آتشدان کا بُت - صفحہ 14 تا 21

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 14 – 15

بھی مقصود تھا۔ اس کی یہی صورت ہو سکتی تھی کہ ایک کاروباری آفس قائم کر دیا جاتا۔ اس کاروبار کا مالک عمران تھا۔ اسی لئے فرم کا نام " ڈھمپ اینڈ کو" رکھا گیا تھا۔ مگر عمران یہاں شاذ و نادر ہی نظر آتا!۔ اور جو چیز اس وقت صفدر کو کھل رہی تھی۔ پچھلی رات وہ دلکشا لاج سے چلے آئے تھے۔ لیکن عمران نے اُسے وہاں پیش آنے والے واقعات کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا تھا! اور وہ بہری لڑکی تو بُری طرح صفدر کے ذہن پر چھا گئی تھی۔ دوسری طرف اسے دلکشا میں ایسی لڑکی کے وجود پر حیرت بھی تھی جو اس سے پہلے کبھی اس کی نظروں سے نہ گزری ہو! وہ ان تین " دلکش بیٹیز" میں سے ہرگز نہیں تھی جنہیں وہ بارہا مختلف تفریح گاہوں میں دیکھ چکا تھا۔ یہ بہری لڑکی تو ان سے بھی زیادہ حسین تھی! مگر عمران کا مینڈک، لڑکی کی چیخیں۔ اور پھر اس طرح خاموش ہو جانا جیسے کوئی بات ہی نہ رہی ہو۔ اور چلتے چلتے " چوہا " کہہ جانا۔ ایسی باتیں تھیں، جن پر وہ رات ہی سے مغز مار رہا تھا۔ لیکن ابھی تک کوئی مناسب جواب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ پھر وہ گفتگو جو اُن دونوں کے درمیان ہوئی تھی۔

"کیا سوچ رہے ہو!" اس نے جولیانا کی آواز سنی اور بے اختیار چونک پڑا۔

"کچھ بھی نہیں!"

وہ زبردستی مسکرایا۔

"کوئی کام نہیں ہے۔ کیا؟"

"نہیں۔ کام تو بہت ہے مگر۔!"

"خدا غارت کرے اس عمران کو۔!" جولیا نے دردناک لہجے میں کہا۔

"میری تو انگلیاں ٹوٹی جا رہی ہیں ٹائپ کرتے کرتے۔"

"تو عمران کو کیوں کوس رہی ہو۔"

"یہ اُسی کی جدت ہے! جب سے ایکسٹو نے اُسے الجھایا ہے۔ آئے دن طرح طرح کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں!"

"میرا خیال ہے کہ ایکس ٹو اس حد تک عمران کو اپنے معاملات میں دخیل نہیں ہونے دے گا۔" صفدر نے کہا۔

"لیکن میرا دعوےٰ ہے کہ عمران اس کے اعصاب پر بھی سوار ہو چکا ہے۔"

"ناممکن! عمران جیسے طفلِ مکتب ایکس ٹو کے تلوے چاٹتے ہیں۔"

"تم عمران کو کیا سمجھتے ہو!" جولیا جھلا گئی۔

"ڈفر۔۔۔!"

"اسی لئے تم سب اس کی انگلیوں پر ناچتے رہتے ہو۔"

صفدر جواب میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ جولیا اپنی میز کی طرف مڑ گئی۔ کیونکہ اس کے مخصوص فون کی گھنٹی بجی تھی۔ جس پر عموماً ایکس ٹو ہی کے پیغامات آیا کرتے تھے!

صفدر ایک رجسٹر کھول کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد جولیا پھر اس کی طرف پلٹ آئی۔

"تمہارے لئے ایکس ٹو کا پیغام آیا ہے۔" وہ دیوار سے لگے ہوئے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ " تین بج رہے ہیں۔"

تمہیں ٹھیک ساڑھے تین بجے ایئر پورٹ پہنچنا ہے! وہاں سے ایک آدمی جو سفید شارک اسکن کے سُوٹ اور سُرخ ٹائی میں ہو گا۔ چار بجے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 16 – 17

والے جہاز سے سوئیٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہو گا۔ تمہیں اسے الوداع کہنے والوں پر نظر رکھنی ہے۔ اُن کا تعاقب کرنا ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کہاں رہتے ہیں؟"

"اگر وہ کئی ہوئے اور ان کی راہیں مختلف ہوئیں تو!"

