متلاشی
محفلین
آشنائے محبت!
وہ دن…! میری زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا…مگر وہ رات میری زندگی کی حسین ترین رات تھی … ہاں … میں اس دن صبح بہت پرجوش تھا … اور کیوں نہ ہوتا … آخر کوآج بہت دنوں بعد مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا … میں پچھلے کئی ماہ سے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھا … مگر صدحیف… ابھی تک مجھے کوئی اچھا روزگارنہ مل سکا تھا …خیر … میں تیار ہو کر انٹرویو کے لئے نکل کھڑا ہوا … بہت سے ارمان دل میں بسائے ہوئے میں بس سٹاپ تک پہنچا …اور پھراک حسین زندگی کا خواب لیے ہوئے میں وہاں سے انٹرویو آفس تک پہنچاتھا … وہاں مجھ جیسے اور بھی بیسیوں لوگ تھے … میں بھی اُن کی طرح انتظا رگاہ میں بیٹھ گیا …اور دل ہی دل میں اک خوبصورت اور حسین زندگی کے خواب دیکھتا رہا… آخر اﷲ اﷲ کر کے میری باری آئی … مجھ سے سرسری سا انٹرویو لیا گیا … مگر میں نے تمام سوالات کے درست جوابات دئیے تھے … میرے بعد دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی باری پر انٹرویو دیا … اب آخر میں منتخب امیدواروں کا اعلان ہونا تھا … مجھے پوری امید تھی کہ میرا نام بھی ان میں شامل ہو گا…مگر جب اعلان ہوا تو میرا نام منتخب امیدواروں میں شامل نہ تھا …شاید اس لیے کہ میرے ساتھ، دوسرے امیدواروں کی طرح، کسی بڑے آدمی کی سفارش نہ تھی …مجھے سخت مایوسی ہوئی … میرے ارمانوں کا خون ہو گیا تھا… میرے ،اک حسین زندگی کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے…بڑی مشکل سے میں گھر تک پہنچا … اور پھر اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا … وہ دن میری زندگی کے بد ترین دنوں میں سے ایک تھا … میں بہت پریشان تھا …مایوسیوں نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا… میرا سارا دن اسی کیفیت میں گزرگیا…باہر رات ڈھل رہی تھی…میں اس وقت اپنی زندگی کی ناکامیوں کویاد کر رہا تھا …جن میں امتحان کی ناکامیاں … بہتر ملازمت کے حصول کی ناکامیاں … اور سب سے بڑھ کر محبت کی ناکامیاں شامل تھیں … میں اپنی ان ناکامیوں کو یاد کر کے اپنی قسمت کو کوس رہا تھا … اورساتھ ساتھ اپنی ناکام محبت کا رونا بھی رو رہا تھا … میں سوچ رہا تھا … کہ یہ محبت فضول ہے … بکواس ہے … یہ زندگی کی بربادی کا دوسرا نام ہے … اس نے ہزاروں گھر اُجاڑے ہیں … اس نے لاکھوں دل توڑے ہیں … اس نے بے شمار انسانوں کو قتل کیا ہے … یہ بڑی ظالم ہے … بڑی ظالم … نہ جانے ابھی میں اور کیا کیا سوچتا کہ …اک چندھیا دینے والی روشنی نے میری سوچوں کا سلسلہ منقطع کر دیا … !
وہ اک حسن کا پیکر تھا … وہ اک بے مثل صورت تھی … وہ اک نور کا مجسمہ تھا … اس کے آنے سے میرے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی … مجھے تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے … اک دلفریب خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو گیا …وہ اک خواب ناک ماحول تھا …… وہ انسان تھا نہ جن … پھروہ کیا تھا ؟… میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گویا صلب ہو گئی تھی… میں متواتر اس بے مثل صورت کو تکے جا رہا تھا… کاش کہ میں عمر بھر بت بنے اسے دیکھتا ہی رہتا …میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا … مجھے ارد گرد کا کچھ ہوش نہ تھا …کہ اُس کے لبوں نے اک خفیف سی جنبش کی … شاید اس نے میرا نام پکار ا تھا … اس کی آواز کے ترنم اور شیرینی نے دنیا بھر کی موسیقی کو مات دے دی تھی … میں اس کی آواز کے نشے میں مدہوش سا ہو گیا تھا کہ اس نے پھر سے مجھے پکارا…اک دم میں ہوش میں آگیااور گھبرا کرپوچھا … جج … جی … آپ کون ہیں …؟میری گھبراہٹ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر اک حسین مسکراہٹ پھیل گئی … شاید وہ میری اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی … میں محبت ہوں … (میں محبت ہوں …محبت ہوں… محبت…!) اس کی آواز کی باز گشت مجھے دیر تک سنائی دیتی رہی … مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے یہ اس کی آواز نہ ہو بلکہ میرے دل کی آوا ز ہو … مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا … جج… جی … کیا کہا آپ نے… ؟ میں ابھی تک گھبرایا ہوا تھا … ہاں … میں محبت ہوں …محبت … اور میں تمہیں یہ بتلانے آئی ہوں کہ تم نے مجھے غلط سمجھا ہے … میں تمہاری ناکامیوں کی ذمہ دا ر نہیں ہوں … میں ظالم نہیں ہوں … !جی … وہ کیسے…؟ میں نے اس سے پوچھا … اب میں اپنی ہکلاہٹ پر کافی حد تک قابو پا چکا تھا…سنو… اور غور سے سنو… وہ گویا ہوئی … اور میں ہمہ تن گوش اسے سننے لگا … وہ کہہ رہی تھی…
