آزادی اظہار رائے پہ لعنت.... اردو کالم عبدالرزاق قادری

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئرکے دوسرے دورِ حکومت میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کسی اخبار نے امریکہ کی اُس دَور کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کا ایک کارٹون بنایا تھا اور اس کارٹون میں اُس کے پیٹ سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لیتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تب مغرب اس اقدام کے خلاف چیخا۔ امریکہ دھاڑا ۔ اور آزادی اظہار رائے کی شِق کو بھول گیا۔ حالانکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ لیکن خاتون وزیر خارجہ کی بے عزتی برداشت نہ کی۔ دوسری جنگ عظیم اور دیگر جنگوں میں ان امریکی اور اتحادی فوجیوں اور افسروں نے جاپان، کوریا میں ہزاروں اور دیگر ممالک کے اعداد و شمار ملا کر لاکھوں برہنہ عورتوں کو چند پونڈ اور ڈالرز کے عوض بیچا۔ اور ان نشے سے دُھت فوجیوں نے عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔
مسلمانوں میں خواندہ اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ چودہ صدیاں گزر گئیں۔ لیکن آج تک کسی مسلمان نے کسی مقدس کتاب کی بے حرمتی نہیں کی۔ کبھی کسی جاہل نادان نے بھی کسی نبی یا رسول کی گستاخی کا اقدام نہیں کیا۔ اُن پر بہت سے سخت اوقات بھی آئے اور گزر گئے۔ لیکن ان کے ایمان نے ایسی کوئی ہرزہ رسائی گوارا نہ کی۔ کیونکہ اُنہیں مدنی تاج دار ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ تربیت ملی کہ کسی بھی نبی کی شان مت گھٹاؤ۔ بلکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیا کرام علیہم السلام معصوم ہیں ، گناہوں سے پاک ہیں۔اور ان کو اللہ عز وجل نے بے شمار معجزات سے نوازا۔ ان کے معجزات کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ مسجدوں میں سینکڑوں خطبے دوسرے نبیوں کی شان بیان کرنے پر ہوتے ہیں۔مسلمان بچے بچپن سے حضرت مریم علیہ السلام کی پاکیزگی کی شان کو مسجدوں میں سنتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن پاک کی انیسویں سورۃ کا نام مریم ہے۔ اس سورۃ میں جس طرح حضرت مریم کی پاکیزگی بیان کی گئی۔ تورات اور انجیل میں بھی اتنے زور سے حضرت مریم کا دفاع موجود نہیں۔ بلکہ اُن کی اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کی وجہ سے دوسرے نبیوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ اہل سلام کے نزدیک وہ بھی گستاخی ہے۔ جبکہ ہم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے ساتھ دیگر تما م الہامی مذہبوں کو اپنے ایمان کا حصہ جانتے ہیں۔ اور ہم اپنے نبی کی تعریف بھی خوب بیان کرتے ہیں۔اور یوں مسلمانوں کے ایمان کو مزید مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کبھی گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کے ہاں ایسی سوچ کا خواب میں آ جانا بھی محال ہے۔ انسانی تاریخ مسلمانوں کے ہاتھوں ایسی کوئی گستاخی ثابت نہیں کرسکتی۔ ان کی گواہی ہے کہ اگر دنیا کے کسی بھی شخص نے ایسی بد معاشانہ حرکت کی تو پھر وہ زمین کے اوپر نظر نہ آیا۔بلکہ زمین کے نیچے۔
اس سے پہلے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب یا عقیدہ تھا۔ گستاخانہ حرکت کے بعد گستاخ قرار پایا اور اپنے انجام کو پہنچا۔
اب یہ کیسے ممکن ہے مسلمانوں کی ایمان کی جان نبی آخرالزمان کی ذات پر کوئی شقی القلب حرف اُٹھائے اور ان کی غیرتِ ایمانی کو جوش نہ آئے۔ دراصل تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ امتِ واحدہ ہیں۔ فکری طور پر ایک اُمت ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کے ہوں ، مشرقِ وسطیٰ، وسطِ ایشیائی ریاستوں کے ہوں، جنوب مشرق اور مشرقِ بعید کے یا چین و روس کے، آسٹریلیا و انٹارکٹیکا کے، یا پھر ساحلِ نیل کی پٹی کے، افریقہ کے ہوں یا یورپ کے، امریکہ کے ہوں یا کینیڈا کے وہ آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں۔ ان کے ایمان کی روح رحمۃ اللعٰلمین کا عشق ہے۔
ان کے دل مکے اور مدینے کے نام سے دھڑکتے ہیں۔ ان میں کوئی معمولی فسق و فجور ہو تو ہو لیکن مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کمی نہیں ۔ وہ سراپا محبت قوم ہیں۔ ان کا دین امن کا سب سے بڑا عَلَم بردار بھی ہے۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی صرف مسلمان قوم نے دکھایا۔ آؤ کبھی دیکھو ! اُس عظیم فاتح مکہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فاتحانہ انداز یعنی وہ شفقت سے فرما دینا
