آزاد نظم (دِیا)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

ظلم و استبداد کی
گھُپ اندھیری رات میں
چار سُو ہے چھاگئی
تیرگی ہی تیرگی
اس اندھیری رات میں
لوگ ہیں وحشت زدہ
درد میں ڈوبے ہوئے
دل شکستہ غم زدہ
یہ سبھی ہیں منتظر
منتظر خورشید کی
روشنی کے منتظر
کاش کوئی من چلا
حوصلے کا حلم سے
بس جلا دے اک دیا
پھر تماشہ دیکھنا
روشنی کے دیپ کا
اس دیے کی روشنی
بن کے سب کی رہنما
راستہ دکھلائے گی
دے گی منزل کا پتا
دیپ سے پھُوٹے گی تب
اک کرن امید کی
یہ کرن پھیلے گی تو
پھیلتی ہی جائے گی
ہر طرف پھیلائے گی
آس اور امید کی
روشنی ہی روشنی
قدرتی دستور ہے
جو بدل سکتا نہیں
ہر گذرتی رات کا
بس یہی انجام ہے
یہ ختم ہو جائے گی
خاتمے پر لائے گی
صبح کا پیغام یہ
 
خوبصورت استعاروں سے مزین اچھی نثری نظم ہے ۔ ۔ ۔
محترم زیدی صاحب آپ کی تعریف سے جتنی خوشی ہوئی اور جتنی حوصلہ افزائی ہوئی اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔اس لیے
thank- you -in- superlative- degree​
 
واہ ۔۔۔ بہت خوب عمدہ خیال
یہ ختم ہو جائے گی ۔۔۔ بے وزن ہے
اس کو یوں کر لیں" ختم یہ ہو جائے گی"
لفظ ختم کا تلفظ خت م ہے نہ کہ خ تم۔
سلامت رہیں
 
واہ ۔۔۔ بہت خوب عمدہ خیال
یہ ختم ہو جائے گی ۔۔۔ بے وزن ہے
اس کو یوں کر لیں" ختم یہ ہو جائے گی"
لفظ ختم کا تلفظ خت م ہے نہ کہ خ تم۔
سلامت رہیں
آپ نے درست نشان دہی کی ہے - متبادل تجویز کرنے کا بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔
 
Top