میں اک حقیقت ہوں … میں اک عبادت ہوں… میں زندگیاں برباد کرنے والی نہیں … میں تو خود زندگی ہوں … میں دلوں کو توڑنے والی نہیں… بلکہ دلوں کو ملانے والی ہوں … میرا کام لوگوں کے گھر اجاڑنا نہیں … بلکہ بسانا ہے … میں انسانوں کی نہیں … نفرتوں اور جفاؤں کی قاتل ہوں … میں ظالم نہیں … میں مظلوم ہوں … ہاں … میں مظلوم ہوں … جس کا جیسے جی چاہا … اس نے مجھے ویسے معنی دینا شروع کر دیے…کسی نے اپنی ہوس پرستی کو میرا نام دے ڈالا … تو کسی نے مجھے اپنی انا کی تسکین کا ذریعہ بنایا … کسی نے مجھ میں جھوٹ اور فریب کی آمیزش کی … تو کسی نے مجھے دکھلاوے کے طور پر استعمال کیا … کسی نے اپنی غرض پوری کرنے کے لئے مجھے بدنام کیا … تو کسی نے مجھے دوسروں کے قرب اور جسم کے حصول کا ذریعہ بنا کر میری توہین کی … کسی نے وعدے بھلا کر مجھے پامال کیا … تو کسی نے نفرتوں کے بیج بو کر میرے مقابل جفاکو لا کھڑا کیا … کسی نے مجھے گالی کے طور پر استعمال کر کے میرا مذاق اڑایا … تو کسی نے میری لازوال وفاؤں کو زوال پذیر بنا ڈالا … غرض جس نے جیسا چاہا میرے ساتھ ویسا سلوک کیا … مگر افسوس… کسی نے میری حقیقت کو نہ سمجھا… کسی نے میری سچائی کو نہ جانا… جب مجھے یوں سر عام رُسوا کیا گیا … تو مجھے از خود اپنی حقیقت … اپنی سچائی … کو ثابت کرنے کے لئے آنا پڑا … !
وہ بولے جار ہی تھی … میں اس کے اندازِ بیاں میں کھو یا جا رہا تھا … سنو … ! میں تمہیں بتاتی ہوں … کہ میں کیا ہوں …؟ میں محبت ہوں … میں وفا ہوں … میں حقیقت ہوں … میں صداقت ہوں …میں خالق کی، مخلوق سے ہوں … تو رحمت ہوں … میں مخلوق کی ، خالق سے ہوں … تو ریاضت ہوں … میں عابد کی ، معبود سے ہوں … توعبادت ہوں … میں غلام کی ، آقا سے ہوں … تو مدحت ہوں … میں باپ کی ، اولاد سے ہوں … تو شفقت ہوں … میں ماں کی ، اولاد سے ہوں … تو محبت ہوں … میں استاد کی ، شاگرد سے ہوں … تو نصیحت ہوں … میں حاکم کی ، محکوم سے ہوں … تو عدالت ہوں … میں محکوم کی ، حاکم سے ہوں … تو اطاعت ہوں … میں دوست کی ، دوست سے ہوں … تو رفاقت ہوں … میں طالب ِ علم کی ،علم سے ہوں … تو محنت ہوں … میں ذمہ دار کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو دیانت ہوں … میں مزدور کی ، اس کے کام سے ہوں … تو مشقت ہوں … میں حق کی تلاش کرنے والے کی ، اس کی جستجو سے ہوں … تو ہدایت ہوں … میں سپاہی کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو شجاعت ہوں … میں عوام کی ، بزرگوں سے ہوں … تو عقیدت ہوں … میں لکھاری کی ، اس کے قلم سے ہوں … تو امانت ہوں … ہاں … میں محبت ہوں … میں زندگی ہوں … میں بندگی ہوں … میں پاکیزگی ہوں… میں بے لوث ہوں … میں بے غرض ہوں … میں لازوال ہوں … جس میں غرض شامل ہو… وہ محبت نہیں کہلاتی… جس میں کوئی لالچ شامل ہو … وہ محبت نہیں ہوتی … جس میں کوئی مفاد شامل ہو … اُسے محبت نہیں کہا جاتا… محبت تو روح کے روح کے ساتھ تعلق کا نام ہے … اس میں جنس …جسم…خوبصورتی … بناوٹ…نام …نسب … چال … ڈھال … غرض وہ تمام چیزیں … جن کاظاہری صورت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے … وہ سب محبت کے مفہوم سے باہر ہیں … محبت کا کسی کے جسمانی نقوش … رنگ و روپ … کے ساتھ کوئی تعلق نہیں … اگر کوئی کہے … کہ میں نے فلاں کو دیکھا ہے … وہ بہت خوبصورت ہے … اس کی آنکھیں بہت حسین ہیں … اُس کا چہرہ چاند جیسا ہے … اس کی رنگت دودھ کی طرح سفید ہے … اس کا نام بہت خوبصورت ہے … اس کی آوا بہت دلنشیں ہے … اس کی چال بہت عمدہ ہے … اس کے انداز ، اس کی ادائیں … دل موہ لینے والی ہیں … اس لئے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے … تو یہ جھوٹ ہے … یہ غلط ہے … میرا (محبت کا) یہ معیار نہیں … وہ میری توہین کر رہا ہے … اُسے … اُس شخص سے جس سے وہ محبت کا دعوے دار ہے … قطعاً محبت نہیں … اُسے … اُس حسن سے … اس چہرے سے … اس رنگت سے … اُس نام سے … اس آواز سے … اس چال سے … اس انداز سے … اس ادا سے … محبت ہے … نہ کہ اُس شخص سے … کیونکہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … ہاں… روح ہی انسان کی اصل ہے …جسم تو اک ذریعہ اور واسطہ ہے …جس کو آپ جیسے چاہیں استعمال کریں… محبت اک روحانی رشتہ کا نام ہے …جسمانی عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں… ہاں … یہی محبت کی اصل ہے … یہی محبت کی حقیقت ہے … اور یہی محبت کی معراج ہے … !
