’آزادی چاہیے مگر ووٹ تو ڈالیں گے‘
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
کشمیر میں بائیکاٹ کے باوجود لوگوں نے کثیر تعداد میں ووٹ ڈالے
25 نومبر کو جب کشمیر میں ریاستی اسمبلی کی 15 نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے توگاندربل اور بانڈی پورہ میں تجارتی سرگرمیاں معطل تھیں۔
لوگوں نے علیحدگی پسندوں کی کال پر ہڑتال کی تھی لیکن پولنگ مراکز پر گہما گہمی کا ماحول تھا۔ ووٹروں کی طویل قطاریں اور ہڑتال ایک متضاد منظر پیش کر رہی تھیں۔
گاندربل کے ایک پولنگ مرکز کے باہر جمع کچھ لوگوں سے میں نے سوال کیا، اگر ہڑتال کی ہے تو ووٹ کیوں ڈالتے ہیں آپ لوگ؟
محمد شعبان نامی ایک ووٹر نے بتایا: ’ہم تو آزادی کے ساتھ ہیں۔ حریت کانفرنس جو کہتی ہے ہم اس سے کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ لوگ یہاں آزادی چاہتے ہیں مگر وہ ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ لیکن جب تک آزادی ملے گی، تب تک بجلی، پانی اور سڑک کا مسئلہ کون دیکھے گا؟‘
وہاں موجود بعض دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں بائیکاٹ کرنے میں حرج نہیں لیکن بائیکاٹ سے غیرمعتبر اور غیرمقبول لوگوں کو اسمبلی میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کا ووٹر بھارت کی دیگر ریاستوں سے الگ ہے
بائیکاٹ کی سیاست کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کلیدی حصہ رہی ہے۔ جب عمرعبداللہ کے دادا شیخ محمد عبداللہ کو 1953 میں معزول کرکے حکومت ہند نے جیل بھیج دیا تو انھوں نے ’محاذ رائے شماری‘ کی بنیاد ڈالی اور الیکشن بائیکاٹ کا نعرہ دیا۔ 19 سال بعد جب کشمیر میں بھارتی پارلیمنٹ کے انتخابات ہوئے تو ایسے کئی رہنماوں نے بائیکاٹ کال کو مسترد کرکے الیکشن لڑا جو آج علیحدگی پسند قیادت کا حصہ ہیں۔
سنہ 1989 میں جب یہاں مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا تو کم و بیش تمام مسلح گروپوں کے سربراہ ایسے لوگ تھے جو 1987 کے انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت کرچکے تھے۔
پاکستان میں فی الوقت مقیم محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کئی مسلح گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین ہیں۔ لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ ان انتخابات میں ’تاریخی دھاندلی‘ ہوئی۔ اُس وقت سید علی گیلانی سوپور کے ایم ایل اے تھے۔
علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ سیاست کا محور وہی تاریخی دھاندلی ہے جس کے تحت ایسے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا جو ہزاروں ووٹوں سے ہار رہے تھے۔
انتخابات کے دوران سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے
سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ کشمیریوں کا جمہوری عمل سے اعتبار اُٹھ گیا ہے کیونکہ بقول ان کے انتخابات فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا ایک مشترکہ آپریشن ہوتا ہے۔
مسلح شورش کے دوران ہی 1996 میں فوج اور حکومت نواز مسلح گروپوں کی مدد سے کشمیر میں انتخابات کیے گئے، لیکن ان میں پانچ فی صد ووٹنگ ہوئی۔ بعد ازاں سنہ 2002 میں جب انتخابات ہوئے تو لوگوں نے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان میں سابق فوجی جنرل پرویز مشرف حکومت کررہے تھے۔ انھوں نے الیکشن کو ایک ’نان ایشو‘ قرار دے کر یہ عندیہ دیا کہ علیحدگی پسند چاہیں تو اسمبلی کے راستے سیاسی مذاکرات کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن علیحدگی پسندوں کے درمیان اس بات پر پھوٹ پڑ گئی اور سید علی گیلانی اور یاسین ملک اپنے ساتھیوں سے الگ ہوگئے۔
آج علیحدگی پسندوں کے کئی دھڑے ہیں مگر انتخابات کے بائیکاٹ پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن جس شدت کے ساتھ آج کل کشمیر میں بی جے پی اپنے سیاسی عزائم کے لیے سرگرم ہے کشمیر کے کئی سیاسی حلقے چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے حریت کانفرنس کو بائیکاٹ کی سیاست ترک کرنا ہوگی۔
