آئنسٹائن کی سپیشل ریلیٹیوٹی تھیوری۔ آسان زبان میں

سید ذیشان

محفلین
اس دھاگے میں میں کوشش کروں گا کہ آئنسٹائن کی سپیشل ریلیٹویٹی تھیوری کو آسان زبان میں سمجھا سکوں۔ لیکن اس کے لئے میں دیکھنا چاہوں گا کہ کتنے لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ریٹنگ کے ذریعے سے دلچسپی ظاہر کر سکتے ہیں۔ ابھی جواب نہ دیں۔ کیونکہ کہ میں چاہتا ہوں کہ جو بھی لکھوں وہ دھاگے کے شروع میں ہی ہو۔

تبصرے اور تجاویز کے لیے یہاں کلک کریں۔
 

سید ذیشان

محفلین
آئنسٹائن کا نظریہ اضافت​
(سپیشل تھیوری)​
نوٹ: یہ تحریر ان قارئین کے لئے ہے جو سائنس سے کسی حد تک واقف ہیں۔ میری کوشش ہوگی کی تحریر کو بالکل سادہ رکھا جائے اور زیادہ مشکل اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اپنی تجاویر یا سوالات کے لئےتجاویز والے دھاگے پر پوسٹ کر سکتے ہیں۔​
تاریخ
قدرت کے قوانین کو سمجھنے کے لئے انسان ہزاروں سالوں سے کوشاں رہا ہے۔ انسان جب باشعور ہوا تو رات کو آسمان پر ٹمٹمانے والی روشنیاں اس کو بہت دلچسپ معلوم ہوئی ہوں گی۔ پورے دن کی مشقت کے بعد جب وہ رات کو کھلے آسمان کے نیچے سستاتا ہوگا تو ضرور سوچتا ہوگا کہ آسمان پر ٹمٹمانے والی روشنیوں کی کیا حقیقت ہے۔ کیا ان روشنیوں کا ہماری زندگی پر کوئی اثر ہے یا پھر یہ کوئی اجنبی مخلوق ہے جس کا ہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔​
سورج اور چاند نے انسان کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ یہان تک کہ کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو سورج کی پوجا کرتے اور اس کو اپنا خدا مانتے۔ زمین پر زندگی اسی سورج کی مرہون منت ہے۔ کہ یہ سورج پودوں کو توانائی بخشتا ہے جس سے پودے خوراک بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور یہ خوراک باقی جانور زندہ رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سورج کی افادیت صرف یہاں تک ہی محدود نہیں، اس کے مشرق سے ابھرنے اور مغرب میں ڈوبنے سے دن اور رات کا تعین ہوتا ہے۔دن کے وقت سورج کا اسمان پر کسی منزل میں ہونا پہر کا تعین کرتا ہے اور کچھ آلات کے استعمال سے سورج کے سائے سے گھنٹوں کا تعین ہوتا ہے۔ یعنی کہ اس سے وقت کا تعین ہوتا ہے۔ اس وقت کے انسان کو اس بات کی خبر نہیں تھی کی دن و رات اصل میں زمین کا اپنے گرد چکر لگانے سے وجود میں آتے ہیں۔ وہ زمین کو ہی پوری کائنات کا مرکز سمجھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہر ایک چیز زمین کے گرد چکر لگاتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو کہ سورج کے پجاری تھے، وہ لوگ سورج کو کائنات کا مرکز گردانتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک سمجھتے تھے لیکن غلط وجوہات کی بنا پر۔​
وقت کے بہتر تعین کے لئے انسان نے کچھ آلات ایجاد کئے۔ بحری جہازوں میں سفر کے لئے وقت کا اچھے طریقے سے تعین بہت ضروری تھا۔ اس کے بغیر سمندر میں کھو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے تھے۔ اس کے لئے ریت گھڑی (آور گلاس) ایجاد کی گئی۔ جس سے ایک چوتھائی گھنٹے تک کے وقت کا بخوبی تعین کیا جا سکتا تھا۔ اطالوی سائنسدان گیلیلیو (وفات:1642) نے وقت کے بہتر تعین کے لئے کچھ تجربات میں وقت معلوم کرنے کے لئے اپنی نبض کا سہارا لیا۔ لیکن 1656 تک صحیح طور پر وقت کا تعین تب ممکن ہوا جب ایک ڈچ سائنسدان ہیگنز نے جدید گھڑیال ایجاد کی۔