وہ بولے جارہی تھی … میں اس کی باتوں کے سحر میں جکڑ کر رہ گیا تھا … مجھے اُس کی باتیں ناگوار محسوس ہو رہی تھیں … کیونکہ میرا نظریہ …یہ نہ تھا … ! مجھے معلوم ہے تمہیں میری باتیں ناگوار معلوم ہو رہی ہوں گی … مگر یہ سچ ہے … اوراکثر لوگوںکو سچ کڑوا ہی محسوس ہوتا ہے … شاید اس نے میری کیفیت کا اندازہ لگا لیا تھا … ہاں … اور سنو … محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی … محبت تو نام ہی کامیابی کا ہے … مگر افسوس لوگوں نے میری حقیقت نہ جانی … ہاں … محبت کامیابی ہے … ہار اور ناکامی کے الفاظ …محبت کی لغت میں نہیں ہوتے … محبت کاہونا … اور محبت کا کرناہی …کامیابی ہے … محبوب کا حصول … محبت کا حاصل نہیں … یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے … اور میں اُسے حاصل کرنا چاہتا ہوں … تو ایسے شخص کی یہ سوچ غلط ہے …کیونکہ محبت کاحاصل … محبوب کا حصول … اس کا قرب … اور اس کے جسم کا حصول نہیں ہوتا …بلکہ محبوب کی رضا کا حصول ہی … محبت کا حاصل ہے … ہاں …محبت نام ہی تسلیم و رضا کا ہے … انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے … تو وہ اپنے محبوب کی اطاعت کر تا ہے … وہ اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا ہے … وہ اپنے محبوب کو ہر حال میں راضی رکھتا ہے … صرف یہ دعویٰ … کہ مجھے تم سے محبت ہے … محبت کا ثبوت نہیں … بلکہ محبت کا ثبوت … محب کا عمل … محب کی فرمانبرداری … اور محب کی تسلیم و رضا بتاتی ہے … آج کل محبت کے عجیب دعوے دار ہیں … جو اپنے محبوب سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں … اور پھراپنے محبوب پرشرائط عائدکرتے ہیں …پابندیاں لگاتے ہیں … اور اگر وہ نہ مانے …تو وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں … عجیب لوگ ہیں … ارے … محبوب ،پابندیاں لگاتا ہے … محبوب، شرائط عائد کرتا ہے … محبوب، ناراض ہوتا ہے … محب کا یہ کام نہیں … اس کا کام تو ہر حال میں اپنے محبوب کو راضی رکھنا… اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے …آج کل لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ … اگروہ اپنے محبوب کو حاصل کر لیں…تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب محبت ختم ہو گئی … انہوں نے محبت کی بازی جیت لی … اول … تو یہ سوچ ہی غلط ہے … کیونکہ اگر محبوب کے حصول کو محبت کا حاصل ٹھہرایا جائے … تو پھر وہ بلا غرض نہیں رہے گی … کیونکہ محبوب کے حصول میں … اس کے قرب اور اس کے جسم کا حصول بھی آئے گا … تو پھر وہ محبت نہ رہے گی … بلکہ غرض بن جائے گی … اور دوم یہ کہ محبت تو کبھی ختم نہیں ہوتی … اگر محبوب کو حاصل کر لیا … تو پھر تو محبت ختم ہو جائے گی … کیونکہ جب مقصدہی حاصل ہو جائے … توپھر محبت کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا … اس لیے ثابت ہوا کہ محبوب کا حصول محبت کا حاصل نہیں … بلکہ محبت کا حاصل…محبوب کی رضا کا حصول ہے … ہاں … یہی محبت کا تقاضا ہے … یہی محبت کا حاصل ہے … یہی محبت کا نچوڑ ہے … !
وہ تھوڑی دیر کو رُکی …اورپھر گویا ہوئی … اور ہاں … ایک اور بات … اور وہ یہ … کہ محبت لازوال ہوتی ہے… محبت کبھی ختم نہیں ہوتی … محبت کو کبھی زوال نہیں آتا …محبت کبھی فنا نہیں ہوتی…بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے …وہ محبت … محبت نہیں … جس کو زوال آجائے … جو ختم ہو جائے … ہاں … محبت ایک لازوال اور ہمیشہ رہنے والے رشتے کانام ہے … اک لازوال رشتہ … !
وہ خاموش ہو گئی تھی … مگر میں ابھی تک اس کے الفاظ کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد نہ کروا سکا تھا … میں بالکل خاموش تھا … اس کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں …اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … مگر کچھ سوالات تھے … جن کی وجہ سے میرا ذہن مطمئن نہ ہو رہاتھا … مجھے ان کا جواب چاہیے تھا … آخر میں نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کر کے استفاہمیہ نظروں سے اسے دیکھا … اور کچھ سوالا ت کی اجازت چاہی … پوچھو …! جو پوچھنا چاہتے ہو …اُس نے دھیرے سے مسکرا کر کہا … !اجازت ملتے ہی … میں بولا… !
