آرزو

طالش طور

محفلین
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
یاسر شاہ
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

آرزو
تیری مورت میں تخیل میں تراشوں جب بھی
آرزو بن کے نہ جانے تجھے کیا کیا سوچوں
ڈوب جاتا ہوں تمنا کے بھنور میں اکثر
تجھ سے ملنے کی ہمہ وقت دعائیں مانگوں
ایک پنچھی کی طرح تیرے چمن میں اتروں
اپنی آنکھوں کو تری دید کی نعمت بخشوں
ہو کہ تحلیل ہواؤں میں چلے روح مری
بن کے جھونکا ترے آنچل کو اڑا کر گزروں
کاش کلیوں میں سما جاؤں میں خوشبو بن کر
بن کے گجرا تری زلفوں کو معطر کر دوں
آتش عشق میں جل کر میں بنوں طور کی خاک
بن کے سرما تری آنکھوں کو سجاؤں اکثر
تیری نیندوں میں ترے خواب کا حصہ میں بنوں
کاش ہو جاؤں کبھی رنگ حنا میں شامل
تو ہو دلہن میں ترے ریشمی ہاتھوں میں سجوں
پتّیاں پھول کی جب بھی ہوں ترے ہاتھوں میں
میرا احساس ُ کہ بن جائے نزاکت ان کی
مرمریں ہاتھ کا ہو لمس ، مقدر میرا
عمر بھر میں ترے ہاتھوں کی لکیروں میں رہوں
کاش بن جاؤں ترے خوں کا مقدس قطرہ
میرا کعبہ ہو ترا دل ، میں سدا طوف کروں
روز آؤں میںترے در پہ گداگر کی طرح
ساری خیرات ترے ہاتھ سے حاصل کر لو ں
ایک بھی میری تمنا نہ اگر ہو پوری
دل میں پھر آخری حسرت تو یہی بس ہوگی
اپنی ہستی کو فنا عشق میں کر دوں ایسے
خاک بن کر ترے آنگن میں بکھر سا جاؤں
تیرے قدموں میں جگہ تھوڑی سی حاصل کر لوں!
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
طالش بھائی اچھی نظم ہے لیکن جس بھر پور انداز سے شروع ہوئی اس انداز سے اختتام نہیں ہوا
اور کچھ املائی اغلاط بھی درست فرما لیں
 
Top