آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ: چند بنیادی حقائق

یوسف-2

محفلین
لو جی لو، ہُن کرلو گل :eek:
4-10-2013_142623_1.gif

حوالہ: جنگ تازہ ترین 10 اپریل 2013
 

یوسف-2

محفلین
کیوں جناب ؟ اُن کا ذاتی کردار جیسا بھی ہو، اگر وہ خود کو ملک کے لیے مناسب نمائندہ سمجھتی ہیں تو اُنہیں انتخابات میں کھڑا ہونے کی اجازت کیوں نہ ملے؟ یقینا میری طرح آپ کی نظر میں بھی میرا کی کوئی انتخاباتی حیثیت نہیں ہوگی، تو جناب آپ اُسے ووٹ نہ دیں۔ کون آپ پر زبردستی کر رہا ہے۔
حکمرانوں کا ذاتی کردار :eek: دنیا بھر میں حکمرانی کے خواہشمند شخصیات کے ذاتی کردار کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ اور جن کا ذاتی کردار خراب ثابت ہوجائے، انہیں اقتدار کے ایوانوں سے گھر جانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اگر ایسا ہو تو غلط کیا ہے :mrgreen:

جو لوگ پاکستان کے آئین ساز اسمبلی کا رکن بننا چاہتے ہیں، انہیں سب سے پہلے تو موجودہ آئین پاکستان کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسی آئین کے آرٹیکل باسٹھ ترسٹھ سمیت امیدواروں کی اہلیت کے تمام شرائط پر پورا اترنے والےہی آئین ساز اسمبلی کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ میرا اور مسرت ان شرائط پر کتنا پورا اترتی ہیں، اس کا آپ کو بھی بخوبی علم ہوگا :D
 
پینسٹھ سالوں سے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ناہنجار بھی اُس مولویوں کی حکومت سے بہرحال بہتر ہیں جس کے بر سرِ اقتدار آتے ہی سب سے پہلے کافروں، 'مسلم نما' کافروں، غلط مسلمانوں اور بے عمل مسلمانوں پر چابک برسائے جائیں گے۔

رہی بات یرغمال ہونے کی، وہ تو روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے۔ آپ نہیں جانتے کس طرح مولوی پریشر گروپ کے ہاتھوں زچ ہو کر بھٹو جیسے غیر مذہبی شخص کو بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا تھا؟
احمدیوں کو غیر مسلم بھٹو نے قرار نہیں دیا تھا۔ نا ہی یہ بھٹو کا ذاتی فیصلہ تھا۔۔۔ یہ آپ کے ان ناہنجار لوگو ں کی 1974 کی پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا ۔۔۔ اپنا ریکارڈ درست کرلیں۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
احمدیوں کو غیر مسلم بھٹو نے قرار نہیں دیا تھا۔ نا ہی یہ بھٹو کا ذاتی فیصلہ تھا۔۔۔ یہ آپ کے ان ناہنجار لوگو ں کی 1974 کی پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا ۔۔۔ اپنا ریکارڈ درست کرلیں۔۔۔
1974 کی پارلیمنٹ میں اکثریت پیپلز پارٹی کے اراکین کی تھی۔ اور بھٹو صاحب اس پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے۔ لہٰذا اس اسمبلی کی ہر منظور شدہ قرارداد کی ذمہ داری براہ راست بھٹو پر عائد ہوتی ہے۔ دنیاکی ہر پارلیمان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اکثریتی پارلیمانی لیڈر، اپنی پارلیمان کی ہر بات کا ذمہ دار قرار پاتا ہے، خواہ قرار داد حزب اختلاف ہی نے کیوں نہ پیش کی ہو۔ :) اگر بھٹو اس قرارداد کے ”مخالف“ تھے تو انہوں نے اپنی پارٹی کے ان تمام ارکان کے خلاف کیا کاروائی کی، جنہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی قرارداد کو منظورکیا۔ یہ تو موجودہ پیپلز پارٹی کے وابستگان کا ”عذر لنگ“ ہے کہ ہم، ہماری پارٹی یا ہمارا قائد اس بات کا ذمہ دار نہ تھا۔ یہ حقائق کے منافی بات ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
آرٹیکل میں اٹھارویں ترمیم والی بات غلط ہے۔ 62،63 کو اٹھارویں ترمیم میں نہیں چھیڑا گیا کیونکہ اس سے ایک نئی بحث شروع ہونے کا احتمال تھا جس سے اٹھارویں ترمیم کی اور شقیں بھی متاثر ہو سکتی تھی۔
اور غیر پارلیمانی زبان میں: پیپلز پارٹی نے مولویوں کے ڈر سے ان شقوں کو نہیں چھیڑا کیونکہ وہ ہڑبونگ مچا دیتے۔

