آرٹ کے لکھاری۔۔۔انیلا ذوالفقار

آرٹ کے لکھاری
انیلا ذوالفقار
2%20Shakir%20Ali%201970.jpg


احساسات ، تاثرات کا بیاں دستاویز کی صورت میں جب کاغذ پر رقم کیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت مسلمہ ہو جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ تاریخی اہمیت کر لیتے ہیں۔ ذرا تصور کریں شاعر، ادیب اپنے تاثرات کا اظہار محض کرتے اور تحریر نہ کرتے تو شاید کتاب کا وجود ہی نہ ہوتا مصور تصاویر مصور کرتا اور آرٹ کے نقاد اس کا تجزیہ اپنے وقت، زمانے کے مطابق نہ کرتے تو آج کا مصور ان کا نقطہ نگاہ درست طریقے سے نہ جان پاتا۔

تو لکھاری کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔ پاکستان میں آرٹ کے لکھاریوں کے حوالے سے بات کریں تو گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ہاں آرٹ کے لکھاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لکھاری تجزیہ نگار ہیں؟ تنقید نگار ہیں؟ یا محض آرٹ کے رپورٹر؟

ہمارے ہاں عام طور پر آرٹ کے حلقوں میں آرٹ کے لکھنے والوں کے علم اور تجربے کے بارے میں یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کو صرف زبان پر عبور حاصل ہے چاہے وہ اردو ہے یا انگریزی۔ آرٹ کے رموزو اوقاف سے کوئی خاص جانکاری حاصل نہیں۔

جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر فن پارہ فنکار کی انفرادی کاوش کا نمائندہ ہے تو بالکل ہر تحریر بھی انفرادی تاثرات کی علمبردار ہے اسے اچھا یا بُرا نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں آرٹ پر لکھنے والوں کی بنیادی ضرورتیں یا مسائل ہیں جن پر عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو آرٹ پر لکھنے کے لیے باقاعدہ تحقیق ، تجربے اور تربیت کی ضرورت ہے جو کہ کسی بھی نقاد کو بنیاد فراہم کرتیں ہیں۔ ابھی تک جتنے بھی لوگ لکھ رہے ہیں محض شوق کی بناء پر اور یہ بھی الزام لگا دیاجاتا ہے کہ شاید مصوری میں دال نہیں گلی اس لیے لکھائی کی جانب آ گئے ہیں۔

A_R_Chughtai%20%20Porters%20daughter%20%2029x26%20%20inches,%20watercolour%20on%20paper.jpg


دوسری جانب تنقیدی رویہ برداشت کرنے کی صلاحیت نا پیدہے اگر کسی نے دس جملے تعریف کے لکھ کر دو باتیں تنقیدی لکھ دیں وہ لکھاری وہی ناکام، جب تعریف کی تو شکریہ، ماشاء اللہ۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو۔ جہاں تنقید کر دی وہیں پر وہی لوگ کہیں گے آپ ابھی ناتجربہ کار ہیں، آپ نے کبھی مغرب کے آرٹ میگزین پڑھے ہیں ان سیکھیں۔ چھوڑو ان کو کس بات کا پتہ ہے قلم پکڑنا آتا نہیں لکھاری بن گئے ہیں یہ تو عام باتیں ہیں۔

دوسری جانب دیکھیں تو کسی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ اکثر لکھاری اپنے آرٹ کے اداروں کی تو بہت تعریف کریں گے اپنے مکتبہ فکر کو تو اعلیٰ تصور کریں گے تو دوسرے آرٹ کے اداروں پر تنقید ، ان کے مکتبہ فکر کو فرسودہ قرار دیں گے ۔ تو یہ رویہ ناقابل قبول ہے اس سے آرٹ کی نشونما نہیں ہوتی بلکہ لکھاری حقیقی آرٹ کی بھی قدروقیمت کم کر دیتا ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ لکھاری کو کیا کسی فن پارے پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے؟ اگر اس حوالے سے بات کریں تو لکھاری مصور کے خیال ، سوچ پربات ضرور کر سکتا ہے اسے معاشرتی، سیاسی، نظریاتی پہلوؤں سے جانچ سکتا ہے ۔ اپنا خیال پیش کر سکتا ہے لیکن اس کی نفی کرنے کا اسے کوئی حق حاصل نہیں ۔ ہاں البتہ معیار اور ہنر پر تنقیدی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ نقاد مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر بات کرے اور قاری اپنے تیءں خود تجزیہ کرے اور کسی بھی لکھاری کی بات اول اور آخر نہیں ہو سکتی کیونکہ اس بات کا فیصلہ وقت کرے گا کہ مصور کی مصوری میں دم تھا یا لکھاری کی بات میں وزن تھا۔ بہرحال ایک انفرادی نقطہ نگاہ ہے ۔

