آزادی ۔۔۔ مگر کس سے ؟

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
ہند و پاک نے آزادی کس سے حاصل کی ۔؟
ہند نے پاک سے ؟
پاک نے ہند سے ؟
یا دونوں نے برطانیہ سے ؟
آزادی کا منشور کیا تھا ؟
کیا دونوں ممالک اس منشور پر عمل پیرا ہو سکے ؟

نایاب
 

arifkarim

معطل
ہائے کیسا موضوع چھیڑ دیا آپنے! :)
یہاں لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن سچ کی تلخی اکثر کو بھاتی نہیں ہے۔
بہر حال مختصراً لکھ دیتا ہوں:
ہندوستان کو آزادی یا خودمختاری برطانوی راج سے چاہئے تھی۔ گو کہ ہندوستان میں پہلے ہی سے مختلف مذاہب و تہذیب کے لوگ آباد تھے لیکن اگر نسلاً اور پشتاً دیکھا جائے تو اکثریت ایک ہی لڑی کے موتی ہیں۔
ہندوستان میں جب آزادی کی تحریک چلائی گئی تو اولً وہ سب ’’ہندوستانیوں‘‘(بھارتی، پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں) کیلئے تھی۔ مگر افسوس ہماری قوم میں غداریت و غیروں سے متاثر ہونے کا مادہ کچھ زیاد ہی ہ پایا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے یک آواز ہوکر ہندوستان زندہ بعد کہنے والے پاکستان زندہ بعد ، بھارت زندہ باد، کشمیر زندہ باد وغیرہ کے نعرہ لگانے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز یہاں سے فرار ہونے سے پہلے ہی اپنی ’’بالواستہ‘‘ حکومت کے تمام مہرے چھوڑ گیا۔ جن میں سے ایک پاک و ہند کی بالکل غیر منصفانہ تقسیم بھی شامل تھی۔
بیشک مین اسٹریم ہسٹری کے مطابق بھارت و پاکستان نے ۱۹۴۷ میں انگریز کے براہ راست تسلط سے آزادی کر لی تھی، مگر آج ۶۲ سال بعد مغربی کٹ پتلے حکمرانوں کے توسط سےہم یعنی ہندوستانی غیر قوموں کی غلامی میں‌گھرے ہوئے ہیں! یاد رہے کہ آزادی کا مطلب محض سیاسی یا دفاعی آزادی نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی قوم کی حقیقی آزادی میں اسکی تہذیب و ثقافت کی آزادی، معیشت کی آزادی اور حق رائے پر عمل در آمد کی آزادی بھی شامل ہے۔
آج ہماری خود ساختہ آزادی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بیرونی طاقتوں کے طلب گار ہیں، دریاؤں کے پانی اور ڈیمز کے لئے ورلڈ بینک سے خیرات چاہتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کو دیکھو تو مغربی عکس آئینے کی طرح چمکتا نظر آئے گا۔ تعلیمی اور معاشی نظام میں غیروں کی اندھی تقلید اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہم اپنی اصل بنیاد وں کو ہی بھول چکے ہیں۔
ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمنے تاج محل جیسے شاہکار بغیر کسی غیر ملکی امداد کے بنائے تھے۔ ہمیں یاد ہی نہیں ہے کہ ہمارے ہی ملک میں‌سپریم کورٹ جیسے کرپٹ لٹیرے نظام کی بجائے عدل کی زنجیر ہوتی تھی۔ اور سب سے اہم ہمیں اس بات کی بالکل بھی فہم نہیں ہے کہ ہمارا علاقہ قدرتی ذخائر و وسائل سے اسقدر مالا مال ہے کہ ہمیں بیرونی اور مہنگی امپورٹ کی قطعً ضرورت نہیں !
اور آخر میں:
ہند و پاک نے آزادی کس سے حاصل کی ۔؟
جواب: ایک دوسرے سے! :grin:
 

زونی

محفلین

آزادی تو برطانوی سامراج سے ہی حاصل کی تھی لیکن مسلم قومیت نے اپنے حق خود ارادیت کے تحت علیحدہ ریاست حاصل کی تھی اور آزادی کا منشور مسلمانوں کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ تھا ۔
 

زونی

محفلین
سیاسی تحفظ

یہ بات ذرا مشکوک ہے زونی !

