہزار، 4 مرلہ کے گھروں کی قیمت 7 لاکھ 90 ہزار اور 5 مرلہ کے گھر کی قیمت 8 لاکھ 90 ہزار رکھی گئی۔ جبکہ مذکورہ سکیم کے تحت کل رقم کا 8 فیصد حکومت پنجاب نے خود ادا کیا جبکہ 8 فیصد مارک اپ پر پنجاب بنک نے بھی قرضہ فراہم کیا۔

پہلے مرحلے میں لاہور کے علاقے اٹاری سروبا میں 167 کنال پر 2010ء میں 2700 گھروں پر مشتمل منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور 11 مئی 2011ء کوخادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خود قرعہ اندازی کے ذریعے پہلے 250 کے لگ بھگ خوش نصیب افراد میں گھروں کی چابیاں تقسیم کیں جہاں اس وقت 150 کے قریب خاندان مقیم بھی ہو گئے لیکن آج تک سوئی گیس، سیکیورٹی اورصحت و تعلیم جیسی دیگر تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اورحکومتی بلند وبانگ دعوے اور وعدے سچ ہونے کے منتظر ہیں۔

آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کو تقریروں میں اپنا گھر قرار دینے والےخادم اعلیٰ نے توکبھی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اورنتیجہ یہ نکلا کہ 30 ارب روپے کی خطیر رقم کے یہ منصوبے گزشتہ کئی سال سے تعطل کا شکار ہیں۔ حکومت اب تک 3 ہزارکے لگ بھگ الاٹیوں سے اقساط کی شکل میں ایک ارب روپے بھی وصول کرچکی ہے مگر 250 افراد کے علاوہ ابھی تک کسی کو گھر نہیں مل سکا جبکہ ایک لاکھ درخواست گزاروں سے پراسیس فیس کی مد میں 11 کروڑ روپے کی وصولی علیحدہ کی گئی حالانکہ منصوبے کے تحت ڈھائی سال میں 9 ہزارافراد کو فلیٹس اور گھروں کا قبضہ ملنا تھا جو ابک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

ارباب اختیار کی جانب سے ان اسکیموں کو نظرانداز کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عام انتخابات 2013ء کے الیکشن سٹنٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیونکہ انتخابات سے پہلے آشیانہ اسکیموں میں گھر بسانے کے سہانے خواب دکھا کر ان کی خوب تشہیرکی گئی۔ اس اسکیم کے نام پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے ہوا میں اڑا دیے گئے۔ اس وقت فیصل آباد میں 100 میں سے 30 افراد کو گھر تو الاٹ ہوچکے لیکن قبضہ نہیں مل سکا۔ فیصل آباد میں یہ آشیانہ اسکیم 187 کنال پر مشتمل ہے اور اس کی تخمینہ لاگت 2 ارب کے لگ بھگ ہے جبکہ ساہیوال میں 440 کنال اراضی پر مشتمل آشیانہ اسکیم کی تخمینہ لاگت بھی 2 ارب کے قریب ہے، یہاں بھی 120 گھروں میں سے صرف 77 افراد کو کئی سال سے گھر تو الاٹ کر دیے گئے مگرقبضہ نہیں دیا گیا۔

آشیانہ قائد کی جزوی تکمیل کے بعد آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کی باری آئی تو اس میں کرپشن کے نئے ریکارڈ سامنے آئے اور صرف لاہور میں ہی 3100 کنال پر مشتمل برکی روڈ پرواقع آشیانہ اقبال میں 6 ہزار 500 فلیٹس تعمیر کیے جانے تھے مگر 2 سال بعد بھی تعمیراتی کام شروع نہ ہوسکا۔

آشیانہ اقبال کے لئے پی ایل ڈی سی نے پنجاب کے 6 شہروں لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، قصور، بہاولپور، سرگودھا اور چنیوٹ میں آشیانہ ہاوسنگ اسکیم کے نام پر اربوں روپے کی زمین خریدی۔ اس کے لئے بینکوں سے قرضے لئے اور زمینوں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور مالی بے قاعدگیاں بھی کیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ دوسری کرپشن کے علاوہ صرف کاغذات میں ہی 20 کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کا کوئی دستاویزاتی ثبوت موجود نہیں ہے۔

آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کے لئے حکومت نے جو زمین خریدنی تھی اس میں پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کا کردار سب سے واضح ہے۔ پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی میں خواجہ سعد رفیق، ان کے بھائی سلمان رفیق بھی پارٹنر ہیں جبکہ اس کے مالک ندیم ضیاء ہیں جن کے دو بھائی منیر ضیاء اور عمر ضیاء نیب کی حراست میں ہیں۔ زمینوں کی خریداری ایک فرنٹ مین محمد کاشف کے ذریعہ کی گئی جو نیب کی حراست میں ہے۔

اپنے اقبالی بیان زیر دفعہ 164 میں محمد کاشف نے کہا کہ لوگ میرے پاس زمینوں کے معاملات لے کر آتے تھے اور مشاورت کرتے تھے۔ 2014ء میں 4 ایکڑ زمین کی فروخت کے لئے اپریل 2014ء میں پیراگون کے خالد حسین نامی شخص نے زمین خریدنے کے لئے رابطہ کیا۔ ایک زمیندار محمد اکبر نے 77 لاکھ 50 ہزار کے عوض اپنی 4 ایکڑ زمین فروخت کی۔ اور محمد اکبر کو رقم کا چوتھا حصہ بطور بیعانہ دیا گیا۔ یہ سارے معاملات پیرا گون کے دفتر میں بیٹھ کر حل کیے گئے۔ اس کا طریقہ یہ طے کیا جاتا تھا کہ جہاں پراجیکٹ لگانا ہوتا تھا وہاں پیراگون ہاؤسنگ والے پہلے سے سستے داموں زمین خرید لیتے تھے اور پراجیکٹ کو انہی زمینوں پر لگوانے کی مکمل منصوبہ بندی کر لیتے تھے۔ اس چکر میں مبینہ طور پر پی ایل ڈی سی والوں کی پوری آشیر باد شامل ہوتی تھی۔

آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر کے لئے جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا وہ پیراگون ہاؤسنگ کی ذیلی کمپنی بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی ہے جس کا مالک شاہد شفیق یے جو نیب کے زیر حراست ہے۔ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے 3 کمپنیوں میں شراکت داری کرکے ایک جوائنٹ وینچر ترتیب دیا گیا جو کہ صریحاً پپرا رولز کی خلاف ورزی ہے اور اس میں بسم اللہ انجینئرنگ، اسپارکو کنسٹرکشن ڈی ایچ اے لاہور اور ایک تیسری کمپنی کاسا ڈویلپرز کو شامل کیا گیا۔

ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے اس کنسورشیم جوائنٹ وینچر میں بسم اللہ کمپنی کے 90 فیصد شیئرز بھی دکھائے گئے حالانکہ اصل صورتحال مختلف تھی۔ شاہد شفیق کے علاوہ بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی میں پیراگون کے مالک ندیم ضیاء کے بھائی منیر ضیاء بھی پارٹنر ہے جبکہ اس کی معاونت تیسرا بھائی عمر ضیاء بھی کرتا رہا ہے۔ منیر ضیاء اور عمر ضیاء دونوں شاہد شفیق کے ہمراہ نیب کی حراست میں ہیں۔

نیب کے الزامات کے مطابق کیس کی صورت حال مندرجہ ذیل ہے۔ یاد رہے کہ نیب کے ان الزامات کے سچ جھوٹ کا فیصلہ شواہد پرکھنے کے بعد عدالت کرے گی اور ابھی ان کی حیثیت محض غیر ثابت شدہ الزام کی ہے۔

اس ٹھیکہ کے لئے بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی کی معاونت کرنے والوں میں پی ایل ڈی سی کے افسروں میں چیف انجینئر ایل ڈی اے اسرار سعید اورسابق چیف ایگزیکٹو آفیسر پی ایل ڈی سی امتیاز حیدر، ایل ڈی اے کے اسٹریٹجک پالیسی یونٹ میں بطور اپلائیڈ اکنامک اسپیشلسٹ تعیناتی اور تکنیکی اور مالیاتی کمیٹی کے فعال رکن بلال قدوائی شامل ہیں۔ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کی ڈیزائن پلاننگ کرتے وقت بلال قدوائی نے اس طرح اسے تیار کیا کہ اس کا فائدہ کاسا ڈویلپرز اٹھائے۔ بلال قدوائی کے علاوہ اسرار سعید اور دوسرے ایل ڈی اے افسروں کی کاسا ڈویلپرز انتظامیہ سے ملی بھگت کے ٹھوس شواہد نیب کو موصول ہوئے جن سے کاسا ڈویلپرز کو غیر قانونی مالی فائدہ پہنچانے کی وجہ سے حکومتی خزانے کو لگ بھگ 1ارب روپے کے نقصان ہوا۔

