آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۰

چنانچہ مرزا صاحب کی تعظیم کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور یہی مصرع کہہ کر بٹھایا، ابھی بیٹھے ہی تھے کہ مولوی صاحب کی رنڈی بھی دوسرے دالان سے اُٹھ کر پاس آن بیٹھی، مرزا نے فرمایا، ہاں صاحب وہ دوسرا مصرع بھی فرما دیجیئے۔

ع "بنبنشیں مادر بیٹھ ری مائی"​

لطیفہ : مرزا کی قاطع برہان کے بہت شخصوں نے جواب لکھے ہیں، اور بہت زبان درازیاں کی ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت آپ نے فلاں شخص کی کتاب کا جواب نہ لکھا، فرمایا بھائی اگر کوئی گدھا تمھارے لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟

لطیفہ : بہن بیمار تھیں، آپ عیادت کو گئے۔ پوچھا کیا حال ہے۔ وہ بولیں مرتی ہوں، قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لئے جاتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ بُوا! بھلا یہ کیا فکر ہے! خدا کے ہاں کیا مفتی صدر الدین خاں بیٹھے ہیں جو ڈگری کر کے پکڑوا بلائیں گے۔

لطیفہ : ایک دن مرزا کے شاگرد رشید نے آ کر کہا کہ حضرت آج میں خسرو کی قبر پر گیا، مزار پر کھرنی کا درخت ہے۔ اس کی کھرنیاں میں نے خوب کھائیں۔ کھرنیوں کا کھانا تھا ، کہ گویا فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا، دیکھئے تو میں کیسا فصیح ہو گیا۔ مرزا نے کہا کہ راے میاں تین کوس کیوں گئے، میرے پچھواڑے کے پیپل کی پیپلیاں کیوں نہ کھا لیں، چودہ طبق روشن ہو جاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۱

لطیفہ : بعض بعض (یہ لطیفہ کئی شاعروں کی طرف منسوب ہے) شاگردوں نے مرزا سے کہا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مدح میں بہت قصیدے اور بڑے بڑے زور کے قصیدے کہے، صحابہ میں سے کسی کی تعریف میں کچھ نہ کہا؟ مرزا نے ذرا تامل کر کے کہا کہ اُن میں کوئی ایسا دکھا دیجیے تو اس کی تعریف بھی کہدوں۔ مرزا صاحب کی شوخی طبع ہمیشہ اُنھیں اُس رنگ میں شور بور رکھتی تھی، جس سے ناواقف لوگ انھیں الحاد کی تہمت لگائیں اور چونکہ یہ رنگ ان کی شکل و شان پر عجب معلوم ہوتا تھا، اس لئے اُن کے دوست ایسی باتوں کو سُن کر چونکتے تھے، جوں جوں وہ چونکتے تھے وہ اور بھی زیادہ چھینٹے اُڑاتے تھے۔ ان کی طبیعت سرور شراب کی عادی تھی، لیکن اسے گناہ الہٰی سمجھتے تھے اور یہ بھی عہد تھا کہ محرم میں ہرگز نہ پیتے تھے۔

لطیفہ : غدر کے چند روز بعد پنڈت موتی لال کہ ان دنوں میں مترجم گورنمنٹ پنجاب کے تھے، صاحب چیف کمشنر پنجاب کے ساتھ دلی گئے۔ اور حُّب الوطن اور محبت فن کے سبب سے مرزا صاحب سے ملاقات کی۔ اُن دنوں میں پنشن بند تھی۔ دربار کی اجازت نہ تھی۔ مرزا بہ سبب دل شکستگی کے شکوہ شکایت سے لبریز ہو رہے تھے۔ اثنائے گفتگو میں کہنے لگے کہ عمر بھر ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور ایک دفعہ بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان نہیں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ مجھے سرکار نے باغی مسلمانوں میں کس طرح شامل سمجھا۔

لطیفہ : بھوپال سے ایک شخص دلی کی سیر کو آئے۔ مرزا صاحب کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۲