یہ جو آپ نے کہا کہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … اور جسمانی خوبصورتی اور نقش و نگار کو دیکھ کر محبت میں مبتلا ہونے والا شخص اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے … تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے تو دوسرے کا جسم ، اور سراپا ہی ہوتا ہے …اور انسان کودوسرے کی کوئی بات یا خوبی پسند آتی ہے تو اسے ، اس سے محبت ہو جاتی ہے … روح کو تو انسان دیکھ نہیں سکتا … پھر روح سے محبت کیسے ہو سکتی ہے … ؟
یہ ایک اچھا سوال ہے … اس نے ستائشی نظر سے مجھے دیکھا … اور بولنے لگی … یہ حقیقت ہے کہ محبت اصل میں روح سے ہوتی ہے … اور انسانی جسم … اور سراپے کا … محبت سے کوئی تعلق نہیں…جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا کردار اُس کی روح … اور اس کی سوچ… کی عکاسی کر تا ہے … اور انسان اپنے کردار ہی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے … نہ کہ نسل اور رنگ و روپ سے … توا نسان کے کردار کو دیکھ کر اگر اس سے محبت ہو جائے … تو وہ محبت اصل محبت کہلائے گی … دوسرے لفظوں میں ہم اسے اس کی روح سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں … !
اس کا جواب سن کر میں قدرے مطمئن ہو گیا تھا … مگرکچھ سوالات ابھی بھی میرے ذہن میں موجود تھے … اس کے خاموش ہو تے ہی … میں بولا …!آپ کا جواب مجھے پسند آیا ہے … مگر ایک اور سوال ہے… اور وہ یہ کہ … آپ نے یہ کہا ہے کہ محبت کا حاصل … محبوب کا حصول نہیں … بلکہ محبوب کی رضا ہی … محبت کاحاصل ہے …تو بات یہ ہے کہ … یہ انسانی فطرت ہے …کہ انسان جس چیز کو پسند کر تا ہے … جو چیز اُسے اچھی لگتی ہے … تو انسان اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور اس کا یہ عمل قابلِ ملامت بھی نہیں … تو پھر محبوب کا حصول کیسے غلط ہے …؟
تمہارے ا س سوال کا جواب یہ ہے کہ … یہ درست ہے کہ انسان کو جو چیز پسند ہو…تو انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور وہ قابلِ ملامت بھی نہیں ٹھہرتا…مگر اصل بات یہ ہے کہ … محبت کی اصل … محبت کی حقیقت … تو محبوب کی رضا کا حصول ہی ہے … لیکن اگر انسان کسی بے جان چیز یا کسی جاندار مگر بے شعور (یعنی جس کی رضا حاصل نہ کی جا سکتی ہو )سے محبت کرے …یا اُسے پسند کرے … تو چونکہ وہ اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا … کیونکہ وہ بے جان ہے یا بے شعور ہے … اس لئے اپنی محبت کے ثبوت کیلئے وہ اس چیز کو ہی حاصل کر لیتا ہے … اس لیے اس چیز کے حصول سے … محبت کی اصل (یعنی محبوب کی رضا ) کے حصول پر کوئی فرق نہیں پڑتا … ! تو ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص محبوب کے حصول کو ہی …محبت کا حاصل ٹھہرائے… تو اس کی یہ سوچ غلط ہے … کیونکہ اس طرح وہ اپنے محبوب کے احساسات… جذبات…اور پسند …کا پاس نہیں رکھ رہا … بلکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے … توگویا وہ اپنے محبوب کو …بے جان اور بے شعور سمجھ کر اس کی توہین کر رہا ہے … !
اُس کا یہ جواب بھی میرے دل کو بھا رہا تھا … مگر ایک اور آخری سوال … جو میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا … وہ یہ تھا کہ … آپ نے کہا کہ … محبت لازوال ہے … تو میں نے اکثر دیکھا ہے کہ … کئی خاندانوںمیں … یا دو بھائیوں میں … یا دو دوستوں میں … بہت محبت ہوتی ہے … پھر کسی وجہ سے وہ اس محبت کو بھول کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں … اگر محبت لازوال ہے … یہ ختم نہیں ہو سکتی… توپھر وہ اس صورت میں کیسے ختم ہو جاتی ہے …؟
میرا سوال سن کر وہ دھیرے سے مسکرائی … اور بولی … اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں … اُن میں محبت اتنی مضبوط نہیں ہوتی … اُس محبت کے مقابلے میں جو نفرت پھیلائی جاتی ہے … وہ اس محبت پر غالب آجاتی ہے … اس لیے ان کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے … لیکن ایسے بھی کئی لوگ دیکھے گئے ہیں … جن کی محبت انتہائی مضبوط ہوتی ہے … اُن کے درمیان نفرتوں کے جتنے بھی بیج بو دئیے جائیں … انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا … ان کی محبت … ان نفرتوں پر غالب آ جاتی ہے … تو نتیجہ یہ نکلا کہ … اگر محبت کامل اور مضبوط ہو … تو پھر یہ لازوال ہوتی ہے … اور اصل محبت بھی یہی کامل اور مضبوط محبت ہے … کہ نفرتیں جس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں … !
اُس نے میرے تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب دے دیا تھا … اب میرا ذہن صاف ہو چکا تھا … ہاں … اب میرا نظریہ ٔ محبت بھی بدل چکاتھا … اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے …’’ محبت‘‘ سے محبت ہو گئی تھی … کیونکہ … اس کا کردار بے داغ تھا … اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … اب میں اس سے ہمدردی محسوس کر رہا تھا … وہ تو چلی گئی تھی … مگر مجھے اک نئی سوچ دے گئی تھی… اک نئی راہ دکھلا گئی تھی … اب میرا مشن … میری زندگی کا مقصد … محبت کی صداقت … محبت کی حقیقت … کو بیان کر نا تھا … ہاں … محبت کی حقیقت … کیونکہ … اس’’ محبت ‘‘نے ہی تو… مجھے محبت کی حقیقت سے آشنا کیا تھا …!