مع السلام







یہ بات مشکوک ضرور ھے لیکن بہتری کی امید رکھی جا سکتی ھے ، اس کے برعکس اگر آپ تحریک پاکستان کے پس منظر کا جائزہ لیں تو وہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ بھیانک نظر آئے گی ۔
 

نایاب

لائبریرین

آزادی تو برطانوی سامراج سے ہی حاصل کی تھی لیکن مسلم قومیت نے اپنے حق خود ارادیت کے تحت علیحدہ ریاست حاصل کی تھی اور آزادی کا منشور مسلمانوں کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ تھا ۔

السلام علیکم
محترمہ زونی بہنا
اللہ تعالی سدا اپنی امان میں رکھے آمین
" مسلم قومیت " سے کیا مراد ہے ۔ ؟
کیا مسلم قومیت میں جملہ مسلمانان ہند شامل ہوں گے ۔
اگر ہاں تو پھر کیا جملہ مسلمانان ہند کے مذہبی ، معاشرتی ، اور سیاسی حقوق یکساں نہیں تھے ۔
کیونکہ جملہ مسلمانان ہند نے قیام پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے خالص علمی جواب سے نوازیں گی ۔
نایاب
 

علی ذاکر

محفلین
یہ بات مشکوک ضرور ھے لیکن بہتری کی امید رکھی جا سکتی ھے ، اس کے برعکس اگر آپ تحریک پاکستان کے پس منظر کا جائزہ لیں تو وہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ بھیانک نظر آئے گی ۔

بہتری کی امید زونی تب ہی رکھی جاسکتی ہے جب ہم ہی سے کوئ اٹھ کے ملک کا بیڑہ اٹھائے ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں اور کتنی دفعہ آزمانہ اور صدارت کا عہدہ دینا ہے ہم نے ہماری سب سے بڑی غلطی کہ ہم لوگ پہلے ان کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر بعد میں انہی کو گالیاں دیتے ہیں دوغلا پن تو ہم میں بھی بہت ہے !

مع السلام
 

زونی

محفلین
السلام علیکم
محترمہ زونی بہنا
اللہ تعالی سدا اپنی امان میں رکھے آمین
" مسلم قومیت " سے کیا مراد ہے ۔ ؟
کیا مسلم قومیت میں جملہ مسلمانان ہند شامل ہوں گے ۔
اگر ہاں تو پھر کیا جملہ مسلمانان ہند کے مذہبی ، معاشرتی ، اور سیاسی حقوق یکساں نہیں تھے ۔
کیونکہ جملہ مسلمانان ہند نے قیام پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے خالص علمی جواب سے نوازیں گی ۔
نایاب






جی نایاب بھائی فلحال تو میں نے مسلمانان ہند کیلئے ہی قومیت کی اصطلاح ‌استعمال کی ھے ۔

مسلمانوں کے حقوق تو یکساں ہی تھے ورنہ تاریخ‌کی اتنی بڑی ہجرت شاید ممکن نہ ہوتی لیکن جملہ مسلمانان سے شاید آپ نے مسلم لیڈرز مراد لیے ہیں جو کانگریس کا دم بھرتے تھے ، ان کے حقوق اور مسلمانان ہند کے حقوق میں فرق ہو سکتا ھے اور دوسرا اس وقت بھی دو قسم کے مکتبہ ہائے فکر موجود تھے اور وہ جو اسلام میں وطنیت کی مخالفت کرتے تھے اور دوسرے وہ جو اسے وقت کی ضرورت سمجھتے تھے ، دلچسپ بات یہ ھے کہ اقبال جیسے مفکر نے بھی اس وقت مسلم قومیت پہ زور دیا تھا اور الگ وطن حاصل کرنے کی بھی حمایت کی جبکہ ان کا نظریہ ملت اس سے قبل بلکل مختلف تھا ۔
 

زونی

محفلین
بہتری کی امید زونی تب ہی رکھی جاسکتی ہے جب ہم ہی سے کوئ اٹھ کے ملک کا بیڑہ اٹھائے ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں اور کتنی دفعہ آزمانہ اور صدارت کا عہدہ دینا ہے ہم نے ہماری سب سے بڑی غلطی کہ ہم لوگ پہلے ان کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر بعد میں انہی کو گالیاں دیتے ہیں دوغلا پن تو ہم میں بھی بہت ہے !

