آج جارحیت کا شکار بچوں کا عالمی دن

زبیر مرزا

محفلین
آج تشدد کے شکار بچوں کا عالمی دن ہے۔یہ دن ہر سال 4جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 19 اگست 1982 کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کے شکار فلسطینی اور لبنانی بچوں کے مسائل کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد کا شکارہونےو الے اور بے گھر بچوں کی تکالیف کو محسوس کرنا اور ان کی بحالی کی کوشش کرنا ہے۔اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کی وزارت اطلاعات کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے سنہ دو ہزار سے اب تک ایک ہزار چار سو چھپن فلسطینی بچوں کو شہید اور پانچ ہزار سے زیادہ فلسطینی بچوں کو شدیدزخمی کیا ہے۔جبکہ اب تک نو ہزار فلسطینی بچوں کو قید کرچکی ہے اور اس وقت بھی تقریبا دو سو پندرہ بچے اسرائیلی قید میں ہیں۔اسرائیلی فوج اور پولیس اہلکار ان قید بچوں کے نہایت بے رحمی کے ساتھ نہ صرف ہاتھ پاو¿ں باندھ دیتے ہیں بلکہ ا نہیں ہتھکڑیاں ڈالتے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھتے ہیں۔ دوران تفتیش انہیں بھی اسی طرح کے تشدد کے حربوں کا سامنا کرنا پڑتا جس طرح بڑی عمر کے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور انہیں بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونے والی جنگوں اور تشدد آمیز واقعات میں امریکہ ، یورپ اوراسرائیلی ریاست کے ہاتھ واضح طور پر دکھائے دیتے ہیں اور زیادہ تر بچے اور نوجوان ان ہی جنگوں ہلاکت اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ عراق اور افغانستان، لبنان ، صومالیہ ، یمن، سوڈان اور لیبیا کی جنگوں میں بچوں کی وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں اور تشدد اس حقیقت کی تصدیق ہیں۔
جبکہ دنیا بھر میں ہر سال 27 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ صرف امریکا اور بحرالکاہل کے خطوں میں سالانہ 60 لاکھ بچے تشددکا شکار ہوتے ہیں۔ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے ایک بچہ جارحیت کا شکار ہوتا ہے۔صوبائی محتسب پنجاب کے چلڈرن کمپلینٹ آفس کی رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں 70 فیصد بچے ظلم، تشدد اور زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

(بشکریہ منصورمہدی )
 

نیلم

محفلین
یہ عالمی دن منانے کا کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے کیا؟
یا صرف ایک دن کے لیے یاد دہانی کروائی جاتی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
کم از کم ایک مسئلے کو سامنے تو لایا جاتا ہے۔ باقی جس نے عمل نہیں کرنا، اس نے ویسے بھی نہیں کرنا :(
 

زبیر مرزا

محفلین
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد رہنے والے بچوں یعنی اپنے آفس اورگھریلوملازمین کے بچوں کی صحت اور
سلامتی کی بھی اسی قدر پرواہ کرنی چاہیے جس قدراپنے بچوں کی - نادار افراد کی مدد جس طرح بھی ممکن ہو مالی اوراخلاقی مدد
ان کے خاندان اور بچوں کی خوشحالی اورصحت کا سبب بن سکتی ہیں - اگرکوئی بچوں پرتشدد کا کوئی واقعہ سنیں تو ہمیں محض خبر
سمجھ کردرگزرنہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی بھرپورمذمت اورکوشش سے ایسے واقعات کا سدباب کرنا چاہیے-
بچے سب کے سانجھے ہیں اللہ تعالٰی ہمیں معصوم بچوں پرشفقت سے پیش آنے اور ان کی مدد کی توفیق عطا فرمائے
 

زبیر مرزا

محفلین
کم از کم ایک مسئلے کو سامنے تو لایا جاتا ہے۔ باقی جس نے عمل نہیں کرنا، اس نے ویسے بھی نہیں کرنا :(

جی بلکل اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہیے - مجھ کواگر مل جائے بچوں پرتشدد کرنے والا تو میں اس کانوں سے دھواں نکال دوں ایک بارتو
جانورسے بدتر ہوتے ہیں ایسے لوگ
 

