آئی ایس او پاکستان ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کا ایک لازوال تحفہ

ایس ایم شاہ

محفلین
آئی ایس او پاکستان ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کا ایک لازوال تحفہ
تحریر: ایس ایم شاہ

دنیا میں وہی افراد کامیاب شمار کئے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنی آئیڈیالوجی کی خاطر تن، من، دھن کی قربانیاں دی ہیں اور ہر مشکل کو سر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جب تک انسان ایک خاص نظریئے کے زیر سایہ چل رہا ہوتا ہے تو اس وقت تک وہ شخص اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر شہید جہاں ایک شب زندہ دار شخصیت تھے اور عمومی طور پر دعا و مناجات کی محفلیں سجاتے تھے، تاکہ نوجوان طبقہ شہوت نفسانی کا اسیر ہونے کے بجائے اس ہستی سے لو لگا بیٹھے کہ جس کی محبت دائمی، جس کا عشق لازوال اور جس کی رحمتیں بے انتہا ہیں۔ جس ہستی سے حقیقی رابطہ برقرار ہونے کے بعد کبھی یہ رابطہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا، وہیں رہبانیت سے اجتناب کرتے ہوئے آپ خود بھی موجودہ حالات سے اچھی طرح آگاہ رہتے تھے اور اپنے دوست احباب کو بھی دنیا جہاں میں رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کے بارے میں خصوصی نظر رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔
مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا تو آپ ہی کا خاصہ تھا۔ اس طرح آپ مختلف کمالات نفسانی کے حامل تھے۔ امام خمینی (رہ) اور علامہ شہید سید عارف حسین الحسینی کے خصوصی عاشق اور ایران کے اسلامی انقلاب کے خصوصی پرچار کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ کی یہ ساری خصوصیات اپنی جگہ لیکن میری نظر میں آپ کا سب سے اہم کارنامہ ISO پاکستان کی صورت میں ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک نظریاتی پلیٹ فارم کا وجود میں لانا ہے۔ جیسا کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی ملت کا سرمایہ ہوا کرتی ہے۔ نوجوانی کا دور ایسا دور ہوتا ہے کہ جس میں نوجوانوں کی پوری زندگی کا نقشہ راہ معین ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہی وہ افراد ہوتے ہیں کہ جو بعد میں ملک و ملت کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ اگر یہی نسل ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یہ پوری ملت کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

جس دور میں کمیونیزم کی تبلیغ عروج پر تھی، اس دور میں آپ نے اس خطرے کو مکمل طور پر بھانپ لیا کہ اگر انہیں حقیقی تعلیمات اسلامی سے آگاہ رہنے کے لیے ایک بہترین نظریاتی پلیٹ فارم فراہم نہ کیا جائے تو انفرادی طور پر بعض افراد کی تربیت کے ذریعے اس مشکل کو حل کرنا ممکن نہیں۔ آپ اور آپ کے مخلص ساتھیوں نے مل کر لاہور پنجاب میں اس شجرہ طیبہ کی بنیاد رکھی اور ایک بہترین دستوری ڈھانچہ اور نقشہ راہ معین کیا۔ مختصر وقت میں یہ روشنی پاکستان کے مختلف شہروں تک پھیل گئی۔ آپ نے نوجوانوں کے اندر مختلف زاویوں سے بیداری پیدا کی، ان کو برجستہ علماء سے مستفید ہونے کے بہترین مواقع فراہم کئے، انہیں سختیوں سے نمٹنے کا گر سکھایا اور ان کے دلوں میں اقدار اسلامی کی اہمیت کو اس طرح راسخ کر دیا کہ باد مخالف جب بھی ان سے ٹکراتی ہے تو پاش پاش ہوکر فنا ہو جاتی ہے۔ جس طرح یہ مقولہ مشہور ہے کہ کم عمری میں پڑھا ہوا درس پتھر پر لکیر ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے نوجوانوں کو درس و دروس کے ذریعے اعتقادی اعتبار سے اتنا مضبوط کیا کہ جن کے مقابلے میں سازشی عناصر کے شبہات دم توڑ لیتے ہیں۔
آج 7 مارچ 2019ء کو ہم 1952ء کو لاہور شہر میں سید امیر حسین نجفی کے ہاں آنکھ کھولنے والی عظیم ہستی کی جدائی کی 24ویں یاد منا رہے ہیں، کیونکہ تکفیری ٹولوں کے لیے آپ کا وجود ذی جود ناگوار گزرا اور 7 مارچ 1995ء کو ان کے منحوس ہاتھوں سے آپ جام شہادت نوش کر گئے۔ لیکن آپ نے 1972ء میں جس پاکیزہ تنظیم کی بنیاد رکھی، آج وہی تناور درخت کی صورت میں ملت کو پھل دے رہی ہے۔ اس پاکیزہ تنظیم کے بہت سارے افراد ملک عزیز پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرچکے ہیں اور کثیر تعداد میں ایسے افراد زندگی کے مختلف شعبوں میں مملکت خداداد پاکستان کی سربلندی کے لیے سعی بلیغ انجام دے رہے ہیں۔ آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے گوش و کنار میں آپ کے تربیت یافتہ شاگرد سروخروئی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے وہ شاگرد جو سرزمین فرنگ میں اس وقت زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھی مغربی ظاہری زرق و برق سے مرعوب ہوئے بغیر مفکر پاکستان کے اس شعر کی عملی تعبیر پیش کر رہے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

جب تک یہ مقدس پلیٹ فارم اور اس پلیٹ فارم کے تربیت یافتہ باخلوص افراد باقی ہیں، اس وقت تک آپ ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے باوجود بھی درحقیقت زندہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مقدس پلیٹ فارم بھی ہمیشہ باقی اور دشمن کی نظر بد سے محفوظ رہے گا، کیونکہ اس تنظیم کے وجود اور بنیادوں میں کسی عام شخص کا خون نہیں بلکہ پیکر خلوص و تقوی، علم و معرفت سے سرشار، جذبہ ایمانی سے لبریز، خدمت انسانیت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے والی، جہالت کو علم کی روشنی میں بدلنے والی، بھٹکے راہوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے والی، نوجوان نسل کو بصیرت عطا کرنی والی، ملت کے اندر بیداری کی لہر دوڑانے والی، عشق محمد و آل محمد علیہم السلام سے لبریز، محراب عبادت کی زیب و زینت اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے والی عظیم شخصیت ڈاکٹر شہید سید محمد علی نقوی کا پاکیزہ خون شامل ہے۔ اللہ آپ کو شہدائے کربلا کے ساتھ محشور کرے اور ہماری نئی نسل کو آپ کے نیک اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنے کی توفیق دے! آمین ثم آمین
 
Top