62، 63 کی شقیں1973 کے آئین میں شامل تھیں لیکن ضیاء نے ان میں اضافہ کیا اور کچھ متنازع شقیں ان میں شامل کیں۔ آئین ایک انسان کی اجارہ داری نہیں ہوتی کہ جو چاہا اس میں شامل کر دیا یہ پوری قوم کا اثاثہ ہوتا ہے اور پارلیمنٹ ہی اس کو تبدیل کرنے کی مجاز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جو لوگ پاکستان کے آئین ساز اسمبلی کا رکن بننا چاہتے ہیں، انہیں سب سے پہلے تو موجودہ آئین پاکستان کو تسلیم کرنا ہوگا اور اسی آئین کے آرٹیکل باسٹھ ترسٹھ سمیت امیدواروں کی اہلیت کے تمام شرائط پر پورا اترنے والےہی آئین ساز اسمبلی کے امیدوار بن سکتے ہیں۔

آئین کوئی قرآن و حدیث تو ہے نہیں، اس میں پہلے بھی ترامیم ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ پارسا اور باعمل مومن امیدوار والی شقیں آج نہیں تو کل ضرور اس آئین سے حذف کر دی جائیں گی۔
 
1974 کی پارلیمنٹ میں اکثریت پیپلز پارٹی کے اراکین کی تھی۔ اور بھٹو صاحب اس پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے۔ لہٰذا اس اسمبلی کی ہر منظور شدہ قرارداد کی ذمہ داری براہ راست بھٹو پر عائد ہوتی ہے۔ دنیاکی ہر پارلیمان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اکثریتی پارلیمانی لیڈر، اپنی پارلیمان کی ہر بات کا ذمہ دار قرار پاتا ہے، خواہ قرار داد حزب اختلاف ہی نے کیوں نہ پیش کی ہو۔ :) اگر بھٹو اس قرارداد کے ”مخالف“ تھے تو انہوں نے اپنی پارٹی کے ان تمام ارکان کے خلاف کیا کاروائی کی، جنہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی قرارداد کو منظورکیا۔ یہ تو موجودہ پیپلز پارٹی کے وابستگان کا ”عذر لنگ“ ہے کہ ہم، ہماری پارٹی یا ہمارا قائد اس بات کا ذمہ دار نہ تھا۔ یہ حقائق کے منافی بات ہے۔
یہاں بات بھٹو کی مخالفت یا حمایت کی نہیں ہو رہی۔۔۔ بات یہ ہورہی تھی کہ یہ فیصلہ اکیلے بھٹو نے کیا تھا یا ایک جمہوری پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا۔۔۔۔
 
یہاں بات بھٹو کی مخالفت یا حمایت کی نہیں ہو رہی۔۔۔ بات یہ ہورہی تھی کہ یہ فیصلہ اکیلے بھٹو نے کیا تھا یا ایک جمہوری پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا۔۔۔ ۔
یہ ایک جمہوری پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا جس کی پوری کاروائی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں ۔۔۔ تاہم پیپلز پارٹی کے لوگوں کا اس فیصلے کو بھٹو کے دامن پر داغ سمجھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔ اس فیصلہ کو ایک جمہوری تمغہ سمجھنا چاہیے ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہ ایک جمہوری پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا جس کی پوری کاروائی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں ۔۔۔ تاہم پیپلز پارٹی کے لوگوں کا اس فیصلے کو بھٹو کے دامن پر داغ سمجھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔ اس فیصلہ کو ایک جمہوری تمغہ سمجھنا چاہیے ۔۔۔

جمہوریت اس بات کی کب سے مجاز ہو گئی کہ وہ لوگوں کے دین ایمان کا فیصلہ کرتی پھرے؟ لعنت ہو ایسے جمہوری تمغے پر۔
 

حسان خان

لائبریرین
کووں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرا کرتے۔۔:chatterbox:

