آئس لینڈ

قیصرانی

لائبریرین
آئس لینڈ

آئس لینڈ کا سرکاری نام جمہوریہ آئس لینڈ ہے۔ (Icelandic: Ísland or Lýðveldið Ísland; آئس لینڈ ایک جزیرہ ہے جو کہ شمال مغربی یورپ کا ایک ملک ہے۔ اس کے بیرونی حصے شمال میں اٹلانٹک سمندر میں یورپ اور گرین لینڈ کے درمیان موجود ہیں۔ جولائی 2007 کے مطابق اس کی آبادی 311396 ہے۔ اس کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ریکیاوک ہے۔ وسطی اٹلانٹک پلیٹ پر اپنے محل وقوع کے لحاظ سے آئس لینڈ آتش فشانی اور ارضیات کے حوالے سے کافی بڑے پیمانے پر متحرک ہے۔ اس کا اندرونی حصہ سطح مرتفع پر مشتمل ہے جو ریتلے میدانوں، پہاڑوں اور گلئیشرز پر مشتمل ہے اور انہی گلیشئرز سے دریا نکل کر اس کے زیریں حصوں سے ہوتے ہوئے سمندر تک جاتے ہیں۔ خلیجی رو کی وجہ سے آئس لینڈ کا درجہ حرارت اس کے محل وقوع کے باوجود نسبتاً معتدل رہتا ہے اور اس وجہ سے یہاں رہائش رکھنا نسبتاً آسان ہے۔ آئس لینڈ میں انسانی آبادی کے آثار 874 ع سے ملتے ہیں جب نارویجیئن سردار انگولفر آرنارسن آئس لینڈ کا پہلا مستقل آباد کار بنا۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں نے یہاں کے چکر لگائے تھے اور قیام بھی کیا تھا۔ اگلی صدیوں کے دوران نارڈک اور گائلیک لوگوں نے آئس لینڈ کو اپنا مستقر بنایا۔ بیسویں صدی سے قبل تک آئس لینڈ کی آبادی کا انحصار ماہی گیری اور زراعت پر تھا اور 1262 سے 1944 تک یہ ناروے کا حصہ رہا اور اس کے بعد ڈینش بادشاہت کا۔ بیسویں صدی میں آئس لینڈ کی معیشت اور بہبود کا نظام بہت تیزی سے پروان چڑھا۔ آج آئس لینڈ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں اور انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس کی معیشت فری مارکیٹ اکانومی پر مشتمل ہے جس میں خدمات، فنانس، ماہی گیری اور مختلف صنعتیں اہم سیکٹرز ہیں۔ سیاحت بھی کافی مقبول ہے۔ آئس لینڈ UN, NATO, EFTA, EEA اور OECD کا ممبر ہے لیکن یورپی یونین کا ممبر نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
تاریخ

