آج کی حدیث مبارک

سیما علی

لائبریرین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.

’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘

(الشوریٰ، 42: 23)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت اطہار بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے شدید محبت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فرمانِ خداوندی کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت پر بھی محبت اہل بیت کو واجب و ضروری قرار دے رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت و شان پر جو کچھ ارشاد فرمایا، کتب حدیث ان سے بھری پڑی ہیں۔ اس موقع پر ہم ان چند احادیث کا مطالعہ کریں گے جن کے ذریعے ہمیں نہ صرف حضرات حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے مقام و مرتبہ سے آگاہی ہوگی بلکہ ان سے محبت کی ضرورت و اہمیت کا پتہ ہی چلے گا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.

(البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543)

’’(حسن اور حسین) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔

لفظ ’’ریحان‘‘ کے معانی:

لفظ ’’ریحانتان‘‘ کا معنی ہمیشہ ’’دو پھول‘‘ کیا جاتا ہے۔ غریب الحدیث کی کتب میں جب لفظ ’’ریحان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے پانچ معانی ملتے ہیں مگر عام طور پر شارحین حدیث نے اس کے ایک معنی ’’پھول‘‘ پر اکتفا کیا ہے۔ ان پانچ میں سے ایک معنی ایسا ہے جس نے مجھے ایمانی فرحت اور روحانی لذت دی ہے۔ آیئے پہلے ’’ریحان‘‘ کے ابتدائی چار معانی کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر آخری معنی پر بات کریں گے جو ایمانی و روحانی حلاوت کا باعث ہے۔

1۔ خوشبو دار پھول
’’ریحان‘‘ کا ایک معنی زمین سے اُگنے والی خوشبودار شے ہے۔ اس سے پھول کا معنی لیا گیا۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی حدیثِ مبارک کا مفہوم واضح ہے۔ آقا علیہ السلام ہمیشہ جب بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکڑ کر سب سے پہلے سونگھتے تھے، پھر چومتے تھے اور چومنے کے بعد ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیتے تھے۔

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہہ

سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ.

جامع الترمذی، الرقم:3781

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے‘‘۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سونگھتے کیوں تھے؟ ان کو خوشبودار پھول قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جسموں سے وہ خوشبو آتی جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے خوشبودار پھول سے بھی نہیں آتی تھی۔ لہذا آقا علیہ السلام انہیں سونگھتے تھے۔

ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسموں سے خوشبو آتی ہو؟ اس سوال کا پید اہونا بھی بڑے تعجب کی بات ہے، اس لئے کہ جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک سے خوشبو آتی تھی، حدیث کی کتابیں اور شمائل کی کتابیں ان احادیث صحیحہ کے ساتھ بھری پڑی ہیں کہ جس راستے سے آقا علیہ السلام گزر جاتے، لوگ آپ کو تلاش کرنے نکلتے تو راستے کی ہواؤں میں بکھری ہوئی خوشبو سے جان لیتے تھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ ان راستوں کو تلاش کر لیتے جس راستے کی ہوائوں میں آقا علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہوتی۔ جدھر سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جاتے، وہاں کی ہوائیں بھی مہک اٹھتی تھیں۔۔

جسم اطہر تو جسم اطہر ہے، آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک میں بھی خوشبو تھی۔ صحاح ستہ میں کثیر احادیث ہیں کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو نچوڑ کر شیشیوں میں جمع کرتے تھے اور بطور خوشبو استعمال کرتے۔ بیٹیوں کی شادی ہوتی تو شادی کے وقت انہیں جہیز میں دیتے اور اسے بطور خوشبو ان کے لباس میں لگاتے۔ ایک گھر والوں نے آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک شیشی میں بھر کر رکھا ہوا تھا اور ان کے گھر سے ہمیشہ خوشبو اٹھتی رہتی تھی، اہل مدینہ اس گھر کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو والا گھر کہا کرتے تھے۔

پس جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے نکلنے والے پسینے کا یہ عالم ہے کہ کائنات کی کوئی خوشبو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو حسنین کریمین بھی تو آقا علیہ السلام کے جسم کا ٹکڑا ہیں، ان سے خوشبو کیوں نہیں آتی ہوگی۔