ہیگنز نے دیکھا کہ اگر کسی دھاگے سےایک وزنی چیز (مثلاؐ لوہے کا گولہ)کو لٹکایا جائے اور اس گولے کو دائیں ہا بائیں طرف دھاکا دیا جائے تو ایک طرف سے دوسری طرف کا فاصلہ طے کرنے میں ایک مخصوص وقت لگتا ہے۔ اس وقت کا تعلق صرف اور صرف دھاگے کی لمبائی اور گولےکے وزن سے ہے۔ اس مخصوص وقت کا تعلق اس بات سے نہیں کہ ہم کتنی قوت لگا کر اس گولے کو حرکت میں لائے تھے۔یعنی اب ایسی چیز ایجاد ہو گئی تھی جس سے وقت کا بہت باقاعدگی سے تعین کیا جا سکتا تھا۔​
اسی طرح سے سیاروں کے سورج کے گرد مداد پرجرمن سائنسدان کیپلر نے 1609 میں تین قوانین وضح کئے جن کے مطابق کوئی بھی سیارہ سورج کے گرد بیضوی شکل کے مدار میں سفر کرتا ہے۔ انگریز سائسندان نیوٹن (وفات:1726) نے اپنی کتاب (پرنسیپیا میتھیمیٹیکا) میں کچھ قوانین وضح کئے جن کا تعلق خلا اور زمین میں اجسام کی حرکت سے تھا۔ نیوٹن کے مطابق اگر کسی جسم پر قوت لگائی جائے تو وہ سیدھی لکیر میں ہمیشہ کے لئے سفر کرے گا۔ اور جس تناسب سے قت لگائی جائے اسی تناسب سے اس جسم کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ یعنی اگر ہم کسی فٹبال کو زور سے لات ماریں تواس کی رفتار اس فٹبال کی نسبت زیادہ ہوگی جس کو آہستہ سے لات ماری جائے۔​
اسی طرح اگر کوئی چیز اوپر سے نیچے ذمین پر گرائی جائے تو اس کے رفتار میں اضافہ بھی پچھلی مثال کے مطابق ہوگا۔ لیکن یہاں پر قوت کا ماخذ کشش ثقل ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو ہر ایک جسم دوسرے جسم پر لگاتا ہے اور اپنی طرف کھیچتا ہے۔ اس کو نیوٹن نے دریافت کیا(یہاں سیب والی کہانی کا محل بنتا ہے لیکن وہ کہانی سب کو معلوم ہے)۔ ہم زمین پر اسی لئے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس سے گرتے نہیں ہیں کہ زمین ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے(یہ قوت ہمارے وزن کے برابر ہے)۔ ہم بھی زمین کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اتنی ہی قوت سے جتنی قوت سے زمین ہمیں کھینچتی ہے۔ اگر ہم زمین سے بہت دور خلا میں چلے جائیں تو ہم بے وزن ہو جائیں اور خلا میں اڑنے لگیں۔​
قریباؐ 200 سال تک نیوٹن کے نظرئے کا کوئی رقیب سامنے نہیں آیا اور اس کو من و عن تسلیم کیا گیا۔اس کو تسلیم کرنا قدرتی بات تھی کیونکہ یہ نظریہ بہت اچھے طریقے سے سیاروں کے سورج کے گرد مداروں کا تعین کرتا تھا۔ اور زمین پر کسی جسم کی رفتار اور راستے کو متعین کرتا تھا۔ یہ تو ہے کشش ثقل جس سے انسان کو ہر پل واسطہ پڑتا ہے۔لیکن ایک اور قوت مقناطیسیت بھی ہے، جو بہت پہلے دریافت ہو چکی تھی لیکن انسانوں کے لئے بہت عجیب و غریب تھی۔ اور بہت زیادہ زور دار بھی! اس کے زور کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہم کسی مقناطیس کو کسی لوہے کے چھوٹے ٹکڑے کے قریب لے جائیں تومقناطیس سے فوراؐ چپک جاتا ہے۔ ایک طرف تو اس لوہے کے ٹکڑے کا وزن ہےیہ وہ قوت ہے جو زمین اس لوہے کے ٹکڑے پر لگا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف ایک چھوٹا سا مقناطیس (زمین کے مقابلے میں لاکھوں گنا چھوٹا) قوت لگا رہا ہے۔ ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جیت مقناطیسیت کی ہی ہوگی۔مقناطیسیت بہت زوردار قوت ہے لیکن سیاروں اور ستاروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والےیقوت کشش ثقل ہی ہے۔​
 