"ان میں سے کسی ایک کا تعاقب کرنا ہو گا۔"

"ابھی تو کافی دیر ہے! میں دس منٹ میں ایئر پورٹ پہنچ جاؤں گا۔"

صفدر نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ " ہاں تم نے اس کی پہچان کیا بتائی تھی۔"

"سفید شارک اسکن کو سوٹ اور سُرخ ٹائی۔"

صفدر کو یاد آیا۔ عمران نے پچھلی رات اس بہری لڑکی سے کسی ایسے لال ٹائی والے کا تذکرہ کیا تھا۔ جو آج اڑنے والا تھا۔ یہ کیا چکر تھا آخر؟ اور پھر کسی گیارہوں آدمی کے متعلق کہا تھا کہ وہ نہیں مل سکا۔!

صفدر تھوڑی دیر سوچتا رہا پھر اکتا کر اُٹھ گیا۔
*-*-*-*-*-*



سیاہ فام اور دیو پیکر نیگرو ۔۔۔۔ جوزف ۔۔۔ عمران کے قریب کھڑا انگریزی میں کہہ رہا تھا " یہ کام میرے بس سے باہر ہے، باس! میں کسی تھکے ہوئے گدھے کی طرح ہانپنے لگتا ہوں!"

یہ وہی جانور تھا جسے پالنے کے لئے عمران نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ ڈاکٹر طارق (ڈاکٹر طارق کی حیرت انگیز کہانی کے لئے عمران سیریز کا ناول "چالیس ایک باون" ملاحظہ فرمائیے۔) والا مقدمہ ابھی تک چل رہا تھا! جب بھی مقدمے کی تاریخ ہوتی عمران خود ہی اُسے ساتھ لے جاتا! اور خود جوزف بھی عمران ہی کے ساتھ جانا چاہتا تھا!

اُسے سنبھالنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ کسی روائیتی مسخر کردہ جن کی طرح ہر وقت احکامات طلب کرتا رہتا تھا۔ "کام بتاؤ باس۔ کام بتاؤ باس۔ میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا۔ ورنہ کسی بوڑھے سانپ کی طرح بیکار ہو کر رہ جاؤں با۔"

وہ صرف مشین تھا کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس میں نہیں تھی! جب بھی وہ عمران کو کام کے سلسلے میں بور کرتا، عمران ۔۔۔ انگشت نہیں بلکہ "گھونسہ بہ دنداں" رہ جاتا۔ آخر اُسے ایک تدبیر سوجھ ہی گئی اور اس نے اُسے ڈنڈ پیلنا اور بیٹھکیں لگانا سکھا دیا۔

اس کے بعد جب بھی وہ اس سے کام " طلب " کرتا تو عمران کہتا " ڈھائی سے ڈنڈ اور پانچ سو بیٹھکیں۔"

اس وقت جوزف اسی کام کے متعلق اُسے بتا رہا تھا کہ وہ اُس کے بس سے باہر ہے اور وہ کسی تھکے ہوئے گدھے کی طرح ہانپنے لگتا ہے۔

"اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کام نہیں ہے!" عمران نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔

"بہت کام ہے!" جوزف نے کہا! "یہ باورچی سلیمان ۔۔۔!"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 18 – 19

"ہاں! سلیمان کیا؟" عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا۔

"اُس کا چہرہ مرمت طلب ہے! اس کے ہونٹ اور موٹے ہونے چاہییں۔"

"اگر وہ ذرہ برابر بھی اور موٹے ہوتے تو تمہارے کھوپڑی ڈیڑھ ہزار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی۔"

"وہ مجھے پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں دیتا۔" جوزف نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔

"جب تک تم میرے لئے کام کرتے رہو گے! تمہارا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا۔۔۔!"

"ہاں۔۔۔ باس بہت زور سے بھوک لگتی ہے اس کامکے بعد مگر تمہیں اس کام سے کیا فائدہ ہوتا ہے!"

"بہت فائدہ ہوتا ہے! تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔ جاؤ پھر تین سو ڈنڈ اور چھ سو بیٹھکیں لگاؤ۔!"

جوزف کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سلیمان نے پرائیویٹ فون پر کال کی اطلاع دی۔ عمران اٹھ کر دوسرے کمرے میں آیا! گھنٹی اب بھی بج رہی تھی! اُس نے ریسیور اٹھا۔

"ہیلو۔۔۔!"

"اِٹ از جولیا سر!"

یس۔۔۔! عمران ایکسٹو کی مخصوص آواز میں بولا۔

"سُرخ ٹائی والا ختم ہو گیا جناب!"

"کیا مطلب۔!"

