آئی ہے میری سمت صدا اور دُور سے

ظفری

لائبریرین

آئی ہے میری سمت صدا اور دُور سے
چلنے لگی ہے کوئی ہوا اور دُور سے

جتنا قریب ہونے کی رکھتا ہوں جستجو
دیتا ہے مجھ کو اپنا پتا اور دُور سے

طے کی ہے میرے دل سے ہی سب نے شبِ سفر
دیتا ہے روشنی یہ دیا ، اور دُور سے

بارش نے دھو دیئے تھے سر و برگِ آرزو
جنگل یہ لگ رہا تھا ہرا ، اور دور سے

میں‌ اور دور ہونے ہی والا ہوں اب ظفر
دے گا سنائی میرا کہا ، اور دور سے​
 
Top