نیلم

محفلین
اللہ کا شکر ہے ہمارے اس چھوٹے سے شہر میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔کرائم لیول بہت ہی کم ہوتا ہے چھوٹے شہروں میں ۔اور سب لوگ بھی موسٹلی ایکدوسرے کو جانتے پہنچاتےہیں
 

نایاب

لائبریرین
خیر و اصلاح کی جانب پکارتی اک اچھی معلوماتی شراکت ۔
چائلڈ لیبر یہ بھی اک ظلم ہی ہے ۔ اپنی حد تک اس ظلم کو کم کرنے کی کوشش کرنا ہم سب کا فرض ہے ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
ہم بھی کبھی بل واسطہ یا بلا واسسطہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں کم اجراءت پرگھروں میں ملازم بچے رکھے جاتے ہیں جن سے بڑوں والی مشقت لی جاتی ہے
ڈانٹ ڈپٹ بھی بچہ سمجھ کے خوب کی جاتی ہے - دوسری طرف چھوٹے شہروں میں تو اساتذہ بچوں کو اذیت ناک سزائیں تعلیم کہ نام پردیتے ہیں
اوراگربات دینی مدارس کی کی جائے تو جس قدر سخت دل ہمارے دینی اساتذہ ہیں اس کی تو مثال ہی نہیں ملتی خدا جانے بچوں اورعورتوں سے نرمی سے پیش آنے
کے بارے میں ان کودین سے کچھ پڑھنے ، سیکھنے اورسمجھنے کو نہیں ملتا - اتنے سخت دل اور بے رحم سلامتی والے مذہب کے ماننے والے نہیں ہوسکتے
 

زبیر مرزا

محفلین
میڈیا میں اکثر اوقات بچوں پر اساتذہ یا والدین کے ایسے بہیمانہ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں بعض اوقات زخم ان کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرات بن جاتے ہیں، تاہم تشدد کے نتیجے میں بچوں کو جس جسمانی تکلیف اور ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے، مقابلتاً بڑی تعداد میں ایسے واقعات کبھی سامنے نہیں آپاتے۔
لہٰذا ایسے میں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ بچوں کی جسمانی سزاؤں کے ساتھ ساتھ ان کو دی جانے والی ذہنی اور نفسیاتی سزاؤں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔
متعدد نوجوان طالب علموں کے لیے، بدقسمتی سے اسکولوں، مدارس اور گھروں میں کیا جانے والا تشدد زندگیوں کا حصہ ہے۔
پاکستان میں بچوں پر روا ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر معاشرے کے لیے قابلِ قبول عمل ہے۔ اگرچہ چاروں صوبوں نے بچوں کی مار پیٹ روکنے کے لیے بعض انتظامی اقدامات کیے ہیں تاہم اسکولوں کی سطح پر ان کے نفاذ کا فقدان ہے۔
عمومی طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جہاں ظالمانہ سزاؤں کی روک تھام کے لیے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، وہیں قوانین کا عدم نفاذ بھی ایک مرکزی مسئلہ ہے۔
پہلے قدم کے طور پر، اساتذہ کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان میں یہ حساسیت بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ غلطیوں پر بچوں کو روایتی طریقوں سے دی گئی ظالمانہ سزاؤں کے علاوہ بھی، ایسے انسانی طریقے ہیں کہ جن سے ان میں نظم و ضبط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں، منظور کردہ بِل میں، بچوں پر گھروں میں ہونے والے تشدد کا واضح طور پر حل موجود نہیں۔
شاید ایک بار جب اسکولوں میں ظالمانہ سزاؤں کا یہ مسئلہ بخوبی حل ہوجائے تو اس کے بعد گھروں پر کیے جانے والے جسمانی تشدد کے زیادہ حساس معاملے سے نمٹا جاسکے گا۔
معاشرے میں اس طرح کی بہیمانہ سزاؤں کے بڑھتے سلسلے کی روک تھام کے لیےموثرطور پر آگے بڑھتے ہوئے، اس کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال، مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ تششد کا یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم ہو۔ بچے گھروں اور اسکولوں میں جسمانی سزاؤں سے متعارف ہورہے ہیں، انہیں بالغ ہونے پر، تشدد اور استحصال کے اس سلسلے کا حصہ بنانے سے بچانا ہوگا۔
 