بھی مشتاق ملاقات تھے، چنانچہ ایک دن ملنے کو تشریف لائے۔ وضع سے معلوم ہوتا تھا کہ نہایت پرہیزگار اور پارسا شخص ہیں، اُن سے بہ کمال اخلاق پیش آئے مگر معمولی وقت تھا، بیٹھے سرور کر رہے تھے، گلاس اور شراب کا شیشہ آگے رکھا تھا، اُس بے چارہ کو خبر نہ تھی کہ آپ کو یہ شوق بھی ہے۔ انھوں نے کسی شربت کا شیشہ خیال کر کے ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ کوئی شخص پاس سے بولا کہ جناب یہ شراب ہے۔ بھوپالی صاحب نے جھٹ شیشہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا میں نے تو شربت کے دھوکے میں اُٹھایا تھا۔ مرزا نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ زہے نصیب دھوکے میں نجات ہو گئی۔

لطیفہ : ایک دفعہ رات کو انگنائی میں بیٹھے تھے، چاندنی رات تھی۔ تارے چھٹکے ہوئے تھے۔ آپ آسمان دیکھ کر فرمانے لگے کہ جو کام بے صلاح و مشورہ ہوتا ہے بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ خدا نے ستارے آسمان پر کسی سے مشورہ کر کے نہیں بنائے، جبھی بکھرے ہوئے ہیں، نہ کوئی سلسلہ نہ زنجیر نہ بیل نہ بوٹہ۔

لطیفہ : ایک مولوی صاحب جن کا مذہب سنت جماعت تھا۔ رمضان کے دنوں میںملاقات کو آئے۔ عصر کی نماز ہو چکی تھی، مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا، مولوی صاحب نے کہا، حضرت غضب کرتے ہیں۔ رمضان میں روزے نہیں رکھتے، مرزا نے کہا، سُنّی مسلمان ہوں چار گھڑی دن سے روزہ کھول لیا کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۳

لطیفہ : رمضان کا مہینہ تھا، آپ نواب حسین مرزا کے ہاں بیٹھے تھے، پان منگا کر کھایا، ایک صاحب (مرزا صفدر علی صاحب مرحوم مرزا عسکری مرحوم کے پوتے تھے جن کا امامباڑہ ابھی تک نٹوں کے کوچہ میں کھنڈر پڑا ہے؟) فرشہ سیرت نہایت متقی و پرہیز گار اس وقت حاضر تھے، انھوں نے متعجب ہو کر پوچھا کہ قبلہ آپ روزہ نہیں رکھتے، مسکرا کر بولے، شیطان غالب ہے۔

یہ لطیفہ اہل ظرافت میں پہلے سے بھی مشہور ہے کہ عالمگیر کا مزاج سرمد سے مکدر تھا، اس لئے ہمیشہ اس کا خیال رکھتے تھے، چنانچہ قاضی قوی جو اس عہد میں قاضی شہر تھا، اس نے ایک موقع پر سرمد کو بھنگ پیتے ہوئے جا پکڑا، اول بہت سے لطائف و ظرافت کے ساتھ جواب سوال ہوئے، آخر جب قاضی نے کہا کہ نہیں! شرع کا حکم اسی طرح ہے کیوں حکیم الہٰی کے برخلاف باتیں بناتا ہے، اس نے کہا کہ کیا کروں شیطان قوی ہے۔

لطیفہ : جاڑے کا موسم تھا۔ ایک دن نواب مصطفٰے خاں صاحب مرزا کے گھر آئے، آپ نے ان کے آگے شراب کا گلاس بھر کر رکھ دیا، وہ ان کا منھ دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا لیجئے، چونکہ وہ تائب ہو چکے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے تو توبہ کی، آپ متعجب ہو کر بولے کہ ہیں جاڑے میں بھی؟

لطیفہ : ایک صاحب نے اُن کے سنانے کو کہا کہ شراب پینا سخت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۴

