آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۲

اپنی صورت کا وہ دیوانہ نہ ہوتا تو کیوں
پاؤں میں سلسلہ گیسوئے پیچاں ہوتا

ایک دم یار کو بوسوں سے نہ ملتی فرصت
گر دہن دیدہ عالم سے نہ پنہاں ہوتا

کیسی پریاں؟ شہِ جنات کو بھی آٹھ پہر
ہے یہ حسرت کہ سگِ کوچہ جاناں ہوتا

خوں رُلاتا وہیں ناسور بنا کر گردوں
زخم بھی گر مرے تن پر کبھی خنداں ہوتا

اب اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا

کون ہے جو نہیں مرتا ہے تری قامت پر
کیوں نہ ہر سروِ چمن قالب بیجاں ہوتا

کیا قوی ہے یہ دلیل اس کی پریزادی کی
ربف انسان سے کرتا جو وہ انساں ہوتا

اے بتو! ہوتی اگر مہر و محبت تم میں
کوئی کافر بھی نہ واللہ مسلماں ہوتا

حسرتِ دل نہیں دیتا ہے نکلنے ناسخؔ
ہاتھ شل ہوتے میسّر جو گریباں ہوتا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا
جھونکا نسیم کا جو ہیں سَن سے نِکل گیا

لایا وہ ساتھ غیر کو میرے جنازہ پر
شعلہ سا ایک جیبِ کفن سے نکل گیا

ساقی بغیر شب جو پیا آب آتشیں
شعلہ وہ بن کے میرے دہن سے نکل گیا

اب کی بہار میں یہ ہوا جوش اے جنوں
سارا لہو ہمارے بدن سے نکل گیا

اس رشکِ گل کے جاتے ہی بس آ گئی خزاں
ہر گل بھی ساتھ بو کے چمن سے نکل گیا

اہلِ زمیں نے کیا سِتم نو کیا کوئ؟
نالہ جو آسمانِ کہن سے نکل گیا

سنسان مثل وادی غربت ہے لکھنؤ
شاید کہ ناسخؔ آج وطن سے نکل گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۳

کیا مگس بیٹھے بھلا اس شعلہ رُو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم

تیرے آگے کہتے ہیں گل کھولکر بازوئے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم

کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا
سر کو دے دے مار کر توڑینگے بتخانے کو ہم

جب غزالوں کی نظر آ جاتی ہیں چشم سیاہ
دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم

بوسہ خال زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں
کیا کریں گے اے طبیب اس تیرے بہلانے کو ہم

باندھتے ہیں اپنے دلمیں زلفِ جاناں کا خیال
اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم

پنجہ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار
دیکھتے ہیں کاکلِ جاناں میں جب شانے کو ہم

عقل کھو دی تھی جو اے ناسخؔ جنونِ عشق نے
آشنا سمجھا کئے اک عمر بیگانے کو ہم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چوٹ دل کو جو لگے آہِ رسا پیدا ہو
صدمہ شیشہ کو جو پہونچے تو صدا پیدا ہو

کشتہ تیغ جدائی ہوں یقیں ہے مجھ کو
عضو سے عضو قیامت بھی جدا پیدا ہو

ہم ہیں بیمارِ محبت یہ دُعا مانگتے ہیں
مثل اکسیر نہ دُنیا میں دوا پیدا ہو

کہہ رہا ہے جرسِ قلب بآوازِ بلند
گم ہو رہبر تو ابھی راہِ خدا پیدا ہو

کس کو پہنچا نہیں اے جان ترا فیضِ قدم
سنگ پر کیوں نہ نشانِ کفِ پا پیدا ہو

مل گیا خاک میں پس پس کے حسینوں پر میں
قبر پر بوئیں کوئی چیز حنا پیدا ہو

اشک تھم جائیں جو فرقت میں تو آہیں نکلیں
خشک ہو جائے جو پانی تو ہوا پیدا ہو

یاں کچھ اسباب کے ہم بندے ہی محتاج نہیں
نہ زباں ہو تو کہاں نامِ خدا پیدا ہو

گل تجھے دیکھ کے گلشن میں کہیں عمر دراز
شاخ کے بدلے وہیں دست دعا پیدا ہو

بوسہ مانگا جو دہن کا تو وہ کیا کہنے لگے
تو بھی مانند دہن اب کہیں نا پیدا ہو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۴

نہ سرِ زلف ہلاہل بے درازی تیری
رشتہ طول اہل کا بھی سرا پیدا ہو

کس طرح سچ ہے نہ خورشید کو رجعت ہو جائے
تجھ سا آفاق میں جب ماہِ لقا پیدا ہو

کیا مبارک ہے مرا دشتِ جنوں اے ناسخؔ
بیضہ بوم بھی ٹوٹے تو ہما پیدا ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو اس پری سے شبِ وصل میں رکاوت ہو
مجھے بھی ایک جنارہ ہو یا چھپر کھٹ ہو

