ابن سعید
خادم
صفحہ: 54-55
تحریر: سعود ابن سعید
---------------------------
کلب میں تم خواہ مخواہ مجھ سے خفا ہو گئے تھے اور میں نے جل کر تمہیں بد دعا دی تھی! اسے یاد رکھو کہ اگر تم نے میری محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو میری بد دعا اپنی جگہ پر اٹل رہے گی! میرے دل کو سمجھنے کی کوشش کرو! اپنے چہرے کی سیاہی پر نہ جاؤ۔۔۔۔ مجھے کالی چیز بہت پسند ہے! کالے جوتے سے لے کر سیاہ فام جوزف تک! اگر آج شام کو تم گرین پارک میں مجھ سے نہ ملے تو تمہیں اس سے بھی زیادہ بری بد دعائیں دوں گی!
مثلاً سانپ اور چھچھوندر والی بد دعا۔۔۔۔ مرغ اور گیدڑ والی بد دعا۔۔۔۔ دودھ اور شکر قند والی بد دعا۔۔۔۔ اس لئے آج ضرور ملو۔۔۔۔ ورنہ میں تمہاری قبر پر بھی دوپہر کی چیل کی طرح منڈلاتی رہوں گی! اور تمہاری ماں تمہاری سوکھی کھوپڑی میں پانی پئے گی۔!
فقط
“کلب والی بد روح”
“یہ بکواس ہے۔”
صفدر نے غصیلے لہجے میں کہا جسے اتفاق سے بہری لڑکی کے اس غلط انتخاب پر غصہ آ گیا تھا۔
“تم بڑے خوش قسمت ہو جوزف!” عمران نے شاہانہ انداز میں کہا “ہم خوش ہیں۔”
“میں مرا جا رہا ہوں!۔۔۔ باس۔”
“اگر نہیں جاتا تو یہ بد دعائیں۔۔۔۔ میرے مالک!” وہ خاموش ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگا! صفدر کو ہنسی آگئی۔ لیکن عمران نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
“کیوں تم جانے سے کیوں ڈر رہے ہو؟”
“اس نے لکھا ہے کہ میں تمہیں چاہتی ہوں!” جوزف نے اس طرح کانپتے ہوئے جواب دیا جیسے “چاہنا” بھی مار ڈالنے کی دھمکی ہو۔
“کاش وہ ہمیں چاہتی ہوتی جوزف!” عمران ٹھنڈی سانس لے کر دردناک آواز میں بولا۔
“تو پھر اس سے کہو باس کہ وہ تمہیں چاہنے لگے۔” جوزف نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
“اس سے ملو اور اسے اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ مجھے چاہنے لگے!” عمران نے کہا۔
“میں اکیلے تو ہرگز نہ جاؤں گا۔” جوزف گڑگڑایا۔
“نہ جاؤ گے تو تمہاری کھوپری میں گی گوڈا کے الو کی روح گھس جائے گی۔۔۔۔!”
“باس۔” جوزف اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر چیخا۔
“مگر میں کوئی بری روح نہیں ہوں! تم اچھی طرح جانتے ہو!” عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ “کانوں سے انگلیاں نکالو۔۔۔۔ ٹھیک۔۔۔۔ تمہیں آج اس سے ملنا پڑے گا! سمجھے۔۔۔۔! نہ ملے تو کل سے پانچ ہزار ڈنڈ اور پندرہ ہزار بیٹھکیں۔۔۔۔!”
---------------------------
تحریر: سعود ابن سعید
---------------------------
کلب میں تم خواہ مخواہ مجھ سے خفا ہو گئے تھے اور میں نے جل کر تمہیں بد دعا دی تھی! اسے یاد رکھو کہ اگر تم نے میری محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو میری بد دعا اپنی جگہ پر اٹل رہے گی! میرے دل کو سمجھنے کی کوشش کرو! اپنے چہرے کی سیاہی پر نہ جاؤ۔۔۔۔ مجھے کالی چیز بہت پسند ہے! کالے جوتے سے لے کر سیاہ فام جوزف تک! اگر آج شام کو تم گرین پارک میں مجھ سے نہ ملے تو تمہیں اس سے بھی زیادہ بری بد دعائیں دوں گی!
مثلاً سانپ اور چھچھوندر والی بد دعا۔۔۔۔ مرغ اور گیدڑ والی بد دعا۔۔۔۔ دودھ اور شکر قند والی بد دعا۔۔۔۔ اس لئے آج ضرور ملو۔۔۔۔ ورنہ میں تمہاری قبر پر بھی دوپہر کی چیل کی طرح منڈلاتی رہوں گی! اور تمہاری ماں تمہاری سوکھی کھوپڑی میں پانی پئے گی۔!
فقط
“کلب والی بد روح”
“یہ بکواس ہے۔”
صفدر نے غصیلے لہجے میں کہا جسے اتفاق سے بہری لڑکی کے اس غلط انتخاب پر غصہ آ گیا تھا۔
“تم بڑے خوش قسمت ہو جوزف!” عمران نے شاہانہ انداز میں کہا “ہم خوش ہیں۔”
“میں مرا جا رہا ہوں!۔۔۔ باس۔”
“اگر نہیں جاتا تو یہ بد دعائیں۔۔۔۔ میرے مالک!” وہ خاموش ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگا! صفدر کو ہنسی آگئی۔ لیکن عمران نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
“کیوں تم جانے سے کیوں ڈر رہے ہو؟”
“اس نے لکھا ہے کہ میں تمہیں چاہتی ہوں!” جوزف نے اس طرح کانپتے ہوئے جواب دیا جیسے “چاہنا” بھی مار ڈالنے کی دھمکی ہو۔
“کاش وہ ہمیں چاہتی ہوتی جوزف!” عمران ٹھنڈی سانس لے کر دردناک آواز میں بولا۔
“تو پھر اس سے کہو باس کہ وہ تمہیں چاہنے لگے۔” جوزف نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
“اس سے ملو اور اسے اس بات پر آمادہ کرو کہ وہ مجھے چاہنے لگے!” عمران نے کہا۔
“میں اکیلے تو ہرگز نہ جاؤں گا۔” جوزف گڑگڑایا۔
“نہ جاؤ گے تو تمہاری کھوپری میں گی گوڈا کے الو کی روح گھس جائے گی۔۔۔۔!”
“باس۔” جوزف اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر چیخا۔
“مگر میں کوئی بری روح نہیں ہوں! تم اچھی طرح جانتے ہو!” عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ “کانوں سے انگلیاں نکالو۔۔۔۔ ٹھیک۔۔۔۔ تمہیں آج اس سے ملنا پڑے گا! سمجھے۔۔۔۔! نہ ملے تو کل سے پانچ ہزار ڈنڈ اور پندرہ ہزار بیٹھکیں۔۔۔۔!”
---------------------------