گناہ ہے، آپ نے ہنس کر کہا بھلا جو پئے تو کیا ہوتا ہے، انھوں نے کہا کہ ادنیٰ بات یہ ہے کہ دعا نہیں قبول ہوتی۔ مرزا نے کہا کہ آپ جانتے ہیں شراب پیتا کون ہے؟ اول تو وہ کہ ایک بوتل اولڈ ٹام کی، باسامان سامنے حاضر ہو، دوسرے بے فکری، تیسرے صحت، آپ فرمائیے کہ جسے یہ سب کچھ حاصل ہو اُسے اور چاہیے کیا، جس کے لئے دعا کرے۔

مرزا صاحب کو مرنے سے ۲۰ برس پہلے اپنی تاریخ فوت کا ایک مادہ ہاتھ آیا، وہ بہت بھایا اور اُسے موزوں فرمایا۔

تاریخ فوت

منکہ ہاشم کہ جاوداں ہاشم
چوں نظیری نماند طالب مُرد

در بپر سند در کدا میں سال
مرد غالب، بگو کہ غالب مُرد​

اس حساب سے ۱۲۷۷ھ میں مرنا چاہیے تھا، اسی سال شہر میں سخت وبا آئی، ہزاروں آدمی مر گئے، ان دنوں دلی کی بربادی کا غم تازہ تھا، چنانچہ میر مہدی صاحب کے جواب میں آپ فرماتے ہیں، وبا کو کیا پوچھتے ہو، قدر انداز قضا کے ترکش میں یہی ایک تیر باقی تھا، قتل ایسا عام لوٹ ایسی سخت، کال ایسا پڑا، وبا کیوں نہ ہو۔ لسان الغیب نے دس (۱۰) برس پہلے فرمایا ہے۔

ہو چکیں غالؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
(اپنے تئیں لسان الغیب قرار دیا۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۵

میاں ! ۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی، مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا، واقعی اس میں میری کسر شان تھی، بعد رفع فساد سمجھ لیا جائے گا!

غزلیں​

شمار سجہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف برون صد دل پسند آیا

بہ فیض بیدلی نومیدیٰ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمار عقدہ مشکل پسند آیا

ہوائے سبز گل آئینہ بے مہری قاتل
کہ انداز بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دہر میں نقش وفا وجہ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ معنی نہ ہوا

سبزہ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگرمرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا

کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا

مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے ھریف دمِ عیسٰے نہ ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۶

جان کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھکو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیران ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمود صور پر وجود سحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہیں غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خراب میں ہنوز جو جاگےہیں خواب میں

غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگیِ بوتراب میں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر حلقہ میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب، اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۷

ترے وعدہ پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے تری تیر نیمکش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بُری بلا ہے
مجھے بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گِلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہے تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہے خبر گم اُن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رک گیا روا نہ ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۸

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل دلستاں روا نہ ہوا

کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گھر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو می مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

انکے دیکھے سے جو آ جاتی ہے مجھ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶۹

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

قطرہ دریا میں جو ملجائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے

خظر سلطان کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

منظور تھی یہ شکل تجلٰے کو نور کی
قسمت کُھلی ترے قد و رُخ کے ظہور کی

اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حُور کی

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اُٹھا
گویا ابھی سُنی نہیں آواز صُور کی

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُسنے شکایت ضرور کی

غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نوید امن ہے بیداد دوست جاں کیلئے
رہے نہ طرز ستم کوئی آسماں کیلئے

بلا سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگاں خونفشاں کیلئے

وہ مردہ ہم میں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کیلئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۰

رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک
بلائے ضان ہے ادا تیری اک جہاں کیلئے

فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کیلئے

سنال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کیلئے

گدا سمجھ وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کیلئے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کیلئے

دیا ہے خلق کو بھی تا اُسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کیلئے

زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کیلئے

نصیر دولت و دیں اور معیں ملت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کی آستاں کیلئے

