آخر کار احمدی نژاد نے "سچ" بول دیا!

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔
السلام علیکم
جناب کا یہ تجزیہ تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے 100 جھوٹ مل کر سچ نہیں ہوجاتے۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ سب مل کر امریکہ کواسکے مفاد کے لئے افغانستان پرقابض کرنے کی محنت نہیں کررہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مفاد کے کو حاصل کرنے کے لئے اسی کوشش میں لگا ہے۔ علاوہ اسکے میں یہ بھی کہوں گا۔ اس وقت دنیا میں علاقائی تسلط والے قبضے نہیں ہورہے۔ بلکہ علاقوں یا ملکوں پر اپنی پالیسی سیاسی و تجارتی لادی جاتی ہے۔ کبھی برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسکام کو کیا۔ اور تجارت کے ساتھ پالیسی پر اختیار پانے کے لئے زمینی قبضہ بھی کیا اب جدید قبضہ زمینی نہیں مگر باقی سب اور ایڈوانس ہوکر باقی ہے۔
روشن خیالی اور بنیاد پرستی کی اصطلاح اسی کی ایجاد ہے اگر آپ کے نظریات اور اقدامات ان کے مفاد کے خلاف گئے تو آپ بنیاد پرست اور آپ نے ان کی ہاں میں ہاں ملای تو روشن خیال ۔ اب اسپر آئیے وہ کون سے لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی بیشتر آبادی پر اپنے نظریات کی ( چاہے بہت کچھ کمی بیشی رہی ہو) بنیاد پر َ قبضہ کیا تو آپ کو ملے گا۔ حضرت محمد ﷺ کے امتی ۔ یعنی مسلمان ابتدا تو خود آپ ﷺ نے فرمائی اسکے آپ کے خلفاء پھر انحطاط و منتثری مگرپھر بھی مجموعی طور سے اکثرت و غلبہ 11 سو عیسوی پھر 16 سو عیسوی َیہاں تک معاملہ برطانیہ کے ہاتھوں پنہچا ۔ اور اتنے دھوم دھام و کرو فر والی اور سورج جسکی زمین میں غروب نہیں ہوتا وہ حکومت محض 100 ، ا150 سال میں دھڑام ہوگئی اور کیوں گری کہ محکومین میں وہ تھے جن کا دین ان کو آزادی کا مطلب بتا تا ہے ، اور اسپر بھی آزاد ہونے والی حکومتوں کا جائیزہ لیں کہ کس طرح جاتے جاتے ان بد خواہان اسلام نے جغرافیائی شیطانیاں کیں کہ کسی مسلم حکومت کو استحکام نہ ملے اسکا انتطام کردیا ۔
تاریخ کو سرسری دیکھ کر گذرنے والا بھی اس کا تجزیہ کر لے گا۔ کہ کیا ہوا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اشارہ کردوں جو آپ نے پاکستان کو افغانستان کو اور اسمیں دیگر ممالک عراق وغیرہ بھی شامل کرلیں اور ماضی میں تھوڑا دور جائیں تو ایران جو آج تختہ مشق ہے اسکو بھی کیا کم امداد دی گئی۔ انھیں امدادوں نے وہ کام کروایا ماضی قریب کی آزاد ہونے والی اسلامی ممالک میںَ کہ ان کی جنگ آزادی کے لڑنے والے سپاہی عوام تھے اور ان کی آزادی کی جدوجہد کی بنیاد دین تھا نہ کہ زمین کا ٹکڑا۔ جسے وطن عزیز کہتے ہیں اور جب آزادی ملی تو کیا ہوا ۔ کسی ایک جگہ بھی دینی حکومت قائم ہوئی ۔ مصر کا حال تو یہ ہوا کہ فرعون کو محسن مصر کا خطاب دیا گیا ۔