آتش دان کا بت : صفحہ 104 - 111

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غیر ارادی طور پر جولیا کےہاتھ بھی اٹھ گئے۔

"تم نہیں ۔ ۔ ۔ تم اس کی داڑھی نوچ ڈالو۔" اُس نے کہا اور اس بار تو جولیا اس کی آواز سن کر چونک ہی پڑی کیونکہ یہ عمران کی آواز تھی ۔

جولیا کسی بھوکی شیرنی کی طرح داڑھی والے پر جھپٹ پڑی اور آن کی آن میں اس کی مصنوعی داڑھی کا صفایا کر دیا۔

"اخاہ ۔ ۔ ۔ کیپٹن واجد" عمران نے مضحکہ اڑانے والے انداز مین کہا۔ "بریوو ۔ ۔ ۔ ونڈر فُل ۔ ۔ ۔ جولی ڈارلنگ اس کی جیب سے ریوالور بھی نکال لو۔"

جولیا نے اس کی جیبیں ٹٹولیں لیکن ریوالور تھا ہی نہیں۔

"اب تم ہٹ جاو۔" عمران نے اپنا ریوالور جیب میں ڈالتے ہوئے کہا ۔ جولیا بڑی تیزی سے ہٹ گئی اور کیپٹن واجد تیر کی طرح عمران پر آیا۔

جولیا نے محسوس کیا کہ کیپٹن واجد بھی کمزور آدمی نہیں ہے۔ پہلے ریلے میں تو وہ عمران کو دیوار تک رگید لے گیا تھا لیکن پھر دیوار سے ٹک کر عمران نے سنبھالا لیا اور وہ دونوں ہی وحشی درندوں کی طرح لڑنے لگے ۔

جولیا کو پھر عمران پر تاو آ گیا کیونکہ یہ اس کی ایک قطعی غیر ضروری حرکت تھی آخر ریوالور جیب میں کیوں ڈال لیا تھا۔ اس سے اسے کور کیے ریتا اور وہ کہیں سے رسی تلاش کر لاتی ۔ ۔ ۔ اور کیپٹن واجد کے اتھ باندھ دیئے جاتے ۔

جد و جہد جاری رہی کبھی عمران اُسے رگید دیتا اور کبھی وہ عمران کو ۔ جولیا محسوس کر رہی تھی کہ واجد اس لڑائی کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے ہو سکتا ہے کہ اُسے وہاں اس وقت کسی اور کے پہنچنے کی توقع رہی ہو۔

اُسے یاد آیا کہ اُس کے ہینڈ بیگ میں پستول موجود ہے اُس نے وہاں میدان میں اُسے بیگ سے نکالنا چاہا تھا لیکن پھر موقع نہین ملا تھا اور وہ لوگ بھی کچھ اس طرح بوکھلائے ہوئے تھے کہ نہ تو انھوں نے اس سے ہینڈ بیگ چھینا تھا اور نہ ہی اس کی تلاشی لی تھی ۔

اُس نے پستول نکال لیا اور انہیں الگ ہو جانے کا حکم دینے ہی والی تھی کہ عمران کا ایک بھر پور گھونسہ کیپٹن واجد کی کنپٹی پر پڑ ہی گیا۔ ادھر وہ زمین پر گرا اور ادھر عمران اُسے چھاپ بیٹھا۔ کمرے میں گہری خاموشی مسلط ہو گئی۔






دوسرے دن وہ سب دانش منزل کے ساونڈ پروف کمرے میں اکٹھا تھے ان میں عمران بھی تھا اور ٹرانسمیٹر پر ایکس ٹو کی بھرائی ہوئی آواز آ رہی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے پہلے ہی بلیک زیرو کو پوری رپورٹ لکھ کر دے دی تھی اور وہ اس وقت ایکس ٹو کا رول کر رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا ۔