سید ذیشان

محفلین
پرانے زمانے کے لوگ ایسی مچھلیوں سے واقف تھے جن کو اگر چھوا جاتا تو وہ بجلی کا جھٹکا لگاتی تھیں۔ مصر کے لوگ قریباً 4500 سال پہلے ایسی مچھلیوں کو دریائے نیل کی مچھلیوں کا محافظ سمجھتے تھے۔ بجلی کو 1600 عیسوی تک سمجھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ 1600 کے بعد اگلے 300 سال تک سائنسدانوں نے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو کافی حد تک سمجھ لیا تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں سکاٹش سائنسدان میگزویل (Maxwell) نے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کی وضاحت کرنے کے لئے ایک تھیوری پیش کی۔ اس تھیوری میں اس سے پہلے کئے گئے فیریڈے، گاوس اور ایمپیر (Faraday, Gauss and Ampere) کے کام کو یکجا کیا اور اس میں کچھ اضافہ کیا گیا۔ اس تھیوری کی سب سے اہم پیشن گوئی یہ تھی کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی "برقی-مقناطیسی" شعائیں (Electromagnetic waves) موجود ہیں جو تاحال دریافت نہیں ہوئیں تھیں (مثلاً ریڈیو، ٹی وی، موبائل وغیرہ کی شعائیں، ایکسرے شعائیں وغیرہ) اور ان کی رفتار "روشنی کی رفتار" جتنی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روشنی بھی برقی-مقناطیسی شعاوں کی ایک قسم ہے۔ ایک اور اہم بات یہ تھی حرکت کرتا ہوا مقناطیس کسی بھی بجلی کی تار (Conductor) میں برقی قوت کو جنم دیتا ہے اور حرکت کرتے ہوئے بجلی کے ذرات (بعد میں ان کو الیکٹران کہا گیا) مقناطیسیت کو جنم دیتے ہیں۔ آج بھی بجلی پیدا کرنے کا یہی اصول ہے۔ اونچائی سے بہنے والا پانی آبشار کی صورت میں ایک بڑے پنکھے (ٹربائین) کو چلاتا ہے۔ اس پنکھے کیساتھ ایک بہت بڑا مقناطیس جڑا ہوتا ہے۔ اور مقناطیس کی یہ حرکت قریب ہی لگے بجلی کے تاروں میں کرنٹ پیدا کرتی ہے۔ اور یہی بجلی ہمارے گھروں میں روشنی جلانے (یا لوڈشیڈنگ :)) کے کام آتی ہے۔