محالِ خواب لحد سے ہے گرچہ بیداری
میں چونک اٹھوں اگر اسکے قدم کی آہٹ ہو

نہ میرے پاؤں ہوں زنجیر کے کبھی شاکی
جو اُسکے کاکلِ پیچاں کی ہاتھ میں لٹ ہو

کبود رنگ ہے مسّی کا تیرے ہونٹھ ہیں لال
ملیں جو دونوں تو پیدا نہ کیوں اُداہٹ ہو

مجال کیا کہ ترے گھر میں پاؤں میں رکھوں
یہ آرزو ہے مرا سر ہو تیری چوکھٹ ہو

ہجوم رکھتے ہیں جانبازیاں ترے آگے
جواریوں کا دوالی کو جیسے جمگھٹ ہو

لپٹ کے یار سے سوتا ہوں مانگتا ہوں دُعا
تمام عمر بسر یارب ایک کروٹ ہو

نسیم آہ کے جھوکے سے کھول دوں دم میں
بھڑا ہوا ترے دروازے کا اگر پٹ ہو

جلاؤ غیروں کو مجھ سے جو گرمیاں کرتے
تمہارے کوچے میں تیار ایک مرگھٹ ہو

نہ لگ چلوں میں یہی اپنے دلمیں ٹھانی ہے
تِری طرف سے ہزار اے پری لگاوٹ ہو

وہ منھ چھپاتے ہیں جبتک حجاب سے شبِ وصل
عذارِ صبح سے شب کا نہ دور گھونگھٹ ہو

تری بلائیں مری طرح وہ بھی لیتا ہے
نہ کیونکر آگ میں اسپند کی یہ چٹ پٹ ہو

میں جاں بلب ہوں گلا کاٹو یا گلے سے لگو
جو اس میں آپ کو منظور ہو سو جھٹ پٹ ہو

کرے وہ ذکرِ خدا اے صنم بھلا کس وقت
جسے کہ آٹھ پہر تیرے نام کی رٹ ہو

جو دل کو دیتے ہو ناسخؔ تو کچھ سمجھ کر دو
کہیں یہ مفت میں دیکھو نہ مال تلپٹ ہو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۵

خاک میں مل جائیے ایسا اکھاڑہ چاہیے
لڑکے کُشتی دیو ہستی کو پچھاڑا چاہیے

وہ سہی قد کر کے ورزش خوب زوروں پر چڑھا
کہہ رہا ہے سرو کو جڑ سے اکھاڑا چاہیے

کیوں نہ روئیں پھوٹ کر ہم قصر جاناں کے تلے
دیدہ تر اپنے دریا میں کڑاڑا چاہیے

اور تختوں کی ہماری قبر میں حاجت نہیں
خانہ محبوب کا کوئی کواڑا چاہیے
(دلّی والے کواڑ کہتے ہیں)

ہے شبِ مہتاب فرقت میں تقاضائے جنوں
چادرِ محبوب کو بھی آج پھاڑا چاہیے

انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں
ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے

کر چکی ہے تیری رفتار ایک عالم کو خراب
شہرِ خاموشاں کو بھی چل کر اُجاڑا چاہیے

منھ بنائے کیوں ہے قاتل پاس ہے تیغ نگاہ
باغ میں ہنستے ہیں گل تو منھ بگاڑا چاہیے

کوئی سیدھی بات صاحب کی نظر آتی نہیں
آپ کی پوشاک کو کپڑا بھی آڑا چاہیے

تنگ اس وحشت کدہ میں ہوں میں اے جوشِ جنوں
عرش کی سقف محّدب کو لتاڑا چاہیے

آنسوؤں سے ہجر میں برسات رکھیے سال بھر
ہم کو گرمی چاہیے ہرگز نہ جاڑا چاہیے

آج اس محبوب کے دل کو مسخّر کیجیے
عرشِ اعظم پر نشاں نالے کا گاڑا چاہیے

مر گیا ہوں حسرتِ نظارہ ابرو میں مَیں
عین کعبہ میں مرے لاشے کو گاڑا چاہیے

محتسب کو ہو گیا آسیب جو توڑا ہے خم
جوتیوں سے مے کشو جن آج جھاڑا چاہیے

جلد رنگ اے دیدہ خونبار اب تاز نِگاہ
ہے محّرم اس پری پیکر کو ناڑا چاہیے

لڑتے ہیں پریوں سے کشتی پہلوانِ عشق میں
ہم کو ناسخؔ راکپ اندر کا اکھاڑا چاہیے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۶

مِیر مستحسن ۔ خلیقؔ

میر حسن کے صاحبزادے، حُسنِ اخلاق اور اوصاف کی بزرگی میں بزرگوں کے فرزند رشید تھے، متانت، سلامت روی اور مسکینی ان کی سیادت کے لئے محضر شہادت دیتے تھے۔ فیض آباد اور لکھنؤ میں تعلیم و تربیت پائی تھی، 16 برس کی عمر مشقِ سخن شروع کی اور خلق حسن کی مناسبت سے خلیقؔ تخلص اختیار کیا۔ ابتدا میں غزلیں بہت کہتے تھے اور والد بزرگوار سے اصلاح لیتے تھے۔ جب شیخ مصحفیؔ لکھنؤ میں پہونچے تو میر حسنؔ ان دنوں بدر منیر لکھ رہے تھے، اور میر خلیق کی آمد کا یہ عالم کہ مارے غزلوں کے دم نہ لیتے تھے، شفیق باپ کو اپنے فکر سے فرصت نہ دیتے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے گئے اپنی کم فرصتی کا حال بیان کیا اور اصلاح کے لئے شیخ موصوف کے سپرد کر دیا، ہونہار جوان کی جوان طبیعت نے رنگ نکالا تھا کہ قدردانی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیشا پوری خاندان میں پندرہ روپیہ مہینے کا نوکر رکھوا دیا۔ انہی دنوں میں مرزا تقی ترقی (مرزا تقی ترقی خاندان مذکور میں ایک عالی ہمت امیر تھے اور سرکار اودھ میں جاگیردار تھے۔) نے چاہا کہ فیض آباد میں شعر و سخن کا چریا ہو۔ مشاعرہ قائم کیا اور خواجہ حیدر علی آتش کو لکھنؤ سے بلایا، تجویز یہ تھی کہ انھیں وہیں رکھیں۔ پہلے ہی جلسہ میں جو میر خلیقؔ نے غزل پڑھی۔ اُس کا مطلع تھا۔