"ہاں تو یہ دونوں آدمی جن کے بھیس میں عمران اور صفدر دلکشا میں داخل ہوئے تھے ، عرصہ سے میری نظروں میں تھے ۔ جب میں نے دیکھا کہ ان کی مصروفیات کا مقصد یوں سمجھ مین نہ آئے گا تو میں نے انہیں پکڑوا لیا ۔ ان پر جبر کیا گیا تب انھوں نے بتایا کہ وہ ایک نا معلوم آدمی کے لیے ایک حیرت انگیز کام کر رہے ہین جس کی نوعیت خود ان کی سمجھ مین بھی نہیں آئی تھی ۔ انہیں بعض آدمیوں کا تعاقب کرنے کی ہدایت ملتی تھی۔ وہ ان کے بارے میں رپورٹ مہیا کر کے بہری رقاصہ تک پہنچاتے تھے ۔ بہری رقاصہ تک کیوں اسی گمنام آدمی تک پہنچاتے تھے طریقہ یہ تھا کہ وہ انہیں آتشدان تک لے جاتی تھی۔ بہری اس لیے بنی تھی کہ وہ ٹرانسمیٹر کے قریب چیخ کر بولیں اور ان کی کہی ہوئی باتیں دوسری طرف ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ ہو سکیں۔ دوسری طرف رسیونگ سیٹ سے ایک خود کار ٹیپ ریکارڈر منسلک تھا ۔ جیسے ہی ادحر سے کسی قسم کی آواز پہنچتی تھی وہ خودبخود چلنے لگتا تھا۔ اگر ٹیپ ریکارڈ کا مسئلہ نہ درپیش ہوتا تو وہ بہری نہ بنتی اور نہ انہیں چیخ کر ہی گفتگو کرنی پڑتی مگر کوئی ہر وقت تو ٹرانسمیٹر کے قریب نہین بیٹھا رہ سکتا اس لئے اس سے ایک ٹیپ ریکارڈ منسلک کر دیا گیا تھا تاکہ ادھر سے ہونے والی باتیں بعد مین بھی سُنی جاسکیں۔"

اور یہ انتظام بھی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ نا معلوم آدمی بذات٫ خود دونوں کی آوازیں سن سکے، غالبا اسے شبہ تھا کہ کہیں کبھی کوئی دوسرا نہ ان کے بھیس مین وہاں گھس آئے ۔ چونکہ پہلے عمران کو اس بت کی حقیقت نہیں معلوم تھی اس لئے وہ زیادہ محتاط نہیں تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نا معلوم آدمی اس کے متعلق شبہے میں مبتلا ہو گیا ۔ اس لئے عمران صاحب اتنی جلدی کامیاب بھی ہو گئے ورنہ کامیابی کے انتظار میں جگ بیت جاتے۔ شبہے کی بناء پر وہ سامنے آ گیا ۔ ہاں یہ بھی سنتے چلو کہ دلکشا کا وہ ساونڈ پروف کمرہ اسے کرایہ پر حاصل کرنے کے بعد ہی بنایا گیا تھا۔ اصل مالکوں کو اس کا علم تک نہین ہو سکا تھا اب تم لوگ ان سُرخ ٹائی والوں کے متعلق سوچ رہے ہو گے اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ کیپٹن واجد ہے کون؟"