بتحریر… محمد ذیشان نصر…لاہور
25-06-2010
وہ دن…! میری زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا…مگر وہ رات میری زندگی کی حسین ترین رات تھی … ہاں … میں اس دن صبح بہت پرجوش تھا … اور کیوں نہ ہوتا … آخر کوآج بہت دنوں بعد مجھے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا … میں پچھلے کئی ماہ سے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھا … مگر صدحیف… ابھی تک مجھے کوئی اچھا روزگارنہ مل سکا تھا …خیر … میں تیار ہو کر انٹرویو کے لئے نکل کھڑا ہوا … بہت سے ارمان دل میں بسائے ہوئے میں بس سٹاپ تک پہنچا …اور پھراک حسین زندگی کا خواب لیے ہوئے میں وہاں سے انٹرویو آفس تک پہنچاتھا … وہاں مجھ جیسے اور بھی بیسیوں لوگ تھے … میں بھی اُن کی طرح انتظا رگاہ میں بیٹھ گیا …اور دل ہی دل میں اک خوبصورت اور حسین زندگی کے خواب دیکھتا رہا… آخر اﷲ اﷲ کر کے میری باری آئی … مجھ سے سرسری سا انٹرویو لیا گیا … مگر میں نے تمام سوالات کے درست جوابات دئیے تھے … میرے بعد دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی باری پر انٹرویو دیا … اب آخر میں منتخب امیدواروں کا اعلان ہونا تھا … مجھے پوری امید تھی کہ میرا نام بھی ان میں شامل ہو گا…مگر جب اعلان ہوا تو میرا نام منتخب امیدواروں میں شامل نہ تھا …شاید اس لیے کہ میرے ساتھ، دوسرے امیدواروں کی طرح، کسی بڑے آدمی کی سفارش نہ تھی …مجھے سخت مایوسی ہوئی … میرے ارمانوں کا خون ہو گیا تھا… میرے ،اک حسین زندگی کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے…بڑی مشکل سے میں گھر تک پہنچا … اور پھر اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا … وہ دن میری زندگی کے بد ترین دنوں میں سے ایک تھا … میں بہت پریشان تھا …مایوسیوں نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا… میرا سارا دن اسی کیفیت میں گزرگیا…باہر رات ڈھل رہی تھی…میں اس وقت اپنی زندگی کی ناکامیوں کویاد کر رہا تھا …جن میں امتحان کی ناکامیاں … بہتر ملازمت کے حصول کی ناکامیاں … اور سب سے بڑھ کر محبت کی ناکامیاں شامل تھیں … میں اپنی ان ناکامیوں کو یاد کر کے اپنی قسمت کو کوس رہا تھا … اورساتھ ساتھ اپنی ناکام محبت کا رونا بھی رو رہا تھا … میں سوچ رہا تھا … کہ یہ محبت فضول ہے … بکواس ہے … یہ زندگی کی بربادی کا دوسرا نام ہے … اس نے ہزاروں گھر اُجاڑے ہیں … اس نے لاکھوں دل توڑے ہیں … اس نے بے شمار انسانوں کو قتل کیا ہے … یہ بڑی ظالم ہے … بڑی ظالم … نہ جانے ابھی میں اور کیا کیا سوچتا کہ …اک چندھیا دینے والی روشنی نے میری سوچوں کا سلسلہ منقطع کر دیا … !
وہ اک حسن کا پیکر تھا … وہ اک بے مثل صورت تھی … وہ اک نور کا مجسمہ تھا … اس کے آنے سے میرے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی … مجھے تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے … اک دلفریب خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو گیا …وہ اک خواب ناک ماحول تھا …… وہ انسان تھا نہ جن … پھروہ کیا تھا ؟… میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گویا صلب ہو گئی تھی… میں متواتر اس بے مثل صورت کو تکے جا رہا تھا… کاش کہ میں عمر بھر بت بنے اسے دیکھتا ہی رہتا …میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا … مجھے ارد گرد کا کچھ ہوش نہ تھا …کہ اُس کے لبوں نے اک خفیف سی جنبش کی … شاید اس نے میرا نام پکار ا تھا … اس کی آواز کے ترنم اور شیرینی نے دنیا بھر کی موسیقی کو مات دے دی تھی … میں اس کی آواز کے نشے میں مدہوش سا ہو گیا تھا کہ اس نے پھر سے مجھے پکارا…اک دم میں ہوش میں آگیااور گھبرا کرپوچھا … جج … جی … آپ کون ہیں …؟میری گھبراہٹ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر اک حسین مسکراہٹ پھیل گئی … شاید وہ میری اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی … میں محبت ہوں … (میں محبت ہوں …محبت ہوں… محبت…!) اس کی آواز کی باز گشت مجھے دیر تک سنائی دیتی رہی … مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے یہ اس کی آواز نہ ہو بلکہ میرے دل کی آوا ز ہو … مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا … جج… جی … کیا کہا آپ نے… ؟ میں ابھی تک گھبرایا ہوا تھا … ہاں … میں محبت ہوں …محبت … اور میں تمہیں یہ بتلانے آئی ہوں کہ تم نے مجھے غلط سمجھا ہے … میں تمہاری ناکامیوں کی ذمہ دا ر نہیں ہوں … میں ظالم نہیں ہوں … !جی … وہ کیسے…؟ میں نے اس سے پوچھا … اب میں اپنی ہکلاہٹ پر کافی حد تک قابو پا چکا تھا…سنو… اور غور سے سنو… وہ گویا ہوئی … اور میں ہمہ تن گوش اسے سننے لگا … وہ کہہ رہی تھی…