کشمیر میں ہندمخالف تحریک کو عوامی اعتبار حاصل ہے
لیکن سماجی حلقوں میں اس حوالے سے الگ نقطۂ نگاہ پایا جاتا ہے۔ تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں: ’کشمیر کی کچھ حقیقتیں ہیں۔ یہ ایک عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا تنازعہ ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین موجود ہیں اور یہاں کے چپے چپے پر پانچ سے سات لاکھ تک بھارتی فوج تعینات ہے۔ یہاں کے نوجوان موت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان انتخابات کا تجزیہ اس پس منظر کو ہٹاکر کیا جائے گا تو نتائج گمراہ کن ہونگے۔‘
ہارون کہتے ہیں کہ ’دنیا جمہوریت کی زبان سمجھتی ہے اور حکومت ہند نے ان انتخابات کے ذریعہ امریکہ اور یورپ کو یہ باور کرایا ہے کہ لوگ بھارت کے ساتھ کشمیریوں کے متنازع الحاق کو تسلیم کرچکے ہیں۔ علیحدگی پسندوں کے لیے چلینج یہی تھا، کہ وہ اس پروپیگنڈے کا کیسے جواب دیں مگر وہ ہر بار بائیکاٹ کی کال دیتے ہیں اور ہر بار وہ ناکام ہوجاتی ہے۔‘
کشمیر میں بائیکاٹ کی سیاست مرکزی حیثیت رکھتی ہے
مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کا ووٹر بھارت کی دیگر ریاستوں سے الگ ہے۔ کشمیر میں ہند مخالف تحریک کو عوامی اعتبار حاصل ہے، لہذا کوئی ووٹر یہ نہیں کہے گا کہ اس نے مسئلہ کشمیر کے خاتمہ یا حریت کانفرنس کے خلاف ووٹ دیا۔ وہ ہمیشہ بجلی، پانی اور سڑک کا ہی نام دےگا۔
ان انتخابات سے علیحدگی پسند قیادت اور حکومت ہند کے لیے خاص سبق ہے۔ علیحدگی پسندوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب قیادت کو تذبذب سے خلاصی کا راستہ نہیں سُوجھتا تو لوگ نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اور حکومت ہند کے لیے سبق یہ ہے کہ الیکشن کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا 20 سالہ آپریشن بھی ناکام ہوگیا ہے۔
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
- 26 نومبر 2014

کشمیر میں بائیکاٹ کے باوجود لوگوں نے کثیر تعداد میں ووٹ ڈالے
25 نومبر کو جب کشمیر میں ریاستی اسمبلی کی 15 نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے توگاندربل اور بانڈی پورہ میں تجارتی سرگرمیاں معطل تھیں۔
لوگوں نے علیحدگی پسندوں کی کال پر ہڑتال کی تھی لیکن پولنگ مراکز پر گہما گہمی کا ماحول تھا۔ ووٹروں کی طویل قطاریں اور ہڑتال ایک متضاد منظر پیش کر رہی تھیں۔
گاندربل کے ایک پولنگ مرکز کے باہر جمع کچھ لوگوں سے میں نے سوال کیا، اگر ہڑتال کی ہے تو ووٹ کیوں ڈالتے ہیں آپ لوگ؟
محمد شعبان نامی ایک ووٹر نے بتایا: ’ہم تو آزادی کے ساتھ ہیں۔ حریت کانفرنس جو کہتی ہے ہم اس سے کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ لوگ یہاں آزادی چاہتے ہیں مگر وہ ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ لیکن جب تک آزادی ملے گی، تب تک بجلی، پانی اور سڑک کا مسئلہ کون دیکھے گا؟‘
وہاں موجود بعض دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں بائیکاٹ کرنے میں حرج نہیں لیکن بائیکاٹ سے غیرمعتبر اور غیرمقبول لوگوں کو اسمبلی میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کا ووٹر بھارت کی دیگر ریاستوں سے الگ ہے
بائیکاٹ کی سیاست کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کلیدی حصہ رہی ہے۔ جب عمرعبداللہ کے دادا شیخ محمد عبداللہ کو 1953 میں معزول کرکے حکومت ہند نے جیل بھیج دیا تو انھوں نے ’محاذ رائے شماری‘ کی بنیاد ڈالی اور الیکشن بائیکاٹ کا نعرہ دیا۔ 19 سال بعد جب کشمیر میں بھارتی پارلیمنٹ کے انتخابات ہوئے تو ایسے کئی رہنماوں نے بائیکاٹ کال کو مسترد کرکے الیکشن لڑا جو آج علیحدگی پسند قیادت کا حصہ ہیں۔
سنہ 1989 میں جب یہاں مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا تو کم و بیش تمام مسلح گروپوں کے سربراہ ایسے لوگ تھے جو 1987 کے انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت کرچکے تھے۔