ٹھہرو ، اب میں داستان کے اسی حصے کی طرف آ رہا تھا سرخ ٹائیوں والے ملٹری سیکرٹ سروس سے تعلق رکھتے تھے اُن کے سُپرد ایک کام کیا گیا تھا جو انہیں ایک غیر ملک میں انجام دینا تھا ۔ کیپٹن واجد نہیں بلکہ کوئی اور جس کا سراغ ابھی تک نہیں مل سکا ۔ ۔ ۔ اس سازش کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ فی الحال ایک ہی خاص آدمی ہاتھ لگا ہے اور وہ ہے کیپٹن واجد اور تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ کیپٹن واجد بھی خود ہماری ہی ملٹری سیکرٹ سروس کا ایک عہدہ دار ہے ۔ ہاں تو آج کل وہ ان سُرخ ٹائیوں والوں کے پیچھے تھا ۔ اس دن جہاز کی سیڑھیوں سے گر کر مرا تھا اس کی موت زہر سے واقع ہوئی تھی ۔ وہ ملک سے باہر جا رہا تھا اور اُسے ایک اہم کام انجام دینا تھا ۔ اس کے پاس فوجی نوعیت کے بہت ہی اہم کاغذات تھے جن کے راز کمانڈر انچیف یا سیکرٹ سروس کے چیف کے علاوہ اور کسی کو نہیں معلوم تھے۔ کیپٹن واجد نے ان کاغذات کو اُڑا لینا چاہا ، نتیجے مین اس بچارے کی لاش جہاز کی سیڑھیوں کے نیچے پڑی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے جاگیر دار نائٹ کلب میں بھی دھوکا کھایا تھا ، وہ سمجھا تھا کہ مرنے والے کا سوٹ کیس صحیح ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن وہ کیپٹن واجد کے آدمی تھے ، ملٹری آفیسر کے بھیس میں سرخ ٹائی والے سے سوٹ کیس ہتھیا لے گئے ، کاغذات اسی سوٹ کیس میں تھے ، کیپٹن واجد کے لیے کام کرنے والے کیپٹن واجد کو داڑھی ہی والے بہروپ میں پہچان سکتے تھے ۔ اگر کبھی وہ ان کے سامنے کیپٹن واجد کی حیثیت سے آتا تو وہ اُسے کسی عام راہ گیر سے زیادہ اہمیت نہ دیتے۔ اُس نے چالاکی کی کہ غداری کے کاموں کے لئے اپنے محکمے ہی سے کام کرنے والے منتخب نہیں کئے تھے۔ وہ سب باہر کے ہیں اور اسے مسٹر خان کے نام سے جانتے تھے ۔ اس کا طریقِ کار ایسا تھا کہ اس پر مشکل ہی سے ہاتھ ڈالا جا سکتا ، کبھی اس کی شخصیت منظرِ عام پر ہی نہ آتی ۔ ۔ ۔ اگر وہ بوکھلا نہ گیا ہوتا۔ اُس رات اُسے ٹیپ ریکارڈر پر کوئی پیغام نہ ملا تھا جب عمران نے بُت نما ٹرانسمیٹر کے تار کاٹ دیئے تھے۔ اسی چیز نے اسے دلکشا کی طرف رجوع کیا لیکن وہاں سے بہری رقاصہ بھی غائب ہوچکی تھی ۔ ۔ ۔ اُسے تشویش ہی نہیں ہوئی بلکہ وہ بوکھلا گیا ۔ ادھر بہری رقاصہ اس آدمی کا نام اور پتہ نہین بتانا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ کہذا عمران نے میری اسکیم کو عملی جامہ پہنایا پھر جو کچھ بھی ہوا ہے تم جانتے ہی ہو۔ میں پہلے ہی سے جانتا تھا کہ اس نا معلوم آدمی کو بہری رقاصہ کی تلاش ہو گی اس لئے اس سے بہتر موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا ۔ ۔ ۔ اُس کے آدمی جولیا کے پیچھے لگ گئے مگر محض میک اپ سے شخصیتیں تو نہیں بدل جایا کرتیں، چال ڈھال بدستور رہتی ہے۔ عادات پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہیں شبہ ہو گیا کہ وہ نقلی رقاصہ ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اُسے پکڑ لیں ۔ اس طرح وہ ان آدمیوں سے واقف ہو سکیں گے جو ان کے کاموں میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ عمران صاحب نے جب یہ دیکھا کہ اس کے گرد نگرانی کرنے والوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے تو انہوں نے ان کا اشتیاق بڑھانے کے لئے جولیا سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ ان لوگوں نے سوچا چلو ایک آدمی بھی نظروں میں آیا۔ پھر عمران صاحب میونسپل گارڈن کی گاڑی لے بھاگے جس کے صندوق میں لومڑی لاش بھی موجود تھی اور تمہیں یہ سُن کر شاید مُسرت ہو کہ انہوں نے اپنا تھوڑا سا وقت مردہ لومڑی کے ساتھ بھی گزارا ہے۔ جب فائرنگ ہو رہی تھی اس وقت یہ چیخ مار کر مر گئے اور وہ لوگ اتنے نروس اور بد حواس تھے کہ انہوں نے ان کی خبر لینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی تھی بس فرض کر لیا تھا کہ چیخ کا مطلب گولی لگنا ہے اور گولی لگنے کے بعد کون بچا ہے۔ اندھیرا تو پھیل ہی گیا تھا یہ حضرت چپ چاپ داخلِ صندوق ہوئے ان کا بیان ہے کہ لومڑی ملائم تو ہوتی ہے لیکن بدبو دار چیز ہے۔ خیر بس ۔ ۔ ۔ اوور اینڈ آل۔"

عمران آنکھیں نکال نکال کر ٹرانسمیٹر کو گھونسہ دکھا رہا تھا۔

"یہ دیکھو بھئی" عمران ہی عمران کے قصیدے ہوتے ہیں۔" تنویر جل کر بولا۔

"اے تم خود مر جاو ۔ ۔ ۔ تمہارا قصیدہ خود پڑھا جائے۔" عمران نے غصیلے لہجے مین کہا۔