معاشرتی رویہ میں مثبت روش اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ آرٹ گیلریز کو نقاد کے ساتھ تعاؤن کرنا چاہیے ۔ تعاؤن سے مراد کہ باقاعدہ نمائش کے دعوت نامے ، فنکار کے بارے میں معلومات بہم پہنچائیں۔ جو کہ اکثر گیلریز کر بھی رہیں ہیں ان سے رابطے میں رہیں کیونکہ اس سے گیلریز کو بھی فائدہ ہو گا۔

پاکستانی آرٹ کی تاریخ میں جھانکیں تو محض چند مصوری کی کتابیں نظر آتیں ہیں چونکہ لکھنے والے کم تھے اور کتابیں زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں۔ حالانکہ مصوری کے میدان میں کام بہت ہوا ہے لیکن چونکہ لکھا کم گیا ہے تو اس بناء پر عام لوگوں اور آرٹ کے درمیان رشتہ قائم نہ ہو سکا دوسرا اہم پہلو کہ زبان کا مسئلہ ۔ یہاں میری مراد ہے کہ ہم نے اپنے تیءں یہ سمجھ لیا کہ آرٹ پر تو انگریزی میں ہی لکھا جا سکتا ہے اردو میں نہیں۔

بلکہ پچھلے دنوں کسی نے کہا کہ آپ اردو میں لکھتیں ہیں تو کیا آپ ترجمہ کرتیں ہیں؟ آرٹ کے بارے میں تو ساری لغت انگریزی کی ہے ۔ آرٹ اور اُردو زبان میں کیا تعلق ہے؟ کیسے اُردو میں لکھا جا سکتا ہے ؟ تو سب سے پہلے اس بات کے بارے میں سوچیں کہ کیا غاری مصور نے جب غار کی دیوار پر تصویر بنائی تھی تو وہ انگریزی زبان سے واقف تھا ۔ اس نے رنگ کو colour کہا تھا جس ہڈی سے یا درخت کے تنے سے مصوری کی تھی اُسے بُرش کہا تھا؟

کیا وادیِ سندھ کا مصور، مجسمہ ساز اپنے اوزاروں کو انگریزی زبان کے لفظوں سے پکارتے تھے تو بدھ مت یا مینار تور مصوری کے فنکاروں نے اپنے علاقے، اپنی زبان کے مطابق مصوری کی لغت ایجاد نہیں کی ہو گی۔ ہر خطے کے اپنے الفاظ تھے، اپنی لغت تھی ۔

اُردو تو ہے ہی لشکری زبان جہاں مختلف زبانوں کے الفاظ کے ملاپ سے آپ اپنا نقطہ نگاہ بیان کر سکتے ہیں ۔ مسئلہ سوچ، ذہنی فکر کا ہے ۔ انگریز سو سال حکومت کر کے خود تو چلا گیا لیکن اپنی باقیات چھوڑ گیا۔ ہم ذہنی طور پر ابھی بھی آزاد نہیں ہیں کیونکہ اکثر فخر سے کہا جاتا ہے کہ ہماری اُردو کمزور ہے۔ ہمارے ہاں تو اُردو اخبار ہی نہیں آتا۔ لیکن ذرا سوچیں کہ آپ اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی میراث سے محروم کر رہے ہیں، اپنی زبان سے لاتعلقی اختیار کر کے۔

آرٹ اور عوام میں فاصلے کی بناء زبان بھی رہی ہے چلو اگر عام لوگ گیلریز تک نہیں جاتے لیکن ایک مڈل پاس شخص اگر اُردو میں آرٹ پر مضمون پڑھ لے تو وہ جان تو سکے گا آرٹ کے بارے میں اس سے معلومات عام ہو گی۔

مایہ ناز مصور عبدالرحمن چغتائی ، شاکر علی نے اُردو زبان میں اور کئی نامور مصوروں نے مضامین تحریر کیے ہیں۔

2%20Shakir%20Ali%20%20%20%20Woman%20with%20bird%20and%20flower%20%20%20%2073x73%20inches.jpg


یہاں بڑا اہم سوال ہے کہ اس خطے میں نامور شاعر، ادیب اور مصنف پیدا ہوئے اور پوری دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا تو آپ سوچیں ان میں کتنے انگریزی زبان میں اپنا نقطہ نگاہ بیان کرتے رہے ہیں کوئی ایک بھی نہیں۔ سب نے اُردو زبان میں نام کمایا اور پوری دنیا میں ان کا عظمت کو تسلیم کیا گیا۔ اب ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ نوجوان نسل میں اُردو کے لکھنے والے بہت کم ہیں صرف آرٹ میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبے میں کم ہیں۔

زبانیں اپنے خطے کی پہچان ہو اکرتیں ہیں ۔ ذہن ، سوچ ، بیاں کے ربط سے ہی آپ اعلیٰ تحریر منظر عام پر لاتے ہیں اگر اس میں ربط نہیں تو یقین جانیے تحریر پر اثر نہیں کیونکہ بات وہی ہوتی ہے جو اپنی ہوا اور اپنی زبان میں ہی بیاں ہو۔

ربط ۔۔۔http://www.artnowpakistan.com/UrduDetails-377.html
 
Top