رشکِ آئینہ ہے اس رشکِ قمر کا پہلو
صاف ادھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۷

آتش نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔

میر خلیقؔ نازک خیالیوں میں ذہن لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشہ پر پتھر مارا، عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سر پر گرا، جس نے آمد کے چشمے خاک ریز کر دیئے۔ مگر ہمّت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔ اکثر فیض آباد میں رہتے تھے، لکھنؤ آتے تھے تو پیر بخارا میں ٹھہرا کرتے تھے۔ پر گوئی کا یہ حال تھا کہ مثلاً ایک لڑکا آیا۔ اس نے کہا میر صاحب! آٹھوں کا میلہ ہے ہم جائیں گے ایک غزل کہہ دیجیے۔ اچھا بھئی کہہ دیں گے، میر صاحب! میلہ تو کل ہے، ہم کل جائیں گے ابھی کہہ دیجیے۔ اسی وقت غزل لکھ دی، اس نے کہا، یاد بھی کرا دیجیے۔ میر صاحب اسے یاد کروا رہے ہیں، اُن دنوں میں غزلیں بِکا کرتی تھیں۔ میاں مصحفیؔ تک اپنا کلام بیچتے تھے، یہ بھی غزلیں کہہ کر فروخت کرتے تھے۔

ایک دن ایک خریدار آیا اور اپنا تخلص ڈلوا کر شیخ ناسخؔ کے پاس پہونچا کہ اصلاح دے دیجیے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھ کر اس کی طرف دیکھا اور بگڑ کر کہا، ابے تیرا منھ ہے جو یہ غزل کہے گا، ہم زبان پہچانتے ہیں۔ یہ وہی پیر بخارا والا ہے۔

میر خلیقؔ صاحبِ دیوان تھے۔ مگر اُسے رواج نہیں دیا۔ نقد سخن اور سرمایہ مضامین جو بزرگوں ے ورثہ پہونچا تھا اُسے زاد آخرت میں صرف کیا اور ہمیشہ مرثیے کہتے رہے، اسی میں نام اور زمانہ کا کام چلتا رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۸

آپ ہی کہتے تھے اور آپ ہی مجلسوں میں پڑہتے تھے۔ قدر دان آنکھوں سے لگا لگا کر لے جاتے تھے۔

سید انشاء دریائے لطافت میں جہاں شرفائے دہلی کے رسوم و رواج بیان کرتے ہیں، وہاں کہتے ہیں کہ مرثیہ خوانی کے پیشہ کو لوگ کم نظر سے دیکھتے ہیں۔اور غور سے دیکھو تو اب بھی یہی حال ہے۔ مرثیہ گوئی کی یہ صورت رہی کہ سوداؔ اور میرؔ کے زمانے میں میاں سکندرؔ، میاں گداؔ، میاں مسکینؔ، افسردہؔ وغیرہ مرثیے کہتے تھے، تصنیفات مذکورہ کو دیکھو تو فقط تبرک ہیں، کیونکہ اِن بزرگوں کو نظم مذکور سے فقط گریہ و بکا اور حصولِ ثواب مقصود تھا، اور اس میں شک نہیں کہ وہ نیک نیت لوگ حُسنِ تاثیر سے اپنے مقصد میں کامیاب تھے، شاعری اور صنائع انشاء پردازی سے کچھ غرض نہ تھی۔ میر خلیقؔ اور اس عہد کے چند اشخاص تھے، جنھوں نے کدورت ہائے مذکورہ کو دھو کر مرثیوں کو ایسا چمکا دیا کہ جس نظر سے اساتذہ شعراء کے کلام دیکھے جاتے تھے، اسی نظر سے لوگ انھیں بھی دیکھنے لگے اور پہلے مرثیے سُوز میں پڑھے جاتے تھے۔ پھر تحت لفظ بھی پڑہنے لگے۔

مرثیہ گو اور مرثیہ خوانی کے میدان میں جو ہوا بدلی وہ میر خلیقؔ کے زمانہ سے بدلی۔ پہلے اکثر جو مصرع ہوتے تھے، ہر چار مصرعے کے بعد قافیہ وہ انداز موقوف ہوا، ایک سلام غزل کے انداز میں اور مرثیہ کے لئے مسّدس کا طریقہ آئین ہو گیا، وہ سوز اور تحت لفظ دونوں طرح سے پڑھا جاتا تھا، اور جو کچھ اَوّل مشتزاد کے اُصول پر کہتے تھے وہ نوحہ کہلاتا تھا،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۹

اُسے سوز ہی میں پڑہتے تھے اور یہی طریقہ اب تک جاری ہے، میرموصوف اور ان کے بعض ہم عہد سلام یا مرثیے وغیرہ کہتے تھے، ان میں مصائب اور ماجرائے شہادت ساتھ اس کے فضائل اور معجزات کی روائتیں اس سلاست اور سادگی اور صفائی کے ساتھ نظم کرتے تھے کہ واقعات کی صورت سامنے تصویر ہو جاتی تھی اور دل کا درد آنکھوں سے آنسو ہو کر ٹپک پڑتا۔