زمانہ عہد میں اُس کی ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کیلئے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلئے

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۱

مِرزا سَلامَت علی دبیرؔ

خاندانی شاعر (تذکرہ سراپا سخن میں لکھا ہے کہ اُن کے والد مرزا آغا جان کاغذ فروش تھے، پھر ایک جگہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دبیر ولد غلام حسین متعلقان مرزا آغا جان کاغذ فروش سے ہیں مصنف موصوف کو شوق ہے کہ ہر شخص کے باب میں کچھ نہ کچھ نکتہ طنز نکال لیتے ہیں، اسی لئے خاندان کے باب میں نہ یقین ہے نہ شک۔) نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش الکمال پر پہونچا دیا، میر مظفر حسین صگیر کے شاگرد ہوئے اور جو کچھ اُستاد سے پایا اُسے بہت بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجہ تک پہونچا دیا جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھا، اور نیک نیتی سے اس کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی جو کہ اس فن کے لئے نہایت موزوں اور مناسب تھی، ان کی سلامت روی، پرہیز گاری، مسافر نوازی اور سخاوت نے صفتِ کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی۔

شاگردانِ الہٰی کی طبیعت بھی جذبہ الہٰی کا شوق رکھتی ہے۔ بچپن سے دل چونچال تھا، ابردائے مشق میں کسی لفظ پر اُستاد کی اصلاح پسند
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۲

نہ آئی۔ شیخ ناسخ زندہ تھے، مگر بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے پاس چلے گئے، وہ اس وقت گھر کے صحن میں مونڈھے بچھائے جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ انھوں نے عرض کی کہ حضرت! اس شعر میں میں نے تو یہ کہا ہے اور اُستاد نے یہ اصلاح دی ہے، انھوں نے فرمایا کہ اُستاد نے ٹھیک اصلاح دی ہے۔ انھوں نے پھر کہا کہ حضرت کتابوں میں تو اس طرح آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، جو تمھارے اُستاد نے بنایا ہے وہی درست ہے۔ انھوں نے پھر عرض کی کہ حضرت آپ کتاب کو ملاحظہ تو فرمائیں، شیخ صاحب نے جھنجھلا کر کہا ارے تو کتاب کو کیا جائے! ہمارے سامنے کتاب کا نام لیتا ہے! ہم کتابیں دیکھتے دیکھتے خود کتاب بن گئے ہیں۔ ایسے غصّے ہوئے کہ لکڑی سامنے رکھی تھی وہ لیکر اُٹھے، یہ بھاگے، انھیں بھی ایسا جوش تھا کہ دروازہ تک ان کا تعاقب کیا۔

لکھنؤ کے لڑانے اور چمکانے والے غضب تھے۔ آخر مرزا کا عالم شباب تھا اور کمال بھی عین شباب پر تھا کہ جوانی کا بڑھاپے سے معرکہ ہوا، نواب شرف الدولہ میر ضمیر کے بڑی قدردان تھے، اُن سے ہزاروں روپے کے سلوک کرتے تھے، ابتدا میں اُن کے سبب سے اور پھر مرزا کے جوہر کمال کے باعث سے اُن کی بھی قدردانی کرتے تھے۔ ان کی مجلس میں اول مرزا، بعد اُن کے میر ضمیر پڑھا کرتے تھے۔

ایک موقع پر مرزا نے ایک مرثیہ لکھا، جس کا مطلع ہے۔

ع "دستِ خدا کا قوتِ بازو حسین ہے"​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۳

میر ضمیرؔ کے سامنے جب اصلاح کے لئے پیش کیا تو انھیں اس کے نئےخیالات اور طرز بیان اور ترتیب مضامین پسند آئی۔ اسے توجہ سے بنایا اور اسی اثناء میں نواب کے ہاں ایک مجلس ہونے والی تھی۔ رشید شاگرد سے کہا کہ بھئی اس مرثیہ کو ہم اس مجلس میں پڑھیں گے۔ تعطیم کر کے تسلیم بجا لائے اور مرثیہ انھیں کو دے دیا۔

