آتا ہے یاد مجھ کو : نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
بچپن کے دن بھی کتنے سہانے ہوتے ہیں ، جب یاد آتے ہیں لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں اسکول کے دنوں کی ایک ایسی ہی یاد آج یکایک آگئی تو اس شدید گرمی میں بھی جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔
یادش بخیر ہمارے زمانے میں یکم اپریل کو سالانہ امتحان کا نتیجہ برآمد ہوا کرتا تھا۔ فیل ہونے والے بچے بھی پاس ہونے کی خبر سنا کر اپریل فول منا لیتے تھے۔ لیکن ہوا یوں کہ ابا رزلٹ کے دن خود سکول پہنچ گئے۔ انہیں بچوں کو تعلیم دلوانے اور بڑا آدمی بنانے کا بہت شوق تھا اورہم تینوں بھائی کھیل کود کے رسیا تھے، پڑھنے کی بجائے سارا دن گڈیاں اڑانے اور کینچے کھیلنے میں مگن رہتے ، شام کو اکثر فٹ بال کا میچ ہوتا ، جو ہماری شمولیت کے بغیر جیتنا تو درکنار کھیلا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
جب سے ابا جی کو سکول کے ماسٹر صاحب کے ذریعے خبر ملی کہ ہم تینوں بھائی اپنے جیسے دوستوں کے ہمراہ سکول جانے کی بجائے کھیل کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں، ابا جی صبح دفتر جاتے ہوئے ہمیں خود سکول چھوڑ کر جانے لگے۔ چند دن تو ہم نے اس پابندی کو قبول کیا پھرہمارے سیاسی ذہنوں نے سکول سے پھُٹنے کے طریقے ڈھونڈ لیے، جس دن ابا ہمیں اسمبلی سے پہلے سکول پہنچاتے تو ان کے جاتے ہی ہم کھلے گیٹ سے باہر کھڑے ریڑھی والوں سے کچھ لینے کے بہانے، سکول سے نکل جاتے اور اگراس وقت موقع نہ ملتا تو چپکے سے بریک میں باری باری سکول کی چھوٹی سی دیوار پھاند کر پُھٹ لیتے۔ اس سال پڑھائی سے تعلق واجبی سا تھا اس لیے فیل ہونا ہی بنتا تھا۔ رزلٹ کے دن پیٹ درد، سر درد اور بخار کا کوئی بہانہ کام نہ آیا اور ابا ہم تینوں کو ہانکتے ہوئے سکول جا پہنچے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پورا سال سکول جاتے رہے ہیں کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دیا ہوگا اور ہم تینوں کو اپنے کرتوتوں کا پتا تھا سو وہی ہوا۔ کانپنے ، ڈرنے اور الله سے پاس ہونے کی منتیں ، دعائیں کچھ کام نہ آئیں اور تینوں بھائی فیلوں میں فرسٹ آگئے۔ ابا کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہیں جوتی اتار کر پیٹنا شروع کر دیں لیکن بہت حوصلے سے ہمیں گھر لائے اور پھر ڈھول کی طرح خوب پیٹا۔ ہمارا باجا جتنی زور سے بجتا ابا کو اور جوش چڑھتا ، اماں اور دادی کے درد بھرے پکے راگ بھی اس محفل کی گرما گرمی اور ابا کے میوزیکل پروگرام کو روک نہ سکے۔
پھر ہمارے لیے ایک ظالم استاد ڈھونڈا گیا جس کی قید میں، مولا بخش سے جسم پر نقش ونگار بنانے کی کھلی آزادی تھی۔ پڑھنے کے لیے چھت کا انتخاب بھی شاید ہمسائے کے بچوں کی عبرت کے لیے تھا جو ہمیں مرغا بنے دیکھ کر راہ چلتے اذانیں دینے لگتے۔ استاد صاحب بھی انتہائی نستعلیق تھے۔
ایک دن کا ذکر ہے جیومیڑی کا کام کروانے کے لیے ماسٹر صاحب نے پیمانہ طلب کیا۔ بڑے بھیا کچھ دیر تو منہ اٹھائے ان کو ہونقوں کی طرح دیکھتے رہے پھر ساتھ بیٹھے منجھلے بھیا سے کہا: جاؤ نیچے سے پیمانہ لے کر آؤ! منجھلے بھیا نے فورا میری طرف منہ کیا اور کان میں بولے جاؤ نیچے سے پیپا لے کر آؤ۔ ہم جو ساری گفتگو سے بے خبر، مرغا بننے سے بچنے کے لیے اسلامیات کے سوالات رٹنے میں مصروف اس ساری گفتگو سے بے خبرتھے، حیرت سے کبھی بھیا کا منہ دیکھتے، کبھی استاد صاحب کا!