ایک صحابی آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے، آقا علیہ السلام نے کچھ تلاوت فرمائی اور ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مزاحاً محبت کے ساتھ اپنا منہ مبارک اس صحابی کے قریب کر دیا اور جھک کر اس کے منہ کے قریب آیت پڑھ دی۔ اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا اس صحابی کے منہ میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرتے دم تک اس صحابی کے منہ سے خوشبو آیا کرتی تھی۔ ساری زندگی ایک بار اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا میسر آجائے تو تا دم وفات اس صحابی کے منہ کی خوشبو نہیں گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسموں کاعالم کیا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں سونگھنا بلا وجہ تو نہیں ہوگا! جن پھولوں کی خوشبو نہ آتی ہو، انہیں تو ہم بھی نہیں سونگھتے، انہی پھولوں کو سونگھتے ہیں جن میں خوشبو ہوتی ہے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسدین طیبین مشمومین کی خوشبو آقا علیہ السلام سونگھتے تھے۔

2۔ اولاد
’’ریحان‘‘ کا دوسرا معنی ’’اولاد‘‘ ہے۔ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ معنی بھی واضح ہے۔ آقا علیہ السلام کے اپنے صاحبزادگان چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے، لہذا اللہ کو منظور یہ تھا کہ حسنین کریمن رضی اللہ عنہما کو آقا علیہ السلام کا نواسہ ہی نہیں بلکہ بیٹا بنایا جائے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ’’ابنایا‘‘ ’’میرے بیٹے‘‘ بھی کہتے تھے۔ پوتے، نواسے، بیٹے سب اولاد ہیں۔

3۔ راحت
’’ ریحان‘‘ کا تیسرا معنی ’’راحت، چین و سکون‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا فرماکر واضح کردیا کہ اس دنیا میں یہی تو میری راحت ہیں، انہی دوسے مجھے راحت، سکون، چین اور میرے دل کو خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ اگر کوئی انہیں اذیت دے گا تو گویا مجھے اذیت دے گا۔ ارشاد فرمایا:

من أحبهما فقد أحبنی ومن أبغضهما فقد ابغضنی و من آذاهما فقد آذانی.

(احمد بن حنبل، المسند، 2/288، رقم 7863)

’’جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘

کثرت کے ساتھ اس معنی کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ میری راحتِ جان ہیں۔ جس طرح کوئی اپنے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتا ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں، میری زندگی کی راحت ہی یہ ہیں، میری تو خوشی ہی یہ ہیں۔ ہر انسان یہ احساسات رکھتا ہے۔ یہ چرند، پرند بھی احساسات رکھتے ہیں۔ پھر آقا علیہ السلام کے اندر رحمت اور محبت کے احساس ساری کائنات سے بڑھ کر ہیں، اس لئے فرما رہے ہیں کہ حسن و حسین میری راحتِ جان ہیں۔

4۔ رحمت
’’ریحان‘‘ کا چوتھا معنی رحمت ہے۔ اس معنی کا اطلاق مذکورہ حدیثِ مبارک پر یوں ہوتا ہے گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے وَمَآ اَرْسَلْنٰ۔کَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ کے فرمان کے ذریعے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سارے جہانوں کے لئے رحمت میں ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جو رحمت عطا کی ہے، وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شکل میں عطا کی ہے۔ یعنی اللہ نے مجھے حسن و حسین کی شکل میں رحمت کے دو پیکر عطا کئے ہیں۔

اس فرمان سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے کہ جن دو شہزادوں کو آقا علیہ السلام اس گلشنِ دنیا میں اپنے لئے اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں، اندازہ کریں کہ ان کی بزرگی، رتبہ، مقام، کرامت اور فضیلت کا عالم کیا ہوگا۔

آج بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی فضیلت کا تذکرہ رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں سے اترتا جا رہا ہے۔ خارجیت نے لوگوں کا ایمان برباد کر دیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے علماء جو آج سے بیس پچیس سال پہلے دس دس دن، دس دس راتیں ذکر حسین کرتے تھے، آج ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ وہ لوگ خارجیت کے اثر میں اتنے آگئے ہیں کہ اب امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اپنے اس عمل سے وہ ایمان سے خارج ہو رہے ہیں۔ وہ ہستیاں جن کے بارے آقا علیہ السلام یہ کہیں کہ یہ مجھ پر رحمت ہیں، اگر ہر لمحہ ان کا ذکر کریں تو آقا علیہ السلام کو کتنی خوشی ہوگی! جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی جان کہا، ان سے پیار کریں اور تذکرے کریں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی راحت پہنچے گی۔۔

5۔رزق
مذکورہ چار معانی ’’ریحان‘‘ کے تھے اب اصل معنی کی طرف آرہا ہوں اور وہ یہ کہ ’’ریحان‘‘ کا ایک معنی رزق ہے۔ آقا نے فرمایا:

هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.