گھر میں آئے تو بعض احباب سے حال بیان کیا، مسودہ پاس تھا، وہ بھی سنایا، کچھ تو یاروں کا چمکانا، کچھ اس سبب سے کہ ذوق و شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں اور نواب کو خبر پہونچ گئی تھی۔ ادھر کے اشاروں میں انعام کی ہوا آئی، غرض انجام یہ ہوا کہ اُستاد مرثیہ صاف کر کے لے گئے کہ وہی پڑھیں گے۔

بموجب معمول کے اول مرزا صاحب منبر پر گئے اور وہی مرثیہ پڑھا۔ بڑی تعریفیں ہوئیں اور مرثیہ خوب سرسبز ہوا۔ اُستاد کہ ہمیشہ شاگرد کے پڑھنے پر باغ باغ ہوا کرتے تھے اور تعریفیں کر کے دل بڑھاتے تھے، اب خاموش بیٹھے ہیں، کچھ غصّہ، کچھ بیوفائی زمانہ کا خیال، کچھ اپنی محنتوں کا افسوس اور فکر یہ کہ اب میں پڑھوں گا، اور اس سے بڑھ کر کیا پڑھوں گا، جس میں اُستادی کا رتبہ بڑھے نہیں تو اپنے درجہ سے گرے بھی تو نہیں۔ غرض ان کے بعد یہ پڑھے اور کمال کی دستار صحیح و سلامت لے کر منبر سے اُترے، لیکن اس دن سے دل پھر گیا۔ یار لوگوں نے شاگرد کو نقطہ مقابل کر کے بجائے خود اُستاد بنایا، اور وہی صورت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۴

ہو گئی کہ ایک مجلس میں دونوں کا اجتماع موقوف ہو گیا، زمانے نے اپنے قاعدہ کے بموجب چند روز مقابلوں سے شاگرد کا دل بڑھایا اور آخر بڑھاپے کی سفارش سے اُستاد کو آرام کی اجازت دی، وہ اپنے حریف میر خلیق کے سامنے گوشہ عزلت کا مقابلہ کرنے لگے اور یہاں میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے معرکے گرم ہو گئے۔

دونوں کےکمال نے سخن شناسوں کے ہجوم کو دو حصوں میں بانٹ لیا۔ آدھے انیسئے ہو گئے، آدھے دبیریئے، ان کے کلام میں محاکمہ کرنے کا لطف جب ہے کہ ہر اُستاد کے ۴، ۴، ۵، ۵، سو مرثیے بجائے خود پڑھو اور پھر مجلسوں میں سُن کر دیکھو کہ ہر ایک کا کلام اہل مجلس پر کس قدر کامیاب یا ناکام رہا، بے اس کے مزہ نہیں، میں اس نکتہ پر میر انیسؔ صاحب صفائی، لطف زبان، چاشنی محاورہ، خوبی بندش، حسن اسلوب مناسبت مقام، طرز ادا اور سلسلہ کی ترتیب میں جواب نہیں رکھتے اور یہی رعایتیں ان کی کم گوئی کا سبب تھیں، مرزا دبیر صاحب شوکت الفاظ، مضامین کی آمد اس میں جابجا غم انگیز اشارے، درد خیز کنائے، المناک اور دل گداز انداز جو مرثیہ کی غرض اصلی ہے۔ ان وصفوں میں بادشاہ تھے۔ یہ اعتراض حریفوں کا درست ہے کہ بعض ضعیف روائتیں اور دل خراش مضامین ایسے نظم ہو گئے ہیں جو مناسب نہ تھے، لیکن انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب ایک مقصود کو مدنظر رکھ کر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۵

