آسمان اور زمین کا سب سے بڑا صادق دل۔۔۔۔

سیفی

محفلین
آسمان اور زمین کا سب سے بڑا صادق د

زمین اور آسمان نے آج تک اس سے بڑا صادق دل نہیں دیکھا۔۔۔۔

ابھی عصر ہونے کو کچھ ہی دیر باقی تھی۔ عرب تاجروں کا ایک قافلہ ملک شام کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ تاجر دل ہی دل میں ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ملک شام کو جاتے ہوئے اکثر قافلے لٹ جاتے تھے۔ راستے میں ودان نامی بستی آباد تھی۔ اس بستی کو آباد کرنے والے قبیلۂ غفار کے باشندے تھے۔ قبیلہ غفار کے باشندے تجارتی قافلوں کی ڈاکوؤں سے حفاظت کرتے تھے اور قافلے اس کے بدلے انہیں معاوضہ ادا کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی قافلہ ان کی "خدمات" نہ لیتا تو یہ زبردستی اس سے کچھ نہ کچھ چھین لیتے۔

جندب بن جنادہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ انہیں جرات، بہادری اور دوراندیشی میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ جندب ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں اس بات کا احساس تھا کہ ان کا اصلی مذہب وہ تھا جو حضرت ابراہیم نے سمجھایا تھا اور وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کے بجائے ایک اللہ کی عبادت کی تعلیم دی تھی۔ چنانچہ ان عرب تاجروں کے قیام کے دوران جندب بن جنادہ کو معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک ایسے شخص کا چرچا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں۔ جندب کو پہلے بھی کچھ خبریں اس طرح کی ملی تھیں۔ اب قافلے والوں سے اس کی تصدیق ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا:

"تم ابھی مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرو اور وہاں جا کر ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر یہ پتا کرنا کہ اس نبی کی دعوت کیا ہے۔"

اس حکم کی تعمیل میں انیس فوراً مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ سب سے پہلے اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی باتیں سنیں اور لوگوں کا ردعمل بھی دیکھا۔ وہاں سے واپسی پر اپنے بھائی جندب سے کہنے لگے:

"خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ تو لوگوں کو اچھے اخلاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔"

جندب دلچسپی سے بولے: "نئے نبی کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟"

"وہاں کے لوگ ان کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں جادوگر، نجومی اور شاعر کہتے ہیں مگر ان کا کلام ایسا ہے جو پہلے کبھی کسی شاعر نے سنانہ لکھا۔"

جندب بے چین ہو کر بولے: "پیارے بھائی! تمہارے بیان کردہ حالات سے دل کو تسلی نہیں ہوئی۔ الٹا بے چینی بڑھ گئی ہے۔ میں خود ٹھیک صورت حال معلوم کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔"

"ہاں! آپ ضرور جائیے، مگر مکہ والوں سے محتاط رہیے کیونکہ ہر اس شخص کے جانی دشمن بن جاتے ہیں جو نئے نبی میں دلچسپی لیتا ہے۔" بھائی نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا۔

جندب بن جنادہ نے پانی کا مشکیزہ اور سامان سفر ساتھ لیا اور دوسرے ہی دن مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

٭٭٭

مکہ کے بازار میں جندب بن جنادہ اپنے سفر کی تکان کے باعث آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے مگر دل ہی دل میں قریش مکہ سے خوفزدہ تھے۔ وہ پریشان بھی تھے کہ نئے نبی کے حالات کیسے معلوم ہوں گے کیونکہ یہاں کسی سے ان کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔

مکہ کے بازاروں میں گھومتے ہوئے رات کے وقت جندب بن جنادہ کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں علی ابن طالب تھے۔

وہ جنادہ کا چہرہ دیکھ کر بھانپ چکے تھے کہ یہ اجنبی ہیں اور کسی کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے ہمت کی اور پوچھا:

"آپ مجھے مکہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں اور شاید آپ کو ابھی اپنی منزل نہیں ملی؟"

جندب بولے: "جی نہیں، میں آج ہی مغرب سے ذرا پہلے پہنچا ہوں۔"

علی نے عرب کی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: "تو میرے گھر تشریف لائیں۔ رات میرے ہاں قیام کریں، صبح ہوتے ہی اپنی منزل کی طرف چلے جائیے گا۔"

جندب پہلے تو ہچکچائے پھر ان کی دعوت پر حضرت علی کے گھر چلے گئے۔ ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ حضرت علی نے مکہ معظمہ آنے کا سبب دریافت کرنا چاہا تو جندب نے بتانے سے گریز کیا۔ صبح ہوئے تواپنا سامان لے کر پھر مکہ کے بازاروں میں حالات کا جائزہ لینے نکلے مگر دوسرا دن بھی یونہی گزرا۔ رات کے وقت پھر حضرت علی انہیں گھر لے آئے۔ مہمان نوازی کے دوران حضرت علی نے پوچھا: "آپ نے مجھے اپنا مکہ میں آنے کا مقصد نہیں بتایا؟"