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ
اپنی زندگی کے بدترین دشمنوں کو عام معافی کا اعلان !
اور اس پر عمل بھی !
اپنی بیٹی کے قاتل کوبھی معافی!
اے دنیا میں امن کے جھنڈے اٹھانے والو !
لے کر آؤ اپنی تاریخوں سے ایسی کوئی مثال !
کھلا چیلنج ہے۔
تم تو بدکرداری پر اُتر آئے۔ انسانیت کے سب سے بڑے قاتل تم ہو۔
تم ہٹلر ہو۔
تم فرڈی نینڈ ہو۔
تم ناگاساکی اور ہیروشیما کے لیے قیامت کا اعلان ہو۔
تم نے وطن کی محبت کے نعرے میں فاشزم کا سہارا لے کر، اپنی قوت کی برتری جتانے کے لیے انسانیت کا بے دریغ خون بہایا۔
تم نے مفتوح علاقوں میں عزتیں تار تار کیں۔ تم نے انسانوں کی تذلیل کی۔اللہ ظالموں کو ذلیل کر کے مارے گا۔
ان شاء اللہ
امریکہ میں چند شر پسند شیطان صفت درندوں نے آخری نبی حضرت محمد کے کردار کے حوالے سے معاذاللہ گستاخانہ فلم بنا کر نشر کی۔ پہلے مصر سے احتجاج شروع ہوا۔ پھر لیبیا میں ان کا ا یک سفارت کارمرگیا۔ اس کا ایک دو ساتھی بھی۔ ان کو کسی نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ وہ احتجاج دیکھ کر خوف ہی سے مر گئے یا دُھویں کی وجہ سے دم گھٹنے کا شکار ہوئے۔جب کہ اس دوران میں ایک درجن سے زیادہ لیبیا کے لوگ اور پولیس آپس میں لڑ جھگڑ کر جاں بحق ہوگئے۔چونکہ پولیس کے محافظوں کا کام سفارت خانے کی حفاظت کرنا تھا۔ اور دین کے محافظوں کا کام جانِ ایمان کی شان کی حفاظت کرنا تھا۔ اس واقعہ کے بعد نمرودِ وقت نے اپنے ایک بندے کی زندگی کو دو ارب کے قریب مسلمانوں کے ایمان کی زینت آقا کریم کی شان سے قیمتی سمجھتے ہوئے اُس مرنے والے کے حق میں آواز اُٹھائی۔ اور اُس کا بدلہ لینے کی باتیں کیں۔ اور لیبیا کی کرنل معمر قذافی سے آزادی والی تحریک کی اپنی سرپرستی کو بھی جتلایا۔ ڈیڑھ ارب ارب سے زائد مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اور ان میں سے اکثر سڑکوں پر آ گئے۔ ان کے جذبہء ایمانی کو ٹھیس پہنچی اور فرعونِ وقت غُرا رہے ہیں کہ فلاں سے دشمنی لیں گے اور فلاں کی امداد بند کر دیں گے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں انسانی حقوق کی ان نام نہاد عالمی تنظیموں ، جمہوریت اور آزادیء اظہار رائے پر۔ جن کا معیار دوہرا ہے۔کوئی ان کی وزیر خارجہ کا کارٹون بنائے تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ اور تمام جہانوں کے لیے رحمت والے نبی کی شان میں گستاخی پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ پھر ان کو اپنی اموات یاد آ جاتی ہیں۔ اور مسلمان کے معاملے میں آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ اللہ کرے وہ حقیقی طور پر سارے اندھے ہی ہو جائیں۔ اور جہنم
میں اوندھے مُنہ گرائے جائیں۔لیکن وہ آکھیں کھول کر پڑھ لیں اور کان کھول کر سُن لیں کہ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا۔ یہ عروج کا حق دار ہے۔ اور انشاء اللہ عروجِ بام پر پہنچ کر بر سرِ عروج ہی رہے گا۔ پھر بھی اِسلام کے بارے میں صفحاتِ کتب تواریخ گواہ ہیں کہ اس کے ماننے والے فاتح بن کر ظالم نہ بنے۔ اور قوت میں آ کر اُس کے طاقت نشے میں چُور نہ ہوئے۔
ہاں یاد رکھو ! فتح مکہ کے دن اُس رحمۃ اللعٰلمین نے اپنی جان کے دشمنوں کو بخش دیا تھا۔ اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف کر دیا۔ لیکن بد زبانی کر کے گستاخی کرنے والے کو خانہ کعبہ سے پکڑ کر موت کے گھاٹ اُتروا یا۔ اگر تمہارا سب کچھ تمہارا وطن اور قومیت ہے تومسلمانوں کے لیے ایمان کی جان محمد مصطفیٰ کی ذات ہے۔ تم تو نائن الیون
کے جھوٹے منصوبے بنا کر اور اسلام کے لبادے میں باطل جنگجو فسادی تنظیمیں بنا کر نہتے مسلمانوں پر ظلم کرتے اور کرواتے ہو۔تو وہ برداشت کر جاتے ہیں۔ یہ ظلم تو ان کی جان کا معاملہ ہے۔ لیکن نبی کی شان ان کے ایمان کا معاملہ ہے۔ اگر تمہارے برطانوی کو ہسپانوی یا فرانسیسی کو آئرش کَہ کر پکارا جائے تو وہ قیامت برپا کرنے پر تُل جاتا ہے۔ وہ تو قومیت کا ادنیٰ درجے کا معاملہ ہے۔ لیکن یہاں تمام جہانوں کے خالق و مالک کے محبوبِ حقیقی کی شان کا معاملہ ہے۔ یہ بھول جاؤ کہ اب بھی وقت تمہاری دسترس میں رہے گا، اب ان شاء اللہ نبی کی شان کے محافظ اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس کی پاسبانی کریں گے۔ اور اپنے اعلیٰ ترین اور غیرت مند قوم ہونے کا ثبوت دیں گے۔
 