جب زمین کی خریداری اور ڈیزائن کا یہ سارا پراسس مکمل ہوا تو بسم اللہ انجینئیرنگ والے مکمل مطمئن تھے کہ یہ ٹینڈر ان کے علاوہ کوئی اور حاصل نہیں کر سکے گا۔ ٹینڈر کا پی سی ون بننے کے بعد جب فائل اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کے پاس پہنچی تو انہیں بھی نوازنے کی تیاری مکمل تھی۔ یہ ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ کمپنی کو ہی ایوارڈ کرنے کے وعدہ کے عوض پراجیکٹ سائیٹ میں ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ نے 32 کنال زمین اپنے اور اپنے رشتہ دارون کے نام پر لی اور اس کی مکمل ادائیگی پیراگون کے اکاؤنٹ سے ہوئی۔

اس 32 کنال زمین میں 8 کنال اراضی احد خان چیمہ کے نام، 8 کنال زمین اس کی بہن سعدیہ منظور کے نام، 8 کنال زمین اس کے بھائی سعد خان چیمہ کے بھائی کے نام اور 8 کنال اس کے کزن احمد حسن کے نام کی گئی۔ اس 32 کنال زمین کی مالیت 3 کروڑ 9 لاکھ روپے تک ہے جبکہ اس میں سے صرف 25 لاکھ کی ادائیگی احمد چیمہ کی جانب سے ہوئی، حالانکہ جو 8 کنال زمین احد چیمہ کے نام ہے صرف اس کی مالیت 77 لاکھ 80 ہزار روپے ہے۔ اس 32 کنال زمین کے علاوہ بھی احد چیمہ نے 19 کنال 7 مرلہ زمین مزید حاصل کی تھی جو اس کی بہن سعدیہ منظور اور کزن احمد حسن کے نام ہے۔ سعدیہ منظور اور احمد حسن کو نیب نے مفرور قرار دیا ہوا یے۔ اس کے علاوہ احد چیمہ کے سابق پی ایس او شہزاد کے نام پر کچھ زمین وغیرہ کے معاملات ہیں اور وہ بھی نیب کے زیر حراست ہے۔

احد چیمہ کو ملنے والے ان تحائف کے باوجود بھی پی ایل ڈی سی والے ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ والوں کے دیے جانے کے مخالف تھے۔ ابھی ٹھیکہ کا ٹینڈر بھی نہیں ہوا تھا کہ اس میں سامنے نظر آنے والی بے ضابطگیوں کے بارے چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور غصہ میں بپھرے احد چیمہ نے چیف ایگزیکٹو طاہر خورشید سمیت درجنوں افسروں کی پے درپے تبدیلیاں شروع کر دیں اور خوف و ہراس پھیلا کر پی ایل ڈی سی میں ہر شخص کو مجبور کیا گیا کہ وہ زبان بند رکھے جبکہ اس دوران کمپنی کے 17 چیف ایگزیکٹیوز کو پے درپے تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کا سلسلہ اس وقت ہی رکا جب ماتحت عملہ نے باس کی منشاء پر کام کرنے کا عندیہ دیا اور پھر ٹینڈر کی کارروائی شروع ہوئی۔

مبینہ طور پر جب ٹھیکہ کے ٹینڈر آئے تو بسم اللہ انجینئیرنگ سب سے کم بولی دینے والی کمپنی ثابت نہ ہو سکی اور میسرز لطیف اینڈ کو نے سب سے کم بولی دے کر ٹینڈر جیت لیا۔ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔ پیراگون، بسم اللہ، اسپارکو، کاسا وغیرہ کے کروڑوں کی انویسٹمنٹ ڈوب رہی تھی۔ کچھ مہینوں بعد یہ سب اکٹھے ہو کر خواجہ سعد رفیق اور احد چیمہ کے پاس پہنچے۔ وہاں پلاننگ کی گئی اور طے یہ پایا کہ اس معاملہ کو بیوروکریسی کے ”گرو“ فواد حسن فواد کے ذریعہ حل کروایا جائے۔ اس وقت فواد حسن فواد سیکرٹری ٹو وزیر اعلی تھے اور انہوں نے مخصوص فوائد لینے کے بعد اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس ہاؤسنگ منصوبے کی تعمیر کے لئے سب سے کم بولی دینے والی کمپنی لطیف اینڈ کو تعمیراتی کمپنی کو مجبور کیا کہ وہ اس کنٹریکٹ سے پیچھے ہٹ جائے۔

