محب علوی
مدیر
سافٹ ویر کی درآمدات ہوں یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعہ تجارتی سرگرمیاں، انفارمیشن ٹیکنالوجی معاشی و اقتصادی اعتبار سے مثبت تبدیلیوں کا سبب ثابت ہوئی ہے۔
حال ہی میں امریکہ کے چیمبر آف کامرس سے وابستہ سینٹر فار انٹرنیشنل پرائیویٹ انٹرپرائز اور پاکستان کی سافٹ ویر انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم پاکستان سافٹ ویر ہاؤسز ایسوسی ایش کے تعاون سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کی آئی ٹی کی صنعت کی ترقي میں حائل رکاوٹوں کا جا ئزہ لینا اور مستقبل کے لیے حکمت عملی تعین کر نا تھا۔
کانفرنس میں جہاں نجی اور حکومتی اداروں کے دیگر اقتصادی ماہرین نے شرکت کی وہیں ان قانونی پیچیدگیوں کی بھی نشاندہی کی گئی جو آئی ٹی کی صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ اس موقع پر انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس سے وابستہ بیرسٹر زاہد جمیل نے بتایا کہ جس طرح تجارت یا روایتی کاروباری سرگرمیوں کے لیے رقم کی ادائیگی کے طریقہ کار وضع کرنے ضروری ہوتے ہیں اسی طرح ای کامرس یعنی انٹرنیٹ پر تجارت کا تصور ای پیمنٹ کے نظام یا ذرائع کے بغیر ناممکن ہے۔ فل الحال ملک میں صرف ایک بینک کو انٹرنیٹ پر مرچنٹ اکاؤنٹ کی سہولت فراہم کر نے کی اجازت دی گئی ہے جو بذات خود برا قدم تو نہیں ہے تاہم اس طرح صرف ایک ہی بینک کی اجارہ داری قائم ہو نے کا خدشہ ہے۔
کاپی رائٹ کا قانون اپنی موجودہ شکل میں کمپیوٹر سافٹ ویر کو قانونی تحفظ فراہم کر نے کے لیے ناکافی ہے
مقامی طور پر تیار کردہ آئی ٹی مصنوعات یا سافٹ ویر کے حوالہ سے ملک میں رائج کاپی رائٹ اور سافٹ ویر پیٹنٹ قوانین کی وضاحت کر تے ہوے بیرسٹر زاہد جمیل نے بتایا کہ پیٹنٹ مصنوعات کی تیاری کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے اور موجودہ قوانین کے تحت کمپیوٹر پروگراموں پر یہ لاگو نہیں ہوتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرام یا سافٹ ویر کے لیے صرف کاپی رائٹ قوانین موجود ہیں۔ چونکہ ان کاپی رائٹ قوانین اولین مقصد فلموں، کتابوں وغیرہ جیسی مختلف نوعیت کی انٹلکچو ئل پراپرٹی کے غیر قانونی نقول کی روک تھام کرناتھا اس لیے یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں کمپیوٹر سافٹ ویر کو قانونی تحفظ فراہم کر نے کے لیے ناکافی ہے۔ اس سلسہ میں آئی ٹی کمپنیوں اور حکومت کو بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی پہلی وینچر کیپیٹل فرم، ٹی ایم ٹی وینچرز کے چیف ایگزیکٹو ثوہیب عمر نے آئی ٹی کی صنعت کے فروغ کے لیے نجی اور حکومتی حلقوں کی جانب سے وینچر کیپیٹل فنڈ قائم کر نے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ وینچر کیپیٹل سے مراد وہ بیرونی سرمایہ کاری یا رقم ہے جو کسی نئے یا ایسے کاروبار کے لیےمختص ہو جس میں کامیابی کے امکانات نسبتا کم ہوں۔ اس ہی طرح پاکستان ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے چیرمین طارق اکرام نے سافٹ ویر کی صنعت کو ایک ’انٹلکچو ئل‘ یا دانشور صنعت قرار دیتے ہوئے اس کے لیے موزوں رقوم مختص کر نے پر زور دیا۔
کا نفرنس کے اختتام میں تجاویز مرتب کی گئيں جن میں دیگرنکات کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کی مصنوعات کو املاک یا اثاثوں کادرجہ دینا تاکہ آئی ٹی کے کاروبار کے لیے بینکوں سے سرمایہ اورقرضےحاصل کر نےمیں آسانی ہو، انٹلکچوئل پراپرٹی رائٹس کے قوانین میں ترمیم اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان بینکنگ کونسل کی زیر نگرانی ایک ٹاسک فورس تشکیل دینا جس کا کام پاکستان کی آئی ٹي صنعت کو درپیش مالی مسائل پر غور کر نا اور تجاويز اور پالیسی سازی میں مدد کر نا ہے شامل ہیں۔
بحوالہ بی بی سی