یعنی اس دنیا میں حسن و حسین میرا رزق ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا۔

  • علامہ ابن اثیر النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر (2:28 میں ریحان کے تحت بیان کرتے ہیں کہ
یُطْلَقُ عَلَی الرَّحْمَةِ وَالرِّزْقِ وَالرَّاحَةِ.

(ابن الاثیر الجزری، النہایة فی غریب الاثر، 2/28
’’ریحان کا اطلاق رحمت، رزق اور راحت پر ہوتا ہے‘‘۔

رزق کا حقیقی معنی و مفہوم:
اولاد پر ’’ریحان‘‘ کا اطلاق ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وَبِالرِّزقِ سُمِّيَ الوَلَدُ رَیْحَانًا. (ایضاً)

اولاد کو رَیْحَان کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ماں باپ کا رزق ہوتے ہیں۔

لسان العرب اور دیگر لغت کی کتب اٹھائیں تو رزق کی تعریف ہی یہ ہے کہ

اَلرِّزقْ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِهِ.

(ابن منظور الافریقی، لسان العرب، 10/115)

’’رزق اُس شے کو کہتے ہیں جس سے نفع اور فائدہ پہنچے‘‘۔

جس شے سے نفع نہ پہنچے وہ رزق نہیں ہوتا۔ اولاد کو رَیْحَان کہنے کا سبب یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کا رزق ہوتی ہے، ان کے کام آتی ہے، ان کا سہارا بنتی ہے اور ان سے ماں باپ کو نفع پہنچتا ہے۔

مثلاً میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین مشن میں میرے سہارا بن گئے ہیں، میری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے، مجھے اطمینان قلب ہوگیا۔ اگر یہ میرے مشن کی راہ پہ نہ چلتے اور اِن سے مجھے اور میرے مشن کو فائدہ نہ پہنچتا، یا کوئی اور راہ اپنا لیتے تو یہ میرا رزق نہ ہوتے کیونکہ مجھے ان سے نفع نہیں پہنچا۔ اگر میرے مشن کو آگے بڑھائیں، اس تحریک کو آگے پہنچائیں، اپنا رات دن منہاج القرآن کے لیے فنا کریں اور آقا علیہ السلام کی غلامی و محبت میں خرچ کریں تو پھر نہ صرف میری حقیقی اولاد بلکہ میرے تمام کارکنان و رفقا بھی میرا رزق ہیں کیونکہ ان سب سے مجھے نفع پہنچا۔ آپ میرے مشن کو سہارا دینے والے ہیں۔ گویا رزق وہ ہوتا ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔

  • امام ابو عبد اﷲ بن ابی نصر الازدی تفسیر غریب ما فی الصحیحین البخاری ومسلم میں بیان کرتے ہیں کہ
الرَّیْحَان: الرِّزْق وَیُسَمَّی الوَلَدُ رَیْحَانًا.

(ابوعبدالله بن ابی النصر الازدی، تفسیر غریب مافی الصحیحین البخاری و مسلم، 200)

رَیْحَانْ کا مطلب رزق ہوتا ہے اور اولاد کو بھی رَیْحَانْ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ رزق ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔

  • علامہ زمخشری غریب الحدیث پر اپنی کتاب ’الفائق‘ میں لکھتے ہیں کہ:
رَیْحَانُ الله أَیْ مِنْ رِّزْقِ الله.

(زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث ، 1/185)

’’اللہ کی طرف سے جو رَیْحَانْ ہے وہ دئیے ہوئے رزق کو کہتے ہیں‘‘۔

حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہیں؟

الغرض دیگر ائمہ جنہوں نے غرائب الحدیث پر کتب لکھیں انہوں نے ریحان کا معنی رزق لکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسنین کریمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہوئے؟؟

وہ رزق اس لیے ہوئے کہ اِن سے آقا علیہ السلام کو نفع پہنچا۔ حضور علیہ السلام کے دین کو نفع پہنچا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک دفعہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اٹھایا، اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:

اِبْنِیْ هَذَا سَیَّدٌ.

