آج کا کالم: پاکستان میں شرح خواندگی

جاویداقبال

محفلین
انجمن اقوام متحدہ کے موقر ادارے یونیسکو نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی واقع ہوگئی ہے اور اس وقت 67 لاکھ بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کی عمرمیں ہیں یعنی ان کی عمریں پانچ سے نو سال کے درمیان ہیں لیکن وہ پھربھی سکول نہیں جارہے۔ ان بچوں کی اکثریت یا تو گھروں میں والدین کی امداد کر رہی ہے بالخصوص لڑکیاں اور یا پھر یہ بچے بالخصوص لڑکے چائلڈ لیبر فورس کاحصہ بن چکے ہیں۔ لاکھوں ایسے بھی ہیں جو گلیوں اورسڑکوں اورمزاروں پرآوارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 59 فیصد بچے بعض سکولوں میں داخل ہیں لیکن ان کی غالب اکثریت بہت مختصر عرصے کیلئے سکولوں میں قیام کرتی ہے اورپھرتعلیم و تدریس چھوڑ جاتی ہے۔ لڑکیاں بالعموم اوسطاً سوا سال سکولوں میں گزارتی ہیں جبکہ لڑکے بالعموم اوسطاً سوا تین سال کاعرصہ سکول جاتے ہیں اس کے بعد ان کی بہت بڑی تعداد تعلیم کا سلسلہ بند کرکے سکولوں کوچھوڑ دیتی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کاصرف 2.2 فیصد تعلیم کیلئے حکومت وقف کرتی ہے۔اس حوالے سے دنیا میں پاکستان سے بری صورتحال صرف نائیجیریا کی ہے جہاں شرح خواندگی میں پاکستان سے بھی زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک عرصے سے سننے میں آرہا ہے کہ حکومت تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں اضافہ کر رہی ہے۔خود صدرمملکت کی سطح پربھی ایک سے زیادہ بار یہ کہاگیا ہے کہ حکومت تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات جی ڈی پی کا 4فیصد تک بڑھا رہی ہے۔ یہ اعلانات ایک عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ دنیا کے متعددممالک میں تعلیمی اخراجات دفاع سے بھی زیادہ ہیں۔ صرف ایک مثال ترکی کی ہے جہاں جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے جو ملک کے دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔سارک کے خطے میں انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا پاکستان سے آگے ہیں اور ان کے تعلیمی اخراجات پاکستان کے تعلیمی اخراجات سے کسی نہ کسی درجے میں زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش جب آزادہوا تھا تو ساری دنیا کا کہنا یہ تھاکہ اس ملک سے غربت، بیروزگاری اور ناخواندگی شاید کبھی ختم نہ ہوسکیں گی۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو ”باسکٹ کیس“ کہاتھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جتنے بھی فنڈز ڈالتے جاؤ کبھی اس کی ضروریات پوری نہ ہوسکیں گی لیکن بنگلہ دیش نے اپنے آپ کو سنبھالا ہے۔ سافما کی ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے راقم الحروف کو جب آخری دفعہ ڈھاکہ جانے کا موقع ملا تو بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر نے مجھے بتایا کہ بنگلہ دیش کے بہت سے سماجی اشاریئے اب اکثر ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان سے بہتر ہیں۔ تعلیم اور طب کے میدان میں بنگلہ دیش نے نمایاں کامیابیاں حاصل ہیں۔ بنگلہ دیش کے پروفیسر یونس خان کو حال ہی میں امن کا نوبل پرائز دیا گیا ہے۔ ان کی مساعی سے کروڑوں بنگالیوں کی زندگیوں میں ایک اچھا انقلاب آیاہے اوراگرچہ انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ غریب طبقات کی آمدنیوں میں اضافے پر مرکوز کی ہے لیکن انہوں نے تعلیم اور مواصلات کے میدان میں بھی اپنے ادارے گرامین بنک کے ذریعے اورکچھ ذیلی اداروں کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سری لنکا تو جنوبی ایشیا اورسارک کے تمام ممالک میں شرح خواندگی کے حوالے سے سب سے آگے ہے وہاں شرح خواندگی (آپ حیران ہوں گے) مختلف علاقوں اور خطوں میں اور مختلف طبقوں میں 80اور 90 فیصد کے درمیان ہے جبکہ پاکستان میں مبالغہ آمیز حکومتی دعوؤں کے مطابق شرح خواندگی46 فیصد ہے لیکن بہت سے خطے اورعلاقے ایسے ہیں جہاں خواندگی کی شرح افسوسناک حد تک کم ہے۔ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں عورتوں کی شرح خواندگی بمشکل 20 اور30کے درمیان ہے۔