اس زمانہ میں میر ضمیر ایک مرثیہ گو اور مرثیہ خواں تھے کہ طبع شعر کے ساتھ عربی، فارسی وغیرہ علوم رسمی میں استعداد کامل رکھتے تھے، اور نہایت متقی و پرہیز گار شخص تھے، تعجب یہ ہے کہ ساتھ اس کے طبیعت میں شوخی اور ظرافت بھی اتنی رکھتے تھے گویا سوداؔ کی روح نے حلول کیا۔ انھوں نے بھی اپنی دنیا کو آخرت کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور غزل وغیرہ سے دست بردار ہو گئے تھے، لوگوں نے ان دونوں بزرگوں کو نقطہ مقابل کر کے تعریفیں شروع کر دیں۔ طبیعتیں ایک دوسرے کی چوٹ پر زور آزمائی کر کے نئے نئے ایجاد پیدا کرنے لگیں۔

مرثیہ اس وقت تک 30 سے 45 حد، 50 بند تک ہوتا تھا، میر ضمیر مرحوم نے ایک مرثیہ لکھا۔ مصرعہ : "کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے" اس میں شہزاد علی اکبر کی شہادت کا بیان ہے، پہلے ایک تمہید سے مرثیہ کا چہرہ باندھا پھر سراپا لکھا۔ پھر میدانِ جنگ کا نقشہ دکھایا اور بیان شہادت پر خاتمہ کر دیا چونکہ پہلا ایجاد تھا۔ اس لئے تعریف کی آوازیں دُور دُور تک پہنچیں، تمام شہر میں شہرہ ہو گیا، اور اطراف سے طلب میں فرمائشیں آئیں۔ یہ ایجاد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۰

مرثیہ گوئی کے عالم میں انقلاب تھا کہ پہلی روش متروک ہو گئی، باوجودیکہ انھوں نے مقطع میں کہہ دیا تھا۔

دس میں کہوں سو (۱۰۰) میں کہوں یہ درد ہے میرا
اس طرز میں جو کہوے سو شاگرد ہے میرا​

پھر بھی سب اس کی پیروی کرنے لگے، یہاں تک پہلے امانت نے پھر اور شاعروں نے واسوخت میں سراپا کو داخل کیا۔

عہد مذکور میں چار مرثیہ گو نامی تھے۔ میر ضمیر، میر خلیقؔ، میاں دلگیر (میاں دلگیر شیخ ناسخ کے شاگرد تھے، مرزا فصیح میاں دلگر سے اور شیخ ناسخ سے)، میاں فصیح، میاں دلگیر کی زبان میں لکنت تھی، اس لئے مرثیہ خوانی نہ کرتے تھے، تصنیف میں بھی انھوں نے مرثیت کے دائرہ سے قدم نہیں بڑھایا۔ مرزا فصیحؔ حج و زیارات کو گئے اور وہیں سکونت پذیر ہوئے۔ میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کے لئے میدان خالی رہا کہ جولانیاں دکھائیں دُنیا کے تماشائی جنہیں تیر طبیعتوں کے اڑانے میں مزا آتا ہے، دونوں اُستادوں کو تعریفیں کر کے لڑاتے تھے اور دل بہلاتے تھے اور اس سے اُن کے ذہن کو کمال کی ورزش اور اپنے دلوں کو چاشنی ذوق کی لذت دیتے تھے۔

اظہار کمال میں دونوں اُستادوں کی رفتار الگ الگ تھی۔ کیونکہ میر ضمیرؔ استعداد علمی اور زور طبع کے بازوؤں سے بہت بلند پرواز کرتے تھے اور پورے اترتے تھے۔ میر خلیقؔ مرثیت کے کوچہ سے اتفاقاً ہی قدم آگے بڑھاتے تھے، وہ مضمون آفرینی کی ہوس کم کرتے تھے اور ہمیشہ محاورہ اور لطف زبان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۱

کو خیالات درد انگیز کے ساتھ ترکیب دے کر مطلب حاصل کرتے تھے، اور یہ جوہر اس آئینہ کا کافی اور خاندانی وصف تھا، ان کا کلام بہ نسبت سبحان اللہ واہ واہ کے نالہ و آہ کا زیادہ طلبگار تھا، لڑنے والے ہر وقت اپنے کام میں مصروف تھے۔ مگر دونوں صاحب اخلاق اور سلامت روی کے قانون داں تھے، کبھی ایک جلسہ میں جمع نہ ہوتے تھے۔

آخر ایک شوقین نیک نیت نے روپیہ کے زور اور حکمت عملی کی مدد سے قانون کو توڑا، وہ بھی فقط ایک دفعہ، صورت یہ کہ نواب شرف الدولہ مرحوم نےھ اپنے مکان پر مجلس قرار دے کر سب خاص و عام کو اطلاع دی اور مجلس سے ایک دن پہلے میر ضمیرؔ مرحوم کے مکان پر گئے۔ گفتگوئے معمولی کے بعد پانچسو روپیہ کا توڑا سامنے رکھ دیا۔ اور کہا کہ "کل مجلس ہے مرثیہ آپ پڑھیے گا۔" بعد اس کے میر خلیقؔ کے ہاں گئے، اُن سے بھی وہی مضمون ادا کیا اور ایک دوسرے کے حال سے آگاہ نہ کیا۔ لکھنؤ شہر میں روز معین پر ہزاروں آدمی جمع ہوئے، ایک بچے کے بعد میر ضمیر منبر پر تشریف لے گئے اور مرثیہ پڑھنا شروع کیا، ان کا پڑھنا سبحان اللہ، مرثیہ نظم اور اس پر نثر کے چاشیے، کبھی رُلاتے تھے اور کبھی تحسین و آفرین کا غل مچواتے تھے کہ میر خلیقؔ بھی پہونچے اور حالت موجودہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور دل میں کہا کہ آج کی شرم بھی خدا کے ہاتھ ہے۔ میر ضمیرؔ نے جب انھیں دیکھا تو زیادہ پھیلے اور مرثیہ کو اتنا طول دیا کہ آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر تحسین بلکہ وقت میں گنجائش بھی نہ چھوڑی، آفتاب یوں ہی سا جھلکتا رہ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۲