مبینہ طور پر میسرز لطیف اینڈ کو کے چیف ایگزیکٹو معظم علی کو فواد حسن فواد نے اپنے دفتر بلایا جہاں احد چیمہ بھی موجود تھے اور اس کی موجودگی میں معظم کو ہراساں کیا گیا اور انھیں اس منصوبے سے دور رہنے اور اپنی کم سے کم بولی واپس لینے کی ہدایت کی گئی۔ اس وقت تک لطیف اینڈ سنز نے منصوبے کا میرٹ پر ٹھیکہ حاصل کر کے 7 کروڑ روپے ایڈوانس بطور ٹینڈر سیکورٹی ادا کیے تھے، کام جاری تھا کہ 8 ماہ بعد کنٹریکٹ معطل کر دیا گیا جس سے حکومت کو 59 لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرنے پڑے اور منصوبہ التواکا شکار ہو گیا اور لاگت اربوں روپے بڑھ گئی۔ لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کرانے کے بعد احد چیمہ سے مل کر کاسا ڈویلپرز کو ٹھیکہ دلایا گیا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ فواد حسن فواد نے سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کی زیر نگرانی انکوائری کمیٹی کی اس رپورٹ کو بھی حکام سے مخفی رکھا جس کے مطابق لطیف اینڈ سنز کو دیا گیا کنٹریکٹ قانونی اور پیپرا رولز کے مطابق تھا

میسرز لطیف اینڈ کو کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد یہ ٹھیکہ بسم اللہ انجینئیرنگ کو مل ہی گیا مگر کوئی کام مکمل ہونے کی بجائے ابھی تک ساری کی ساری زمین خالی پڑی ہوئی ہے حالانکہ وہ کافی رقم پی ایل ڈی سی، عوام سے فیسوں کی مد میں وصول بھی کر چکے ہیں جبکہ معاہدے کے مطابق تینوں کمپنیوں کے اس جوائنٹ وینچر نے اس اسکیم پر 20 فیصد کام کرنا تھا، جس کے بعد حکومت نے اس کی ادائیگی کرنی تھی۔ ایڈوانس پیسے وصول کر کے بھی کام نہ کرنا اس گروپ کی بدیانتی پر مبنی ہے کیونکہ یہ کمپنیاں حکومت کو زمین فروخت کر کے اور عوام سے فیسوں کی مد میں پیسہ وصول کرنا چاہتی تھیں۔

مبینہ طور پر پی ایل ڈی سی کے بعض افسروں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ن لیگی راہنما خواجہ سعد رفیق اور سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی امجد علی بھی موجود تھے انہوں نے اس وقت یہ حکم دیا تھا کہ کس طرح ٹھیکوں کے معاملات کو چلانا ہے۔

نیب کی طرف سے مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو جس کمپنی کو دیے گئے ٹھیکے کی منسوخی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اس کمپنی لطیف اینڈ کو اور اس کی شراکت دار کمپنی مقبول کولسن کو اورنج ٹرین لائن منصوبے میں بے ضابطگیوں پر بلیک لسٹ کر دیا تھا جبکہ پشاور میں میٹرو منصوبہ تحریک انصاف کی حکومت نے مذکورہ دونوں کمپنیوں کو دیا ہے جو جوائنٹ وینچر کے ذریعے میٹرو پشاور پر کام کر رہی ہیں۔ دوسری طرف نیب لطیف برادرز کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم کے کیس میں سابق وزیر اعلی شہباز شریف کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری سمیت گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنس (جی او آر) میں پنجاب کے اکثر اضلاع کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹینٹ کمشنرز نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں، سیاستدانوں اور عدالتوں کے ہاتھوں ان کے سینئرز کی توہین کی جا رہی ہے اور احد چیمہ، فواد حسن فواد سمیت دوسرے افسران پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
 
Top