ابھی تک ہم نے نیوٹن اور میگزویل کے قوانین کا ذکر کیا ہے۔ نیوٹن کے قوانین جسمانی یا میکانیکی حرکت کی وضاحت کرتے ہیں اور میگزویل کے قوانین برقی-مقناطیسی حرکت کی وضاحت کرتے ہیں۔ 1900 کے اوائل تک سائنسدانوں کو دو قسم کی قوتوں کا معلوم تھا:" کشش ثقل" اور "برقی-مقناطیسی قوت"۔ میگزویل سے پہلے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو الگ سمجھا جاتا تھا لیکن میگزویل نے ثابت کیا کہ یہ دراصل ایک ہی قوت ہے: "برقی-مقناطیسی"، کیونکہ ایک قوت میں تبدیلی سے دوسری قوت جنم لیتی ہے اور دوسری قوت میں تبدیلی سے پہلی۔

انیسوی صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے پہلے چند سالوں میں سائنسدانوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ زمین پر جتنی بھی لہریں (آواز یا پانی کی لہریں) ان کو معلوم تھیں ان سب کے لئے کسی نا کسی وسیلے (Medium) کی ضرورت ہوتی تھی۔ یعنی آواز کی لہروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے ہوا کے وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پانی کی لہروں کا وسیلہ پانی ہوتا ہے۔ اسی طرح روشنی کو بھی چونکہ لہر سمجھا جاتا تھا تو خیال یہ تھا کہ اس کے لئے بھی کسی نہ کسی وسیلے کا ہونا ضروری ہے۔ یونانی فلسفی ارسطو نے بنیادی عناصر آگ، مٹی، ہوا اور پانی کے علاوہ ایک پانچویں عنصر کا بھی ذکر کیا تھا جس کو "ایتھر" (Aether) کہا گیا تھا۔ ایتھر کے معنی "پاک صاف ہوا" یا "کھلی فضا" کے ہیں۔ ارسطو کے مطابق ایتھر پورے آسمان میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ سائنسدانوں کو بھی کسی ایسے ہی وسیلے کی تلاش تھی جو سورج یا ستاروں سے روشنی کے زمین تک کے سفر کی وضاحت کر سکے۔ اگر ایتھر پورے آسمان میں پھیلا ہوا ہے تو زمین بھی ظاہراً اسی ایتھر میں سورج کے گرد چکر لگاتی ہو گی۔ ایتھر میں زمین کی رفتار معلوم کرنے کے لئے دو سائنسدانوں مائکلسن اور مورلے نے ایک تجربہ وضع کیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
مشہور ترین ناکام تجربہ

1887 میں دو سائنسدانوں مائکلسن اور مورلے نے ایک تجربہ ترتیب دیا جس کا مقصد ایتھر کی خصوصیات کو جاننا تھا،خاص طور پر اس کی رفتار۔ نیچے دی گئی تصویر میں اس تجربے کو آسان کر کے دکھایا گیا ہے (اصل تجربہ اس سے مشکل تھا،لیکن اس تصویر سے اس کا مقصد بخوبی سمجھا جا سکتا ہے)۔ زمین خلا میں 30 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس کو حرف'v' سے ظاہر کیا گیا ہے اور اس کی سمت بھی تیرکے نشان سے ظاہر کی گئی ہے جو کہ دائیں سے بائیں جانب ہے۔