موجود ہ حکومت کی آمد سے بھی بہت پہلے سے ہمارے ہاں یہ دعوے سننے میں آتے رہے ہیں کہ ہم 2015ء تک انجمن اقوام متحدہ کے ملینیئم اہداف حاصل کرلیں گے لیکن معروضی حالات بتاتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے امکانات ہرگز روشن نہیں ہیں۔ اصل میں پاکستان میں روز ِ اول سے سماجی اورتعلیمی امور کی طرف توجہ بہت کم رہی ہے اس کا صرف ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک دفعہ نئی کابینہ کی تشکیل کے دوران مختلف وزراء کو سرکاری محکمے دیئے گئے۔ جب مجلس قلمدانوں کی تقسیم کے بعد برخواست ہوگئی تو وہاں موجود سرکاری افسروں میں سے کسی کو احساس ہوا کہ تعلیم کا قلمدان تو کسی کے سپرد نہیں کیاجاسکا اور اس وقت جو بھی وزیر قریب دستیاب تھے انہیں بلا کر تعلیم کا قلمدان بھی سپرد کردیاگیا۔ آج بھی ہمارے ہاں سماجی اور تعلیمی امور کی طرف توجہ بہت کم ہے اوران پراٹھنے والے اخراجات اکثر ترقی پذیرممالک کے مقابلے پر کم ہیں۔ جب تک پاکستان کے حکمران طبقے میں عوام کی حقیقی بہبود کا احساس اجاگر نہیں ہوتا اور سماجی اور ثقافتی اور تعلیمی امور کو غیرمعمولی اہمیت نہیں دی جاتی ہمارے ہاں موجودہ افسوسناک صورتحال برقرار رہے گی۔ یونیسکو کی تازہ رپورٹ ترقیوں اور اقتصادی کامیابیوں کے حکومتی دعوؤں کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ہمارے وزیراعظم اور دوسرے حضرات غربت کی شرح میں کمی کے دعوے آئے روز کرتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی بین الاقوامی ادارے نے ابھی تک ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کی یہی حال تعلیمی پسماندگی کا ہے۔آج بھی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اپنے بجٹ میں نمایاں کمی پرصدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم ہمارے ہاں سرکاری ترجیحات میں کس درجے پر ہے۔امر واقع یہ ہے کہ آزادی کے 60 سال بعد بھی ہم قیام پاکستان کے اکثر و بیشتر مقاصد حاصل کرنے میں ناکام چلے آرہے ہیں جس کی ایک وجہ ہماری غلط ترجیحات ہیں اور دوسری اہم وجہ ہمارے ملک کا اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ ہے۔ ہم فیوڈل طرزِ زندگی سے نجات حاصل کرنے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے قوم سے اپنے ایک خطاب میں برملا کہا تھا کہ پاکستان میں اب زرعی اصلاحات نہیں ہوسکتیں۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں زرعی اصلاحات نافذ ہوچکی ہیں حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں علیحدگی سے پہلے ملکیت زمین کا نظام معاشرتی انصاف کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی کوشش کی گئی اور ملکیت ِزمین کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کردی گئی لیکن مغربی پاکستان پر چونکہ فیوڈل طبقہ چھایا ہواہے اور قابض ہے اس لئے وہ یہاں زرعی اصلاحات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جب تک پاکستان میں سچی عوامی قیادت جمہوری عمل کے نتیجے میں برسراقتدار نہیں آتی، ہماری قومی ترجیحات میں کسی نمایاں اور بہتر تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ افسوس کہ پاکستان کا عام آدمی آج بھی اکثر و بیشتربنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ ان میں تعلیم اورصحت کی سہولتیں سرفہرست ہیں۔ صدرمشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کی رات دن بات کرتے ہیں۔کاش ان کا عمل اور ان کے افعال ان کے اقوال سے مطابقت رکھتے ہوں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
 

AMERICAN

محفلین
اپنے ملک کی شرح خواندگی بڑھانے کے لیے مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔سوچتا ہوں کہ
 

ماہ وش

محفلین
اصل میں پاکستان میں شرح خوندگے سے زیادہ آبادی بڑھ رہی ہے ،، اب آبادی بڑھنے کی رفتار دیگر چیزوں‌ کے بڑھنے سے زیادہ ہوگی تو یہ ریورس گیئر تو لگنا ہی ہے ۔۔ پاکستان کے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کو کسی اللہ کی نیک بندی کے حوالے کئے جانے سے ملک میں خوندگی کا فیصد بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔۔ کیا خیال ہے ؟؟
 
Top