’’میرا یہ بیٹا سید ہے‘‘

(بخاری، الصحیح، 2/962، رقم 2557)
حسنینِ کریمین علیما السلام آقا علیہ السلام کے گلشن کے دو پھول
 

سیما علی

لائبریرین
حدثنا ابو كريب، حدثنا قبيصة بن الليث الكوفي، عن مطرف، عن عطاء، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من شيء يوضع في الميزان اثقل من حسن الخلق وإن صاحب حسن الخلق ليبلغ به درجة صاحب الصوم والصلاة "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاق حسنہ (اچھے اخلاق) سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے، اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجہ تک پہنچ جائے گا“۔



امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
سنن ترمذي, حدیث نمبر 2003, باب: اخلاق حسنہ کا بیان۔
 

سیما علی

لائبریرین
pc1w2pX_d.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی خدا خوفی اور حسن خلق۔
حضرت ابو ہریرہؓ ہی نے حضور کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی)

یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
(ترمذی)


مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کیا اچھائی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے اور دراصل دونوں ایک دوسرے کو مستلزم ہیں۔ ایمان کے بغیر اخلاق پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب ، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی تخویف اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
مومن کا حسنِ خلق جلالی پہلو بھی رکھتا ہے اور جمالی پہلو بھی۔ جلالی پہلو کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مومن مصارفِ زندگی میں کردار کی عظمت و صلابت کا مظاہرہ کرتا ہے اور جمالی پہلو یہ ہے کہ مومن اہل ایمان کے درمیان محبت و رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کی نشست و برخاست، اس کی چال ڈھال اور اس کا باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت اور نفاست و ملائمت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی شان ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
مسلم بھائی کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرو

عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ - أَوْ قَالَ لأَخِيهِ - مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ » [متفق علیه]
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنے ہمسائے کےلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
تخریج:
[بخاری:13، مسلم: 72] یہ حدیث مسلم میں :
« حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ أَوْ قَالَ لأَخِيهِ »

’’ شک کے ساتھ ہے یعنی بھائی کے لئے یا فرمایا کہ ہمسائے کے لئے۔ صحیح بخاری میں شک کے بغیر ’’ حتى يحب لأخيه‘‘ کے الفاظ ہیں۔ یعنی ’’ اپنے بھائی کے لیے پسند کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ ’’ مومن نہیں ہوتا‘‘ سے مراد اس حدیث میں یہ ہے کہ کامل مومن نہیں ہوتا۔ جس طرح کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو انسان ہی نہیں، کیونکہ دوسری آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چند اوصاف کے علاوہ کسی ایک وصف کی کمی سے کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
2۔ اس حدیث میں مسلم بھائی اور ہمسائے کے لئے وہی چیز پسند کرنے کو ضروری قرار دیا گیا جو آدمی خود اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
ابن الصلاح فرماتے ہیں:
کہ بعض اوقات یہ چیز مشکل بلکہ ناممکن معلوم ہوتی ہے، حالانکہ اگر آدمی اس بات کو محبوب رکھے کہ یہ نعمت جس طرح مجھے ملی ہے میری نعمت میں کمی کے بغیر میرے بھائی کو بھی مل جائے اور جس طرح اللہ تعالی نے مجھ پر فضل کیا ہے میرے بھائی پر بھی فضل کر دے تو یہ چیز کچھ مشکل نہیں ہے مگر یہ مقام انہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو قلب سلیم رکھتے ہیں، دھوکے ، حسد اور کینے سے بھرے ہوئے نہیں ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ہمارے بھائیوں کو عافیت میں رکھے۔
اسی طرح یہ مقام متواضع لوگ حاصل کرتے ہیں، ہر چیز میں دوسروں پر اونچا رہنے کے خواہش مند یہ مقام حاصل نہیں کر سکتے:
﴿تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾[القصص:28/ 83]
’’ یہ آخری گھر ہم ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ بلندی کا ارادہ رکھتے ہیں نہ فساد کا اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔‘‘