باباجی

محفلین
بہت خوب قادری صاحب
بے شک مالک کریم کی بہت مہربانی ہے
کہ ہم لوگ ابھی حق کے پست ترین درجے پر نہیں پہنچے کم سے کم زبان سے تو کہہ دیتے ہیں
"ہمارے آقاﷺ سب کے آقاﷺ پر ہماری جان و مال، ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ ، ہم خود قربان"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی اظہارِ رائے دراصل اپنی رذیل اور ابلیسی سوچ کو بغیر کسی رکاوٹ و نقصان کے دوسروں کے سامنے بیان کرنے کا نام رکھ دیا ہے آجکل کے انسان
نے ، تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے آباء و اجداد کے بخیے ادھیڑ دیے جاتے ہیں اور نام دیا جاتا ہے آزادی اظہارِ رائے کا ۔
ہم دوسروں کی تربیت پر تنقید کرتے ہیں ، لیکن خود پر بات آجائے تو بپھر جاتے ہیں کے ہمارے بڑوں کے بارے میں ایسا کہنے کی جرات کیسے کی تم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بات آتی ہے اس شخصیت کی جس کے لیئے یہ دنیا بنی اور جو اس دنیا کے لیئے ہے
"مصطفیٰ ﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام"
تو کوئی مصلحت، کوئی منافقت، کوئی جدید سوچ نہیں
صاف جواب، حق بات اور سینہ سپر ہونا ہے
تشدد نہیں ، وارننگ اور پھر بھی نہ مانے تو للکار
ڈرنا کیسا ؟
اگر ڈرتے ہو تو اسکا مطلب ہے
جن غزوات کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے، پڑھایا گیا ہے
اسے تم صرف ایک اسلامی کہانی سمجھتے ہو ۔

لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے
ہمیں یقین ہے کہ ہم گر 313 کے بجائے صرف 13 بھی ہونگے تو بھی
کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا

"تشدد نہیں، پیار"
"وارننگ نہیں، للکار"
 

Fawad -

محفلین
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئرکے دوسرے دورِ حکومت میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کسی اخبار نے امریکہ کی اُس دَور کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کا ایک کارٹون بنایا تھا اور اس کارٹون میں اُس کے پیٹ سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لیتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تب مغرب اس اقدام کے خلاف چیخا۔ امریکہ دھاڑا ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آزادی رائے کے حوالے سے آپ کی دليل، اور جس واقعے اور مثال کی بنياد پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کيا ہے وہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ امريکہ ميں رائج آزادی رائے کے اظہار سے متعلق قوانين سے آپ قطعی نابلد اور اس اصول کی بنيادی اساس کے حوالے سے کم علمی کا شکار ہيں۔ آپ يہ بحث کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت نے آزادی رائے کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی ايک سينير سفارت کار کے خلاف قابل اعتراض کارٹون کی اشاعت پر نقطہ چينی کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ يہ بات درست ہو۔ ليکن کيا امريکی حکومت نے اخبار يا کارٹون کے ليے ذمہ دار افراد کے خلاف کسی قسم کی پابندی، قدغن يا تاديبی کاروائ کا مطالبہ کيا تھا؟

