آخری آدمی

احمد ندیم قاسمی پاکستانی دنیائے ادب کے ہمارے دور کے آخری بڑے آدمی تھے صرف اس لئے نہیں کہ ان کی تخلیقی سرگرمیاں کئی اصناف ادب کو محیط کرتی تھیں اور ہر تخلیق سے ان کی ایک علیحدہ شان جھلکتی تھی بلکہ اس لئے کہ وہ ذاتی طورپر بھی ایک بڑے ادیب کی زندگی بسر کرتے تھے۔ میں انہیں قیام پاکستان سے پہلے بھی ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے سبب کسی قدر جانتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد اوران کی پہلی شعری تصنیف ”جلال و جمال“ پڑھ کر تو ان سے بہت ہی متاثر ہوا۔ ادب میں نمبر ون ٹو کا سلسلہ نہیں چلتا جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے لیکن کسی نہ کسی انداز سے غیر رسمی طورپر ہی سہی، اسی طرح کا تعین مقامات ہماری روایات میں شامل ہو گیا ہے یوں ہمارے نمبر ون جناب فیض احمد فیض تھے اورنمبر ٹو جناب احمد ندیم قاسمی (فیض صاحب کو تو فراق صاحب کے انتقال کے بعد بھارت میں بھی اردو کا نمبر ون تسلیم کر لیا گیا تھا) پھر فیض صاحب کے بعد اہم ترین وہی نظر آتے رہے، اب جو یہ خبر آئی ہے تو انتہائی دلی رنج میں ایک خلا شامل ہو گیا ہے۔ ان کے بعد کون؟ قاسمی صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے سیکرٹری جنرل بھی رہے مگر بیشتر ادیب تحریک کمزور پڑنے اور حکومت کے زیر عتاب رہنے کے منفی رد عمل سے نہ بچ سکے اور ایک اجلاس کراچی میں قاسمی صاحب کو انجمن ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا یہ ایک علیحدہ کہانی ہے اور کئی جرائد و کتب میں آچکی ہے۔ تحریک، ترقی پسند تحریک، چلتی رہی اور آج بھی خواہ غیررسمی طور سے، چل رہی ہے مگر قاسمی صاحب اس عہدے سے پہلے اور وہ ختم ہو جانے کے بعد بھی فعال رہے اور بہت سے نئے پرانے لکھنے والوں کو فعال رکھا۔ کئی مشاہیر لکھنے والے کسی باقاعدہ شاگردی کے بغیر اپنے ارتقاء اور شہرت کے لئے خاصی حد تک قاسمی صاحب کی بے غرضانہ سرپرستی کے ممنون ہیں۔ خصوصاً جب سے انہوں نے ”فنون“ شروع کیا نئے بے نام لکھنے والوں کی کھلی ہمت افزائی کی اور جن کی ہمت افزائی کی ان میں سے بیشتر ہمارے قابل ذکر ادبی اثاثے ثابت ہو چکے ہیں اس طرح کی شخصیت آج ہماری ادبی دنیا میں کمیاب ہی نہیں بالکل نایاب ہے۔ قاسمی صاحب ہر طور سے یعنی کاملاً ایک سیلف میڈ انسان تھے اب بھی روایات کے مطابق تو وہ خاندانی طور پر بھی ایک اہم شخصیت کہے جا سکتے ہیں اورپچاس پچپن برس پہلے وہ کبھی کبھی اپنے نام کے ساتھ ”پیرزادہ“ کا لقب بھی شامل کر لیتے تھے (جو بہت جلد ترک ہو گیا) لیکن اس نسبت سے علیحدہ انہوں نے خالصتاً اپنی محنت، تخلیقی اثاثوں اور عمومی خوش مزاجی سے ایک بڑی سماجی حیثیت بھی بنا لی تھی اس سماجی حیثیت میں کوئی اقتصادی پہلو مضمر نہیں ہے ان کی اقتصادی حیثیت سے پورے طورپر واقف بھی نہیں ہوں اتنا جانتا ہوں کہ غالباً بیس پچیس برس پہلے جب گلڈ نے لاہور میں بہت سے ادیبوں کو