قابل اجمیری آسودگیِ شوق کا ساماں نہ کرسکے، قابل اجمیری

آسودہ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے​
ہم خاک اڑاتے پھرتے ہیں بازار مصر میں
رعنائی خیال کو ارزاں نہ کر سکے​
آیا نہ اس کی شان تغافل میں کوئی فرق
ہم اعتبار گردش دوراں نہ کر سکے​
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاج تنگئی داماں نہ کر سکے​
آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینت داماں نہ کر سکے​
شائستہ نشاط ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے​
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے​
ہم جان رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے​
کچھ اس طرح گذر گیا طوفان رنگ وبو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے‘​
ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے ساتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے​
یاروں نے دوستی کے تقاضے بدل دیئے
لیکن میری وفا کو پشیماں نہ کر سکے​
قابل فراق دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے​
 
Top