يہ حق‍يقت کہ آپ انٹرنيٹ پر بآسانی بے شمار ويب سائٹس پر وہ کارٹون ديکھ سکتے ہيں، واضح کرتا ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی تنقيد سے قطع نظر مذکورہ اخبار اور کارٹون تخليق کرنے والوں کے خلاف اپنے نظريے کے پرچار کی پاداش ميں کسی بھی قسم کی کوئ قانونی کاروائ نہيں کی گئ – باوجود اس کے کہ اس کارٹون کو کتنا ہی قابل نفرت يا شرانگيز گردانا گيا۔

قانونی نقطہ نظر سے اخبار نے کسی جرم کا ارتکاب نہيں کيا تھا اور کارٹون تخليق کرنے والے کو اس بات کا اختيار تھا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ ميں بے شمار صحافی، آرٹسٹ اور لکھاری اپنے پورے کيرئير کے دوران تسلسل کے ساتھ اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن امريکی حکومت کی جانب سے شائع شدہ مواد يا کارٹون پر تنقيد ان کے دائرہ اختيار سے تجاوز کی مثال نہيں ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکی صدر اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے سخت ترين الفاظ ميں اس فلم کی مذمت کی تھی جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے۔

آزادی رائے کے جس اصول کے تحت کارٹون بنانے والے نے اپنے حق کا استعمال کيا تھا وہی حقوق امريکی حکومت سميت دوسروں کو بھی اس بات کی اجازت ديتے ہیں کہ وہ اس رائے، سوچ اور نقطہ نظر سميت اس انداز کو بھی ہدف تنقيد بنا سکيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آزادی رائے کے حوالے سے آپ کی دليل، اور جس واقعے اور مثال کی بنياد پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کيا ہے وہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ امريکہ ميں رائج آزادی رائے کے اظہار سے متعلق قوانين سے آپ قطعی نابلد اور اس اصول کی بنيادی اساس کے حوالے سے کم علمی کا شکار ہيں۔ آپ يہ بحث کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت نے آزادی رائے کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی ايک سينير سفارت کار کے خلاف قابل اعتراض کارٹون کی اشاعت پر نقطہ چينی کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ يہ بات درست ہو۔ ليکن کيا امريکی حکومت نے اخبار يا کارٹون کے ليے ذمہ دار افراد کے خلاف کسی قسم کی پابندی، قدغن يا تاديبی کاروائ کا مطالبہ کيا تھا؟

يہ حق‍يقت کہ آپ انٹرنيٹ پر بآسانی بے شمار ويب سائٹس پر وہ کارٹون ديکھ سکتے ہيں، واضح کرتا ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی تنقيد سے قطع نظر مذکورہ اخبار اور کارٹون تخليق کرنے والوں کے خلاف اپنے نظريے کے پرچار کی پاداش ميں کسی بھی قسم کی کوئ قانونی کاروائ نہيں کی گئ – باوجود اس کے کہ اس کارٹون کو کتنا ہی قابل نفرت يا شرانگيز گردانا گيا۔

قانونی نقطہ نظر سے اخبار نے کسی جرم کا ارتکاب نہيں کيا تھا اور کارٹون تخليق کرنے والے کو اس بات کا اختيار تھا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ ميں بے شمار صحافی، آرٹسٹ اور لکھاری اپنے پورے کيرئير کے دوران تسلسل کے ساتھ اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن امريکی حکومت کی جانب سے شائع شدہ مواد يا کارٹون پر تنقيد ان کے دائرہ اختيار سے تجاوز کی مثال نہيں ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکی صدر اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے سخت ترين الفاظ ميں اس فلم کی مذمت کی تھی جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے۔

آزادی رائے کے جس اصول کے تحت کارٹون بنانے والے نے اپنے حق کا استعمال کيا تھا وہی حقوق امريکی حکومت سميت دوسروں کو بھی اس بات کی اجازت ديتے ہیں کہ وہ اس رائے، سوچ اور نقطہ نظر سميت اس انداز کو بھی ہدف تنقيد بنا سکيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
آپ سب چھوڑیں یہ بتائیے مجھے اپنے دوست کا نمبر چاہیے نیویارک کا۔ میرے سے مس ہوگیا ہے۔ میں کیسے حاصل کرسکتا ہوں؟؟؟؟
 
Top