مع السلام





تو اٹھائیں ناں بیڑہ ، کسی نے آپ کو روکا ہوا ھے کیا ؟;)


دوسری بات بلکل درست ھے ، ہمارے اپنے ہی ڈبل سٹینڈرڈز ہیں ، انہی کو ووٹ‌اور انہی کو گالیاں ، لیکن مجھے اس میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ میں نے ان کو ووٹ‌نہیں دیا :grin:
 

نایاب

لائبریرین
جی نایاب بھائی فلحال تو میں نے مسلمانان ہند کیلئے ہی قومیت کی اصطلاح ‌استعمال کی ھے ۔

مسلمانوں کے حقوق تو یکساں ہی تھے ورنہ تاریخ‌کی اتنی بڑی ہجرت شاید ممکن نہ ہوتی لیکن جملہ مسلمانان سے شاید آپ نے مسلم لیڈرز مراد لیے ہیں جو کانگریس کا دم بھرتے تھے ، ان کے حقوق اور مسلمانان ہند کے حقوق میں فرق ہو سکتا ھے اور دوسرا اس وقت بھی دو قسم کے مکتبہ ہائے فکر موجود تھے اور وہ جو اسلام میں وطنیت کی مخالفت کرتے تھے اور دوسرے وہ جو اسے وقت کی ضرورت سمجھتے تھے ، دلچسپ بات یہ ھے کہ اقبال جیسے مفکر نے بھی اس وقت مسلم قومیت پہ زور دیا تھا اور الگ وطن حاصل کرنے کی بھی حمایت کی جبکہ ان کا نظریہ ملت اس سے قبل بلکل مختلف تھا ۔

السلام علیکم
زونی بہنا
آپ نے کانگریسی مسلم لیڈرز کے بارے لکھا ۔ درست
بے شک قیام پاکستان کے بعد تاریخ کی بہت عظیم ہجرت سامنے آئی ۔
کانگریسی مسلم لیڈرز تو مفاد کے باعث قیام پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ۔
اور ان کی اک بڑی تعداد نے ہجرت نہیں کی ۔
لیکن عام مسلمانوں میں سےبھی اک بہت بڑی تعداد نے ہجرت نہیں کی ۔
اور آج بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ۔
بے شک علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا ۔
لیکن اس پرچار سے پہلے آپ متحد ہند کے اک عرصے تک حامی رہے ۔
آپ کا بہت سارا کلام اس کا گواہ ہے ۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ مذہبی علما کی بہت بڑی تعداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔
لیکن پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد انہوں نے ہجرت کر کے پاکستانی قومیت حاصل کر لی ۔
وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث پاکستان کا قیام لازمی تھا ۔ /
شخصیات کا ذکر صرف تاریخ یاد کرنے کے لیے بہتر ہو گا ۔
سوال ' آزادی ' کے بارے ہے ۔
نایاب
 

زونی

محفلین
نایاب بھائی کیا یہ دوغلا پن نہیں تھا کہ پاکستان بننے کے بعد آپ یہاں کی قومیت حاصل کر لیتے ہیں جبکہ پہلے آپ اس کے قیام کو ہی غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔


وجوہات کا ذکر تو بہت طویل ہو جائے گا نایاب بھائی ، کوئی ایک وجہ تو نہیں تھی لیکن سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ اگر مسلمان الگ ریاست حاصل نہ کرتے تو شاید ہمیشہ کیلئے ہندوستان میں اقلیت بن کے رہ جاتے اور پھر قانون ساز اسمبلیوں میں ہندو اکثریت کی وجہ سے وہی حالات ہو جاتے جو کانگریسی وزارتوں کے زمانے میں ہوئے تھے ، موجودہ حالات میں لوگ جو بھی کہیں لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ اس وقت کے مسلم رہنماؤں کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی بھی نمائندگی کی اگرچہ قائداعظم بھی ایک عرصہ تک مشترک ہندوستان اور کانگریس کے حامیوں میں سے تھے ۔
 

زونی

محفلین
آپ شاید بھول رہی ہیں زونی بیڑہ اٹھانے کے لیئے بھی ساتھ کچھ حمایتی ہونے چاہیئں ورنہ جو حال شیخ رشید کا ہو رہا ہے کہیں وہ حال میرا بھی نہ ہو !'

مع السلام





آجکل کے نوجوانوں کی سوچ بھی تو یہیں تک ھے ورنہ شیخ‌رشید جیسے لوگ ہی کیوں منظر عام پہ آئیں ،

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں :)
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی کیا یہ دوغلا پن نہیں تھا کہ پاکستان بننے کے بعد آپ یہاں کی قومیت حاصل کر لیتے ہیں جبکہ پہلے آپ اس کے قیام کو ہی غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔


