کرپشن تو ہمارے خون یا ڈی این اے میں رچ بس گئی ہے۔ اسی لئے تو آڈٹ رپورٹ بھی کرپشن سے پاک بنانا ممکن نہیں رہا۔ اور الیکشن کا تو سوال ہی نہ پوچھیںایسا نہیں ہے کہ کرپشن نہیں ہے لیکن آڈٹ اعتراضات بھی عجیب و غریب قسم کے ہوتے ہیں اور پھر یہی ہندسے بغیر پوری معلومات حاصل کیے 'کرپشن' کہہ کہہ کر میڈیا پر بھی پیش کر دئیے جاتے ہیں ، جو کہ نامناسب طرز عمل ہے۔
کرپشن کے ڈی این اے بارے میں ڈی این اے ایکسپرٹ کیا کہتے ہیں ؟کرپشن تو ہمارے خون یا ڈی این اے میں رچ بس گئی ہے۔ اسی لئے تو آڈٹ رپورٹ بھی کرپشن سے پاک بنانا ممکن نہیں رہا۔ اور الیکشن کا تو سوال ہی نہ پوچھیں![]()
یہ ڈی این اے سے زیادہ سماجی و معاشرتی مسئلہ لگتا ہے مجھےکرپشن کے ڈی این اے بارے میں ڈی این اے ایکسپرٹ کیا کہتے ہیں ؟
پھر اسے کیسے ٹھیک کر پائیں گے ؟یہ ڈی این اے سے زیادہ سماجی و معاشرتی مسئلہ لگتا ہے مجھے![]()
اپنا سماج یا معاشرہ بدل کے۔ اصول اسلامی ہی رکھیں پر ان پر عمل بھی تو کریںپھر اسے کیسے ٹھیک کر پائیں گے ؟
عوام کو یہ باور کون کرائے گا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اور عوام کی بڑی تعداد اس کی بات مانے بھی ؟اپنا سماج یا معاشرہ بدل کے۔ اصول اسلامی ہی رکھیں
کیا 99،9 فیصد پاکستانی مسلمان نہیں؟ اگر نہیں تو اسکا کھلے عام اعلان کریں کہ ہمارا اسلامی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ہیں تو انپر مغرب کی طرح عمل کریںعوام کو یہ باور کون کرائے گا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اور عوام کی بڑی تعداد اس کی بات مانے بھی ؟
خود سے عمل کرنے لگ جائیں تو رولا ای مُکے۔۔۔کیا 99،9 فیصد پاکستانی مسلمان نہیں؟ اگر نہیں تو اسکا کھلے عام اعلان کریں کہ ہمارا اسلامی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ہیں تو انپر مغرب کی طرح عمل کریں![]()
راہبر کی ضرورت انکو ہوتی ہے جنکو اپنی خود کی منزل معلوم نہ ہو۔ میرے خیال میں یہ ہمارا اجتماعی دیسی مائنڈ سیٹ ہے جسکا خمذیادہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ میں نے پاکستانی اور یہاں مقامی نارویجن بچوں کی پرورش میں ہزار درجہ کا فرق پایا ہے۔ ہم اپنے دیسی بچوں کو عموماً لاڈ پیار کیساتھ رکھتے ہیں اور انکو سزا صرف کسی "بڑے" کے بنائے ہوئے اصول توڑنے پر دیتے ہیں۔ جو کہ میرے نزدیک غلط ہے۔ یہاں اسکے برعکس پرورش کی جاتی ہے۔ بچپن ہی سے یہاں بچوں پر "بڑوں" کے اصول جبراً تھوپنے کی بجائے انکو اپنے اصول زندگی "خود" وضع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جیسے جھوٹ نہیں بولنا، کسی دوسرے کے پاس کوئی شے دیکھ کر اسکا لالچ نہیں کرنا، لڑائی اور ایک دوسرے کیساتھ کینہ رکھنے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی اسکول کے زمانہ ہی سے ان بچوں میں ایسی اعلیٰ عادات و اقدار جنم لیتی ہیں جو انکے لڑکپن، جوانی اور پھر ادھیڑ عمری میں پہنچنے تک انکا ہر شعبہ زندگی میں ساتھ دیتی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے یہاں ہر جگہ میرٹ کا بول بالا ہے اور سیاسی و ذاتی وابستیوں پر آسامیاں و ترقیاں حاصل کرنے والے اور دینے والے کو معیوب سمجھا جاتا ہےانسان کو زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی راہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ وہ کبھی بھی کسی بھی معاملے میں مسٹر پرفیکٹ نہیں ہوتا۔
بھائی جب پورے آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو ابتدائی طور پر فُل کلین شخص بھی معاشرے کے رنگ میں ڈھل کر یا مجبور ہو کر بلآخر کلین بولڈ ہو ہی جاتا ہےمعاشرے میں کچھ لوگوں کو مسٹر کلین ہونا پڑے گا۔ وہ سب جو انسان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس کے ذہن کو اپنے اثر میں رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے والدین، پھر مسجد کے امام اور سکول کالج کے استاد۔۔ جب بنیاد سیدھی ہو جائے گی تو باقی کام بھی صحیح ہوتے جائیں گے۔