میں اک حقیقت ہوں … میں اک عبادت ہوں… میں زندگیاں برباد کرنے والی نہیں … میں تو خود زندگی ہوں … میں دلوں کو توڑنے والی نہیں… بلکہ دلوں کو ملانے والی ہوں … میرا کام لوگوں کے گھر اجاڑنا نہیں … بلکہ بسانا ہے … میں انسانوں کی نہیں … نفرتوں اور جفاؤں کی قاتل ہوں … میں ظالم نہیں … میں مظلوم ہوں … ہاں … میں مظلوم ہوں … جس کا جیسے جی چاہا … اس نے مجھے ویسے معنی دینا شروع کر دیے…کسی نے اپنی ہوس پرستی کو میرا نام دے ڈالا … تو کسی نے مجھے اپنی انا کی تسکین کا ذریعہ بنایا … کسی نے مجھ میں جھوٹ اور فریب کی آمیزش کی … تو کسی نے مجھے دکھلاوے کے طور پر استعمال کیا … کسی نے اپنی غرض پوری کرنے کے لئے مجھے بدنام کیا … تو کسی نے مجھے دوسروں کے قرب اور جسم کے حصول کا ذریعہ بنا کر میری توہین کی … کسی نے وعدے بھلا کر مجھے پامال کیا … تو کسی نے نفرتوں کے بیج بو کر میرے مقابل جفاکو لا کھڑا کیا … کسی نے مجھے گالی کے طور پر استعمال کر کے میرا مذاق اڑایا … تو کسی نے میری لازوال وفاؤں کو زوال پذیر بنا ڈالا … غرض جس نے جیسا چاہا میرے ساتھ ویسا سلوک کیا … مگر افسوس… کسی نے میری حقیقت کو نہ سمجھا… کسی نے میری سچائی کو نہ جانا… جب مجھے یوں سر عام رُسوا کیا گیا … تو مجھے از خود اپنی حقیقت … اپنی سچائی … کو ثابت کرنے کے لئے آنا پڑا … !
وہ بولے جار ہی تھی … میں اس کے اندازِ بیاں میں کھو یا جا رہا تھا … سنو … ! میں تمہیں بتاتی ہوں … کہ میں کیا ہوں …؟ میں محبت ہوں … میں وفا ہوں … میں حقیقت ہوں … میں صداقت ہوں …میں خالق کی، مخلوق سے ہوں … تو رحمت ہوں … میں مخلوق کی ، خالق سے ہوں … تو ریاضت ہوں … میں عابد کی ، معبود سے ہوں … توعبادت ہوں … میں غلام کی ، آقا سے ہوں … تو مدحت ہوں … میں باپ کی ، اولاد سے ہوں … تو شفقت ہوں … میں ماں کی ، اولاد سے ہوں … تو محبت ہوں … میں استاد کی ، شاگرد سے ہوں … تو نصیحت ہوں … میں حاکم کی ، محکوم سے ہوں … تو عدالت ہوں … میں محکوم کی ، حاکم سے ہوں … تو اطاعت ہوں … میں دوست کی ، دوست سے ہوں … تو رفاقت ہوں … میں طالب ِ علم کی ،علم سے ہوں … تو محنت ہوں … میں ذمہ دار کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو دیانت ہوں … میں مزدور کی ، اس کے کام سے ہوں … تو مشقت ہوں … میں حق کی تلاش کرنے والے کی ، اس کی جستجو سے ہوں … تو ہدایت ہوں … میں سپاہی کی ، اس کے فرض سے ہوں … تو شجاعت ہوں … میں عوام کی ، بزرگوں سے ہوں … تو عقیدت ہوں … میں لکھاری کی ، اس کے قلم سے ہوں … تو امانت ہوں … ہاں … میں محبت ہوں … میں زندگی ہوں … میں بندگی ہوں … میں پاکیزگی ہوں… میں بے لوث ہوں … میں بے غرض ہوں … میں لازوال ہوں … جس میں غرض شامل ہو… وہ محبت نہیں کہلاتی… جس میں کوئی لالچ شامل ہو … وہ محبت نہیں ہوتی … جس میں کوئی مفاد شامل ہو … اُسے محبت نہیں کہا جاتا… محبت تو روح کے روح کے ساتھ تعلق کا نام ہے … اس میں جنس …جسم…خوبصورتی … بناوٹ…نام …نسب … چال … ڈھال … غرض وہ تمام چیزیں … جن کاظاہری صورت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے … وہ سب محبت کے مفہوم سے باہر ہیں … محبت کا کسی کے جسمانی نقوش … رنگ و روپ … کے ساتھ کوئی تعلق نہیں … اگر کوئی کہے … کہ میں نے فلاں کو دیکھا ہے … وہ بہت خوبصورت ہے … اس کی آنکھیں بہت حسین ہیں … اُس کا چہرہ چاند جیسا ہے … اس کی رنگت دودھ کی طرح سفید ہے … اس کا نام بہت خوبصورت ہے … اس کی آوا بہت دلنشیں ہے … اس کی چال بہت عمدہ ہے … اس کے انداز ، اس کی ادائیں … دل موہ لینے والی ہیں … اس لئے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے … تو یہ جھوٹ ہے … یہ غلط ہے … میرا (محبت کا) یہ معیار نہیں … وہ میری توہین کر رہا ہے … اُسے … اُس شخص سے جس سے وہ محبت کا دعوے دار ہے … قطعاً محبت نہیں … اُسے … اُس حسن سے … اس چہرے سے … اس رنگت سے … اُس نام سے … اس آواز سے … اس چال سے … اس انداز سے … اس ادا سے … محبت ہے … نہ کہ اُس شخص سے … کیونکہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … ہاں… روح ہی انسان کی اصل ہے …جسم تو اک ذریعہ اور واسطہ ہے …جس کو آپ جیسے چاہیں استعمال کریں… محبت اک روحانی رشتہ کا نام ہے …جسمانی عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں… ہاں … یہی محبت کی اصل ہے … یہی محبت کی حقیقت ہے … اور یہی محبت کی معراج ہے … !