وہ ابھی منبر سے اُترے ہی تھے کہ چوبدار ان کے پاس آیا اور کہا کہ نواب صاحب فرماتے ہیں، آپ بھی حاضرین کو داخل حسنات فرمائیں۔ اس وقت ان کے طرفداروں کی بالکل صلاح نہ تھی۔ مگر یہ توکّل بخدا کھڑے ہوئے اور منبر پر جا کر بیٹھے، چند ساعت توقف کیا۔ آنکھیں بند کئے خاموش بیٹھے رہے، ان کی گوری رنگت، جسم نحیف و ناتواں نہیں معلوم ہوتا تھا کہ بدن میں لہو کی بوند ہے یا نہیں۔ جب انھوں نے رباعی پڑھی تو اہل مجلس کو پوری آواز بھی نہیں سنائی دی۔ مرثیے کے چند بند بھی اس حالت میں گزر گئے۔ دفعتہً باکمال نے رنگ بدلا اور اس کے ساتھ ہی محفل کا بھی رنگ بدلا، آہوں کا دھواں ابر کی طرح چھا گیا اور نالہ و زاری نے آنسو برسانے شروع کئے۔ 15، 20 بند پڑھے تھے کہ ایک کو دوسرے کا ہوش نہ رہا، 25 یا 40 بند پڑھ کر اُتر آئے۔ اہل مجلس اکثر ایسی حالت میں تھے کہ جب آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو منبر خالی تھا۔ نہ معلوم ہوا کہ میر خلیقؔ صاحب کس وقت منبر سے اُتر آئے۔ دونوں کے کمال پر صاد ہوا اور طرفین کے طرفدار سرخرو گھروں کو پھرے۔

روایت مندرجہ بالا میر مہدی حسن فراغؔ کی زبانی سنی تھی لیکن میر علی حسنؔ اشکؔ تخلص کہ میر عماد خوشنویس کی اولاد میں ہیں، خود ناسخؔ کے شاگرد اور صاحب دیوان ہیں۔ ان کے والد جنتیؔ تخلص فقط مرثیہ کہتے تھے اور میاں دلگیرؔ کے شاگرد تھے۔ میر اشک اب بھی حیدر آباد میں بزمرہ منصب داران ملازم ہیں، ان کی زبانی مولوی شریف حسین خاں صاحب نے بیان کیا کہ لکھنؤ میں ایک غریب خوش اعتقاد شخص بڑے شوق سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۳

مجلس کیا کرتا تھا اور اسی ریایت سے ہر ایک نامی مرثیہ خواں اور لکھنؤ کے خاص و عام اس کے ہاں حاضر ہوتے تھے۔ یہ معرکہ اس کے مکان پر ہوا تھا، اور میر ضمیرؔ کے اشارے سے ہوا تھا۔ میر اشک فرماتے تھے کہ میر خلیق نے اپنے والد کے بعد چند روز بہت سختی سے زندگی بسر کی۔ عیال فیض آباد میں تھے، آصف الّدولہ لکھنؤ میں ان کے سبب سے تمام اُمراء یہیں رہنے لگے۔ میر موصوف لکھنؤ میں آتے تھے، سال بھر میں تین چار سو روپے حاصل کر کے لیجاتے تھے اور پرورش عیال میں صرف کرتے تھے، صورت حال یہ تھی کہ مرثیوں کا جزدان بغل میں لے لیا اور لکھنؤ چلے آئے، یہاں ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت خالی پڑی رہتی تھی۔ اس میں آ کر اترتے تھے۔ ایک دفعہ وہ آئے، بستر رکھ کر آگ سلگائی تھی، آٹا گوندھ رہے تھے کہ شخص مذکور ہاتھ جوڑ کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ اور کہا کہ حضور! مجلس تیار ہے۔ میری خوش نصیبی سے آپکا تشریف لانا ہوا ہے چلکر مرثیہ پڑھ دیجیے۔ یہ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ دھو جزدان لے اس کے ساتھ ہو لئے، وہاں جا کر دیکھا تو میر ضمیرؔ ،منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہیں یہ واقع ہوا اور اسی دن سے میر خلیقؔ نے مرثیہ خوانی میں شہرت پائی۔

میر خلیقؔ کے کلام کا اندازہ اور خوبی محاورہ اور لطف زبان یہی سمجھ لو جو آج میر انیسؔ کے مرثیوں میں دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ ان کے ہاں مرثیت اور صورت حال کا بیان درد انگیز تھا۔ ان کے مرثیوں میں تمہیدیں اور سامان اور سخن پردازی بہت بڑھی ہوئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۴

اُن کے ادائے کلام اور پڑھنے کی خوبی دیکھنے اور سننے کے قابل تھی۔ اعضا کی حرکت سے بالکل کام نہ لیتے تھے۔ فقط نشست کا انداز اور آنکھ کی گردش تھی۔ اسی میں سب کچھ ختم کر دیتے تھے، میر انیسؔ مرحوم کو بھی میں نے پڑھتے ہوئے دیکھا کہیں اتفاقاً ہی ہاتھ اُٹھ جاتا تھا، یا گردن کی ایک جنبش یا آنکھ کی گردش تھی کہ کام کر جاتی تھی، ورنہ کلام ہی سارےمطالب کے حق پورے پورے ادا کر دیتا تھا۔