فرانس کی جمہوری حکومت نے نقاب پر پابندی عائد کی تھی۔ اُس پر میں قلمی مجاہدین کے تند و تیز اعتراضات دیکھ چکا ہوں۔ میں اُسے جمہوری تمغہ کہہ کر ان قلمی مجاہدین کے بارے میں بھی اب یہی کہوں؟
 
فرانس کی جمہوری حکومت نے نقاب پر پابندی عائد کی تھی۔ اُس پر میں قلمی مجاہدین کے اعتراضات دیکھ چکا ہوں۔ میں اُسے جمہوری تمغہ کہہ کر آپ کے بارے میں بھی اب یہی کہوں؟
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ انفرادی آزادی اور اجتمائی آزادی کے درمیان فرق کو سمجھنے سے عمدا قاصر ہیں۔۔۔ ایک جانب پردہ یا نقاب لینے کا فیصلہ ایک انفرادی فعل ہے اس سے کسی کے مذہبی یا اجتمائی جذبات کا مجروح ہونا عقل سے بالا تر ہے۔۔ دوسرا جانب ایک گروہ ہے جو خود کو کسی مذہب سے متعلق ظاہر کر کے سادہ لوح لوگوں کے ایمان اور دین کو خراب اور انہیں گمراہ کرے ، دین میں نئی نئی تحاریف اور گمراہی پھیلائے اور اجتمائی مذہبی جذبات کو مجروح کرے ۔۔۔ دونوں فیصلے برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟؟؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
دوسرا جانب ایک گروہ ہے جو خود کو کسی مذہب سے متعلق ظاہر کر کے سادہ لوح لوگوں کے ایمان اور دین کو خراب اور انہیں گمراہ کرے ، دین میں نئی نئی تحاریف اور گمراہی پھیلائے اور اجتمائی مذہبی جذبات کو مجروح کرے ۔۔۔

کوئی گروہ اگر خود کو مسلمان کہتا ہے تو یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سے 'درست' مسلمانوں کے دین اور ایمان خراب ہو جائیں گے یا وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ میں غیر احمدی ہوں، احمدیوں کے مسلمان ہونے یا اُن کے مسلمان کہلائے جانے سے میرے تو کسی قسم کے مذہبی یا ذاتی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔ رہی بات احمدیوں کی تحاریف اور گمراہی کے فیصلے کی، تو بھئی یہ تو ملاؤں کی بحث ہے، اُنہیں اس بحث میں لگے رہنے دیجئے۔ اس بحث کا پارلیمان جیسے معزز اور قومی ادارے سے کیا تعلق؟ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ریٹرننگ افسر اور اخلاقی حدود - طلعت حسین

آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 بندوق کی ایسی گولیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جو ہر سامنے آنے والے پر داغی جا رہی ہیں۔ کچھ گولیاں نشانے پر بیٹھ رہی ہیں اور کچھ اچکتی ہو ئی ناحق خون کا باعث بن رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ا س میں آدھا قصور سیاست اور سیاسی اخلاقیات کی بحث کا ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے سیاست کا معیار کارکردگی نہیں بلکہ ظاہری شکل و صورت، وضع قطع اور چند ایک طور طریقوں تک محدود کر دیا۔ ہم سیاسی اخلاقیات کی اسی تعریف کو لے کر چلتے رہے۔ آئینی ترامیم کرنے کے باوجود اسی تعریف پر قائم رہے۔ آج بھی محترم سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا فرمانا ہے کہ ریٹرننگ افسر دعائے قنوت اور آیت الکرسی اس وجہ سے سن رہے ہیں کہ آرٹیکل 62 منتخب ہونے والے یا انتخاب کی خواہش رکھنے والے امیدواروں کا اسلام کے بارے میں تسلی بخش علم رکھنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اس آفاقی دین کی سمجھ بوجھ رکھنا اور چند آیات یا کسی سورۃ کا ازبر کرنے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
اس پر محترم سیکریٹری صاحب نے کو ئی روشنی نہیں ڈالی۔ ہمیں اسلام کے علم کو اگر اسی معیار پر پرکھنا ہے تو ایسے بہت سے غیر مسلم موجود ہیں جو آیات اور احادیث ہم سے کئی گنا بہتر سنا سکتے ہیں اور پھر یہ کس نے فیصلہ کر لیا کہ صرف اسی ذریعے سے اس دینِ حتمی کی اساس کو سمجھنے کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ کو ئی کتاب، کوئی دستاویز، کو ئی بنیادی اراکین ِاسلام کے حوالے سے معلومات کا دوسرا پیمانہ کیا موجود نہیں ہے، یقیناً ہے لیکن چونکہ ریٹرننگ افسران کو اسکولوں میں یہی پڑھایا گیا ہے کہ اصل مسلمان وہی ہے جو دعائے قنوت پڑھ سکتا ہے لہٰذا وہ اپنی محدود دینی سوچ کو امیدواروں پر ٹھونس رہے ہیں۔
یہ معیار بھی یکساں نہیں ہے کسی سے ایک سوال پوچھا جا رہا ہے تو کسی سے دوسرا۔ نظریہ پاکستان سے لے کر بہترین مسلمان ہونے کی تمام صفات کو چار سوالوں میں جان لینے والے کیا خود اتنے پارسا ہیں کہ یہ سوال اٹھا سکیں۔ حتمی علم خداوند تعالیٰ کے متعین کردہ انبیاء کے پاس ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو اپنے ادوار میں اپنے امتیوں اور آنے والی اقوام کے لیے قائم کیا۔ ان کے بعد نیکی اور پارسائی کے تمام دعویدار نامکمل علم کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں مگر چونکہ ہم نے معاشرے میں نیکو کار اسی کو سمجھا جو منہ سے خود کو اچھا ثابت کر سکے لہٰذا انتخاب کے موقع پر اسی روایت کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ وہ ریٹرننگ افسروں کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا، ایک حیران کن دعویٰ ہے۔ ریٹرننگ افسران اپنی طاقت اور کرسی صرف اسی وجہ سے حاصل کر سکے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا آغاز کیا اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کا آغاز اسی وجہ سے کر پایا کہ آئین نے اس کا حکم دیا۔ آئین کے اندر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صاف اور شفاف انتخابات کرانے ہیں۔ امیدواروں کے لیے ایک ایسا میدان تیار کرنا ہے جس پر بغیر رکاوٹ کے اکٹھے مقابلہ کر سکیں۔کسی کے نہ ہاتھ باندھے جائیں نہ پائوں۔ اگر ریٹرننگ افسران کے فیصلے اس اہم ترین آئینی ضرورت کو پورا نہیں کرتے یا بعض جگہوں پر ان تقاضوں سے متصادم نظر آتے ہیں تو الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہا۔ ریٹرننگ افسران نظام پرحاوی نہیں ہوسکتے، ان کو آئینی ضروریات کے مطابق کام کرنا ہے۔ آئین سے ماوراء ہر کام چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے اور اگر یہ نہیں کرنا تو پھر سب کے لیے وہی معیار اپنانا ہو گا جو امیدواروں پر لاگو کیا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا نگراں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ، جنہوں نے وہی حلف لیا جو منتخب نمایندگان الیکشن جیتنے کے بعد لیتے ہیں، آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں، کیا ان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے اسلامیات کا امتحان پاس کرایا گیا؟ کیا کسی نے نگراں وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کے نظریہ پاکستان کے بارے میں خیالات جاننے کی زحمت کی، کیا ان سے کسی نے چھٹا کلمہ سنا۔
نگراں حکومت اس ملک کو چلا رہی ہے، ہو سکتا ہے اس میں ایسی شخصیات بھی موجود ہوں جوکسی کے خیال میں شاید کسی عوامی عہدے پر فائز ہونے کے لائق نہ ہوں، ان سے کوئی سوال نہیں پوچھ رہا مگر ان کے تحت ہونے والے انتخابی عمل میں شریک ہونے والوں کے لیے ایک ایسا معیار اپنایا جا رہا ہے جو رب العزت کے پسندیدہ افراد کے سوا کوئی اور پورا نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ لیجیے کہ انتخاب میں امیدواروں کو کھلی چھٹی مل جا نی چاہیے، ان کی پکڑ ضروری ہے مگر ان معاملات پر جو محدود انسانی عقل اور موجودہ قوانین کے دائر ہ کار میں آتے ہیں اور جن کی کو ئی عملی حیثیت ہے۔ جعلی ڈگریاں رکھنے والے قابلِ گرفت ہیں، ٹیکس چور کی گردن پکڑنی ہو گی، جرائم پیشہ افراد کو انتخابی عمل سے نکالنا ہو گا، دھوکا باز، بد دیانت لٹیروں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکالنا ہو گا۔
لیکن اگر ایک خاص رائے کے اظہار اور ضیاء الحق (جو خود سیاسی دوغلے پن کے استاد جانے جاتے ہیں) کے بنائے گئے اخلاقی معیارپر ریٹرننگ افسران کے فیصلے حتمی قرار دیے جانے لگے تو پھر ضیاء الحق ہی الیکشن جیتیں گے کوئی اور نہیں۔ پاکستان کے لیے یہ انتخابات انتہائی اہم ہیں، اس سے اگر کوئی بڑی روشن تبدیلی نہ بھی آئے تو بھی ایک امید منسلک ہوچکی ہے۔ کسی ریٹرننگ افسر کو یہ اجازت نہیںدی جاسکتی کہ اس امید کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ ریٹرننگ افسران کو کاغذات کی درستگی کرنی ہے۔ انسانوں کی درستگی نہیں۔ ان انتخابات کے موقع پر اگر ہم معاشرے میں اخلاق سے متعلق منافقانہ رویوں کو رد کرنے کی بنیاد بنا پائیں تو شاید ہماری قومی سوچ میں اجتماعی ترقی ہو جائے۔ ریٹرننگ افسران اگر اپنی حد میں رہ کر ہی کام کریں تو کافی ہے۔
 
