آئی ایس آئی کے سابق اہم آفیسرز کے اغوا اور قتل کی سنسنی خیز داستان

جہاد کے آغاز سے لے کر اب تک ”جہادیوں“ کی زندگی کے بہت سے نشیب و فراز سے گزر چکے ہیں۔ وہی امریکہ جو کبھی افغان جہاد کو نہ صرف سپورٹ کرتا رہا ہے۔ بلکہ اربوں ڈالرکی سرمایا کاری بھی کرتا رہا ہے آج اپنے ہی تیار کیے گئے ”جہادیوں“ سے لڑ رہا ہے اور انہیں ختم کرنے کے لیے پہلے سے کئی گنا زیادہ ڈالر خرچ کررہا ہے۔ عام لوگوں کے لیے شاید بات صرف اتنی سی ہو کہ افغانستان میں روس کی آمد سے لے کر امریکہ کے قیام یعنی آج تک گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور ”جہادی“ لڑائی میں مصروف ہیں درحقیقت بات صرف اتنی سی نہیں ہے کیونکہ اس وقت یہاں خطہ کی ایک اہم جنگ لڑی جارہی ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں نہ صرف ”جہادی“ نیٹو یعنی دنیا کے بڑے ممالک کی افواج، پاک فوج ہی شامل نہیں بلکہ آئی ایس آئی، را، خاد، موساد، رام اور سی آئی اے سمیت متعدد خفیہ ایجنسیاں بھی میدان میں اتر چکی ہیں۔ یہاں تک کہ بات بعض اداروں کی دسترس سے آگے جا چکی ہے۔
بعض تجزیہ کار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ افغان جہاد کی آگ پھیلتے پھیلتے پاکستان تک آپہنچی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت افغان جہاد کی آگ اپنی جگہ پر ہی ہے اور پاکستان میں اس کی آڑ میں ایک نئی آگ لگائی جارہی ہے اور جسے افغان جہادیوں سے جوڑا جارہا ہے جبکہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر ذاتی طور پر پاکستان پر حملے کے حق میں نہیں لیکن بات شاید ان کی پہنچ سے بھی آگے جا چکی ہے۔ ”جہادی“نہ صرف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میدان میں اتر چکے ہیں۔ وہ افغان جہادی جو کہ ملا عمر کی سر پرستی میں ہیں ظاہری طور پر بیت اﷲ محسود گروپ سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک لاتعلقی کے اس کے اعلان کے باوجود یہ سمجھا جاتا رہا کہ درپردہ کسی نہ کسی مقام پر جہادیوں کے مابین تعلقات ضرور ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ بیت اﷲ محسود اور ان کے ساتھیوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جنہوں نے افغان جہاد میں طالبان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر روس امریکہ اور شمالی اتحاد کا مقابلہ کیا لیکن2010ءکے تیسرے ماہ یعنی 6 2 مارچ کو پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے یہ واضح کر دیا کہ اب افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر اور پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے راستے الگ ہو چکے ہیں۔
اس کہانی کا آغاز تب ہوا جب مارچ2010ءمیں پاکستان میں مصروفِ عمل ایک شدت پسند گرپ نے کچھ افراد کو اغوا کر لیا جن میں ایک ایسا شخص بھی تھا جسے ملا عمر اور دوسرے افغان طالبان کا حربی استاد اور ”امام“ کہا جاتا ہے اس شخص کا دعویٰ تھا کہ طالبان میرے ”سٹوڈ نٹ“ ہیں اور میں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تربیت کی ہے بلکہ جب یہ لوگ منظر عام پر آئے تو ہر خفیہ ایجنسی پریشان ہو گئی کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن اس وقت بھی میرے آفس میں ایک اہم فائل میں ان کے نام اور تفصیلات موجود تھیں اس شخص کا دعوی اپنی جگہ لیکن حالات ایک سے نہ رہے اور بالآخر اسی ”امام“ اور ”استاد“ کو ”جہادیوں“ نے اغوا کرلیا۔ اس شخص کے ساتھ اغوا ہونے والا دوسرا شخص بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا یہ دوسرا شخص بھی افغان جہاد میں اہم کردار کے طور پر فعال رہا اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اسامہ بن لادن اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے مابین سعودی عرب کے گرین پیلس ہوٹل میں ملاقات کرائی تھی۔ یہ شخص خودکو اسامہ بن لادن کا دوست بتاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اسامہ کے پائلٹ کے فرائض بھی انجام دے چکا تھا۔
پہلے شخص کا نام کرنل (ر) امیر سلطان عرف کرنل امام ہے جبکہ دوسرے شخص کا نام اسکوار ڈن لیڈر(ر) خالد خواجہ ہے یہ دونوں افراد آئی ایس آئی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ان کے ساتھ ساتھ برطانوی صحافی اسد قریشی کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ شدت پسندوں نے اغوا شدگان میں۔ سب سے پہلے اسامہ بن لادن کے ”دوست“ خالد خواجہ کی بلی دینے کا فیصلہ کیا اور انہیں قتل کر دیا جبکہ ملا عمر سمیت طالبان کے اہم لیڈروں کے دوست اور استاد کرنل امام کی ”خرید و فروخت“ کے لیے جرگہ طلب کیا گیا۔
اصل صورتِ حال کیا ہے؟ کیا طالبان کی صفوں میں ”نقاب پوش“ شامل ہو چکے ہیں؟ کیا واقعی طالبان نے اپنے حربی استاد کو قتل کردیا ؟ طالبان نے اسامہ بن لادن کے ”دوست“ خالد خواجہ کو قتل کیوں کیا؟ اغواہونے سے پہلے خالد خواجہ اور کرنل امام نے کس سے ملاقات کی؟ کرنل امام اور خالد خواجہ کس کے کہنے پر وزیرستان گئے؟ کیا خالد خواجہ کو افغان صدر حامد کرزئی کے ایما پر قتل کیا گیا؟ طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر، خالد خواجہ کو بچانے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟حقانی گروپ معاہدہ ہونے کے باوجود کرنل امام کو کیوں نہ بچا سکے؟کیا کرنل امام دو مرتبہ اغوا ہوئے؟ کرنل امام کو اغوا کرنے والوں کو کرنل امام سے بھی پہلے قتل کیوں کر دیا گیا؟ ایشین ٹائیگرز کی آڑ میںکون سی تنظیم کام کر رہی ہے؟کرنل امام کے قتل کی دیڈیو میں کیا تھا ؟ آخری لمحات میں کرنل امام نے موت کا سامنا کیسے کیا؟ میرے سامنے ایسے بہت سے سوال تھے جن کی تہہ تک پہنچنا میرے لیے بہت ضروری تھا کیونکہ مجھے اپنے قارئین کا اعتماد برقرار رکھنا تھا۔ تحقیقات کے دوران مجھے یہ احساس تھا کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ”ٹاپ سیکرٹ ”انفرمیشن تک رسائی چاہتی ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اس دھرتی سے منسلک ہر بات جاننا چاہتے ہیں۔ مجھے بہت جلدی لیکن بہت زیادہ معلومات حاصل کرنی اور حقائق کی تہہ تک پہنچنا تھا۔ میں اپنا فرض نبھانے میں کامیاب ہو سکا یا نہیں اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

بقیہ یہاں پر
http://www.lahoreupdates.com/u/inde...-14-40&catid=19:2010-12-29-14-06-59&Itemid=19

اگر یہ لنک کام نہ کریں تو یہاں پر کلک کریں
http://pak.net/آئی-ایس-آئی-کے-سابق-...نسنی-خیز-داستان،-53307-post391743/#post391743
 
Top