باباجی

محفلین
یہ جارحیت نہیں جاہلیت کا عالمی دن ہوتا ہے
ظاہر ہے تشدد اور ظلم جاہلیت ہی ہے
اور اس میں ان پڑھ ہی نہیں پڑھے لکھے جاہل بھی شامل ہوتے ہیں
اور یہ صرف معاشی مشکلات کا شکار ممالک میں ہی ہوتا ہے
ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہے
اور ترقی ممالک کب چاہیں کہ ترقی پذیر ممالک ان کی برابری کریں تو ایسے حالات پیدا کیئے جاتے ہیں جس سے غربت میں اضافہ ہو اور ایک چھوٹی سی سہولت کے عوض لوگوں کو اور زیادہ غربت و مشکلات میں گھیر دیا جاتا ہے جس کے ذمہ دار حکمران ہوتے ہیں
ظاہر ہے پیٹ تو بھرنا ہے نا
اس لیئے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو مشقت پر لگا دیتے ہیں
چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بڑے بڑے امیر لوگوں کے گھروں میں نوکری پر لگادیتے ہیں اور وہاں اکثر بچوں پر انسانیت سوز ظلم ہوتے ہیں جن میں جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد شامل ہوتا ہے اور وہ ظلم کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو "بچوں پر جارحیت کا عالمی دن" مناتے ہیں
حال ہی میں اپنے ایک دوست سے میرا جھگڑا ہوگیا کہ اس کی والدہ نے اپنے ایک نوکر کے منہ پر جوتیاں مار کر اسے گھر سے نکال دیا جس کی عمر 13،14 سال تھی
ظاہر ہے بچہ تھا غلطی ہو جاتی ہے لیکن ان کی امارت نے انہیں درگزر کرنے نہ دیا
اور میں دوست سے اس بات پر لڑ پڑا کہ تم نے اپنی والدہ کو کم سے کم یہ تو کہنا تھا کہ اسے نہ ماریں
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور لوگوں پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میڈیا میں اکثر اوقات بچوں پر اساتذہ یا والدین کے ایسے بہیمانہ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں بعض اوقات زخم ان کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرات بن جاتے ہیں، تاہم تشدد کے نتیجے میں بچوں کو جس جسمانی تکلیف اور ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے، مقابلتاً بڑی تعداد میں ایسے واقعات کبھی سامنے نہیں آپاتے۔
لہٰذا ایسے میں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ بچوں کی جسمانی سزاؤں کے ساتھ ساتھ ان کو دی جانے والی ذہنی اور نفسیاتی سزاؤں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔
متعدد نوجوان طالب علموں کے لیے، بدقسمتی سے اسکولوں، مدارس اور گھروں میں کیا جانے والا تشدد زندگیوں کا حصہ ہے۔
پاکستان میں بچوں پر روا ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر معاشرے کے لیے قابلِ قبول عمل ہے۔ اگرچہ چاروں صوبوں نے بچوں کی مار پیٹ روکنے کے لیے بعض انتظامی اقدامات کیے ہیں تاہم اسکولوں کی سطح پر ان کے نفاذ کا فقدان ہے۔
عمومی طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جہاں ظالمانہ سزاؤں کی روک تھام کے لیے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، وہیں قوانین کا عدم نفاذ بھی ایک مرکزی مسئلہ ہے۔
پہلے قدم کے طور پر، اساتذہ کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان میں یہ حساسیت بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ غلطیوں پر بچوں کو روایتی طریقوں سے دی گئی ظالمانہ سزاؤں کے علاوہ بھی، ایسے انسانی طریقے ہیں کہ جن سے ان میں نظم و ضبط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں، منظور کردہ بِل میں، بچوں پر گھروں میں ہونے والے تشدد کا واضح طور پر حل موجود نہیں۔
شاید ایک بار جب اسکولوں میں ظالمانہ سزاؤں کا یہ مسئلہ بخوبی حل ہوجائے تو اس کے بعد گھروں پر کیے جانے والے جسمانی تشدد کے زیادہ حساس معاملے سے نمٹا جاسکے گا۔
معاشرے میں اس طرح کی بہیمانہ سزاؤں کے بڑھتے سلسلے کی روک تھام کے لیےموثرطور پر آگے بڑھتے ہوئے، اس کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال، مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ تششد کا یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم ہو۔ بچے گھروں اور اسکولوں میں جسمانی سزاؤں سے متعارف ہورہے ہیں، انہیں بالغ ہونے پر، تشدد اور استحصال کے اس سلسلے کا حصہ بنانے سے بچانا ہوگا۔