میر خلیقؔ نے اپنے بڑھاپے کے سبب سے، اخیر عمر میں مرثیہ پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ شعراء شاگردان الہی ہیں، ان کی طبیعت میں غیر اور جوش اوروں سے بہت زیادہ بلند ہوتا ہے، میر انیسؔ کی مرثیہ خوانی مشرق سے طلوع ہونے لگی تھی، جب کوئی آ کر تعریف کرتا کہ آج فلاں مجلس میں کیا خوب پڑھے ہیں، یا فلاں نواب کے ہاں تمام مجلس کو لٹا دیا، تو انھیں خوش نہ آتا تھا، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اسی عالم ناتوانی میں منبر پر جا بیٹھے، اور مرثیہ پڑھا، اس سے مطلب یہ تھا کہ اس گئی گزری حالت میں بھی ہمیں درماندہ نہ سمجھنا۔

میر خلیق صاحب نے پیرانہ سالی کی تکلیف اُٹھا کر دُنیا سے انتقال کیا۔ میں ان دنوں خورد سال تھا۔ مگر اچھی طرح یاد ہے، جب ان کا کلام دلّی میں پہنچا وہ سالِ اخیر کی تصنیف تھا۔

مجرائی طبع کند ہے، لطفِ بیاں گیا
دنداں گئے کہ جوہرِ تیغ زباں گیا​

ایک دو شعر ضعف پیری کی شکایت میں اور بھی تھے اور مقطع تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۵

گزری بہار عمر خلیقؔ اب کہیں گے سب
باغ جہاں سے بلبلِ ہندوستاں گیا​

اخیر عمر میں ضعف کے سبب سے مرثیہ نہ پڑھتے تھے، لیکن قدرتی شاعر کی زبان کب بند رہتی ہے، بی بی کے مرنے سے گھر کا دروازہ بند کر دیا تھا، تین صاحبزادے تھے، انیسؔ، مونسؔ، اُنس، میر خلیق ہمیشہ دورہ میں رہتے تنھے۔ دس دس، پندرہ پندرہ دن ہر ایک کے ہاں بسر کر دیتے تھے کہیں جاتے آتے بھی نہ تھے۔ پلنگ پر بیٹھے رہتے تھے اور لکھے جاتے تھے، کوئی شگفتہ زمین خیال میں آئی، اس میں سلام کہنے لگے، دل لگ گیا تو پورا کیا، نہیں تو چند شعر کہے اور چھوڑ دیئے، کوئی تمہید سو بھی، مرثیہ کا چہرہ باندھا، جتنا ہوا اُتناہوا، جو رہ گیا، کوئی روایت نظم کرنی شروع کر دی۔ گھوڑے کا مضمون خیال میں آیا وہی کہتے چلے گئے، کبھی طبیعت لڑ گئی تلوار کی تعریف کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ، یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو کچھ جس کے گھرمیں کہتے تھے وہ اسی کے گھر چھوڑ کر پہلے آتے تھے، یہ سرمایہ میر انیسؔ کے پاس سب سے زیادہ رہا کہ ان کے گھر میں زیادہ رہتے تھے کیونکہ ان کی بی بی کھانوں اور آرام و آسائش کے سامانوں سے اپنے ضعیف العمر بزرگ کو بہت اچھی طرح رکھتی تھیں۔

ان کی بلکہ ان کے گھرانے کی زبان محاورہ کے لحاظ سے سب کے نزدیک سندھی تھی، شیخ ناسخؔ کی منصفی اور حق پرستی پر رحمت و آفریں کے سہرے چڑھائیے، اپنے شاگردوں کو کہا کرتے تھے کہ بھئی زبان سیکھنی ہے تو میر خلیقؔ کے ہاں جایا کرو، اور اس کے علاوہ بھی اُن کے کمال کو فروغ دیتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۶

رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تینوں بیٹے ہونہار ہیں۔ دیکھنا خوب ہوں گے، میر خلیقؔ محاورے کے اس قدر پابند تھے کہ ان کے محضر کمال پر بجائے مُہر کے بعض لوگوں نے کم علمی کا داغ لگایا۔ انھوں نے شہزادہ علی اصغر کے حال میں ایک جگہ لکھا کہ عالم بے آبی میں پیاس کی شدّت سے غش آ گیا، آنکھ کھولی تو مادر مقدسہ نے، مصرعہ "لیلاف پڑھی اور اسے دودھ پلایا" حریف آٹھ پہر تاک میں تھے، کسی نے یہ مصرع ناسخؔ کے سامنے جا کر پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، یوں کہا ہو گا۔ مصرعہ "پڑھ پڑھ کے لایلاف اُسے دودھ پلایا۔"

میر انیسؔ فرماتے تھے کہ والد میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ میں ایک مرثیہ میں وہ روایت نظم کر رہا تھا کہ جناب امام حسین علیہ السلام عالمِ طفولیت میں سواری کے لئے ضد کر رہے تھے، جناب آنحضرت تشریف لائے اور فرطِ شفقت سے خود جھک گئے کہ آؤ سوار ہو جاؤ۔ تاکہ پیارے نواسے کا دل آزردہ نہ ہو، اس موقع پر ٹیپ کا دوسرا مصرعہ کہہ لیا تھا۔ اچھا سوار ہو جیئے ہم اونٹ بنتے ہیں۔ پہلے مصرعہ کے لئے اُلٹ پلٹ کرتا تھا، جیسا کہ دل چاہتا تھا ویسا برجستہ نہ بیٹھتا تھا، والد نے مجھے غور میں غرق دیکھ کر پوچھا، کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے مضمون بیان کیا اور مصرعے جو خیال میں آئے تھے پڑھے، فرمایا یہ مصرع لگا دو (ذرا زبان کی لطافت تو دیکھو)۔