مسلم بھائی کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرو
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللّٰہِ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ: اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِھِمْ وَأَھْلِیْھِمْ، وَمَا وَلُوْا۔ ))1
'' انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پاس دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں اور گھر والوں اور جن کے نگران بنے تھے، ان میں انصاف کرتے تھے۔ ''
معلوم ہوا کہ یہ فضیلت ان کو ملے گی جو خلافت یا امارت یا کوئی فیصلہ ہو اس میں انصاف کرتے ہیں اور یتیم کا خیال کرنا، صدقہ یا وقف کا کوئی مسئلہ ہو اس میں بھی اور اپنے اہل و عیال وغیرہ میں بھی انصاف سے کام لیتے ہیں۔2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۱۔
2 نووی، شرح مسلم، ص: ۲۱۲ ؍ ۱۲۔

عدل و انصاف کرنے والے
 

فہد مقصود

محفلین
لوگوں کے درمیان صلاح کروانے اور ان کے درمیان انصاف کرنے والے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(یعدل بین الناس صدقة)
بخاری،جامع صحیح(دارالسلام،الریاض1998ء) ص442،حدیث نمبر 2707
''لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔''

حکمران کے بارے میں حدیث میں آتا ہے:
(فإذا عدل کان له الأجر)

خطیب تبریزی، مشکوة المصابیح(مکتبہ تجاریہ ،دارالفکر،بیروت1991ء)3422،حدیث نمبر3718
''جب وہ عدل کرے تو اس کے لیے اجر ہے۔''
 

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللّٰہِ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ: اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِھِمْ وَأَھْلِیْھِمْ، وَمَا وَلُوْا۔ ))1
'' انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پاس دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں اور گھر والوں اور جن کے نگران بنے تھے، ان میں انصاف کرتے تھے۔ ''
معلوم ہوا کہ یہ فضیلت ان کو ملے گی جو خلافت یا امارت یا کوئی فیصلہ ہو اس میں انصاف کرتے ہیں اور یتیم کا خیال کرنا، صدقہ یا وقف کا کوئی مسئلہ ہو اس میں بھی اور اپنے اہل و عیال وغیرہ میں بھی انصاف سے کام لیتے ہیں۔2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۱۔
2 نووی، شرح مسلم، ص: ۲۱۲ ؍ ۱۲۔
جزاک اللّہ
 

فہد مقصود

محفلین
ظلم کی ایک قسم حقوق العباد سے متعلق ہے یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلا لوگوں کاناحق خون کرنا، باطل طریقے سے کسی کاحق مارنا، کسی کاسامان چھین لینا یاچوری کرلینا، بلاوجہ کسی کوگالی دیدینا، معصوم آدمی پر بہتان لگانا،لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا، کمزوروں کو پریشان کرنا، حق کے داعیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ ۔
ظلم کی اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اللہ معاف نہیں کرتا اور نہ ہی نماز وروزہ اور حج وعمرہ جیسی نیکی سے تلافی ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
مَن كَانَتْ له مَظْلَمَةٌ لأخِيهِ مِن عِرْضِهِ أَوْ شيءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ منه اليَومَ، قَبْلَ أَنْ لا يَكونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إنْ كانَ له عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ منه بقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وإنْ لَمْ تَكُنْ له حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عليه(صحيح البخاري:2449)
ترجمہ: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
اس معنی کی ایک مفصل روایت صحیح مسلم میں یوں وارد ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
أَتَدْرُونَ ما المُفْلِسُ؟ قالوا: المُفْلِسُ فِينا مَن لا دِرْهَمَ له ولا مَتاعَ، فقالَ: إنَّ المُفْلِسَ مِن أُمَّتي يَأْتي يَومَ القِيامَةِ بصَلاةٍ، وصِيامٍ، وزَكاةٍ، ويَأْتي قدْ شَتَمَ هذا، وقَذَفَ هذا، وأَكَلَ مالَ هذا، وسَفَكَ دَمَ هذا، وضَرَبَ هذا، فيُعْطَى هذا مِن حَسَناتِهِ، وهذا مِن حَسَناتِهِ، فإنْ فَنِيَتْ حَسَناتُهُ قَبْلَ أنْ يُقْضَى ما عليه أُخِذَ مِن خَطاياهُمْ فَطُرِحَتْ عليه، ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ.(صحيح مسلم:2581)
ترجمہ:تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے پربدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہو گا، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلےختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)