جندب نے اپنی تجربہ کار آنکھیں اپنے میزبان نوجوان پر مرکوز کیں اور بولے: "اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ مجھے صحیح بات بتائیں گے تو میں آپ کو اپنے دل کی بات کہے دیتا ہوں۔"

"میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو صحیح بات بتاؤں گا۔" حضرت علی چمکتی آنکھوں سے بولے۔

"میں دور دراز کا سفر طے کرکے یہاں محض اس لیے آیا ہوں کہ اس شخص سے ملوں جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اپنے کانوں سے وہ کلام سنوں جس کو وہ خدا کا خاص کلام کہتے ہیں۔"

حضرت علی نے جب ان کی یہ بات سنی تو ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کہا: "اللہ کی قسم! آپ سچے رسول ہیں اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔"

"تو آپ پھر مجھے ان سے کب ملوائیں گے؟" جندب بے چینی سے بولے۔

"کل صبح آپ میرے پیچھے پیچھے چلتے آئیں۔ اگر میں نے راستے میں کسی مقام پر کوئی خطرہ محسوس کیا تو میں رک جاؤں گا لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ جب میں کسی کے گھر میں داخل ہو جاؤں تو آپ بھی بے دھڑک میرے پیچھے اندر آجائیں۔"

جندب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اگلی صبح طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ دیکھنے والوں کو شک نہیں ہوا کہ حضرت علی کسی اجنبی کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔

جندب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی بولے ۔۔۔۔ "السلام علیکم!"

آپ نے ارشاد فرمایا۔ "وعلیک سلام اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔"

جندب بن جنادہ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے ان الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور سلام کرنے کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔ نبی آخر الزماں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ کا کلام سنایا۔ انہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

یہ وہی جندب بن جنادہ ہیں جنہیں تاریخ ان کی کنیت "ابوذر غفاری" سے جانتی ہے۔ یہ وہی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں ایسے چوتھے یا پانچویں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔

ابوذر غفاری اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ ہی کی خدمت اقدس میں رہے۔ آپ نے ابوذر کو اسلام کے بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دیئے اور محبت بھرے انداز میں یہ تلقین فرمائی: "ابھی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتائیے، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں تو قریش مکہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔"

ابوذر یہ سنتے ہی بولے: "اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار ضرور قریش کے روبرو کھڑے ہو کر کلمۂ حق بلند کروں۔"

٭٭٭

ایک دن قریش کے کافر مکہ کے بازار میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ جناب ابوذر غفاری خاموشی سے ان کے درمیان جا کھڑے ہوئے اور با آواز بلند کہا: "اے خاندان قریش! میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔"

ابھی ابوذر غفاری مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ کفار یہ سنتے ہی بھڑک اٹھے اور آپ کو بے دریغ مارنا شروع کر دیا۔ قریب تھا کہ موت واقع ہو جاتی، عباس بن عبدالمطلب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آئے اور کہا: "کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جانتے ہو ان کی بستی تمہارے قافلوں کے درمیان واقع ہے۔"

کفار مکہ یہ سنتے ہی ٹھٹھک گئے اور ان کے ہاتھ تھم گئے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ان کے ہاتھوں بنی غفار کا ایک بھی شخص مارا گیا تو ان کا کوئی تجارتی قافلہ محفوظ طریقے سے سفر نہیں کر سکے گا اور انہیں مجبوراً ابو ذر کو چھوڑنا پڑا۔

زخموں سے نڈھال جناب ابوذر غفاری حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: " کیا میں نے تمہیں ابھی اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟ اب آپ اپنی قوم میں جائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ شاید ان کی کایا پلٹ جائے۔"

ابوذر غفاری واپس اپنے قبیلے میں آئے۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو تمام حالات بتائے تو وہ مسلمان ہو گئے۔ اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی، وہ بھی مسلمان ہو گئیں اور ان کی دیکھا دیکھی قبیلۂ غفار کے تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

جب حضور نے اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ابوذرغفاری مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور رسول اللہ کی خدمت میں رہنے لگے۔

جب رسول اللہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو جناب ابوذر غفاری بے چین رہنے لگے۔ کیونکہ مدینہ طیبہ اللہ کے رسول سے خالی اور آپ کی مبارک مجالس سے محروم ہو چکا تھا۔ابوذر ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ بعد ازاں آپ مدینہ کے قریب ایک بستی میں آباد ہو گئے اور یہیں 32 ہجری میں آپ نے انتقال فرمایا۔

آپ کی تعریف میں رسول اکرم کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا۔ آپ نے فرمایا: "زمین اور آسمان نے آج تک ابوذرغفاری سے بڑھ کر کوئی صادق دل نہ دیکھا ہو گا۔" رضی اللہ عنہ‘

٭٭٭
اس مضمون کا ماخذ
 
Top