جب آپ روٹھتے ہیں تو مشکل سے منتے ہیں
اچھا سوار ہو جئے ہم اُونٹ بنتے ہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۷

افسوس کہ ان کی کوئی پوری غزل ہاتھ نہ آئی، دو شعر یاد ہیں وہی لکھ دیتا ہوں۔

اشک جو چشم خوں فشاں سے گرا
تھا ستارہ کہ آسماں سے گرا

ہنس دیا یار نے جو رات خلیقؔ
کھا کے ٹھوکر اس آستاں سے گرا
*******************************************

خواجہ حیدر علی آتشؔ

آتشؔ تخلص، خواجہ حیدر علی نام، باپ دلّی کے رہنے والے تھے۔ لکھنؤ میں جا کر سکونت اختیار کی، خواجہ زادوں کا خاندان تھا، جس میں مسند فقیری بھی قائم تھی اور سلسلہ پیری مریدی کا بھی تھا۔ مگر شاعری اختیار کی اور خاندانی طریقہ کو سلام کر کے اس میں فقط آزادی و بے پراوئی کو رفاقت میں لیا۔ مصحفیؔ کے شاگرد تھے اور حق یہ ہے کہ ان کی آتش بیانی نے استاد کے نام کو روشن کیا۔ بلکہ کلام کی گرمی اور چمک کی دمک نے اُستاد شاگرد کے کلام میں اندھیرے اُجالے کا امتیاز دکھایا۔

خواجہ صاحب کی ا بتدائی عمر تھی اور استعداد علمی تکمیل کو نہ پہونچی تھی کہ طبیعت مشاعروں میں کمال دکھانے لگی۔ اس وقت دوستوں کی تاکید سےدرسی کتابیں دیکھیں، باوجود اس کے عربی میں کافیہ کو کافی سمجھ کر آگے پڑھنا فضول سمجھا، مشق سے کلام کو قوت دیتے رہے یہاں تک کہ اپنے زمانہ میں مسلم الثبوت استاد ہو گئے اور سینکڑوں شاگرد دامنِ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۸

تربیت میں پرورش پا کر استاد کہلائے۔

چھریرہ بدن، کشیدہ قامت، سیدھے سادے بھولے بھالے آدمی تھے۔ سپاہیانہ رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے اور اس لئے کہ خاندان کا تمغہ بھی قائم رہے، کچھ رنگ فقیری کا بھی تھا، ساتھ اس کے بڑھاپے تک تلوار باندھ کر سپاہیانہ بانکپن بناہے جاتے تھے۔ سر پر ایک زلف اور کبھی حیدری چٹیا کہ یہ بھی محمد شاہی بانکوں کا سکّہ ہے، اسی میں ایک طرّہ سبزی کا بھی لگائے رہتے تھے اور بے تکلفانہ رہتے تے اور ایک بانکی ٹوپی بھوں پر دھرے جدہر چاہتے تھے، چلے جاتے تھے۔ معالی خاں کی سرا میں ایک پُرانا سا مکان تھا، وہاں سکونت تھی۔ اس محّلے کے ایک طرف ان کے دل بہلانے کا جنگل تھا، بلکہ ویرانوں اور شہر کے باہر جنگلوں میں اکثر پھرتے رہتے تھے۔ اسی (80) روپیہ مہینہ بادشاہ لکھنؤ کے ہاں سے ملتا تھا، پندرہ روپے گھر میں دیتے تھے، باقی غربا اور اہل ضرورت کو کھلا پلا کر مہینے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیتے تھے۔ پھر توکل پر گزارہ تھا۔ مگر شاگردوں یا مرائے شہر میں سے کوئی سلوک کرتا تھا تو اس سے انکار نہ تھا۔ باوجود اس کے ایک گھوڑا بھی ضرور بندھا رہتا تھا، اسی عالم میں کبھی آسودہ حال رہتے تھے، کبھی ایک آدھ فاقہ بھی گزر جاتا تھا، جب شاگردوں کو خبر ہوتی ہر ایک کچھ نہ کچھ لے کر حاضر ہوتا اور کہتا کہ آپ ہم کو اپنا نہیں سمجھتے کہ کبھی اظہار حال نہیں فرماتے۔ جواب میں کہتے کہ تم لوگوں نے کِھلا کِھلا کر ہمارے نفسِ حریص کو فربہ کر دیا ہے، میر دوست علی خلیلؔ کو یہ سعادت اکثر نصیب ہوتی تھی، فقیر محمد خاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۷۹

گویا خواجہ وزیر یعنی شیخ صاحب کے شاگرد کے شاگرد تھے مگر پچیس روپیہ مہینہ دیتے تھے، سید محمد خاں رندؔ کی طرف سے بھی معمولی نذرانہ پہنچتا تھا۔

زمانہ نے ان کی تصاویر مضمون کی قدر ہی نہیں بلکہ پرستش کی، مگر انھوں نے اس کی جاہ و حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جا کر غزلیں سنائیں نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس پر کچھ چھت کچھ چھپّر سایہ کئے تھے۔ بوریا بچھا رہتا تھا اسی پر ایک لنگ باندھے صبر و قناعت کے ساتھ بیٹھے رہے اور عمر چند روزہ کو اس طرح گزرا دیا جیسے کوئی بے نمازی و بے پروا فقیر تکیہ میں بیٹھا ہوتا ہے، کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے۔ امیر آتا تو دھتکار دیتے تھے۔ وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے۔ یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بوریے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ یہ فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں اور یہ حالت شیخ صاحب کی شان و شکوہ کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ عالم میں مقبول خلائق ہوئے۔ علم والے شاعروں سے پہلو بہ پہلو رہے امیر سے غریب تک اسی فقیرانہ تکیہ میں آ کر سلام کر گئے۔