Untitled.png

نوٹ: روشنی کی رفتار کو 'c' سے ظاہر کیا گیا ہے۔

پوائنٹ 'A'سے روشنی (سرخ رنگ کی لکیر سے ظاہر کی گئی) نکلتی ہے اور 3 پر ایک آئینے پر گرتی ہے۔ یہ آئینہ ایسا ہے جس میں سے آدھی روشنی گزر جاتی ہے(نیلی لکیر سے ظاہر کی گئی) اور آدھی روشنی منعکس ہو جاتی ہے(سرخ لکیر سے ظاہر کی گئی)۔ 1 اور 2 پر دو آئینے پڑے ہیں- یہ دونوں آئینے پوری طرح سے روشنی منعکس کر سکتے ہیں اور یہ دونوں آئینے 3 سے ایک ہی فاصلے پر ہیں لیکن مختلف سمتوں میں لگائے گئے ہیں۔ جب روشنی دائیں سے بائیں سفر کر رہی ہوتی ہے تو زمین کی مسافت بھی چونکہ اسی سمت میں ہے تو اس کی رفتار"c+v" ہو گی۔ آئینے پر پڑ کر روشنی دوبارہ زمین کی طرف آئے گی تو چونکہ یہ زمین کی مسافت کے مخالف سفر کر رہی ہو گی تو روشنی کی رفتار "c-v" ہو گی۔ جو روشنی 3 میں سے گزر جائے گی اور منعکس نہیں ہو گی (نیلے رنگ کی لکیر سے ظاہر کی گئی) وہ اوپر کی جانب سفر کرے گی اور 2 سے منعکس ہو کر واپس زمین کی طرف آئے گی۔ چونکہ یہ سمت زمین کی مسافت کی سمت کے عمودی سمت میں ہے تو اس سمت میں زمین کی رفتار صفر ہو گی۔ اور روشنی 'c' کی رفتار سے سفر کرے گی: آتے وقت بھی اور جاتے وقت بھی۔ 2 اور 3 سے لوٹنے والی روشنیاں 'B' نقطے پر آپس میں مل جائیں گی۔
ان روشنیوں نے اوپر اور بائیں سمت میں ایک جتنا فاصلہ طے کیا لیکن روشنی کی رفتار مختلف تھی۔ اس وجہ سے ان کے پہنچنے کے اوقات بھی مختلف ہوں گے۔ مثلاً ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہم 12 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہوئے جلدی (5 منٹ)طے کر لیں گے بہ نسبت 10 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہوئے(6 منٹ)۔ وقت، رفتار اور فاصلے کی آپس کی نسبت ہے:
فاصلہ = وقت x رفتار
دائیں طرف کی روشنی (آئینہ 3 سے 1 تک کے سفر کے لئے )کے سفر کے لئے وقت درکار ہوگا:
وقت=فاصلہ÷رفتار (time = distance/velocity)
وقت = (d/(c+v))
یہاں پر 1 سے 3 کے درمیان فاصلے کو 'd' سے ظاہر کیا گیا ہے۔
واپسی پر 1 سے 3 کی طرف سفر پر لگنے والا وقت:
وقت = (d/(c-v))
ان دونوں کو جمع کریں تو ہمارے پاس زمین سے بائیں طرف کے آئینہ 1 تک اور پھر واپسی ک سفر کا وقت نکل آئے گا:
(d/(c-v) +d/(c+v))


لیکن 3 سے 2 تک کا اور واپسی کا سفر چونکہ زمین کی مسافت کے عمودی سمت میں ہے اس لئے یہاں مکمل سفر پر وقت لگے گا:
وقت = (d/c + d/c)
=2d/c

اب ہم دیکھ سکتے ہیں ان دونوں اوقات میں فرق ہے اور یہ برابر نہیں ہونگے۔ یہ اسی صورت میں برابر ہو سکتے ہیں اگر زمین اور ایتھر کے بیچ میں رفتار کا فرق نہ ہو۔
جب مائکلسن اور مورلے نے یہ تجربہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ توقع کے برخلاف دونوں اوقات کی قیمت بالکل برابر تھی اور ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس تجربے کی ناکامی بہت اہم نتیجہ تھا کہ اس سے ایتھر کے وجود کے بارے میں بہت سوالات اٹھے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
آئنسٹائن کی تھیوری (سپیشل ریلیٹویٹی)