کوئی گروہ اگر خود کو مسلمان کہتا ہے تو یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سے 'درست' مسلمانوں کے دین اور ایمان خراب ہو جائیں گے یا وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ میں غیر احمدی ہوں، احمدیوں کے مسلمان ہونے یا اُن کے مسلمان کہلائے جانے سے میرے تو کسی قسم کے مذہبی یا ذاتی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔ رہی بات احمدیوں کی تحاریف اور گمراہی کے فیصلے کی، تو بھئی یہ تو ملاؤں کی بحث ہے، اُنہیں اس بحث میں لگے رہنے دیجئے۔ اس بحث کا پارلیمان جیسے معزز اور قومی ادارے سے کیا تعلق؟ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
غیر احمدی کو اتنی تکلیف ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔ ملاوں کی بحث میں کچھ ایسا تھا جس نے پارلمینٹ جیسے معزز اور قومی ادارے کو سوچنے پر اور کاروائی سننے پر مجبور کردیا تھا۔۔ کبھی اس کاروائی کی دستاویز کا مطالعہ کیجے گا۔۔۔ احمدی اور غیر احمدی کے حصار سے نکل کر اور اپنی سیکولر عینک کو بھی اتار دیجئے گا۔۔۔ اپنے انکل سام کے سامنے کچھ بھی کرلو خود کو کچھ بھی کہہ لو وہ ماننے کے نہیں ۔۔۔
 
کوئی گروہ اگر خود کو مسلمان کہتا ہے تو یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سے 'درست' مسلمانوں کے دین اور ایمان خراب ہو جائیں گے یا وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ میں غیر احمدی ہوں، احمدیوں کے مسلمان ہونے یا اُن کے مسلمان کہلائے جانے سے میرے تو کسی قسم کے مذہبی یا ذاتی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔ رہی بات احمدیوں کی تحاریف اور گمراہی کے فیصلے کی، تو بھئی یہ تو ملاؤں کی بحث ہے، اُنہیں اس بحث میں لگے رہنے دیجئے۔ اس بحث کا پارلیمان جیسے معزز اور قومی ادارے سے کیا تعلق؟ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
غیر احمدی کو اتنی تکلیف ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔ ملاوں کی بحث میں کچھ ایسا تھا جس نے پارلمینٹ جیسے معزز اور قومی ادارے کو سوچنے پر اور کاروائی سننے پر مجبور کردیا تھا۔۔ کبھی اس کاروائی کی دستاویز کا مطالعہ کیجے گا۔۔۔ احمدی اور غیر احمدی کے حصار سے نکل کر اور اپنی سیکولر عینک کو بھی اتار دیجئے گا۔۔۔ اپنے انکل سام کے سامنے کچھ بھی کرلو خود کو کچھ بھی کہہ لو وہ ماننے کے نہیں ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
غیر احمدی کو اتنی تکلیف ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔ ملاوں کی بحث میں کچھ ایسا تھا جس نے پارلمینٹ جیسے معزز اور قومی ادارے کو سوچنے پر اور کاروائی سننے پر مجبور کردیا تھا۔۔ کبھی اس کاروائی کی دستاویز کا مطالعہ کیجے گا۔۔۔ احمدی اور غیر احمدی کے حصار سے نکل کر اور اپنی سیکولر عینک کو بھی اتار دیجئے گا۔۔۔ اپنے انکل سام کے سامنے کچھ بھی کرلو خود کو کچھ بھی کہہ لو وہ ماننے کے نہیں ۔۔۔