اے ہما پیش فقیری سلطنت کیا مال ہے
بادشاہ آتے ہیں پابوس گدا کے واسطے​

1263ھ میں ایک دن بھلے چنگے بیٹھے تھے۔ یکایک ایسا موت کا جھونکا آیا کہ شعلہ کی طرح بُجھ کر رہ گئے، آتشؔ کے گھر میں راکھ کے ڈھیر کے سوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۰

اور کیا ہونا تھا، میر دوست علی خلیلؔ نے تجہیز و تکفین کی اور رسوم ماتم بھی بہت اچھی طرح ادا کیں، بی بی اور ایک لڑکا لڑکی خورد سال تھے۔ ان کی بھی سرپرستی وہی کرتے رہے۔ میر اوسط علی رشکؔ نے تاریخ کہی۔

مصرعہ : "خواجہ حیدر علی اے وائے مُردند"​

تمام عمر کی کمائی جسے حیات جاودانی کا مول کہنا چاہیے۔ ایک دیوان غزلوں کا ہے جو ان کے سامنے رائج ہو گیا تھا، دوسرا تتمہ ہے کہ پیچھے مرتب ہوا جو کلام ان کا ہے حقیقت میں محاورہ اردو کا دستور العمل ہے اور انشاء پردازی ہند کا اعلٰی نمونہ، شرفائے لکھنؤ کی بول چال کا انداز اس سے معلوم ہوتا ہے جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں، اِسی طرح انھوں نے شعر کہہ دیئے ہیں، اُن کے کلام نے پسند خاص اور قبول عام کی سند حاصل کی اور نہ فقط اپنے شاگردوں میں بلکہ بے غرض اہل انصاف کے نزدیک بھی مقبول اور قابل تعریف ہوئے۔ دلیل اس کی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ بار بار چھپ جاتا ہے اور بِک جاتا ہے۔ اہل سخن کے جلسوں میں پڑھا جاتا ہے اور عاشقانہ غزلیں موسیقی کی تاثیر کو چمکا کر محفلوں کو گرماتی ہیں۔

وہ شیخ امام بخش ناسخؔ کےہمعصر تھے۔ مشاعروں میں اور گھر بیٹھے روز مقابلے رہتے تھے۔ دونوں کے معتقد انبوہ در انبوہ تھے۔ جلسوں کے معرکے اور معرکوں کو ہنگامے بنانے تھے۔ مگر دونوں بزرگوں پر صد رحم ہے کہ مرزا رفیعؔ اور سید انشاءؔ کی طرح دست و گریباں نہ ہوتے تھے کبھی کبھی نوکا نوکی ہو جاتی تھی کہ وہ قابل اعتنا نہیں، چنانچہ خواجہ صاحب نے جب شیخ صاحب کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۱

غزلوں پر متواتر غزلیں لکھیں تو انھوں نے کہا ۔

ایک جاہل کہہ رہا تھا میرے دیواں کا جواب
بومسلیم نے لکھا تھا جیسے قرآں کا جواب

کیوں نہ دے ہر مومن اس ملحد کے دیواں کا جواب
جس نے دیواں اپنا ٹھہرایا ہے قرآں کا جواب​

خواجہ صاحب کے کلام میں بول چال اور محاورے اور روزمرّہ کا بہت لطف ہے جو کہ شیخ صاحب کے کلام میں اس درجہ پر نہیں۔ شیخ صاحب کے معتقد اس معاملے کو ایک اور قالب میں ڈھال کر کہتے ہیں کہ ان کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں ہیں۔ کلام میں ریختہ کی پختگی، ترکیب میں متانت اور اشعار میں عالی مضامین نہیں اور اس سے نتیجہ ان کی بے استعدادی کا نکالتے ہیں، مگر یہ ویسا ہی ظلم ہے جیسا ان کے معتقدان پر کرتے ہیں کہ شیخ صاحب کے شعروں کو اکثر بے معنی اور مہمل سمجھتے ہیں۔ میں نے خو دیوان آتش کو دیکھا۔ کلام مضامین بلند سے خالی نہیں، ہاں طرز بیان صاف ہے، سیدھی سی بات کو پیچ نہیں دیتے۔ ترکیبوں میں استعارے اور تشبیہیں فارسیت کی بھی موجود ہیں مگر قریب الفہم اور ساتھ ہی اس کے اپنے محاورے کے زیادہ پابند ہیں۔ یہ درحقیقت ایک وصف خداداد ہے کہ رقابت اسے عیب کا لباس پہنا کر سامنے لاتی ہے۔ کلام کو رنگینی اور استعارہ و تشبیہ سے بلند کر دکھانا آسان ہے۔ مگر زبان اور روزمرہ کے محاورہ میں صاف صاف مطلب اس طرح ادا کرنا جس سے سننے والے کے دل پر اثر ہو یہ بات بہت مشکل ہے شیخ سعدی کی گلستاں کچھ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ نہ اس میں نازک خیالات ہیں، نہ کچھ عالی مضامین ہیں نہ پیچیدہ تشبہیں ہیں، نہ استعارہ در استعارہ فقرے ہیں،
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top