جناب حنیف رامے (اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب) کے ہاتھوں سستے داموں زمین الاٹ کرائی تھی تو کچھ رقبہ قاسمی صاحب کو بھی ملا انہیں اس وقت بھی ”فنون“ سے کوئی معقول آمدنی نہیں ہوتی تھی شاید کچھ اپنی زرعی زمینوں سے مل جاتا تھا جو ضلع خوشاب میں واقع تھیں، جب وہ مکان بنانے بیٹھے تو مجھ سے اور میری معرفت میر خلیل الرحمن مرحوم مدیر ”جنگ“ سے اٹھارہ ہزار روپے قرض لئے (مجھ سے چھ ہزار) میں نے اپنا ذکر اس لئے کیا کہ ان کی ایک اور صفت سامنے آجائے جس کا مظاہرہ عملی زندگی میں ہم ادیب کم کم کر پاتے ہیں وہ یہ کہ انہوں نے تین چار برس بعد میری طرف سے کسی یاد دہانی کے بغیر جو قرض مجھ سے لیا تھا مجھے واپس کر دیا (اور میرا غالب قیاس ہے کہ میر خلیل الرحمن کا قرض بھی ”جنگ“ سے اپنے ماہانہ معاوضے میں سے منہا کراتے رہے ۔ قاسمی صاحب پر ایم فل بھی ہو چکا ہے اور اغلباً پی ایچ ڈی بھی ۔ ان کی ذات و صفات ایک مضمون تو کیا کتابوں میں بھی نہیں سمائیں گی۔ ایک دور میں امارات کے دو شہروں ابو ظبی اور دبئی میں ادیبوں کے جشن منائے جا رہے تھے۔ میں نے 1981 میں ابو ظبی میں مقیم برادرم سید اظہار حیدر اور ان کے ساتھی کارکن برادرم اقبال مہدی اور اراکین بزم شکیل آزاد اعجاز مرزا، شفیق سلیمی، اختر شیخ، صدیق عربی اور بہت سے مددگاروں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر جشن قاسمی کا انتظام کیا اللہ ان تمام کارکنان کو جزادے۔اظہار حیدر تو برسوں ( ہونے والے غیر متوقع اخراجات کے قرضے ادا کرتے رہے) جب جشن شروع ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ وہ واقعی ایک بڑاجشن تھا وہ دوسری مارچ کی ایک شگفتہ رات تھی کئی سوحاضرین و خواتین رات نو بجے سے صبح تین بجے تک ہال میں بیٹھے ان پر منظومات نہیں نشریات سنتے رہے کئی وفود بیرون ملک سے آئے تھے ”قومی زبان“ مئی 1988 سے لیکر میرے تازہ ترین نثری مجموعے ”بس اک گوشہ بساط“ میں شائع کردی گئی ہے بلکہ اسی میں ان پر میرا ایک اور مضمون بھی شامل ہے اب کہ اچانک ان کی خبر آئی اور میں ایک طرح جبراً یہ مضمون لکھنے بیٹھا بہت سی باتیں، ان کی بہت سی شخصی صفات یاد آنے لگیں کہاں تک لکھوں، لاہور ایک برس سے جانا نہیں ہوا گزشتہ پینتالیس برس میں جب بھی لاہور جانا ہوا خواہ ایک دن کے لئے ہو اولاً حضرت داتا صاحب اگر اتوار نہ ہو تو ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ انہیں دیکھ کر ایک سکون سا محسوس ہوتا ہمیشہ بات چیت کا موقع تو نہیں نکلتا تھا مگر ان سے دو چار کلمات کا تبادلہ ہی ادب پر انسانیت پر سے کم ہوتا ہوا اعتماد بڑھا دیتا۔ یا اللہ اب میں لاہور کے کس دربار میں جاؤں گا بس اکیلا داتا دربار ہی رہ گیا ہے مگر وہ اور شعبہ ہیں وہاں اکثر اپنے آپ پر شرمندگی بھی ہوتی ہے قاسمی صاحب دوسرا شعبہ تھے آج اس شعبے کا دوسرا آدمی نظر نہیں آرہا، کاش نظر آجائے۔

روزنامہ جنگ سے
 
Top