آخر یہ پیپے کا کیا کریں گے؟ یہی سوچ کر اٹھے اور دھڑ دھڑ کرتے سیڑھیاں اتر کر سامنے بنے باورچی خانے میں داخل ہوئے۔ ادھر ادھر دیکھا اور چاولوں والا پیپا(ڈرم) بمشکل پرات میں الٹایا، ہزار جتن کرتے ایک ایک سیڑھی چڑھتے اوپر پہنچے۔ اب حال یہ تھا کہ ہمارے ہاتھ میں پیپا اور ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں ڈنڈا، خود کو پیپے کی طرح بجنے سے بچانے کے لیے پیپا ہی آگے کرتے مگر کب تک آخر وہ دور جا گرا اور ہم سحری کے پیپے کی طرح خوب پیٹے گئے۔
پنجابی ہونے کی وجہ سے ہم معصوموں کو اردو کے عام استعمال ہونے والے الفاظ کا بھی علم نہیں تھا۔ گھر میں ماں بولی بولی جاتی ، یار دوست بھی سب پنجابی تھے اردو سے واسطہ سکول کے اساتذہ سے بات کرنے پر پڑتا یا پھر اردو کی کتابیں پڑھنے سے۔
ایک دن اردو کے ایک سبق میں بیت الخلاء کا ذکر آ گیا۔ ماسٹر صاحب نے یونہی بڑے بھیا سے پوچھ لیا: بیت الخلاء کسے کہتے ہیں؟ بھائی آئیں بائیں شائیں کرتے بولے، خلا میں جو گھر بنا ہوتا ہے اسے بیت الخلا کہتے ہیں۔ بس پھر ماسٹر صاحب نے انہیں راکٹ کی بجائے ڈنڈے کی مدد سے خلا میں پہنچانے کا کارنامہ سر انجام دیا مگر افسوس کسی سائنسدان کو اس کی خبر نہ ہو سکی۔
بہر حال ہم تینوں بھائی رٹے شٹے لگا کر اس سال پاس ہو ہی گئے اب الله جانے یہ استاد صاحب کے ڈنڈے کا اثر تھا کہ ہماری ہی قسمت کا ستارہ ان دنوں عروج پر تھا۔
ایک پڑھائی ہی تھی جس کے ہر معاملے میں ہم تینوں بھائیوں میں اتفاق تھا ورنہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلافِ رائے پر سرپھٹول کی نوبت آ جاتی۔ بڑے بھائی ابا کی بلیک میلنگ کے زیر اثر میٹرک میں خوب محنت کرکے پاس ہو گئے لیکن ہم دونوں نے تعلیم کے میدان میں نالائقی کے جھنڈے گاڑنے میں کسی دباؤ کو قبول نہ کیا۔ کچھ یہ بھی تھا کہ بڑے بھائی ہمیشہ ایسے خطرناک موقعوں پر ہماری پردہ پوشی کیا کرتے تھے۔
رزلٹ سے ایک ہفتہ پہلے انہیں خواب آنے لگتے۔ صبح اٹھتے ہی معصوم سا منہ بنا کر کہتے: ”رات میں نے بڑا ہی ڈراؤنا خواب دیکھا، چھوٹا بھیا امتحان میں فیل ہوگیا۔“
اماں غصے سے گھورتیں اور ابا ایک زور دار ہنکارا بھرتے لیکن دونوں کے ذہن اس حادثے کے لیے تیار ہوجاتے۔
دو دن بعد نیا شوشہ چھوڑتے: ”اماں آپ میرے فلاں دوست کو جانتی ہیں نا! اس کے چھوٹے بھائی نے فیل ہونے پر چھت سے چھلانگ لگا دی۔“
اماں دہل جاتیں اور ابا غصے سے کہتے: ”تیرا چھوٹا فیل ہوا تو میں نے خود اسے چھت سے دھکا دے دینا ہے۔“
رزلٹ کے دن چھوٹے بھیا چھت کے پھیرے لگاتے اور اماں انہیں نیچے آنے کو آوازیں لگاتیں ۔ یوں ابا کا دھکے دینے کا خواب ادھورا ہی رہ جاتا۔