"کیا بات ہوئی٫" صفدر بولا۔

"اب اتنا بھی گھامڑ نہیں ہوں کہ قصیدہ نہ سمجھوں۔ جو لوگ مر جاتے ہیں ان کا قصیدہ پڑھا جاتا ہے۔"

"ارے ۔ ۔ ۔ وہ مرثیہ ہے بڑے بھائی ۔ ۔ ۔" صفدر ہنس پڑا۔

"نہیں قصیدہ" عمران گردن ہلا کر بولا۔

"شرط لگائیے گا؟"

"ارے میں نے ان کے قصیدے بہت پڑھے ہیں، وہ کیا نام ہے ۔ ۔ ۔ کیا کہتے ہیں اُسے ۔ ۔ ۔ یعنی کہ بازار جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ کیا لینے ۔ ۔ ۔ ارے وہی مثلا اگر کچھ سامان لانا ہے بازار سے تو کیا کہیں گے کہ کیا لینے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ چُلف ۔ ۔ ۔ اوہا ۔ ۔ ۔ سُلف سُلف ۔ ۔ ۔ سودا سلف ۔ ۔ ۔ سودا ۔ ۔ ۔ صاحب ۔ ۔ ۔ کے مرثیے خوب پڑھے ہیں میں نے۔"

"مرثیے نہیں قصیدے ۔ ۔ ۔ " چوہاں نے کہا۔

"کیا جھگڑا ہے؟" جولیا نے پوچھا۔

"یہ لوگ کہہ رہے ہین کہ ایک لومڑی تمہارے ساتھ اور ایک لومڑی کیپٹن واجد کے ساتھ ۔ ۔ ۔" عمران نے مسمسی صورت بنا کر کہا ۔

"کون بدتمیز کہتا ہے؟" جولیا اکھڑ گئی۔

عمران نے تنویر کی طرف اشارہ کر دیا۔

"میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔" تنویر غرایا ۔

"ذرا توڑ کر دیکھو گردن۔" عمران نے جولیا کی طرف اشارہ کر کے انگریزی میں کہا۔ "بیٹھی تو ہے سامنے ، ہے ہمت ۔ ۔ ۔ اٹھو۔"

میں تمہین منہ لگانا پسند نہیں کرتی۔" جولیا نے تنویر سے کہا۔

"تمہاری بھی عقل خبط ہو گئی ہے۔" تنویر آنکھیں نکال کر بولا۔

"میں تمہاری آنکھیں نکال لوں گی۔" جولیا کھڑی ہو گئی ۔

"ارے نہیں جانے دو۔ ۔ ۔ " عمران بولا۔ "اگر تم نے اس کی آنکھیں نکال لیں تو اس کے گلے میں ہار مونیم ہو گا اور ہاتھ میرے کندھے پر۔ ۔ ۔ در در کی خاک چھاننا پڑے گی۔"

تنویر عمران کی طرف جھپٹا۔ ادھر جولیا نے پستول نکال لیا۔

"خُدا کی قسم اگر تم اس کے قریب بھی آئے تو گولی مار دوں گی۔" اُس نے کہا ۔

بات بڑھتے دیکھ کر خاور اور چوہاں تنویر کو باہر نکال لے گئے۔ عمران کسی ایسے مسکین بچے کی طرح کھڑا تھا جس کی ماں اس کے لئے پڑوسن سے لڑ پڑی ہو۔


تمام شُد






؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂


صفحہ 5




"یار عمران صاحب ۔ ۔ ۔ یہ کیا مصیبت ہے" صفدر بُرا سا منہ بنا کر بڑبڑایا ۔

"مصیبت نہیں ٹریننگ، میں تمہیں بتاوں گا کہ اونچی سے اونچی دیوار پر کیسے چڑھتے ہیں۔" عمران نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

"تو یہی عمارت کیوں ۔ ۔ ۔ ؟"

"فی الحال اسی سے کام چلاو۔" عمران نے مُربیانہ انداز میں کہا۔ اگلے سال اس قسم کی ٹریننگ کے لئے اپنی ذاتی عمارت بنوا لوں گا۔"

"میں کہتا ہوں اگر پکڑے گئے تو۔ ۔ ۔ "

"مار پڑے گے ۔ ۔ ۔ قدرتی بات ہے۔ ۔ ۔ " عمران کا جواب تھا۔

"مانا کہ ہم میک اپ میں ہیں مگر پکڑے جانے کی صورت میں میک اپ شاید ہی برقرار رہ سکے گا۔"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top