پاکستان میں فی الوقت مقیم محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کئی مسلح گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین ہیں۔ لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ ان انتخابات میں ’تاریخی دھاندلی‘ ہوئی۔ اُس وقت سید علی گیلانی سوپور کے ایم ایل اے تھے۔
علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ سیاست کا محور وہی تاریخی دھاندلی ہے جس کے تحت ایسے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا جو ہزاروں ووٹوں سے ہار رہے تھے۔

انتخابات کے دوران سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے
سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ کشمیریوں کا جمہوری عمل سے اعتبار اُٹھ گیا ہے کیونکہ بقول ان کے انتخابات فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا ایک مشترکہ آپریشن ہوتا ہے۔
مسلح شورش کے دوران ہی 1996 میں فوج اور حکومت نواز مسلح گروپوں کی مدد سے کشمیر میں انتخابات کیے گئے، لیکن ان میں پانچ فی صد ووٹنگ ہوئی۔ بعد ازاں سنہ 2002 میں جب انتخابات ہوئے تو لوگوں نے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان میں سابق فوجی جنرل پرویز مشرف حکومت کررہے تھے۔ انھوں نے الیکشن کو ایک ’نان ایشو‘ قرار دے کر یہ عندیہ دیا کہ علیحدگی پسند چاہیں تو اسمبلی کے راستے سیاسی مذاکرات کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن علیحدگی پسندوں کے درمیان اس بات پر پھوٹ پڑ گئی اور سید علی گیلانی اور یاسین ملک اپنے ساتھیوں سے الگ ہوگئے۔
آج علیحدگی پسندوں کے کئی دھڑے ہیں مگر انتخابات کے بائیکاٹ پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن جس شدت کے ساتھ آج کل کشمیر میں بی جے پی اپنے سیاسی عزائم کے لیے سرگرم ہے کشمیر کے کئی سیاسی حلقے چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے حریت کانفرنس کو بائیکاٹ کی سیاست ترک کرنا ہوگی۔

کشمیر میں ہندمخالف تحریک کو عوامی اعتبار حاصل ہے
لیکن سماجی حلقوں میں اس حوالے سے الگ نقطۂ نگاہ پایا جاتا ہے۔ تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں: ’کشمیر کی کچھ حقیقتیں ہیں۔ یہ ایک عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا تنازعہ ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین موجود ہیں اور یہاں کے چپے چپے پر پانچ سے سات لاکھ تک بھارتی فوج تعینات ہے۔ یہاں کے نوجوان موت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان انتخابات کا تجزیہ اس پس منظر کو ہٹاکر کیا جائے گا تو نتائج گمراہ کن ہونگے۔‘
ہارون کہتے ہیں کہ ’دنیا جمہوریت کی زبان سمجھتی ہے اور حکومت ہند نے ان انتخابات کے ذریعہ امریکہ اور یورپ کو یہ باور کرایا ہے کہ لوگ بھارت کے ساتھ کشمیریوں کے متنازع الحاق کو تسلیم کرچکے ہیں۔ علیحدگی پسندوں کے لیے چلینج یہی تھا، کہ وہ اس پروپیگنڈے کا کیسے جواب دیں مگر وہ ہر بار بائیکاٹ کی کال دیتے ہیں اور ہر بار وہ ناکام ہوجاتی ہے۔‘

کشمیر میں بائیکاٹ کی سیاست مرکزی حیثیت رکھتی ہے
مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کا ووٹر بھارت کی دیگر ریاستوں سے الگ ہے۔ کشمیر میں ہند مخالف تحریک کو عوامی اعتبار حاصل ہے، لہذا کوئی ووٹر یہ نہیں کہے گا کہ اس نے مسئلہ کشمیر کے خاتمہ یا حریت کانفرنس کے خلاف ووٹ دیا۔ وہ ہمیشہ بجلی، پانی اور سڑک کا ہی نام دےگا۔
ان انتخابات سے علیحدگی پسند قیادت اور حکومت ہند کے لیے خاص سبق ہے۔ علیحدگی پسندوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب قیادت کو تذبذب سے خلاصی کا راستہ نہیں سُوجھتا تو لوگ نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اور حکومت ہند کے لیے سبق یہ ہے کہ الیکشن کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا 20 سالہ آپریشن بھی ناکام ہوگیا ہے۔