آئنسٹائن کا نظریہء اضافیت حرکت کا نظریہ ہے۔ سپیشل ریلیٹویٹی تھیوری، جو کہ 1905 میں پیش کی گئی، کا تعلق ہموار حرکت (uniform motion) سے ہے۔ اس کا اطلاق اسراع (تعریف: کسی حرکت کا تیز تر یا کم تر ہو جانا) یا acceleration پر نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کو سپیشل تھیوری کہتے ہیں۔ 1916 میں آئنسٹائن نے ایک اور مکمل تھیوری پیش کی جس کو جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری میں اسراع کا بھی خیال رکھا گیا۔ ہم یہاں پر صرف سپیشل تھیوری پر بحث کریں گے۔
اگر آپ کسی ٹرین میں سفر کر رہے ہوں اور وہ ٹرین ایک غیر متغیر رفتار (fixed velocity) سے سفر کر رہی ہو۔ فرض کریں ٹرین کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹا ہے جس کو تصویر میں v سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور آپ کے ہاتھ میں ایک گیند ہے جس کو آپ دائیں طرف 20 کلومیٹر کی رفتار سے پھینکیں، تصویر میں اس رفتار کو u سے ظاہر کیا گیا ہے۔ باہر سے مشاہدہ کرنے والے کے لئے گیند کی کل رفتار u+v کلومیٹر فی گھنٹا ہو گی۔ یا اس صورت میں 60+20 یعنی 80 کلومیٹر فی گھنٹا۔ لیکن آپ کے لئے گیند کی رفتار 20 کلومیٹر فی گھنٹا ہو گی چونکہ آپ ٹرین کے ڈبے میں سفر کر رہے ہیں۔

Untitled2.png

اگر ٹرین کی کوئی کھڑکیاں نہ ہوں جن سے باہر دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ہم چل رہے ہیں یا رکے ہوئے ہیں تو اس ٹرین میں کسی بھی قسم کے تجربات کر کے یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ ہم رکے ہوئے ہیں یا چل رہے ہیں۔ لیکن اگر ٹرین اپنی رفتار آہستہ یا تیز کرے یعنی اسراع (acceleration) ہو تو ہمیں بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ رفتار میں فرق آیا ہے۔ ہمارے اردگرد پڑی ہوئی چیزیں ادھر ادھر گرنے لگیں گی جن سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرین اب ہموار حرکت نہیں کر رہی بلکہ رفتار میں فرق آ رہا ہے۔
اوپر میں نے نیوٹن اور میگزویل کے قوانین کا ذکر کیا تھا۔ اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا تعلق حرکت سے ہے۔ اب ہم ٹرین میں بیٹھ کر جو تجربات کر سکتے ہیں ان کا تعلق ان دو قوانین سے ہو گا۔ ایک مثال میں نے گیندپھینکنے کی دی جس پر نیوٹن کے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ بال کس طرح حرکت کرے گی۔ ہم یہاں پر یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ ٹرین خلا میں سفر کر رہی ہے اور زمین یا کسی اور جسم کی کشش ثقل سے بہت دور ہے۔ اس معاملے میں پھینکی گئی گیند دائیں طرف سیدھی لکیر میں سفر کرے گی (نیوٹن کے پہلے قانون کے مطابق)۔ اسی طرح ہم مقناطیس پر بھی تجربات کر سکتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں لوہے کے ذرات کی حرکت میگزویل کے اصولوں کے مطابق ہو گی۔ اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ تجربہ ہم کسی رکی ہوئی ٹرین میں کریں یا پھر ہموار حرکت کرتی ہوئی ٹرین میں!
یہ نظریہ سب سے پہلے گیلیلیو (Galileo) نے پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق مطلق حرکت (Absolute motion) کا وجود نہیں ہے۔ حرکت کی وضاحت صرف مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہے۔
آئنسٹائن کی تھیوری کا پہلا مسلمہ اصول( First Postulate) ہے: فزکس کے قوانین کا اطلاق تمام "انرشیل فریمز" پر ہوتا ہے۔ (The laws of physics apply in all inertial reference frames)
"انرشیل فریم" کے لئے کوئی اردو کا لفظ سجھائی نہیں دیا (وہ دوست جنہوں نے اردو میں سائنس پڑھی ہو کوئی مشورہ دے سکتے ہیں) تو میں اس کی وضاحت کرتا چلوں: اوپر ٹرین کی بات ہو رہی تھی، تو یہ ٹرین اگر ہموار حرکت (uniform motion) کر رہی ہو اور اس کی حرکت میں کسی بھی سمت میں کوئی اسراع نہ ہو تو اس کو "انرشیل فریم" کہیں گے۔ زمین پر چلنے والی ٹرین کو "انرشیل فریم" نہیں کہہ سکتے چاہے وہ ہموار حرکت ہی کیوں نہ کر رہی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر کشش ثقل اثر کر رہی ہو گی اور یہ کشش مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے۔