بچپن کا تو نے ذکر جو چھیڑا ہے اے حبیب
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
 

ام اویس

محفلین
IMG-8253.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
بچپن کے دن بھی کتنے سہانے ہوتے ہیں ، جب یاد آتے ہیں لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں اسکول کے دنوں کی ایک ایسی ہی یاد آج یکایک آگئی تو اس شدید گرمی میں بھی جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔
یادش بخیر ہمارے زمانے میں یکم اپریل کو سالانہ امتحان کا نتیجہ برآمد ہوا کرتا تھا۔ فیل ہونے والے بچے بھی پاس ہونے کی خبر سنا کر اپریل فول منا لیتے تھے۔ لیکن ہوا یوں کہ ابا رزلٹ کے دن خود سکول پہنچ گئے۔ انہیں بچوں کو تعلیم دلوانے اور بڑا آدمی بنانے کا بہت شوق تھا اورہم تینوں بھائی کھیل کود کے رسیا تھے، پڑھنے کی بجائے سارا دن گڈیاں اڑانے اور کینچے کھیلنے میں مگن رہتے ، شام کو اکثر فٹ بال کا میچ ہوتا ، جو ہماری شمولیت کے بغیر جیتنا تو درکنار کھیلا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
جب سے ابا جی کو سکول کے ماسٹر صاحب کے ذریعے خبر ملی کہ ہم تینوں بھائی اپنے جیسے دوستوں کے ہمراہ سکول جانے کی بجائے کھیل کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں، ابا جی صبح دفتر جاتے ہوئے ہمیں خود سکول چھوڑ کر جانے لگے۔ چند دن تو ہم نے اس پابندی کو قبول کیا پھرہمارے سیاسی ذہنوں نے سکول سے پھُٹنے کے طریقے ڈھونڈ لیے، جس دن ابا ہمیں اسمبلی سے پہلے سکول پہنچاتے تو ان کے جاتے ہی ہم کھلے گیٹ سے باہر کھڑے ریڑھی والوں سے کچھ لینے کے بہانے، سکول سے نکل جاتے اور اگراس وقت موقع نہ ملتا تو چپکے سے بریک میں باری باری سکول کی چھوٹی سی دیوار پھاند کر پُھٹ لیتے۔ اس سال پڑھائی سے تعلق واجبی سا تھا اس لیے فیل ہونا ہی بنتا تھا۔ رزلٹ کے دن پیٹ درد، سر درد اور بخار کا کوئی بہانہ کام نہ آیا اور ابا ہم تینوں کو ہانکتے ہوئے سکول جا پہنچے۔
بہت عمدہ !!!
ام اویس بٹیا بہت مزے دار ۔پڑھتے پڑھتے بڑے دنوں بعد کسی تحریر پر باقائدہ مسکراہٹ آئی ۔۔
سلامت رہیے شاد و آباد رہیے اور ڈھیروں داد قبول کیجیے ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
بہت عمدہ !!!
ام اویس بٹیا بہت مزے دار ۔پڑھتے پڑھتے بڑے دنوں بعد کسی تحریر پر باقائدہ مسکراہٹ آئی ۔۔
سلامت رہیے شاد و آباد رہیے اور ڈھیروں داد قبول کیجیے ۔۔۔
سیما علی ❤️
ہیں ہیں !بٹیا رانی بس مسکراہٹ آئی یعنی ہنسی نہیں آئی ؟
واقعی
مزاح لکھنا بہت مشکل ہے سچ میں
شکریہ بہت ! بٹیا رانی
 
Top