"وہ جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھتے وقت گرا اور مر گیا۔"

"کتنی بلندی سے۔"

"تیسری سیڑھی تھی! میرا خیال ہے کہ زمین سے زیادہ سے زیادہ ڈھائی فٹ اونچی رہی ہو گی۔"

"پھر کیا ہوا۔"

"جہاز کی پرواز ملتوی ہو گئی ہے۔"

"کیا وہ ایسا ہی آدمی تھا۔"

"اس کے متعلق صفدر نے کچھ نہیں معلوم کیا!"

"کوئی اسے الوداع کہنے بھی آیا تھا۔" عمران نے پوچھا۔

"جی ہاں! وہ بھی سُرخ ٹائی میں تھا۔!"

"پھر پہلے کی موت کا دوسرے پر کیا ردِ عمل ہوا تھا۔"

"سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اُس نے پہلے کے سامان پر قبضہ کر لیا تھا۔ پولیس کو اس کے متعلق کوئی بیان دیا ہو گا۔ کیونکہ اُسے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا ۔۔۔ اور سامان اس نے تیسرے آدمی کے سپرد کر دیا تھا۔ جو ائیرپورٹ کے باہر موجود تھا! ۔۔۔ صفدر نے بتایا ہے کہ اُس تیسرے آدمی کی ٹائی بھی سُرخ ہی تھی۔!"

"اُس نے تعاقب کس کا کیا تھا؟"

"تیسرے آدمی کا جو مرنے والے کا سُوٹ کیس لے گیا تھا!"

"ٹھیک ہے ۔۔۔ پتہ !"

"گیارہوں سڑک تیسری عمار!"

"صفدر سے کہو کہ وہ ۔۔۔ آج بھی عمران کا وہیں انتظار کرے جہاں وہ دونوں کل ملے تھے!"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 20 – 21

"بہت بہتر جناب ۔۔۔!" دوسری طرف سے آواز آئی اور عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا!

" وہ پھر نشست کے کمرے میں آیا! یہاں جوزف سلیمان کا راستہ روکے کھڑا تھا اور سلیمان بور ہو رہا تھا کیونکہ جوزف کی زبان اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی!

" میں اسے ابال کر کھا جاؤں گا باس!" جوزف آنکھیں نکال کر بولا۔

"بڑی مشکل سے گلے گا!" عمران نے مایوسانہ لہجے میں کہا اور سلیمان کو اندر جانے کا اشارہ کیا!

"یہ سالا۔ کالا مجھے پاگل کر دے گا!" سلیمان جھلا کر بولا " یا اسے رکھیئے یا مجھے!۔۔۔ یا پھر اسے منع کر دیجیئے کہ مخاطب نہ کیا کرے!"

"نہیں تم دونوں ہی رہو گے!" عمران نے سلیمان سے کہا پھر جوزف سے بولا۔ " تم نے ابھی کام نہیں شروع کیا!"

"کک ۔۔۔ کام ۔۔۔" نیگرو ہکلا کر رہ گیا!

"شروع ہو جاؤ۔"

"اچھا۔ " جوزف نے مردہ سی آواز میں کہا اور ہلکی سے کراہ کے ساتھ ڈنڈ پیلنے کے پوز میں آ گیا!
*-*-*-*-*-*-*




صفدر کیفے گرین میں داخل ہوا ۔۔۔ اُسے یہیں عمران کا انتظار کرنا تھا۔ پچھلی شام بھی وہ یہیں ملے تھے اور اس کے بعد عمران اسے دلکشا لاج میں لے گیا تھا۔

صفدر ایک خالی میز پر بیٹھ گیا! اُسے یقین تھا کہ آج بھی اُسے دلکشا ہی جانا ہو گا! پچھلی رات والی لڑکی بُری طرح اس کے ذہن پر چھا گئی تھی اور آج وہ سارا دن اسی کے متعلق سوچتا رہا تھا۔

وہ کتنی دلکش تھی! اس کی آنکھیں کیسی حسین تھیں!۔۔۔ اور آواز میں نہ جانے کیا چیز تھی۔۔۔ اُس آواز کے تصور ہی سے دل میں گدگدیاں سی ہونے لگتی تھیں!۔ وہ کون تھی؟ اور عمران کی اس حرکت کا کیا مقصد تھا۔ عمران نے اُسے کیسی اطلاعات بہم پہنچائی تھیں۔۔۔ وہ سُرخ ٹائی والا کون تھا جسے آج اس نے جہاز کی سیڑھیوں سے گر کر مرتے دیکھا تھا!۔۔۔ پھر دوسرا آدمی وہ بھی سُرخ ٹائی میں تھا ۔۔۔ تیسرا آدمی بھی سُرخ ٹائی ۔۔۔ میں۔۔۔۔

"گڈ ۔۔۔!" کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور وہ بیساختہ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top