وجوہات کا ذکر تو بہت طویل ہو جائے گا نایاب بھائی ، کوئی ایک وجہ تو نہیں تھی لیکن سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ اگر مسلمان الگ ریاست حاصل نہ کرتے تو شاید ہمیشہ کیلئے ہندوستان میں اقلیت بن کے رہ جاتے اور پھر قانون ساز اسمبلیوں میں ہندو اکثریت کی وجہ سے وہی حالات ہو جاتے جو کانگریسی وزارتوں کے زمانے میں ہوئے تھے ، موجودہ حالات میں لوگ جو بھی کہیں لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ اس وقت کے مسلم رہنماؤں کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی بھی نمائندگی کی اگرچہ قائداعظم بھی ایک عرصہ تک مشترک ہندوستان اور کانگریس کے حامیوں میں سے تھے ۔

آپ پرسدا سلامتی ہو زونی بہنا
جن شخصیات نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔
انہیں بیک جنبش قلم " دوغلا ' کہہ دینا مناسب نہیں ۔
کہ وہ شخصیات بھی اپنی مخالفت کی اک دلیل رکھتی ہیں ۔
اور 1947 سے لیکر 2009 تک ہند کے کچھ " صدور" کو اقلیت سے ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
اس لیے ' اقلیت ' سے نکل کر ' اکثریت ' میں آنا ہی صرف آزادی کا مقصد نہیں تھا ۔
نایاب
 

طالوت

محفلین
شکریہ زونی ۔ آپ نے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا ۔ مگر لفظوں کی پٹاری کھل جائے تو کہاں کبھی کوئی مطمئن ہوا ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے اس وقت نعرے لگانے والے اور اب بھی خواب دیکھنے والے کم نہیں ۔ مگر عارف کریم نے جو علم کا دریا بہایا ہے اسی میں سے "چند موتی" نکال کر رکھ دوں کہ غدار نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں ۔ کسی کے ڈانڈے سعودی عرب سے جا ملتے ہیں ، کوئی پس پردہ گریٹر ایران ہی کو اپنا اصل وطن سمجھتا ہے اور کسی کو متحدہ ہندوستان کی "پیڑ" اٹھتی ہے ۔ مگر یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اگرچہ وطن پرستی ملت اسلامیہ کے متضاد چیز معلوم ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوئی چیز نہیں رہی البتہ وطن سے آپ ایک ملت ضرور تشکیل دے سکتے اور وہ تمام تر نظریات و عقائد پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئی ہے ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل

آزادی تو برطانوی سامراج سے ہی حاصل کی تھی لیکن مسلم قومیت نے اپنے حق خود ارادیت کے تحت علیحدہ ریاست حاصل کی تھی اور آزادی کا منشور مسلمانوں کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ تھا ۔

برطانوی راج سے صرف ثانوی آزادی حاصل کی تھی ۔ کیونکہ بعد کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہمنے اپنا سرکاری، سیاسی، معاشی، عدلی اور تعلیمی نظام وہی برطانوی راج کے وقت جیسا ہی رکھا۔ اور ابھی تک ہے۔ اگر آزادی کیلئے واقعی جدو جہد کی تھی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک منفرد اور بہتر نظام زندگی متعارف کر وانا چاہئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ نعرہ آزادی کا لیکن نظام وہی پرانے آقاؤں کا! :grin:
پھر چلیں برطانوی راج کو چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان ہی کے دور سے پاکستان نے ریاست ہائے ہائے امریکہ سے قریبی مراسم جوڑنا شروع کر دئے۔ اور پھر امپورٹڈ جنگی دفاعی نظام جسکی اولً تو کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومتی بجٹ کا حصہ بنا رہا۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک ابھی آزاد ہوا ہے تواسکو خود مختار رکھنے کیلئے اور عوام کی فلاح کیلئے لانگ ٹرمز ترقیاتی کام شروع کئے جاتے۔ ملک کو از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے تحت ڈیزائن کیا جاتا۔ یہ وہ کام تھا جو ابتدائی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ اسکے بر عکس ہم تو بس کبھی فوجی آمروں اور کبھی غیر قوموں کے آلہ کار بنے رہے۔ پھر انتہائی غربت و مصیبت کی حالت میں امپورٹڈ جنگی سامان کیساتھ نکل پڑے بھارت سے دو جنگیں کرنے۔ جسکا خمزیادہ ابھی تک معاشی بھونچال اور کبھی نہ ختم ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی صورت میں‌بھگت رہے ہیں۔ جنگیں کرنے سے پہلے ملک کی معاشی و اقتصادی حالت تو دیکھ لیتے۔ یہ تو سمجھ لیتے کہ ان جنگوں کا حقیقی فائدہ بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ محض ان غیر قوتوں کی صنعتوں کو ہونا ہے جنکی روزی روٹی اسکی سیل پر منحصر ہے۔
ہائے پاکستان کا اللہ حافظ!
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ زونی ۔ آپ نے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا ۔ مگر لفظوں کی پٹاری کھل جائے تو کہاں کبھی کوئی مطمئن ہوا ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے اس وقت نعرے لگانے والے اور اب بھی خواب دیکھنے والے کم نہیں ۔ مگر عارف کریم نے جو علم کا دریا بہایا ہے اسی میں سے "چند موتی" نکال کر رکھ دوں کہ غدار نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں ۔ کسی کے ڈانڈے سعودی عرب سے جا ملتے ہیں ، کوئی پس پردہ گریٹر ایران ہی کو اپنا اصل وطن سمجھتا ہے اور کسی کو متحدہ ہندوستان کی "پیڑ" اٹھتی ہے ۔ مگر یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اگرچہ وطن پرستی ملت اسلامیہ کے متضاد چیز معلوم ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوئی چیز نہیں رہی البتہ وطن سے آپ ایک ملت ضرور تشکیل دے سکتے اور وہ تمام تر نظریات و عقائد پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئی ہے ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
وسلام

السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
درست لکھا آپ نے مگر
آپ کی تحریر کچھ تشنہ محسوس ہوئی ہے ۔
یا شائد میں سمجھ نہیں پایا ۔
کچھ آسان لکھ دیں نا ۔
مہربانی
نایاب
 

نایاب

لائبریرین
برطانوی راج سے صرف ثانوی آزادی حاصل کی تھی ۔ کیونکہ بعد کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہمنے اپنا سرکاری، سیاسی، معاشی، عدلی اور تعلیمی نظام وہی برطانوی راج کے وقت جیسا ہی رکھا۔ اور ابھی تک ہے۔ اگر آزادی کیلئے واقعی جدو جہد کی تھی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک منفرد اور بہتر نظام زندگی متعارف کر وانا چاہئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ نعرہ آزادی کا لیکن نظام وہی پرانے آقاؤں کا! :grin:
پھر چلیں برطانوی راج کو چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان ہی کے دور سے پاکستان نے ریاست ہائے ہائے امریکہ سے قریبی مراسم جوڑنا شروع کر دئے۔ اور پھر امپورٹڈ جنگی دفاعی نظام جسکی اولً تو کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومتی بجٹ کا حصہ بنا رہا۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک ابھی آزاد ہوا ہے تواسکو خود مختار رکھنے کیلئے اور عوام کی فلاح کیلئے لانگ ٹرمز ترقیاتی کام شروع کئے جاتے۔ ملک کو از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے تحت ڈیزائن کیا جاتا۔ یہ وہ کام تھا جو ابتدائی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ اسکے بر عکس ہم تو بس کبھی فوجی آمروں اور کبھی غیر قوموں کے آلہ کار بنے رہے۔ پھر انتہائی غربت و مصیبت کی حالت میں امپورٹڈ جنگی سامان کیساتھ نکل پڑے بھارت سے دو جنگیں کرنے۔ جسکا خمزیادہ ابھی تک معاشی بھونچال اور کبھی نہ ختم ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی صورت میں‌بھگت رہے ہیں۔ جنگیں کرنے سے پہلے ملک کی معاشی و اقتصادی حالت تو دیکھ لیتے۔ یہ تو سمجھ لیتے کہ ان جنگوں کا حقیقی فائدہ بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ محض ان غیر قوتوں کی صنعتوں کو ہونا ہے جنکی روزی روٹی اسکی سیل پر منحصر ہے۔
ہائے پاکستان کا اللہ حافظ!

السلام علیکم
محترم عارف کریم بھائی
انشااللہ
پاکستان کا اللہ ہی حافظ و مالک ہے ۔
آپ آزادی کے بعد کی کہانی میں الجھ رہے ہیں ۔
جبکہ تلاش تو ان محرکات کی ہے جو آزادی کا سبب بنے ۔
ہندوستان میں اقلیتیں تو اور بھی بہت ہیں ۔
آپ سب سے گزارش ہے کہ ذاتیات و شخصیات کو الگ رکھییے گا ۔
نایاب
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
محترم طالوت بھائی
درست لکھا آپ نے مگر
آپ کی تحریر کچھ تشنہ محسوس ہوئی ہے ۔
یا شائد میں سمجھ نہیں پایا ۔
کچھ آسان لکھ دیں نا ۔
مہربانی
نایاب
آپ اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، سچ اس سے اسان اور واضح تو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آپ یوں سمجھیں "زمینی حقائق" بیان کرنے کی کوشش کی ہے :)
وسلام
 
Top