اور ان سب کے پیچھے وہی امداد اور تقلید و مرغوبیت کار فرما تھی ترکی جو خلافت کا مرکز تھا وہاں آزادی کے بعد ایک ہی دن یک لخت پوری کی پوری ترکی زبان کے حرف تہجی کو "یورپیا" دیا گیا ۔اور یہ سب کچھ عوام نہیں ان کے روشن خیال اور مغرب کے قدموں کے نشانات کو بوسہ دینے والے رہنما کررہے تھے ۔ بات بہت لمبی اور میں اسکی صلاحیت نہیں رکھتا کے جو محسوس کروں وہ بیان بھی کر سکوں چند نکا ت جو لکھ سکا لکھ دیا آج کی دنیا میں جہاں شیونگ کریم کی فروخت کے لئے" آزاد" عورت کی ضرورت ہے بے عمل تو بہت ہیں بے حس و ہاں میں ہاں ملانے والے چاہئے وہاں طالبان و القائدہ تو کجا مشرف و نواز زرداری بھی برداشت نہیں کئے جائیں گے بس سانپ کو نپٹنے دو اسکے بعد سنپولوں ہی کی باری ہے اور جن کی بین اور پٹاری میں بیٹھ کر جھوما جارہا ہے انھیں کے پیروں کے جوتوں کی زینت بنیں گے۔صلیبی جنگ کا نیا انداز ہے پیارے اور اسکی تیاری حسب سابق شکست سے ہی شروع ہوئی پہلے علم برطانیہ کے ہاتھ میں تھا اب امریکہ کے ہے
پیارے سوچو تو سہی اہل ہنود ،جنکے مذہب میں تو کیا گمان و خیال و لغت میں بھی آزادی و انقلاب کے الفاظ نہیں تھے بڑے مزے سے مسلمانوں کے معاون بنے دنیا کے چھٹے حصّے کی رونق تھے، کیسے چند سالوں میں اس مقام تک چلے آئے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ہی نمائندگی دینے کو تیار نہ ہوئے کجا یہ کہ یہ اپنے 300 سو سالہ مالکوں کو سر پر بٹھاتے۔ تاریخ کی کتابیں ان کے لیڈروں کے رنج و غم اور افسوس سے بھر گئیں ، مگر یہ کہیں ذکر نہیں کہ ُان ریزویشن کے جائیز مطالبات کو کیوں ویسے کا ویسا نہ سہی ، قریب قریب لاکر کیوں نہیں تقسیم کو روک لیا ۔ آپ سوچیں گے کہ وہاں کون سا امریکہ تھا تو بھائی میں یہ کہوں گا پرانا شکاری نئے بھیس میں آیا ہے جال بھی نیا ہے۔ لیکن یاد رہے وہ تھے یا یہ مقاصد سب کے یکساں ہیں ۔ حتٰی کہ گدھ بھی جو ہوا میں اڑرہے ہیں جن کا شکار کرنے میں کوئی حصّہ نہیں مگر معصوم وہ بھی نہیں نوچنا تو وہ بھی چاہتا ہے۔
افکار مغرب جو کے سراسر مادیت پر مبنی ہے۔ اسکے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم ہے چاہے نام کا ہی کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں تو سور کے گوشت سے ابکائی لے ہی لیتا ہے۔ آج اوپر والوں کو نپٹ لینے دو پھر ایسوں کی بھی معافی نہیں
چاہے جتنا ان کے یار بنئیے دلی ہمدردی رکھیئے نمبر تو لگنا ہی ہے۔ خدا نہ کرئے ذرا موجودہ ڈھال تو گرنے دو ۔۔
دو ہی تو ایسے رہے جو جنھوں نے بہت وقت مغرب میں گذارا مگر دام صیاد کے ایک ایک تار کو جانا۔ ایک محمد علی جوہر دوسرے علامہ اقبال کچھ ان کی شاعری کی شراح دیکھ لیتے تو امریکا فرانس اسرائیل وغیرہ ناموں میں نہ الجھتے اور نہ ہی ان کے اخلاص و مہربانی وضاحت و صفائی کی زحمت اٹھانی پڑتی۔۔
 
Top