وہ بولے جارہی تھی … میں اس کی باتوں کے سحر میں جکڑ کر رہ گیا تھا … مجھے اُس کی باتیں ناگوار محسوس ہو رہی تھیں … کیونکہ میرا نظریہ …یہ نہ تھا … ! مجھے معلوم ہے تمہیں میری باتیں ناگوار معلوم ہو رہی ہوں گی … مگر یہ سچ ہے … اوراکثر لوگوںکو سچ کڑوا ہی محسوس ہوتا ہے … شاید اس نے میری کیفیت کا اندازہ لگا لیا تھا … ہاں … اور سنو … محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی … محبت تو نام ہی کامیابی کا ہے … مگر افسوس لوگوں نے میری حقیقت نہ جانی … ہاں … محبت کامیابی ہے … ہار اور ناکامی کے الفاظ …محبت کی لغت میں نہیں ہوتے … محبت کاہونا … اور محبت کا کرناہی …کامیابی ہے … محبوب کا حصول … محبت کا حاصل نہیں … یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے … اور میں اُسے حاصل کرنا چاہتا ہوں … تو ایسے شخص کی یہ سوچ غلط ہے …کیونکہ محبت کاحاصل … محبوب کا حصول … اس کا قرب … اور اس کے جسم کا حصول نہیں ہوتا …بلکہ محبوب کی رضا کا حصول ہی … محبت کا حاصل ہے … ہاں …محبت نام ہی تسلیم و رضا کا ہے … انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے … تو وہ اپنے محبوب کی اطاعت کر تا ہے … وہ اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا ہے … وہ اپنے محبوب کو ہر حال میں راضی رکھتا ہے … صرف یہ دعویٰ … کہ مجھے تم سے محبت ہے … محبت کا ثبوت نہیں … بلکہ محبت کا ثبوت … محب کا عمل … محب کی فرمانبرداری … اور محب کی تسلیم و رضا بتاتی ہے … آج کل محبت کے عجیب دعوے دار ہیں … جو اپنے محبوب سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں … اور پھراپنے محبوب پرشرائط عائدکرتے ہیں …پابندیاں لگاتے ہیں … اور اگر وہ نہ مانے …تو وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں … عجیب لوگ ہیں … ارے … محبوب ،پابندیاں لگاتا ہے … محبوب، شرائط عائد کرتا ہے … محبوب، ناراض ہوتا ہے … محب کا یہ کام نہیں … اس کا کام تو ہر حال میں اپنے محبوب کو راضی رکھنا… اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے …آج کل لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ … اگروہ اپنے محبوب کو حاصل کر لیں…تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب محبت ختم ہو گئی … انہوں نے محبت کی بازی جیت لی … اول … تو یہ سوچ ہی غلط ہے … کیونکہ اگر محبوب کے حصول کو محبت کا حاصل ٹھہرایا جائے … تو پھر وہ بلا غرض نہیں رہے گی … کیونکہ محبوب کے حصول میں … اس کے قرب اور اس کے جسم کا حصول بھی آئے گا … تو پھر وہ محبت نہ رہے گی … بلکہ غرض بن جائے گی … اور دوم یہ کہ محبت تو کبھی ختم نہیں ہوتی … اگر محبوب کو حاصل کر لیا … تو پھر تو محبت ختم ہو جائے گی … کیونکہ جب مقصدہی حاصل ہو جائے … توپھر محبت کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا … اس لیے ثابت ہوا کہ محبوب کا حصول محبت کا حاصل نہیں … بلکہ محبت کا حاصل…محبوب کی رضا کا حصول ہے … ہاں … یہی محبت کا تقاضا ہے … یہی محبت کا حاصل ہے … یہی محبت کا نچوڑ ہے … !
وہ تھوڑی دیر کو رُکی …اورپھر گویا ہوئی … اور ہاں … ایک اور بات … اور وہ یہ … کہ محبت لازوال ہوتی ہے… محبت کبھی ختم نہیں ہوتی … محبت کو کبھی زوال نہیں آتا …محبت کبھی فنا نہیں ہوتی…بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے …وہ محبت … محبت نہیں … جس کو زوال آجائے … جو ختم ہو جائے … ہاں … محبت ایک لازوال اور ہمیشہ رہنے والے رشتے کانام ہے … اک لازوال رشتہ … !
وہ خاموش ہو گئی تھی … مگر میں ابھی تک اس کے الفاظ کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد نہ کروا سکا تھا … میں بالکل خاموش تھا … اس کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں …اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … مگر کچھ سوالات تھے … جن کی وجہ سے میرا ذہن مطمئن نہ ہو رہاتھا … مجھے ان کا جواب چاہیے تھا … آخر میں نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کر کے استفاہمیہ نظروں سے اسے دیکھا … اور کچھ سوالا ت کی اجازت چاہی … پوچھو …! جو پوچھنا چاہتے ہو …اُس نے دھیرے سے مسکرا کر کہا … !اجازت ملتے ہی … میں بولا… !