اگرچہ تاریخی حوالوں سے آئرش منکس کے ابتدائی وجود کا کچھ تذکرہ ملتا ہے، عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئس لینڈ کی دریافت اور اس کی آبادکاری ناروے کے مہم جوؤں نے نویں صدی کے آخر میں کی تھی۔ یہاں سب سے پہلا آبادکار ناورے کا انگولفر آرنارسن تھا جس نے اپنا مویشی خانہ بنایا۔ انگولفر کے بعد بہت سارے مہاجرین نے ادھر کا رخ کیا جن کی اکثریت ناریجیئن اور آئرش غلاموں کی تھی۔ 930 تک قابل کاشت زمین کا تقریباً تمام حصہ لوگوں نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور التھنگ (Althing) یعنی مقننہ اور پارلیمان بنائی گئی تھی جو کہ آئس لینڈ کی آزاد ریاست کا مرکز تھی۔ 1000 میں پرامن طریقے سے عیسائیت کو قبول کیا گیا۔ آزاد ریاست کا درجہ 1962 میں ختم ہوا جب پرانے آبادکاروں کا بنایا ہوا سیاسی نظام ناکامی کا شکار ہوا کیونکہ یہ مقامی سرداروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ اندرونی مزاحمتوں اور سٹرلنگ دور کی سول نافرمانی کی وجہ سے پرانے معاہدے کی توثیق کی گئی جس کے سبب آئس لینڈ ناورے کی بادشاہت میں آ گیا۔ چودھویں صدی میں آئس لینڈ کی ملکیت ناروے-ڈنمارک کو منتقل کی گئی جب کالمار یونین کے تحت ڈنمارک اور ناروے کی بادشاہتوں کا انضمام ہوا۔ آنے والی صدیوں کےد وران آئس لینڈ یورپ کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا۔ غیر زرخیز زمین، آتش فشانوں کے پھٹنے اور سخت موسم کے باعث یہاں زندگی بہت مشکل ہو گئی کیونکہ ان کا دارومدار زراعت پر تھا۔ سولہویں صدی کے دوران ناروے کے بادشاہ کرسچین سوئم نے لوتھرازم کو ہر پہلو سے ترویج دینی شروع کی۔ آخری کیتھولک بشپ کا 1550 میں اس کے دو بیٹوں سمیت سر قلم کر دیا گیا جس کے بعد پورا ملک مکمل طور پر لوتھیرین بن گیا۔ اس کے بعد سے اب تک لوتھرازم اکثریتی مذہب چلا آ رہا ہے۔ 1814 میں نیپولن کی جنگوں کے بعدناروے اور ڈنمارک کیل کے معاہدے کے بعد دو الگ ملک بنے تاہم آئس لینڈ ڈنمارک کے قبضے میں رہا۔ انیسویں صدی کے دوران ملک کے حالات بدترین ہوتے چلے گئے اور آبادی کی اکثریت نے جنوبی امریکہ کی طرف رخ کیا۔ اسی دوران جون سیگوروسون کے تحت ایک نئی آزادی کی تحریک نے جنم لیا جو کہ یورپ کے رومانوی اور قوم پرستانہ نظریات سے متائثر تھی۔ 1874 میں ڈنمارک نے آئس لینڈ کو خودمختاری عطا کردی جو کہ 1904 میں مزید وسیع کی گئی۔ یکم دسمبر 1918 میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں آئس لینڈ کو ڈنمارک کے بادشاہ کے ماتحت ایک مکمل خود مختار ریاست کا درجہ ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نو اپریل 1940 کو جرمنی کے ڈنمارک پر قبضے کے باعث آئس لینڈ اور ڈنمارک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ ایک ماہ بعد برطانوی فوجوں نے ریکیاوک کی بندرگاہ پر زبردستی ڈیرہ ڈال دیا جو کہ آئس لینڈ کی غیر جانبداری کے خلاف تھا۔ اتحادی قبضہ جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1941 میں یہ قبضہ امریکی فوج نے سنبھال لیا۔ اس کے بعد 17 جون 1944 کو آئس لینڈ رسمی طور پر ایک آزاد جمہوریہ بنا۔ 1946 میں قابض افواج کا انخلا عمل میں آیا۔ اندورن ملک مخالفت اور بغاوتوں کے باوجود آئس لینڈ ناٹو کا ممبر 30 مارچ 1969 کو بنا۔ ۵ مئی 1951 کو امریکہ کے ساتھ آئس لینڈ کا دفاعی معاہدہ عمل میں آیا جس کے نتیجے میں امریکی افواج واپس آئیں اور سرد جنگ کے دوران معاہدے کے مطابق دفاع کا فریضہ سر انجام دیتی رہیں اور خزان 2006 تک موجود رہیں۔ جنگ کے فوراً بعد کے وقت میں معاشی طرقی واقع ہوئی جس میں ماہی گیری کو صنعت کا درجہ دیا گیا اور ہر قسم کی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ 1970 میں سرد جنگ زوروں پر تھی۔ آئس لینڈ اور برطانیہ کے بہت تنازعے ماہی گیری کی حدود کے حوالے سے کھڑے ہوئے۔ 1994 میں آئس لینڈ کے یورپی معاشی علاقے میں شمولیت کے بعد معیشت نے بہت گہرائی اور آزادی حاصل کی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انتظامی تقسیم
آئس لینڈ کو علاقوں، آبادیوں، کاؤئنٹوں اور میونسپلٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کل آٹھ مختلف علاقوں کو شماریاتی حوالوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ضلعی عدالتوں کی حدود ابھی تک پرانی تقسیم کے مطابق چل رہی ہیں۔ مارچ 2003 میں آئین میں ترمیم کے ذریعے انہیں چھ مختلف انتظامی علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔

• ریکیاویک کا شمال اور ریکیاوک کا جنوب (شہری علاقے)

• جنوب مغرب (ریکیاوک کے تین ملحقہ علاقے)

• شمال مغرب اور شمال مشرق (آئس لینڈ کا شمالی نصف حصہ) اور

• جنوب )آئس لینڈ کا جنوبی نصف حصہ، ریکیاوک اور اس کے ملحقہ علاقے نکال کر)