مائکلسن-مورلے کے تجربے کی ناکامی کے بعد سائنسدان مخمصے میں تھے کہ ایتھر کی وضاحت کیسے کی جائے۔ آئنسٹائن کا دوسرا مسلمہ اصول اسی تجربے کا نتیجہ ہے۔ آئنسٹائن کے مطابق ایتھر کی رفتار اس لئے معلوم نہیں ہو سکی کیونکہ ایتھر کا وجود ہی نہیں ہے اور روشنی خلا میں بغیر کسی وسیلے کے سفر کرتی ہے۔

آئنسٹائن کی تھیوری کا دوسرا مسلمہ اصول( Second Postulate) ہے: روشنی کی رفتار تمام انرشیل ابزرورز کے لئے برابر ہے۔ (The speed of light is the same for all inertial observers.)

انرشیل آبزرور: انرشیل فریم میں مشاہدہ کرنے والا۔ یعنی ہماری دی گئی مثال والی ٹرین میں بیٹھا آدمی جب وہ ٹرین "انرشیل فریم" کی تعریف پر پورا اترتی ہو۔

اس اصول کے مطابق ہر جگہ پر روشنی کی رفتار برابر ہو گی۔ یعنی اوپر دی گئی مثال میں اگر ہم ٹرین میں دائیں طرف بال پھینکنے کی بجائے ٹارچ لگائیں (روشنی کی شعاع ڈالیں) تو ٹرین میں مشاہدہ کرنے والے کے لئے اس کی رفتار 'c' ہو گی۔ گیلیلیو کے اصول کے مطابق باہر بیٹھے ہوئے مشاہدہ کرنے والے کے لئے یہ رفتار c+v ہونی چاہیے یعنی c سے 60 کلومیٹر فی گھنٹا زیادہ۔ لیکن مائکلسن مورلے کے تجربے سے ہم یہ دیکھ چکے ہیں یہ رفتار بھی 'c' ہی ہو گی۔ یعنی روشنی کی رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لئے ایک جیسی ہوگی چاہے مشاہدہ کرنے والے رکے ہوئے ہوں یا چل رہے ہوں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
Relativity of Simultaneity (ایک ساتھ ہو نے والے واقعات کی اضافیت)


اس تھیوری کا نام آئنسٹائن نے رکھا: ”ایک ساتھ ہو نے والے واقعات کی اضافیت“ یا Relativity of Simultaneity۔ Simultaneity کا لفظ Simultaneous سے مشتق ہے۔ Simultaneous یا ایک ساتھ وقوع پزیر ہونے والے واقعات اس بات پر منحصر ہیں کہ ان کو جانچنے والا (observer) کون ہے۔

Simultaneity1.png

( تصویر نمبر 1)



اوپر تصویر میں ایک ٹرین (ریل گاڑی) کا ڈبہ دکھایا گیا ہے۔ اس میں آگے اور پیچھے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹرین کے بالکل بیچ میں ایک چراغ رکھا گیا ہے۔ جونہی چراغ روشن ہو گا، روشنی کی کرنیں ہر طرف ایک ساتھ (Simultaneously) پھیلیں گیں۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ چراغ بالکل درمیان میں رکھا گیا ہے۔ تو جب روشنی کی پہلی کرنیں اس میں نکلیں گی، تو چونکہ روشنی کی رفتار متعین ہے اور غیر متغیر ہے، تو روشنی کی دونوں شعائیں، (جن کو دو تیر کے نشانات سے ظاہر کیا گیا ہے) ایک ہی وقت پر آگلی اور پچھلی دیواروں سے ٹکرائیں گی۔ کیا اس سے فرق پڑے گا کہ یہ ٹرین رکی ہوئی ہے یا چل رہی ہے؟ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ٹرین رکی ہے یا چل رہی ہے جب تک کہ مشاہدہ کرنے والا ٹرین کے اندر موجود ہو۔

