آخر کرپشن کم ہو ہی گئی

زرقا مفتی

محفلین
x41692_11394174.jpg.pagespeed.ic.AjsPlEH3E6.jpg


http://e.dunya.com.pk/colum.php?date=2014-12-07&edition=LHR&id=41692_11394174
 
کالم نگار نے کرپشن اور آڈٹ کا اجمالی سا ہی جائزہ لیا ہے۔
کسی زمانے میں وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں کے آڈٹ پیروں کا ایک پورا پلندہ (کم و بیش گیارہ سو کے اریب قریب) میرے حوالے ہوا، جس کے مکمل مطالعے میں کم از کم تین ماہ لگے۔ اس کے بعد میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ان کی دو کیٹگریز بنائیں۔ اول حقیقی اعتراض ۔ دوم ریگولیشنز کی خلاف ورزیاں۔ اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ریگولیشنز کی معمولی خلاف ورزیوں والے آڈٹ پیروں کی تعداد 80 فیصد سے بھی زیادہ تھی اور اس میں بھی عجیب و غریب نکات نکالے اور اٹھائے گئے تھے۔ دو وزارتوں کے ایک ایک آڈٹ پیرے کی مثال دیتا ہوں جو ملا جلا کر لگ بھگ 180 ملین کے قریب تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ادارے کے ملازمین کو سالانہ چھٹی پر ہر دو سال میں ایک بار کام کی جگہ سے اپنے گھر جانے اور واپس آنے پر پاکستان ریلوے میں مفت سفر کرنے کی اجازت ہے یا پھر وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کا اصل ٹکٹ دیکھا کر ٹکٹ کی مالیت کلیم کر سکتے ہیں۔ اب آڈیٹر جنرل نے یہاں کیا اعتراض اٹھایا۔
فلاں بن فلاں ۔۔۔۔ نے یکم اگست 1996 کو پہلی بار اس سہولت سے فائدہ اٹھایا اور اس کے بعد دوبارہ 24 مئی 1998 کو۔ قانوناً وہ یہ سہولت دو سال میں ایک بار لے سکتا ہے، جبکہ مذکورہ کیس میں 2 سال پورے نہیں ہوئے، اس لیے پبلک منی کا اتنا نقصان ہوا اور اتنی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے۔ اور اسی طرح کے کیس پورے پاکستان سے رپورٹ ہو کر جب وزارت تک پہنچے تو رقم 80 ملین اور اعتراض 'آڈٹ پیرے' میں تبدیل ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ادارے کے ملازمین کو اجازت تھی وہ ملک کے اندر ہوائی سفر رعایتی نرخوں پر کر سکتے ہیں جس کے لیے ان کا متعلقہ ادارہ ایک فارم ایشو کرتا اور وہ اسے ائیر لائینز کو پیش کر کے رعایتی نرخوں والا ٹکٹ لے لیتے۔ فارم کے آخری کالم میں اس فارم کی expiry کی تاریخ درج ہوتی جو قوانین کے مطابق 30 دن تھی۔ آڈیٹر جنرل نے ان تمام فارمز پر اعتراض اٹھا دیا جن پر 31 والے مہینوں میں تاریخ لکھتے ہوئے 30 دنوں کے بجائے expiry ایک دن زیادہ لکھی گئی۔ اس آڈٹ پیرے کی مالیت 100 ملین سے زیادہ بنی۔
۔۔۔
واچ ڈاگ والے ادارے کتنا زبردست کام کرتے ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سب ہی ایسے ہیں۔ بس کالی بھیڑکبھی کبھار ایک آدھ ہوتی تھی اب سفید ایک آدھ رہ گئی ہے۔
۔۔۔
ایک آڈٹ کرنے والے چھوٹے ادارے کا آڈٹ کرنے کے لیے اسلام آباد سے آڈیٹر جنرل پاکستان کی 4 رکنی ٹیم کوئٹہ آئی۔ چھوٹے ادارے نے 4 رکنی ٹیم کی خواہشات کے مطابق سرینا ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیا۔ متعلقہ ٹیم 10 دن سرکاری گاڑیوں پر گردونواح کی سیر کرتی رہی۔ اس عرصے کے دوران ٹیم کے چاروں ممبران نے کوئٹہ کے بازاروں سے ڈھیر ساری شاپنگ کی جس کی مالیت بھی لاکھوں میں تھی اور زیادہ تر سامان روزانہ کی بنیاد پر پیک کر کے بذریعہ ائیر و ریلوے و قادری کوچ کارگو بھی کر دیا جاتا رہا۔ جانے سے پہلے ٹیم نے چھوٹے ادارے کے سربراہ سے یہ سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر لیا کہ ٹیم مذکورہ کو کوئٹہ قیام کے دوران نہ تو ٹرانسپورٹ مہیا کی گئی اور نہ رہائش۔ آڈٹ کے بارے میں اسی چھوٹے ادارے کی آڈٹ رپورٹس نکلوا کر کچھ کاپی پیسٹ کیے گئے اور آڈٹ ٹور اختتام پذیر ہوا۔۔۔ چند ہی دن بعد وہ رپورٹس آڈٹ پیرے میں کنورٹ ہو کر اخبارات کی نمایاں سرخیوں میں جگہ بنا چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ کرپشن نہیں ہے لیکن آڈٹ اعتراضات بھی عجیب و غریب قسم کے ہوتے ہیں اور پھر یہی ہندسے بغیر پوری معلومات حاصل کیے 'کرپشن' کہہ کہہ کر میڈیا پر بھی پیش کر دئیے جاتے ہیں ، جو کہ نامناسب طرز عمل ہے۔
 

