آتش ہجر وہ رنگوں سے بجھا آیا ہے - جمیل الرحمٰن

ظفری

لائبریرین
آتش ہجر وہ رنگوں سے بجھا آیا ہے​
کینوس پر تری تصویر بنا آیا ہے​
موسمِ عشق ہی اب پھول کھلائے تو کھلے​
دل تو ہر شاخ پہ اک تتلی بٹھا آیا ہے​
اے وہ لڑکی جو کبھی گھر سے نکلتی ہی نہیں​
دیکھ در پر ترے اک آبلہ پا آیا ہے​
وقت کی میز سے وہ خواب اُٹھا لے کوئی​
وہ جسے بھول کے عجلت میں چلا آیا ہے​
چھوڑ آیا ہے سمندر کو دہائی دیتے​
پیاس کو اپنی وہ ساحل پہ بٹھا آیا ہے​
اپنی کٹیا میں کہیں اُس نے وہ دکھ بھوگا تھا​
جس کو بھولا ہے تو جنگل بھی گنوا آیا ہے​
اشک عیّار کی زنبیل میں کیا ہے یہ جمیل​
گریہء سرخ ہے یا خون بہا آیا ہے​
(جمیل الرحمن)​
 
Top