حضور ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔
’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘
 

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

لَا تَحْتَقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ (مسلم)
یعنی ’’کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔‘‘

اسی طرح سلام سے آغازِ ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ:
اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ (مسلمؒ)
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث قدسی ہے کہ:
مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقُ یُحْرَمِ الْخَیْرُ کُلُّہٗ (مسلم)
’جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے نصیحت کی درخواست کی تو حضور ﷺ نے فرمایا: لَا تَغْضَبْ (غصے میں نہ آؤ) اس شخص نے متعدد مرتبہ یہی درخواست کی تو حضور ﷺ نے ہر مرتبہ اسے یہی نصیحت فرمائی۔ (بخاری)
 

فہد مقصود

محفلین
حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من دعا إلى هدى كان له من الاجر مثل اجور من يتبعه لا ينقص ذلك من اجورهم شيئا , ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من يتبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (و گمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو“۔امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
15. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ
حدیث نمبر: 2674
 

سیما علی

لائبریرین
عن أَبَي سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "مَنْ قَالَ : رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ". ابي داؤد

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص یہ کہے " (میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا) تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئ۔

فوا‏ئد :

1- اس حدیث میں مذکورہ بالا دعا پڑھنے کی ترغیب ہے۔

2- سعادت مندی کے حصول کی رغبت رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی رہیں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص یہ کہے " (میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا) تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئ۔

فوا‏ئد :

1- اس حدیث میں مذکورہ بالا دعا پڑھنے کی ترغیب ہے۔

2- سعادت مندی کے حصول کی رغبت رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی رہیں

3- یہ حدیث اس ذکر کی فضیلت کو بیان کرتی ہے کیونکہ اس میں توحید باری تعالی کا ثبوت اور توکل علی اللہ کا بیان ہے اور دین اسلام کی تعلیمات کو بسرو چشم قبول کرنے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو بروے کار لانا ہے۔

راوی کا تعارف :

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کا سعد بن مالک بن سنان انصاری خزری ہے۔ آپ کا شمار مشہور فقہائے صحابہ میں ہوتا ہے۔ آ مدینہ کے مفتی تھے۔ کم عمری کی وجہ سے جنگ احد میں شریک نہ ہوسکے۔ آپ نے سب سے پہلے غزوہ خندق میں شرکت فرمائ‏۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریبا 12 غزوات میں شرکت فرمائ۔ آپ کی روایت کردہ حدیثوں کی تعداد 1170 ہے۔ آپ صحابہ میں صاحب علم و فضیلت صاحب عزو شرف تھے۔

ماہ صفر سن 38 ہجری کی 9 تاریخ کو مشرقی کوفہ میں واقع معرکہ نہروان میں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، اس معرکے میں علی رضی اللہ عنہ کو خوارج پر فتح حاصل ہوئ تھی۔

آپ نے سن 73 ہجری میں 86 سال کی عمر میں مدینہ المنورہ میں وفات پائ اور بقیع قبرستان میں مدفون ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ طَرَقْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ بَعْضِ الْحَاجَۃِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ مُشْتَمِلٌ عَلٰی شَیْئٍ لَا أَدْرِیْ مَا ھُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِیْ قُلْتُ: مَا ھٰذَا الَّذِيْ أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَیْہِ، فَکَشَفَہٗ فَإِذَا حَسَنٌ حُسَیْنٌ عَلٰی وَرکَیْہِ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( ھَذَانِ إِبْنَايَ وَاِبْنَا ابْنَتِيْ ، أَللّٰھُمَّ أُحِبُّھُمَا فَأَحِّبَھُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّھُمَا

''سیّدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ایک رات میں نے اپنے کسی کام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اپنی چادر میں کسی چیز کو لپیٹے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کیا چیز ہے۔ جب میں نے اپنی ضرورت پوری کرلی تو پوچھا: اللہ کے رسول! آپ یہ کیا چیز لپیٹے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو یہ (میرے محبوب ساتھی) حسن و حسین ابناء علی رضی اللہ عنہم تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کولہوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما ) میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور اس سے بھی پیار رکھ جو ان دونوں سے انس رکھتا ہے۔

صحیح سنن ترمذي، رقم: ۲۹۶۶؍ کتاب المناقب ؍ حدیث: ۳۷۶۹
 
Top