چھوڑیں جناب۔ یہ باسٹھ تریسٹھ والا دھاگا اس گفتگو کے لیے نہیں کھولا گیا تھا۔ کسی مناسب مقام پر اس بارے میں بات کریں گے۔
 

سعود الحسن

محفلین


یہ صاحب تو خود 62 63 پر پورے نہیں اترتے دوسروں کو کیا سبق دے رہے ہیں ۔ یہ پڑھیے



کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔


” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔

مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟ “

وہ کبھی اپنی نئی گاڑی کا ٹوٹا ہوا دروازہ دیکھتا اور کبھی بچے کو دیکھتا ۔ بالآخر اس نے بچے سے پوچھا “ کہاں ہے تمہا را بھائی ؟ “ بچہ اسے گاڑیوں کے پیچھے لے گیا ۔ ایک نوجوان جو ٹانگوں سے معذور تھا بے بسی سے زمین پر پڑا تھا۔اس نے اور بچے نے ملکر اسے اٹھایا اور ویل چیئر پر بٹھایا۔ بچے نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرف دیکھے بغیر ویل چیئر کو دھکیلتا ایک طرف چلا گیا۔

یہ کہانی ایک دوست نے ای میل کے ذریعے بھیجی ہے۔ ممکن ہے بہت سے قارئین کو یہ پہلے ہی معلوم ہو لیکن اصل مسئلہ کہانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو اس کہانی سے نکلتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسے سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم سب تیز رفتاری کا شکار ہیں۔نئی گاڑیاں ہیں۔ تازہ جوانیاں ہیں۔ ترقی کرنے کے ہدف ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہشات ہیں۔دولت کمانے کی دھن ہے۔ شہرت پانے کی آرزو ہے۔ بڑے سے بڑا منصب حاصل کرنے کیلئے تگ و دو ہے۔ اولاد کیلئے بہت کچھ چھوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔ زمین ، محلات ،گاڑیاں ، زیورات ، جواہرات اور ساز و سامان اکٹھا کرنے کی فکر ہے۔ یہ سب کچھ تیز رفتاری کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے ہم بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں۔ خدا کا نہ مخلوقِ خدا کا۔دوسروں کے حقوق کا نہ اپنے فرائض کا۔ یہاں تک کہ کہیں سے ایک زور کی اینٹ آتی ہے ۔ کار کا دروازہ ٹوٹتا ہے ۔ تب ہم رکتے ہیں اور اس ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اینٹ لگنے سے پہلے رُک جائیں ۔ یا کم از کم اپنی رفتار ہی کم کر دیں؟ کیا ہم اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ دنیا میں دولت، منصب ، شہرت اور چکا چوند کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ کا محتاج ہے۔ آخر ہم اینٹ ہی کا کیوں انتظار کرتے ہیں ؟

یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس وقت تیز رفتار لوگوں کے پنجے میں بلکہ شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ لوگ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ گٹھڑیاں انکے سروں پر ہیں۔ تھیلے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ گٹھڑیاں ، یہ تھیلے سونے اور جواہرات سے بھرے ہیں۔ یہ لوگ مزید سونے اور مزید جواہرات کیلئے بھاگے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ایک اینٹ زور سے لگنے والی ہے جس کے بعد انہیں ہر حال میں رُکنا پڑےگا۔

لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ عام طور پر ہمارا تائثر یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری کا شکار یہ لوگ دنیا دار ہیں ، دنیا پرست ہیں اور دین کے نام لیوا ان میں شامل نہیں ۔ کاش ایسا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ گٹھڑیاں سروں پر اُٹھائے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے ان لوگوں میں سیاست دان ہیں، بیوورو کریٹ ہیں ،جرنیل ہیں، تاجر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی باقاعدہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، صالحین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور بزعمِ خود ان لوگوں سے مختلف بلکہ برتر ہونے کا گمان رکھتے ہیں جن کا شمار بقول ان کے سگانِ دنیا میں ہے۔اس المیے کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیے۔

یہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا۔ 1981ءکا سال تھا۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو جنرل ضیا کا فرمان وصول ہوتا ہے : ”میں نے منظوری دےدی ہے کہ ”آئی پی ایس “ کو، جو اس وقت F-6/1
میں واقع ہے ، ایک مناسب عمارت بنانے کیلئے متعلقہ سائز کا پلاٹ دیا جائے۔ یہ وہی سائز چاہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس اعلیٰ کام کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ پہلے سے کر رہا ہے اور سہولیات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پلاٹ اس طرح کی الاٹمنٹوں کی نارمل قیمت کی ادائیگی پر دیا جا ئےگا

یہ ” تحقیقاتی" ادارہ [ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز]ایک ایسے پروفیسر صا حب کا ہے جو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے ممتاز رہنما ہیں اور طویل عرصہ سے اسکی نمائندگی سینیٹ میں بھی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پلاٹ سیکٹر ایچ ۔ نائن میں دئیے جاتے تھے۔ یہ پلاٹ لیز پر ہوتے ہیں اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کےمطابق ناقابل فروخت اور ناقابلِ انتقال ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو بھی پلاٹ ایچ نائن سیکٹر ہی میں دیا جا رہا تھا لیکن جنرل ضیا نے ایک بار پھر مداخلت کی اور دو کنال کا یہ پلاٹ جناح سپر مارکیٹ میں دیا گیا جہاں کوئی اور تعلیمی یا تحقیقاتی ادارہ کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ مارکیٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص تھی۔ پھر یوں ہوا کہ تعلیمی مقاصد کیلئے ملنے والے اس پلاٹ پر تین منزلہ پلازہ بن گیا جس میں مشہور بین الاقوامی برانڈز کی دکانیں کھُل گئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا ۔ 2009ءمیں ترقیاتی ادارے نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے تحقیقاتی ادارے کو اجازت دے دی کہ پلاٹ پر بنے ہوئے عالیشان پلازے کو ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام منتقل کر دیا جائے۔ اور یہ انتقال ہو بھی گیا۔

یعنی ملکی قوانین صرف پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ یا جرنیلوں ہی کیلئے نہیں بدلتے۔ یہاں گٹھری سر پر رکھے اور تھیلا ہاتھ میں پکڑے بھاگنے والوں میں ماشا ءاللہ وہ بھی حسب توفیق شامل ہیں جو اقامت دین کے دعویدار ہیں۔ پہلے تو صدارتی طرفداری سے پلاٹ وہاں الاٹ کرایا گیا جہاں تعلیمی مقاصد کے لیے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمارت کا ایک حصّہ خالص منافع آور استعمال میں رکھ دیا گیا۔ پھر اس پلاٹ کو جو لیز پر ہے اور ناقابلِ فروخت اور ناقابلِ انتقال ہے بیچ دیا گیا۔ اس ” تحقیقاتی “ کار و بار سے کتنے ارب روپے کا منافع ہوا اس کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو جناح سپر مارکیٹ کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ کہا یہ جائےگا کہ یہ سب کچھ ترقیاتی ادارے کی اجازت سے کیا گیا۔ اب یہ کس کی مجال ہے کہ پوچھے کہ ترقیاتی ادارے نے یہ غیر قانونی اجازت کیوں دی اور کس کے دباو پر دی؟ اگر ترقیاتی ادارہ یہی حرکت کسی اور کیلئے کرتا تو سینیٹ میں قانون شکنی کےخلاف ایک دھواں دھار تقریر کی جاتی اور ترقیاتی ادارے کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا !

معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو اور بھی ہے۔ اس پر بھی غور فرما یئے ۔ جب جنرل ضیا نے ترقیاتی ادارے کو پلاٹ دینے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت یہ ادارہ ایف سکس سیکٹر میں واقع تھا ۔ اب پلاٹ اور پلازہ فروخت کر کے یہ ادارہ اسی سیکٹر یعنی ایف سکس میں دوبارہ واپس چلا گیا ہے ! ! ! ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا ....

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی

تو جناب ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ....

صبح ہو تے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ

گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی

اور اس میں سب شامل ہیں۔ کسی ایک پر الزام نہ لگائیے۔ دنیا کے پیچھے صرف وہی نہیں بھاگ رہے جنہیں ہم آپ دنیا دار سمجھتے ہیں !
 
Top