متفق ۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ 12 مارچ 2013ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے خصوصاً سکولوں، مدرسوں اور دیگر اداروں میں بچوں پر تشدد کے خلاف Prohibition of Corporal Punishment Bill 2013 by the National Assembly (NA) بل پاس کیا ہے۔ جس کی رو سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت ترین اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں سب سے اہم ایک سال تک کی سزا اور 50 ہزار روپے کا جرمانہ بنیادی سزا ہو گی اور اس کے علاوہ کیس کی نوعیت کے حوالے سے مزید سزائیں بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ اس ایکٹ کی تفصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ بل پورے پاکستان میں یکساں طور پر نافذ ہو گا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ جارحیت نہیں جاہلیت کا عالمی دن ہوتا ہے
ظاہر ہے تشدد اور ظلم جاہلیت ہی ہے
اور اس میں ان پڑھ ہی نہیں پڑھے لکھے جاہل بھی شامل ہوتے ہیں
اور یہ صرف معاشی مشکلات کا شکار ممالک میں ہی ہوتا ہے
ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہے
اور ترقی ممالک کب چاہیں کہ ترقی پذیر ممالک ان کی برابری کریں تو ایسے حالات پیدا کیئے جاتے ہیں جس سے غربت میں اضافہ ہو اور ایک چھوٹی سی سہولت کے عوض لوگوں کو اور زیادہ غربت و مشکلات میں گھیر دیا جاتا ہے جس کے ذمہ دار حکمران ہوتے ہیں
ظاہر ہے پیٹ تو بھرنا ہے نا
اس لیئے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو مشقت پر لگا دیتے ہیں
چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بڑے بڑے امیر لوگوں کے گھروں میں نوکری پر لگادیتے ہیں اور وہاں اکثر بچوں پر انسانیت سوز ظلم ہوتے ہیں جن میں جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد شامل ہوتا ہے اور وہ ظلم کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو "بچوں پر جارحیت کا عالمی دن" مناتے ہیں
حال ہی میں اپنے ایک دوست سے میرا جھگڑا ہوگیا کہ اس کی والدہ نے اپنے ایک نوکر کے منہ پر جوتیاں مار کر اسے گھر سے نکال دیا جس کی عمر 13،14 سال تھی
ظاہر ہے بچہ تھا غلطی ہو جاتی ہے لیکن ان کی امارت نے انہیں درگزر کرنے نہ دیا
اور میں دوست سے اس بات پر لڑ پڑا کہ تم نے اپنی والدہ کو کم سے کم یہ تو کہنا تھا کہ اسے نہ ماریں
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور لوگوں پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین

صد حیف۔
ویسے فراز ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں پر ایسا ایسا تشدد ہوتا ہے کہ انسان سن کر کانپ جاتا ہے۔ شاید مقدس بہتر طور پر بتا سکیں گی۔

ہمارے یہاں تو صرف مار پیٹ اور جسمانی تشدد کو ہی ظلم سمجھا جاتا ہے۔ اس بات پر تو سوچا ہی نہیں جاتا کہ بچے کی شخصیت جذباتی ، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کس قدر توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔
 

باباجی

محفلین
صد حیف۔
ویسے فراز ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں پر ایسا ایسا تشدد ہوتا ہے کہ انسان سن کر کانپ جاتا ہے۔ شاید مقدس بہتر طور پر بتا سکیں گی۔

