آتش ہو اور معرکہ خیر و شر نہ ہو - اختر عثمان

صائمہ شاہ

محفلین
آتش ہو اور معرکہ خیر و شر نہ ہو
پروانگی عبث ہے جو رقص شرر نہ ہو

یہ کار عشق بھی ہے عجب کار نا تمام
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو

اک لمحہ کمال کہ صدیوں پہ پھیل جائے
اک لمحہ وصال مگر مختصر نہ ہو

اک دشتِ بے دلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خوابکہ تو ہو مگر نہ ہو

اک یادِ خوش جمال جواز حیات ہے
اک محور خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو

اک بات کی چڑھائی کہ دم ٹوٹنے لگیں
کہنے کا شوق ہو مگر اتنا ہنر نہ ہو

ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمر گذشتہ بسر نہ ہو

یوں خطِ ہجر کھینچیے اپنے اور اس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس ادھر سے ادھر نہ ہو

دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو

اک شام جس میں دل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو اس قدر نہ ہو

شام آئے اور گھر کے لیے دل مچل اٹھے
شام آئے اور دل کے لیے کوئی گھر نہ ہو
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے اور کیا اچھے شاعر ہیں اختر عثمان صاحب۔

شکریہ آپ کا پوسٹ کرنے کیلیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور یہ کہ میں نے عنوان، یہاں کی پالیسی کے مطابق مدون کر دیا ہے، امید ہے برا نہیں مانیں گی۔

والسلام
 

انتہا

محفلین
یہ کار عشق بھی ہے عجب کار نا تمام
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو
اک بات کی چڑھائی کہ دم ٹوٹنے لگیں
کہنے کا شوق ہو مگر اتنا ہنر نہ ہو
دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو

بہت ہی خوب صورت، اختر صاحب کو اور کلام بھی ہو تو ضرور شیئر کیجیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ کار عشق بھی ہے عجب کار نا تمام
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو

ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمر گذشتہ بسر نہ ہو

یوں خطِ ہجر کھینچیے اپنے اور اس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس ادھر سے ادھر نہ ہو

دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو

اک شام جس میں دل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو اس قدر نہ ہو

شام آئے اور گھر کے لیے دل مچل اٹھے
شام آئے اور دل کے لیے کوئی گھر نہ ہو

واہ واہ واہ

کیا خوبصورت غزل ہے کہ سراہنے کو الفاظ میسر نہیں۔
 
Top