الوداعی تقریب آخری رات

یاز

محفلین
آخری رات

چاند ٹوٹا پگھل گئے تارے
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات
پلکیں آنکھوں پہ جھکتی آتی ہیں
انکھڑیوں میں کھٹک رہی ہے رات
آج چھیڑو نہ کوئی افسانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کھلتے جاتے ہیں سمٹے سکڑے جال
گھلتے جاتے ہیں خون میں بادل
اپنے گلنار پنکھ پھیلائے
آ رہے ہیں اسی طرف جنگل
گل کرو شمعیں، رکھ دو پیمانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

شام سے پہلے مر چکا تھا شہر
کون دروازہ کھٹکھٹاتا ہے
اور اونچی کرو یہ دیواریں
شور آنگن میں آیا جاتا ہے
کہہ دو ہے آج بند مے خانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

جسم ہی جسم ہیں،کفن ہی کفن
بات سنتے نہ سر جھکاتے ہیں
امن کی خیر، کوتوال کی خیر
مردے قبروں سے نکل آتے ہیں
کوئی اپنا نہ کوئی بیگانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو

کوئی کہتا تھا ٹھیک کہتا تھا
سرکشی بن گئی ہے سب کا شعار
قتل پر جن کو اعتراض نہ تھا
دفن ہونے پہ کیوں نہیں تیار
ہوش مندی ہے آج سو جانا
آج کی رات ہم کو سونے دو
(کیفی اعظمی)​
 

سیما علی

لائبریرین
آخری رات
آج مرے دل کی ویرانی
دھیرے دھیرے بول اٹھی ہے
میرا کام نہیں سمجھانا
لیکن کس کو راس آیا ہے
ایسی رات میں باہر جانا

راہ سوالوں کا اک بن ہے
بے مشغل بے مونس چلنا
یہ سب اک دیوانہ پن ہے
گشت میں ہے کتوال نگر کا
اس کی آںکھوں میں نقشہ ہے

سب گلیوں کا سارے گھر کا
اور تم دیوانے ہو اب تک
پاؤں کا تم کو ہوش نہ سر کا
لیکن مجھ ایسے دیوانے
بیٹھ کے کیسے جی سکتے ہیں

ایسا عشق سبق دیتا ہے
مکتب کے دروازے ہی پر
کفش و کلہ رکھوا لیتا ہے
حرفِ صداقت لکھواتی ہے
تختی لکھنا کھیل نہیں ہے

دل کی طاقت لکھواتی ہے
دل رکھے تو ہمت رکھے
جرمِ عشق کیا ہو جس نے
وعدہ یار کی عزت رکھے
عشق پہ ہے تعزیر پرانی

میرے لب سے کیوں رُسوا ہو
اندھوں میں سچ کی عریانی
رات اندھیری ہے اے دلبر

لیکن جب بھی آنکھ کھلی ہے
کوئی کرن سا نازک خنجر
دل کے اندر گھوم رہا ہے
دستِ ستم سے پہلے آکر
میری چوکھٹ چوم گیا ہے

عزیز حامد مدنی
 

اربش علی

محفلین
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پہ رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

تمھیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی رازداری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ​
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
رات کی آنکھیں نیند سے بوجھل، خواب کہاں تک جاگیں گے
سوئے شہر، ٹھکانے، جنگل، خواب کہاں تک جاگیں گے......
برسوں کی تنہائی میں تو یادیں بھی تھک جاتی ہیں
کھیل،کتابیں، گلیاں، پیپل، خواب کہاں تک جاگیں گے
ایک اک کر کے جگنو، تارے، دیپ، پتنگے، راکھ ہوئے
رات کی رانی، خوشبو، صندل خواب کہاں تک جاگیں گے
عمروں کے جگراتے ناصر کب آنسو بن جائیں گے
کب پگھلے گا دکھ کا پیتل، خواب کہاں تک جاگیں گے
 

سیما علی

لائبریرین
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے

اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت

لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے

آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو

پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
 

اربش علی

محفلین
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی

تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے
تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے
تیری بانہیں ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے
سب سے بڑھ کر مری جاں تو ہے ابھی میرے لیے
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کچھ ہے ابھی
آج کی شب تو کسی طور گزر جائے گی!
آج کے بعد مگر رنگِ وفا کیا ہوگا
عشق حیراں ہے سرِ شہر ِصبا کیا ہوگا
میرے قاتل ترا انداز جفا کیا ہوگا!