اس پر متوجہ ہوتا ہے تو اور پہلوؤں کا خیال بہت کم رہتا ہے، انھیں ایسی مجلسوں میں پڑھنا ہوتا تھا، جہاں ہزارہا آدمی دوست دشمن جمع ہوتا تھا، تعریف کی بنیاد گریہ و بکا اور لطف سخن اور ایجاد مضامین پر ہوتی تھی۔ کمال یہ تھا کہ سب کو رُلانا اور سب کے منھ سے تحسین کا نکالنا، اس شوق کے ضزبے اور فکر ایجاد کی محویت میں جو قلم سے نکالا جائے، تعجب نہیں نکتہ چینی ایک چھوٹی سی بات ہے، جہاں چاہا دو حرف لکھ دیئے، جب انسان تمام عمر اس میں کھپا دے، تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کہا اور کیسا کہا۔ ایجاد و اخترع کے لفظ پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ اصولِ فن سے متعلق ہے۔ اہل ذوق کے ملاحظہ کے لئے لکھتا ہوں۔

آتشی لطیفہ : مرزا دبیر کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جوانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لکھا، اس کا نمودار تمہید سے چہرہ باندھا، رزمیہ و بزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا، تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے، اس کی ہیبت ناک صورت بدمہورت آمد کی آن بان، اس کے اسلحہ جنگ ان کے خلاف قیاس مقاویر وزن سے طوفان باندھے، پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے، شہر میں شہرہ ہو گیا، ایک مجلس قرار پائی، اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی۔ روز معہود پرہجوم خاص و عام ہوا، طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں کہ خواجہ آتش باوجود پیری و آزاری کے تشریف لائے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۶

مرثیہ شروع ہوا، سب لوگ بموجب عادت کے تعریفوں کے غل مچاتے رہے، گریہ و بکا بھی خوب ہوا، خواجہ صاحب خاموش سر جھکائے دو زانو بیٹھے جھومتے رہے، مرزا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اُترے، جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ حضرت جو کچھ میں نے عرض کیا آپ نے سُنا، فرمایا، ہوں، بھئی سُنا، انھیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا، آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا، انھوں نے فرمایا بھئی سُنا تو سہی مگر میں سوچتا یہ ہوں کہ یہ مرثیہ تھا یا لندھورین (ملک لندھور کی خلاف عقل طاقتیں اور فوق العادت گاؤزوریاں، امیر حمزہ کے قصہ کی شان و شکوہ اس طرح بڑھاتی ہیں کہ رستم و اسفند یار شاہناموں کے صفحوں میں منھ چھپا لیتے ہیں۔) سعدان کی داستان تھی (واہ رے اُستاد کامل اتنے سے فقرہ میں عمر بھر کے لئے اصلاح دے گیا)۔

مرزا صاحب نے ۲۹ محرم ۱۲۹۲ھ کو ۷۲ برس کی عمر میں انتقال کیا۔ اس مدت میں کم سے کم ۳ ہزار مرثیہ لکھا ہو گا، سلاموں، نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں، ایک مرثیہ بے نقط لکھا ہے جس کا مطلع ہے۔ ع :

ہم طالعِ ہما مرا وہم رسا ہوا​

اس میں اپنا تخلص بجائے دبیر کے عطارد لکھا ہے، اور کچھ شک نہیں کہ اُن کے ساتھ ہندوستان میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا، نہ اب ویسا زمانہ آئے گا اور نہ ویسے صاحبِ کمال پیدا ہوں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۷

