آئین کی رُو سے معیارِ قیادت

الف نظامی

لائبریرین
آئین کی رُو سے معیارِ قیادت
آئین کہتا ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار کا حامل شخص ہو جس کی شہرت قانون شکنی کی نہ ہو۔ وہ دانا، قابل، نیک سیرت، ایماندار اور امانت دار ہو، کرپٹ اور عیاش نہ ہو۔ یہ آئین کا آرٹیکل 62 اس کی سیکشن 1 کلاز f کو پڑھ رہا ہوں

He is sagacious, righteous and non-profligate, honest and 'ameen'.
کہ وہ دیانتدار اور ایماندار ہو اور جو ان شرائط کا حامل نہیں اس کے متعلق آئین کے الفاظ یہ ہیں :

a person shall not be qualified to be elected or chosen as a member of parliament

جب تک یہ شرائط کسی میں پوری نہ ہوں اس وقت تک ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لئے اہل ہی نہیں ہے۔ یہ معیارِ قیادت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمائی :

{اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰ۔نٰ۔تِ اِلٰی اَهلِهَا} [النساء، 4 / 58]

کہ اقتدار سب سے بڑی مقدس امانت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے سپرد کی جانی چاہیے جو اس کے اہل ہیں۔ اسی اہلیت کی تعریف پاکستان کے آرٹیکل 62 کلاز f نے کردی اور پھر قرآن کہتا ہے

{وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ} [النساء، 4 / 58]

جب یہ حکومت کی مسند پر بیٹھ جائیں تو نظام عدل اور انصاف کے ساتھ چلائیں۔ ایمان سے کہیے، ان لوگوں کے اندر وہ اہلیت ہے جو آئین نے بتائی؟ کیا یہ لوگ نظامِ حکومت عدل و انصاف سے چلا رہے ہیں جو قرآن نے کہا اور جو آئین پاکستان نے کہا؟ نہیں، آئین کے آرٹیکل 63 کے سیکشن 1 کی کلاز o ہے :

he or his spouse or any of his dependents has defaulted in payment of government dues and utility expenses, including telephone, electricity, gas and water charges in excess of ten thousand rupees, for over six months, at the time of filing his nomination papers.

وہ شخص یا اس کی بیوی یا بیوی ہے تو اس کا شوہر یا اس کے بچے اور اس کے dependents ان میں سے کسی شخص نے بھی اگر پانی، بجلی، گیس یا ٹیلی فون کے بل ادا نہ کیے ہوں اور وہ چھ ماہ تک دس ہزار روپے تک کا ڈیفالٹر رہے تو وہ رکن اسمبلی نہیں بن سکتا۔ میں پوری قوم کی طرف سے فقط آئین کی عمل داری کا مطالبہ کر رہا ہوں، آئین کہتا ہے کہ بجلی چور، پانی، سوئی گیس اور ٹیلی فون کے بل کا نادہندہ، ڈیفالٹر شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا اور یہاں ایسے لوگ ہیں جن کے چار چار بار ڈیفالٹر ہونے کی وجہ سے بجلی کٹ چکی، لائن مین ان کے گھر بجلی کا بل لینے کے لئے نہیں جاسکتا اور کوئی قانون ان کا گریبان پکڑ نہیں سکتا اور پھر یہ ٹیکس چور ہیں؛ ستر فیصد کے قریب پارلیمنٹ کے ممبران اور اسمبلیز کے ممبران ایسے ہیں جو ٹیکس دینا تو درکنار انہوں نے ٹیکس ریٹرن تک داخل نہیں کی۔ ٹیکس کا آرڈیننس کہتا ہے کہ جس شخص کی سالانہ انکم پانچ لاکھ روپے ہو یعنی ماہانہ 41 ہزار روپے اس پر ٹیکس واجب ہے اور جس پر ٹیکس واجب ہے، اس کے لئے واجب ہے کہ وہ ٹیکس ریٹرن داخل کرے اور اپنے sources of income بیان کرے۔ اور جو شخص اپنے sources of income disclose نہ کرے ٹیکس آرڈیننس آف پاکستان کے تحت اس کے لیے دو یا تین سال سزائے قید ہے اور جرمانہ ہے۔