آئس لینڈ کو چھبیس مجسٹریٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو مختلف جگہوں پر حکومت کی نمائیدگی کرتے ہیں۔ ان کے فرائض میں پولیس کی دیکھ بھال، ٹیکس کی وصولی، بینک دیوالیہ ہونے کے متعلق فیصلے اور شادیوں کو سرانجام دینا شامل ہیں۔ آئس لینڈ میں 29 میونسپلٹیاں ہیں جو کہ اپنے مقامی اموروں جیسا کہ سکول، ذرائع نقل و حمل وغیرہ کو خود سنبھالتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
شہر اور قصبہ جات

ریکیاوک کا شہر ملک کا دارلحکومت ہے اور سب سےزیادہ آبادی والا شہر بھی۔ ریکیاوک اور اس کے نزدیکی شہروں کوپاوگُر، ہافنارفیوریور، موسفیلسبیر، گاروابیر، سلتیارنارنس اور الفتانس مل کر ایک بڑا علاقہ بناتے ہیں جہاں ملک کی تقریباً دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شہروں میں اکوریری، کیفلاوک، سیلفوس، ارکینس اور ایسافیورور شامل ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جغرافیہ

محل وقوع اور ٹوپوگرافی

آئس لینڈ شمالی بحیرہ آرکٹک میں آرکٹک سرکل سے ذرا سا جنوب میں واقع ہے۔ یہ سرکل آئس لینڈ کے شمال سے چند علاقوں کو چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ ہمسائیہ گرین لینڈ کے برعکس آئس لینڈ کو یورپ کا حصہ مانا جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے آئس لینڈ یورپ اور جنوبی امریکہ، دونوں براعظموں کا حصہ ہے۔ اپنی ثقافتی، معاشی اور لسانی، کئی حوالوں سے سکیندینیویا کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا 18واں بڑا اور یورپ کا برطانیہ کے بعد دوسرا بڑا جزیرہ ہے۔ آئس لینڈ کا تقریباً گیارہ فیصد حصہ گلیشئرز سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے 4970 کلومیٹر طویل ساحل پر بہت سی فیورڈز موجود ہیں اور اکثر اہم شہر بھی انہی کے نزدیک موجود ہیں۔ آئس لینڈ کے بلند علاقے بہت سرد اور ناقابل رہائش ہیں کیونکہ وہ ریت اور پہاڑوں کا مجموعہ ہیں۔ اس کے اہم شہروں میں ریکیاوک، کیفلاوک، جہاں بین الاقوامی ہوائی اڈے موجود ہیں اور اکوریوری ہیں۔ گریمزی جزیرہ جو کہ آئس لینڈ کے انتہائی شمال میں ہے، آرکٹک سرکل کے پار آبادی رکھتا ہے۔ انسانی آمد کے وقت یہاں واحد ممالیہ جانور آرکٹک لومڑی تھی۔ یہ برفانی دور کے بعد یہاں جمے ہوئے سمندر پر چلتی ہوئی یہاں تک پہنچی۔ اس کے علاوہ یہاں کے قدیمی کوئی چرندے یا خزندے نہیں ہیں۔ آئس لینڈ میں 1300 مختلف اقسام کے حشرات موجود ہیں جو کہ باقی دنیا کی نسبت بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ برفانی دور میں آئس لینڈ تقریباً سارے کا سارا برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ انسانی آبادکاری سے قبل یہاں جنگلات موجود تھے جو کل آئس لینڈ کا 25 سے 40 فیصد حصہ تھے۔ جونہی آبادکار پہنچے، انہوں نے جنگلات کو کاٹ کر زراعت کے لئے اور گھاس کے میدانوں کے لئے زمین بنانا شروع کر دی۔ بیسویں صدی کے شروع تک یہ جنگلات تقریباً ناپید ہو چلے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ سے شجر کاری کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ابھی بھی یہ بہت کم مقدار میں ہیں۔ نئی شجرکاری کے نتیجے میں بہت سی نئی قسموں کے درخت بھی آئس لینڈ میں نظر آتے ہیں آئس لینڈ میں کل چار نیشنل پارک ہیں جو کہ Jökulsárgljúfur National Park, Skaftafell National Park, Snæfellsjökull National Park, اور Þingvellir National Park ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
رقبہ