arifkarim

معطل
ایسا نہیں ہے کہ کرپشن نہیں ہے لیکن آڈٹ اعتراضات بھی عجیب و غریب قسم کے ہوتے ہیں اور پھر یہی ہندسے بغیر پوری معلومات حاصل کیے 'کرپشن' کہہ کہہ کر میڈیا پر بھی پیش کر دئیے جاتے ہیں ، جو کہ نامناسب طرز عمل ہے۔
کرپشن تو ہمارے خون یا ڈی این اے میں رچ بس گئی ہے۔ اسی لئے تو آڈٹ رپورٹ بھی کرپشن سے پاک بنانا ممکن نہیں رہا۔ اور الیکشن کا تو سوال ہی نہ پوچھیں :)
 
کرپشن تو ہمارے خون یا ڈی این اے میں رچ بس گئی ہے۔ اسی لئے تو آڈٹ رپورٹ بھی کرپشن سے پاک بنانا ممکن نہیں رہا۔ اور الیکشن کا تو سوال ہی نہ پوچھیں :)
کرپشن کے ڈی این اے بارے میں ڈی این اے ایکسپرٹ کیا کہتے ہیں ؟
 

arifkarim

معطل
پھر اسے کیسے ٹھیک کر پائیں گے ؟
اپنا سماج یا معاشرہ بدل کے۔ اصول اسلامی ہی رکھیں پر ان پر عمل بھی تو کریں :)
یہ نارویجن معاشرہ اسلامی اصولوں کا پابند ہے۔ یہاں لوگ چوری چکاری، ٹیکس خوری، قومی املاک و اثاثہ جات کا نہ تو دانستہ طور پر نقصان کرتے ہیں اور نہ ہی اگر کسی کو کرتا دیکھ لیں تو خاموش تماشائی بن کر اسکی مدد کرتے ہیں :)
http://www.telegraph.co.uk/news/wor...d-in-Islamic-values-as-Muslim-states-lag.html

اور الیکشن میں دھاندلی، مال میں ملاوٹ یا کھوٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سنہ 2007 میں ایک پاکستانی نژاد نارویجن نے جو الحمدللہ یہیں کی پیدائش ہے ہمارے مقامی بلدیاتی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی۔ میڈیا کو خبر ہوئی تو فوراً طوفان کھڑا کر دیا۔ اسی وقت اسکو پارٹی سے نکال باہر کیا گیا اور وارنٹ گرافتاری جاری ہو گئے۔ پولیس نے اس معاملہ کی جانچ پڑتال کیلئے تفتیشی ایجنسی کا رول ادا کیا نہ کہ آر اوز یا الیکشن ٹریبونلز نے :)۔ چند دنوں میں الزامات کی تفتیش مکمل ہوگئی اور وہ شخص بری از زمہ قرار پایا۔ گو کہ اسکو سرزنش کی گئی کہ آئندہ اپنی کمیونیٹی کے لوگوں میں جاکر ووٹ مت مانگنا۔ تمہارے دشمنان یعنی پاکستانی پھر اسی قسم کی افواہیں اڑا کر تمہاری ساخت کو نقصان پہنچائیں گے۔ اور وہی ہوا۔ بیچارے کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی اور آجکل وہ ناروے کی کرکٹ ایسو سی ایشن کا ہیڈ ہے۔ مطلب یہاں بھی نجم سیٹھی کی کاپیاں موجود ہیں جنہیں مبینہ دھاندلی کے بعد کرکٹ کی فیلڈ میں کوئی بڑا عہدہ دے دیا جاتا ہے :) مضحکہ خیز طور پر موصوف کا نام بھی سیاسی ہے یعنی یوسف گیلانی:
gilani1_1190235365.jpg
 

arifkarim

معطل
عوام کو یہ باور کون کرائے گا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اور عوام کی بڑی تعداد اس کی بات مانے بھی ؟
کیا 99،9 فیصد پاکستانی مسلمان نہیں؟ اگر نہیں تو اسکا کھلے عام اعلان کریں کہ ہمارا اسلامی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ہیں تو انپر مغرب کی طرح عمل کریں :)
 