لیکن اگر مشاہدہ کرنے والا ٹرین سے باہر رکا ہوا ہو اور ٹرین ایک مخصوص رفتار سے سفر کر رہی ہو تو اس کا مشاہدہ ٹرین کے اندر والے شخص سے یکسر مختلف ہو گا۔ اس کے لئے درج زیل تصویر دیکھیں:


Simultaneity.png

( تصویر نمبر 2)


چونکہ ٹرین آگے کی طرف چل رہی ہے تو جتنی دیر میں روشنی کی کرن پچھلی دیوار تک پہنچتی ہے۔ اتنی دیر میں اگلی دیوار کچھ اور آگے جا چکی ہو گی اور اسی طرح پچھلی دیوار بھی آگلے آ چکی ہو گی۔ ٹرین کی نئی پوزیشن کو سبز ڈبے سے ظاہر کیا گیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چراغ کا فاصلہ پچھلی دیوار سے کم ہو گیا ہے جبکہ اس کا فاصلہ اگلی دیوار سے بڑھ گیا ہے۔ یعنی روشنی پہلے پچھلی دیوار پر پڑے گی اور بعد میں اگلی دیوار پر۔

آپ دیکھ چکے ہیں کہ ایسے واقعات (روشنی کا اگلی اور پچھلی دیوار پر پڑنا) جو ٹرین میں سوار مسافر کے لئے ایک ہی وقت میں رونما ہوئے وہ ٹرین سے باہر بیٹھے شخص کے لئے مختلف اوقات میں رونما ہوتے ہیں۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی دو واقعات جو رونما ہوتے ہیں ان کو ہم simultaneous نہیں کہہ سکتے کہ یہ مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہے۔ ایک شخص کے لئے simultaneous واقعات دوسرے کے لئے دو محتلف اوقات میں رونما ہونے والے واقعات ہو سکتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ سب آئنسٹائن کے دوسرے مسلمہ اصول کا نتیجہ ہے۔ یہ یاد رہے کہ آئنسٹائن نے یہ اصول مشاہدات کی بنا پر وضع کیا تھا جن میں مائکلسن مورلے کے تجربے کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ اگر تو روشنی کی رفتار تمام مشاہدین کے لئے مختلف ہوتی تب یہ دونوں واقعات دونوں کے لئے ایک ہی وقت میں رونما ہوتے۔ لیکن قدرت نے روشنی کی رفتار تمام مشاہدین کے لئے برابر رکھی ہے تو simultaneity بھی اضافی ہو گئی ہے۔

ان اصولوں کے کچھ اور بھی خارق العادت قسم کے نتائج نکلتے ہیں جنہوں نے لوگوں کو کافی مخصے میں ڈالا۔ وقت کے گزرنے کی رفتار کو عام طور پر سب کے لئے یکساں سمجھا جاتا تھا لیکن اس تھیوری نے یہ تصور ختم کر دیا۔ ہم آگلی قسط میں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔


اگلی قسط: وقت کا پھیلاؤ (time dilation)
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
یہاں پر تصاویر ڈیلیٹ ہو گئی ہیں کسی وجہ سے۔ اس سلسلے کو مکمل کرنے کا اردہ ہے۔ ابھی میں عروض سائٹ پر تصاویر کیساتھ شامل کر رہا ہوں۔ایڈمن حضرات سے گذارش ہے کہ تصاویر کے لنک درست کر دیں۔ میں رپورٹ کر دوں گا۔

 
Top