9۔ ارکانِ اسمبلی اور آئین کی پامالی
جس شخص کو 3 سال کے لئے جیل میں ہونا تھا وہ 5 سال کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 سیکشن 1 کلاز n بھی سن لیجئے! میں نے جب کہا کہ law breakers can not be law makers یعنی قانون توڑنے والے قانون ساز نہیں بن سکتے، انہیں جیل میں ہونا چاہیے تو یہ مطالبات میں نے خود سے نہیں گھڑے۔ یہ آرٹیکلز تو آج تک آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر آپ بات کرتے ہیں کہ آئین کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی تو کیا یہ آئین میں لکھا ہوا نہیں ہے؟ جواب دو۔ آئین کہتا ہے کوئی ایسا شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں ہوسکتا یعنی آئین کے آرٹیکل 63 کے سیکشن 1 کی کلاز n کے مطابق :

he has obtained a loan for an amount of two million rupees or more, from any bank, financial institution, cooperative society or cooperative body in his own name or in the name of his spouse or any of his dependents, which remains unpaid for more than one year from the due date, or has got such loan written off;

ہر وہ شخص جس نے پاکستان کے کسی بھی بینک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا باڈی سے 20 لاکھ یا اس سے زائد کا قرض اپنے نام پر، اپنی بیوی یا شوہر کے نام پر یا کسی بھی نام پر لیا ہو اور وہ ایک سال تک ڈیفالٹر رہا ہو۔ صرف ایک سال تک! یہاں تو لوگ پچیس پچیس سال سے ڈیفالٹر بیٹھے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ ایک سال ڈیفالٹر رہا ہو یا 20 لاکھ کا قرض لے کر اس کو معاف کروا لیا ہو تو ایسا شخص آئین پاکستان کی رو سے پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہوسکتا۔

عوام میں سے کوئی شخص جو غریب ہے، چھوٹا دوکاندار ہے، چھوٹا تاجر ہے، چھوٹا کسان ہے، مزدور ہے، محنت کش ہے، بچے کو تعلیم دلانا چاہتا ہے، روزگار چاہتا ہے، بے سہارا شخص جس کے پاس رشوت اور طاقت نہیں، وہ بینکوں اور مالیاتی اداروں سے پانچ دس لاکھ قرض لینے جائے یا بیس لاکھ قرض لینے جائیں، انہیں کوئی نہیں دیتا ہے، یہ قرضے ایم این ایز کو، ایم پی ایز کو، سینیٹرز کو، وزیروں کو، امیروں کو، کبیروں کو، اُن کے خاندانوں کو ملتے ہیں اور وہ تو بیس لاکھ نہیں بلکہ بیس بیس ارب کھا گئے۔

اُنہی کو قرضے ملتے ہیں اور ان سے ایک پائی وصول کرنے کی کسی کو جرات نہیں، حکومت چونکہ ان کی ہے۔ تو کیا قوم کے سارے خزانے قائداعظم نے ان لٹیروں کے لیے بنائے تھے؟ کیا ریاست اور اس کے وسائل لٹیروں کے لئے تھے یا اٹھارہ کروڑ غریب عوام کے لئے تھے؟ جو حق غریبوں کو نہیں ملتا وہ حق ان لٹیروں کو بھی نہیں دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم ایسا الیکشن چاہتے ہیں جس میں کسی کے امیدوار بن کے الیکشن میں اترنے سے پہلے ان تمام چیزوں کی قانونی طورپرچھان بین ہوچکی ہو تاکہ چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ اوربد عنوان پہلے سے کک آؤٹ کر دیے جائیں اور انتخاب کے میدان میں مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان ہو جنہیں آئین پاکستان اہل قرار دیتا ہے۔ نا اہل چھلنی سے گزارکر نکال دیے جائیں اور اچھے لوگ رہیں تاکہ قوم اچھوں میں سے جسے چاہیں اس کا انتخاب کرے۔ ہم بدمعاشوں اور شریفوں کا مقابلہ نہیں چاہتے، ہم طاقتوروں غریبوں کا مقابلہ نہیں چاہتے، ہم لٹیروں اور محکوموں کا، مظلوموں کا مقابلہ نہیں چاہتے۔ اس سے کبھی جمہوریت نہیں آسکتی بلکہ یہاں ڈیموکریسی کے لئے Levelled Playfield (ہموار میدان) چاہیے۔

صدائے انقلاب (مجموعہ خطابات) ڈاکٹر طاہر القادری
 
جی آئین کی رو سے ایسا شخص پارلیمان کا رکن بننے کا اہل نہیں۔ الحمدللّٰہ آئین روحانی رہنمائی کے دعوی داروں پہ ایسی کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ ان کو اگر عدالت جھوٹا، مکار قرار دے، وہ اس کے باوجود دارالحکومت کو معطل کر سکتا ہے، حکومت کو چیلنج کر سکتا ہے۔
 
Top