ہمارے یہاں تو صرف مار پیٹ اور جسمانی تشدد کو ہی ظلم سمجھا جاتا ہے۔ اس بات پر تو سوچا ہی نہیں جاتا کہ بچے کی شخصیت جذباتی ، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کس قدر توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ڈھکا چھپا تشدد کرتے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک
سلو پوائزن کی طرح جو کہ شخصیت کو مسخ کردیتا ہے
اور انتہا یہ ہوتی ہے کہ پھر ہم ایسی ہی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں ملک کے ایک اسکول میں ذہنی مریض نے فائرنگ کرکے اتنے بچوں کی جان لے لی
پھر اس ملک کا صدر ایک خطاب کرتا ہے اور روتا ہے
یہ نہیں کہ اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی
اور ایک اور بات آئی ذہن میں کہ کیوں کی جائے بھئی
دنیا کا باپ ملک ہے وہاں تو سب اچھا ہے
ایک بات کہوں گا کہ میں خود بہت گنہگار انسان ہوں اور حلفیہ ایک پڑھا لکھا جاہل ہوں
لیکن ایک بات کا پتا آہستہ آہستہ چل رہا ہے کہ سیدھی راہ سے بھٹک جانا ہی ایسے حالات و واقعات کا سبب ہے
جہاں پیسہ وہاں اخلاقیات نہیں ہے
جہاں اخلاقیات ہے وہاں لوگ توجہ نہیں دیتے
لہٰذا ضرورت توجہ دینے کی ہے محترمہ فرحت
آپ تو تدریس سے وابستہ ہیں تو میرے خیال میں والدین کی تھوڑی سی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ بگاڑ پیدا نہ ہو
اور توازن بنا رہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ڈھکا چھپا تشدد کرتے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک
سلو پوائزن کی طرح جو کہ شخصیت کو مسخ کردیتا ہے
اور انتہا یہ ہوتی ہے کہ پھر ہم ایسی ہی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں ملک کے ایک اسکول میں ذہنی مریض نے فائرنگ کرکے اتنے بچوں کی جان لے لی
پھر اس ملک کا صدر ایک خطاب کرتا ہے اور روتا ہے
یہ نہیں کہ اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی
اور ایک اور بات آئی ذہن میں کہ کیوں کی جائے بھئی
دنیا کا باپ ملک ہے وہاں تو سب اچھا ہے
ایک بات کہوں گا کہ میں خود بہت گنہگار انسان ہوں اور حلفیہ ایک پڑھا لکھا جاہل ہوں
لیکن ایک بات کا پتا آہستہ آہستہ چل رہا ہے کہ سیدھی راہ سے بھٹک جانا ہی ایسے حالات و واقعات کا سبب ہے
جہاں پیسہ وہاں اخلاقیات نہیں ہے
جہاں اخلاقیات ہے وہاں لوگ توجہ نہیں دیتے
لہٰذا ضرورت توجہ دینے کی ہے محترمہ فرحت
آپ تو تدریس سے وابستہ ہیں تو میرے خیال میں والدین کی تھوڑی سی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ بگاڑ پیدا نہ ہو
اور توازن بنا رہے

ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔ بگاڑ ہر جگہ پر ہے۔ تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ بنیادی وجہ 'تربیت' میں کمی ہے۔
ویسے جہاں پیسہ نہ ہو وہاں بھی کبھی کبھار اخلاقیات کا سبق بھول جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔
میں براہِ راست تو تدریس سے منسلک نہیں ہوں فراز لیکن بہرحال کوشش یہی ہوتی ہے کہ حسبِ استطاعت جہاں بھی جتنا بھی اپنا حصہ کسی بہتری میں ڈالا جا سکے ، ضرور ڈالوں۔ ذاتی طور پر بھی اور اپنی پیشہ ورانہ حیثیت میں بھی۔
باقی مجھے لگتا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ صرف والدین یا اساتذہ کی لاپرواہی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر طبقے کی لاپرواہی ہے۔ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بھی ہمیں بے حس بنانے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ جہاں جوابدہی اور جواب طلبی کی روایت نہ ہو وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کم از کم ایک قانون تو بنا بچوں پر تشدد کے خلاف۔ پہلا قدم اٹھے گا تو آگے بڑھیں گے نا۔
 
Top