یہ جو آپ نے کہا کہ انسان کی اصل اس کی روح ہوتی ہے … اور جسمانی خوبصورتی اور نقش و نگار کو دیکھ کر محبت میں مبتلا ہونے والا شخص اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے … تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے تو دوسرے کا جسم ، اور سراپا ہی ہوتا ہے …اور انسان کودوسرے کی کوئی بات یا خوبی پسند آتی ہے تو اسے ، اس سے محبت ہو جاتی ہے … روح کو تو انسان دیکھ نہیں سکتا … پھر روح سے محبت کیسے ہو سکتی ہے … ؟
یہ ایک اچھا سوال ہے … اس نے ستائشی نظر سے مجھے دیکھا … اور بولنے لگی … یہ حقیقت ہے کہ محبت اصل میں روح سے ہوتی ہے … اور انسانی جسم … اور سراپے کا … محبت سے کوئی تعلق نہیں…جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا کردار اُس کی روح … اور اس کی سوچ… کی عکاسی کر تا ہے … اور انسان اپنے کردار ہی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے … نہ کہ نسل اور رنگ و روپ سے … توا نسان کے کردار کو دیکھ کر اگر اس سے محبت ہو جائے … تو وہ محبت اصل محبت کہلائے گی … دوسرے لفظوں میں ہم اسے اس کی روح سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں … !
اس کا جواب سن کر میں قدرے مطمئن ہو گیا تھا … مگرکچھ سوالات ابھی بھی میرے ذہن میں موجود تھے … اس کے خاموش ہو تے ہی … میں بولا …!آپ کا جواب مجھے پسند آیا ہے … مگر ایک اور سوال ہے… اور وہ یہ کہ … آپ نے یہ کہا ہے کہ محبت کا حاصل … محبوب کا حصول نہیں … بلکہ محبوب کی رضا ہی … محبت کاحاصل ہے …تو بات یہ ہے کہ … یہ انسانی فطرت ہے …کہ انسان جس چیز کو پسند کر تا ہے … جو چیز اُسے اچھی لگتی ہے … تو انسان اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور اس کا یہ عمل قابلِ ملامت بھی نہیں … تو پھر محبوب کا حصول کیسے غلط ہے …؟
تمہارے ا س سوال کا جواب یہ ہے کہ … یہ درست ہے کہ انسان کو جو چیز پسند ہو…تو انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے … اور وہ قابلِ ملامت بھی نہیں ٹھہرتا…مگر اصل بات یہ ہے کہ … محبت کی اصل … محبت کی حقیقت … تو محبوب کی رضا کا حصول ہی ہے … لیکن اگر انسان کسی بے جان چیز یا کسی جاندار مگر بے شعور (یعنی جس کی رضا حاصل نہ کی جا سکتی ہو )سے محبت کرے …یا اُسے پسند کرے … تو چونکہ وہ اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا … کیونکہ وہ بے جان ہے یا بے شعور ہے … اس لئے اپنی محبت کے ثبوت کیلئے وہ اس چیز کو ہی حاصل کر لیتا ہے … اس لیے اس چیز کے حصول سے … محبت کی اصل (یعنی محبوب کی رضا ) کے حصول پر کوئی فرق نہیں پڑتا … ! تو ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص محبوب کے حصول کو ہی …محبت کا حاصل ٹھہرائے… تو اس کی یہ سوچ غلط ہے … کیونکہ اس طرح وہ اپنے محبوب کے احساسات… جذبات…اور پسند …کا پاس نہیں رکھ رہا … بلکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے … توگویا وہ اپنے محبوب کو …بے جان اور بے شعور سمجھ کر اس کی توہین کر رہا ہے … !
اُس کا یہ جواب بھی میرے دل کو بھا رہا تھا … مگر ایک اور آخری سوال … جو میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا … وہ یہ تھا کہ … آپ نے کہا کہ … محبت لازوال ہے … تو میں نے اکثر دیکھا ہے کہ … کئی خاندانوںمیں … یا دو بھائیوں میں … یا دو دوستوں میں … بہت محبت ہوتی ہے … پھر کسی وجہ سے وہ اس محبت کو بھول کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں … اگر محبت لازوال ہے … یہ ختم نہیں ہو سکتی… توپھر وہ اس صورت میں کیسے ختم ہو جاتی ہے …؟
میرا سوال سن کر وہ دھیرے سے مسکرائی … اور بولی … اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں … اُن میں محبت اتنی مضبوط نہیں ہوتی … اُس محبت کے مقابلے میں جو نفرت پھیلائی جاتی ہے … وہ اس محبت پر غالب آجاتی ہے … اس لیے ان کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے … لیکن ایسے بھی کئی لوگ دیکھے گئے ہیں … جن کی محبت انتہائی مضبوط ہوتی ہے … اُن کے درمیان نفرتوں کے جتنے بھی بیج بو دئیے جائیں … انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا … ان کی محبت … ان نفرتوں پر غالب آ جاتی ہے … تو نتیجہ یہ نکلا کہ … اگر محبت کامل اور مضبوط ہو … تو پھر یہ لازوال ہوتی ہے … اور اصل محبت بھی یہی کامل اور مضبوط محبت ہے … کہ نفرتیں جس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں … !
اُس نے میرے تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب دے دیا تھا … اب میرا ذہن صاف ہو چکا تھا … ہاں … اب میرا نظریہ ٔ محبت بھی بدل چکاتھا … اور سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے …’’ محبت‘‘ سے محبت ہو گئی تھی … کیونکہ … اس کا کردار بے داغ تھا … اس کے لہجے میں سچائی کی خوشبو تھی … اب میں اس سے ہمدردی محسوس کر رہا تھا … وہ تو چلی گئی تھی … مگر مجھے اک نئی سوچ دے گئی تھی… اک نئی راہ دکھلا گئی تھی … اب میرا مشن … میری زندگی کا مقصد … محبت کی صداقت … محبت کی حقیقت … کو بیان کر نا تھا … ہاں … محبت کی حقیقت … کیونکہ … اس’’ محبت ‘‘نے ہی تو… مجھے محبت کی حقیقت سے آشنا کیا تھا …!
بتحریر… محمد ذیشان نصر…لاہور
25-06-2010