مِیر بَبَرعلی انیسؔ

لکھنؤ میں تعلیم و تربیت (مولوی حیدر علی صاحب منتہی الکلام انہی کے محلہ میں رہتے تھے اور پڑھایا کرتے تھے۔ میر انیسؔ مرحوم فرماتے تھے کہ ابتدائی کتابیں میں نے انھیں سے پڑھی تھیں۔) پائی اور ضروریاتِ فن سے آگاہی حاصل کی۔ اپنے خاندانی کمال میں باپ کے شاگرد تھے۔ اور جس طرح عمر میں دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، اسی طرح کمال میں بھی فائق تھے، ابتدا میں اُنھیں بھی غزل کا شوق تھا، ایک موقع پر کہیں مشاعرہ میں گئے اور غزل پڑھی، وہاں بڑی تعریف ہوئی۔ شفیق باپ خبر سُن کر دل میں باغ باغ ہوا، مگرہونہار فرزند سے پوچھا کہ کل رات کو کہاں گئے تھے؟ انھوں نے حال بیان کیا، غزل سنی، اور فرمایا کہ بھائی! اب اس غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں زور طبع کو صرف کرو جو دین و دنیا کا سرمایہ ہے، سعادت مند بیٹے نے اُسی دن سے اُدھر سے قطع نظر کی۔ غزل مذکور کی طرح میں سلام لکھا، دنیا کو چھوڑ کر دین کے دائرہ میں آ گئے اور تمام عمر اسی میں صرف کر دی۔نیک نیتی کی برکت نے اسی میں دین بھی دیا اور دنیا بھی۔ اس وقت تک یہ اور ان کے ہم عصر اپنے اُستادوں کی اطاعت کو اطاعت سمجھتے تھے، سلام، مرثیے، نوحے، رباعیاں کہتے تھے اور مرثیہ کی مقدار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۸

۳۵، ۴۰ اور ۵۰ بند تک تھی۔

زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔ میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لئے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے، جب دونوں نوجوان میدان مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فن مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔ بڑی بات یہ تھی کہ بادشاہ سے لے کر امراء اور غرباء تک شیعہ مذہب رکھتے تھے۔ نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدردان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدردانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے، ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں باکمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷۹

یہ دعوے بالکل درست تھے۔ کیونکہ مشاہدہ ان کی تصدیق کو ہر وقت حاضر رہتا تھا۔ دلیل کی حاجت نہ تھی، سکندر نامہ جس کی تعریف میں لوگوں کے لب خشک ہیں۔ اس میں چند میدان جنگ ہیں۔ رزم زنگبار، جنگ دارا، جنگ روس، جنگ فور، جنگ فغور، اسی طرح بزم کی چند تمہیدیں اور جشن میں شاہنامہ کے ۶۰ ہزار شعر فردوسی کی عمر بھر کی کمائی ہیں۔ انھوں نے ایجاد مضامین کے دریا بہا دیئے، ایک مقرری مضمون کو سیکڑوں نہیں ہزاروں رنگ سے ادا کیا۔ ہر مرثیہ کا چہرہ نیا، آمد نئی، رزم جدا، بزم جدا اور ہر میدان میں مضمون اچھوتا۔ تلوار نئی، نیزہ نیا، گھوڑا نیا، انداز نیا، مقابلہ نیا، اور اس پر کیا منحصر ہے، صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اللہ، رات کی رخصت، سیاہی کا پھٹنا، نور کا ظہور، آفتاب کا طلوع، مرغزار کی بہار، شام ہے تو شام غریباں کی اُداسی، کبھی رات کا سنّاٹا، کبھی تاروں کی چھاؤں کو چاندنی اور اور اندھیرے کے ساتھ رنگ رنگ سے دکھایا ہے، غرض جس حالت کو لیا ہے، اس سماں باندھ دیا ہے، آمد مضامین کی بھی انتہا نہ رہی، جن مرثیوں کے بند ۴۰، ۵۰ سے زیادہ نہ ہوتے تھے وہ ایک سو پچاس (۱۵۰) سے گزر کر دو سو (۲۰۰) سے بھی نکل گئے۔ میر صاحب مرحوم نے کم سے کم دس ہزار مرثیہ ضرور کہا ہو گا اور سلاموں کا کیا شمار ہے، رباعیاں تو باتیں تھیں۔

دونوں اُستادوں کے ساتھ طرفداروں کے دو (۲) جتھے ہو گئے، ایک انیسئے کہلاتے تھے، ایک دبیرئیے، اگرچہ ان کے فضول فقروں اور
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top