کیا 99،9 فیصد پاکستانی مسلمان نہیں؟ اگر نہیں تو اسکا کھلے عام اعلان کریں کہ ہمارا اسلامی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ہیں تو انپر مغرب کی طرح عمل کریں :)
خود سے عمل کرنے لگ جائیں تو رولا ای مُکے۔۔۔
انسان کو زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی راہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ وہ کبھی بھی کسی بھی معاملے میں مسٹر پرفیکٹ نہیں ہوتا۔
معاشرے میں کچھ لوگوں کو مسٹر کلین ہونا پڑے گا۔ وہ سب جو انسان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس کے ذہن کو اپنے اثر میں رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے والدین، پھر مسجد کے امام اور سکول کالج کے استاد۔۔ جب بنیاد سیدھی ہو جائے گی تو باقی کام بھی صحیح ہوتے جائیں گے۔
 

arifkarim

معطل
انسان کو زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی راہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ وہ کبھی بھی کسی بھی معاملے میں مسٹر پرفیکٹ نہیں ہوتا۔
راہبر کی ضرورت انکو ہوتی ہے جنکو اپنی خود کی منزل معلوم نہ ہو۔ میرے خیال میں یہ ہمارا اجتماعی دیسی مائنڈ سیٹ ہے جسکا خمذیادہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ میں نے پاکستانی اور یہاں مقامی نارویجن بچوں کی پرورش میں ہزار درجہ کا فرق پایا ہے۔ ہم اپنے دیسی بچوں کو عموماً لاڈ پیار کیساتھ رکھتے ہیں اور انکو سزا صرف کسی "بڑے" کے بنائے ہوئے اصول توڑنے پر دیتے ہیں۔ جو کہ میرے نزدیک غلط ہے۔ یہاں اسکے برعکس پرورش کی جاتی ہے۔ بچپن ہی سے یہاں بچوں پر "بڑوں" کے اصول جبراً تھوپنے کی بجائے انکو اپنے اصول زندگی "خود" وضع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جیسے جھوٹ نہیں بولنا، کسی دوسرے کے پاس کوئی شے دیکھ کر اسکا لالچ نہیں کرنا، لڑائی اور ایک دوسرے کیساتھ کینہ رکھنے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی اسکول کے زمانہ ہی سے ان بچوں میں ایسی اعلیٰ عادات و اقدار جنم لیتی ہیں جو انکے لڑکپن، جوانی اور پھر ادھیڑ عمری میں پہنچنے تک انکا ہر شعبہ زندگی میں ساتھ دیتی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے یہاں ہر جگہ میرٹ کا بول بالا ہے اور سیاسی و ذاتی وابستیوں پر آسامیاں و ترقیاں حاصل کرنے والے اور دینے والے کو معیوب سمجھا جاتا ہے :)
ناروے میں 1814 سے باقاعدگی کیساتھ الیکشن ہو رہے ہیں۔ اس زمانہ میں یہاں کی پیشتر آبادی انپڑھ اور جاہل تھی۔ اسلئے شروع شروع میں صرف امراء و جاگیردار طبقے تک ووٹ کا اختیار دیا گیا تھا۔ پیشتر آبادی کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ پھر جوں جوں یہاں پبلک اسکولنگ کے تحت شرح خواندگی بڑھنے لگی ویسے ویسے دیگر طبقوں، پہلے مردوں اور پھر عورتوں کو قانوناً ووٹ کا حق دیا ہے۔ یہ ہوتا ہے بتدریجی جمہوری عمل کا ارتقا۔ ہمارے "جمہوری" اسلاف نے تو شاید کوئی گیدڑھ سنگھی ایجاد کی تھی جو اس جہالت سے اٹے ملک میں جہاں کی اکثریت آج بھی انپڑھ ہے کو ووٹ دینے کا اختیار دے دیا۔ تب ہی تو ملک کا اور نظام انتخاب کا برا حال ہے۔ پہلے لوگوں کو تعلیم دیں پھر ووٹ کرنے کا حق دیں۔ کامیاب معاشرے اس طرح پروان چڑھتے ہیں۔ لگتا ہے ہمارے اسلاف نے کبھی جمہوری معاشروں کی ارتقا کا جائزہ لیا بغیر ہی ووٹنگ کا اختیار جاہل عوام کو دے دیا۔ اب چنداں سیاسی شاہی خاندانوں اور انکی اولادوں کی نام نہاد جمہوریت کو بھگتیں :)

معاشرے میں کچھ لوگوں کو مسٹر کلین ہونا پڑے گا۔ وہ سب جو انسان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس کے ذہن کو اپنے اثر میں رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے والدین، پھر مسجد کے امام اور سکول کالج کے استاد۔۔ جب بنیاد سیدھی ہو جائے گی تو باقی کام بھی صحیح ہوتے جائیں گے۔
بھائی جب پورے آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو ابتدائی طور پر فُل کلین شخص بھی معاشرے کے رنگ میں ڈھل کر یا مجبور ہو کر بلآخر کلین بولڈ ہو ہی جاتا ہے :)
 
Top