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/story/2006/05/060519_reba_diary_si.shtml
حال ہی میں امریکہ کے چیمبر آف کامرس سے وابستہ سینٹر فار انٹرنیشنل پرائیویٹ انٹرپرائز اور پاکستان کی سافٹ ویر انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم پاکستان سافٹ ویر ہاؤسز ایسوسی ایش کے تعاون سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کی آئی ٹی کی صنعت کی ترقي میں حائل رکاوٹوں کا جا ئزہ لینا اور مستقبل کے لیے حکمت عملی تعین کر نا تھا۔
کانفرنس میں جہاں نجی اور حکومتی اداروں کے دیگر اقتصادی ماہرین نے شرکت کی وہیں ان قانونی پیچیدگیوں کی بھی نشاندہی کی گئی جو آئی ٹی کی صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ اس موقع پر انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس سے وابستہ بیرسٹر زاہد جمیل نے بتایا کہ جس طرح تجارت یا روایتی کاروباری سرگرمیوں کے لیے رقم کی ادائیگی کے طریقہ کار وضع کرنے ضروری ہوتے ہیں اسی طرح ای کامرس یعنی انٹرنیٹ پر تجارت کا تصور ای پیمنٹ کے نظام یا ذرائع کے بغیر ناممکن ہے۔ فل الحال ملک میں صرف ایک بینک کو انٹرنیٹ پر مرچنٹ اکاؤنٹ کی سہولت فراہم کر نے کی اجازت دی گئی ہے جو بذات خود برا قدم تو نہیں ہے تاہم اس طرح صرف ایک ہی بینک کی اجارہ داری قائم ہو نے کا خدشہ ہے۔
کاپی رائٹ کا قانون اپنی موجودہ شکل میں کمپیوٹر سافٹ ویر کو قانونی تحفظ فراہم کر نے کے لیے ناکافی ہے
مقامی طور پر تیار کردہ آئی ٹی مصنوعات یا سافٹ ویر کے حوالہ سے ملک میں رائج کاپی رائٹ اور سافٹ ویر پیٹنٹ قوانین کی وضاحت کر تے ہوے بیرسٹر زاہد جمیل نے بتایا کہ پیٹنٹ مصنوعات کی تیاری کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے اور موجودہ قوانین کے تحت کمپیوٹر پروگراموں پر یہ لاگو نہیں ہوتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرام یا سافٹ ویر کے لیے صرف کاپی رائٹ قوانین موجود ہیں۔ چونکہ ان کاپی رائٹ قوانین اولین مقصد فلموں، کتابوں وغیرہ جیسی مختلف نوعیت کی انٹلکچو ئل پراپرٹی کے غیر قانونی نقول کی روک تھام کرناتھا اس لیے یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں کمپیوٹر سافٹ ویر کو قانونی تحفظ فراہم کر نے کے لیے ناکافی ہے۔ اس سلسہ میں آئی ٹی کمپنیوں اور حکومت کو بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی پہلی وینچر کیپیٹل فرم، ٹی ایم ٹی وینچرز کے چیف ایگزیکٹو ثوہیب عمر نے آئی ٹی کی صنعت کے فروغ کے لیے نجی اور حکومتی حلقوں کی جانب سے وینچر کیپیٹل فنڈ قائم کر نے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ وینچر کیپیٹل سے مراد وہ بیرونی سرمایہ کاری یا رقم ہے جو کسی نئے یا ایسے کاروبار کے لیےمختص ہو جس میں کامیابی کے امکانات نسبتا کم ہوں۔ اس ہی طرح پاکستان ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے چیرمین طارق اکرام نے سافٹ ویر کی صنعت کو ایک ’انٹلکچو ئل‘ یا دانشور صنعت قرار دیتے ہوئے اس کے لیے موزوں رقوم مختص کر نے پر زور دیا۔
کا نفرنس کے اختتام میں تجاویز مرتب کی گئيں جن میں دیگرنکات کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کی مصنوعات کو املاک یا اثاثوں کادرجہ دینا تاکہ آئی ٹی کے کاروبار کے لیے بینکوں سے سرمایہ اورقرضےحاصل کر نےمیں آسانی ہو، انٹلکچوئل پراپرٹی رائٹس کے قوانین میں ترمیم اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان بینکنگ کونسل کی زیر نگرانی ایک ٹاسک فورس تشکیل دینا جس کا کام پاکستان کی آئی ٹي صنعت کو درپیش مالی مسائل پر غور کر نا اور تجاويز اور پالیسی سازی میں مدد کر نا ہے شامل ہیں۔
بحوالہ بی بی سی
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/story/2006/05/060519_reba_diary_si.shtml