آج کی شب تو بہت کچھ ہے مگر کل کے لیے
ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگِ امّید کھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اجڑ جائے گا

(پروین شاکر)​
 

سیما علی

لائبریرین
رات کا پچھلا پہر ہے چاند ڈھلتا جا رہا ہے
آخری امید کا بھی وقت ٹلتا جا رہا ہے

ہو گیا ہے دور مشرق میں افق کتنا سنہرا
رفتہ رفتہ رنگ ہر شے کا بدلتا جا رہا ہے

اب بھلا اس زندگی کو کس طرح رکھوں بچا کر
ایک ٹکڑا برف کا ہے جو پگھلتا جا رہا ہے

اک زمانہ ہاتھ میں تھا ہو گیا قابو سے باہر
مٹھیوں کو بھینچتا ہوں پر پھسلتا جا رہا ہے

آج تک دیکھا نہیں پر لگ رہا ہے اب کچھ ایسے
کچھ کھنچا جاتا ہے مجھ سے کچھ نکلتا جا رہا ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں

آشوب جدائی کیا کہئے انہونی باتیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجیالی راتیں ہوتی ہیں

جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں
یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں

گھرگھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں
امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں

امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے
دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں

طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے
بہروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں

آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہو کی لالی ہے
اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں

قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں
دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں

جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے ہیں اور پہروں باتیں ہوتی ہیں

ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں
ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نہ بن جائے
پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

ہمت کس کی ہے جو پوچھے یہ آرزوؔ سودائی سے
کیوں صاحب آخر اکیلے میں یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں
 

اربش علی

محفلین
غزل کے ساز اٹھاؤ ،بڑی اُداس ہے رات
نواے میرؔ سناؤ، بڑی اُداس ہے رات

نواے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے
نواے درد سناؤ، بڑی اُداس ہے رات

اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفَس تھے کبھی
انھیں نہ دل سے بھلاؤ، بڑی اُداس ہے رات

جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو
صنم کدے کی ہواؤ! بڑی اُداس ہے رات

کہیں نہ تم سے تو پھر اورجا کے کس سے کہیں
سیاہ زلف کے سایو! بڑی اُداس ہے رات

پڑا ہے سایۂ غم جب حیاتِ انساں پر
وہ داستاں بھی سناؤ، بڑی اُداس ہے رات

ابھی تو ذکرِ سحر دوستو ہے دور کی بات
ابھی تو دیکھتے جاؤ، بڑی اُداس ہے رات

سنا ہے پہلے بھی ایسے میں بجھ گئے ہیں چراغ
دلوں کی خیر مناؤ ،بڑی اُداس ہے رات

دیے رہوں یوں ہی کچھ اور دیر ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ ،بڑی اُداس ہے رات

کوئی شمار بھی رکھتی ہیں ظلمتوں کی تہیں
بتاؤ غم کی گھٹاؤ! بڑی اُداس ہے رات

کوئی کہو یہ خیالوں سے اور خوابوں سے
دلوں سے دور نہ جاؤ، بڑی اُداس ہے رات

کرو جو غور تو ردّ و قبول یکساں ہیں
دلوں سے نکلی دعاؤ!بڑی اُداس ہے رات

یگانگی ہو کہ دیوانگی ہو سب دھوکا
سنو سب اپنے پرایو! بڑی اُداس ہے رات

سمیٹ لو کہ بڑے کام کی ہے دولتِ غم
اسے یون ہی نہ گنواؤ، بڑی اُداس ہے رات

بسے ہوئےہیں کسی کے جو لمسِ رنگیں سے
وہ بسترے نہ لگاؤ، بڑی اُداس ہے رات

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انھیں سے کام چلاؤ، بڑی اُداس ہے رات

لیے ہوئے ہیں جو بیتے غموں کے افسانے
وہ زندگی ہی بلاؤ، بڑی اُداس ہے رات

بھرم نشاط و طرب کے نہ اور کُھل جائیں
مے و ایاغ بڑھاؤ، بڑی اُداس ہے رات

دو آتشہ نہ بنا دے اسے نواے فراقؔ
یہ سازِ غم نہ سناؤ، بڑی اُداس ہے رات​
 

یاز

محفلین
یہ رات آخری لوری سنانے والی ہے
میں تھک چکا ہوں مجھے نیند آنے والی ہے

ہنسی مذاق کی باتیں یہیں پہ ختم ہوئیں
اب اس کے بعد کہانی رلانے والی ہے

اکیلا میں ہی نہیں جا رہا ہوں بستی سے
یہ روشنی بھی مرے ساتھ جانے والی ہے

جو نقش ہم نے بنائے تھے صرف وہ ہی نہیں
ہوائے دشت ہمیں بھی مٹانے والی ہے

ابھی تو کوئی بھی نام و نشاں نہیں اس کا
ہمیں جو موج کنارے لگانے والی ہے

ہر ایک شخص کا یہ حال ہے کہ جیسے یہاں
زمین آخری چکر لگانے والی ہے
(اظہر عباس)
 

یاز

محفلین
اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے
بول اے ہوائے شہر کدھر جانا چاہیئے

کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم
کوئے مراد سے بھی ادھر جانا چاہیئے

وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیئے

اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے
جس سمت بھی ہو گرد سفر جانا چاہیئے

کچھ تو ثبوت خون تمنا کہیں ملے
ہے دل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیئے

یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے
یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیئے
احمد فراز
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
 
Top