• کل ملک: 103000 مربع کلومیٹر
• نباتات: 23805 مربع کلومیٹر
• جھیلیں: 2757 مربع کلومیٹر
• گلیشئر: 11922 مربع کلومیٹر
• ناقابل استعمال زمین: 64538 مربع کلومیٹر
 

قیصرانی

لائبریرین
ارضیاتی اور آتش فشانی تحاریک

ارضیاتی اعتبار سے کم عمر زمین، آئس لینڈ ارضیاتی اعتبار سے متحرک حصے اور مڈاٹلانٹک پلیٹ پر واقع ہے جو اس کے بالکل درمیان سے گزرتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ارضیاتی اعتبار سے آئس لینڈ بہت زیادہ متحرک ہے اور یہاں بہت سارے آتش فشاں موجود ہیں جن میں ہیکلا، ایلڈگیا اور ایلڈفل ہیں۔ لاکی میں ۱۷۸۳ سے ۱۷۸۴ تک آتش فشان پھٹا جس سے پیدا ہونے والے دھوئیں اور گرد کے بادلوں نے یورپ کے اکثر اور افریقہ اور ایشیاٗ کے کئی علاقوں کو کئی ماہ تک چھپائے رکھا۔ یہاں بہت سارے گیزر (گرم پانی کے فوارے) بھی پائے جاتے ہیں۔ جیوتھرمل پاور کی کثرت ہونے کے سبب اور بہت سارے دریاؤں اور آبشاروں کے باعث یہاں شہریوں کو گرم اور ٹھنڈا پانی بہت سستے داموں گھروں میں دستیاب ہے۔ آئس لینڈ بذات خود بسالٹ سے بنا ہوا ہے جیسا کہ جزائر ہوئی ہیں۔ تاہم یہاں مختلف قسم کے آتش فشاں اور لاوے پائے جاتے ہیں۔ آئس لینڈ میں دنیا کا سب سے کم عمر جزیرہ موجود ہے جو کہ ۸ نومبر ۱۹۶۳ سے ۵ جون ۱۹۶۸ میں ہونے والی آتش فشانی تحاریک سے وجود میں آیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بڑی جھیلیں


• Þórisvatn (ذخیرہ آب) 83 تا 88 مربع کلومیٹر
• Þingvallavatn رقبہ 82مربع کلومیٹر
• Lögurinn رقبہ 53 مربع کلومیٹر
• Mývatn رقبہ 37 مربع کلومیٹر
• Hvítárvatn رقبہ 30 مربع کلومیٹر
• Hóp رقبہ 30 مربع کلومیٹر
• Langisjór رقبہ 11،6 مربع کلومیٹر
 

قیصرانی

لائبریرین
گہری جھیلیں
• Öskjuvatnگہرائی 220 میٹر
• Hvalvatn گہرائی160 میٹر
• Jökulsárlón گہرائی 150 میٹر
• Þingvallavatn گہرائی116 میٹر
• Þórisvatn ذخیرہ آب گہرائی 113 میٹر
• Lögurinn گہرائی112 میٹر
• Kleifarvatn گہرائی97 میٹر
• Hvítárvatn گہرائی86 میٹر
• Langisjór گہرائی75 میٹر
 

قیصرانی

لائبریرین
موسم

آئس لینڈ کے ساحلی علاقوں کا موسم سرد اوشیانک ہے۔ جنوبی اٹلانٹک کی گرم رو کی وجہ سے آئس لینڈ کا درجہ حرارت اسی خط پر واقع دیگر ممالک کی نسبت گرم ہوتا ہے۔ سردیاں معتدل اور تیز ہواؤں کے ساتھ اور گرمیاں نم اور ٹھنڈی۔ آئس لینڈ میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 30٫5 ڈگری اور سب سے کم درجہ حرارت منفی 38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نباتات و حیوانات

آئس لینڈ میں چند ایک ہی معدنیات یا زراعتی ذخائر موجود ہیں۔ آئس لینڈ کا تین چوتھائی حصہ بنجر ہے۔ نباتات کا بیشتر حصہ گھاس کے میدانوں پر مشتمل ہے جو کہ پالتو مویشیوں کی چراگاہ ہے۔ آئس لینڈ کا اپنا آبائی واحد درخت برچ Betula pubescens ہے۔ مستقل انسانی آبادکاری نے یہاں کے ماحول کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ تقریباً تمام کے تمام جنگلات کو تعمیراتی اور جلانے والی لکڑی کے حصول کے لئے تباہ کیا گیا۔ آج چند ایک ہی برچ کے درخت مختلف جگہوں پر ملتے ہیں۔ آئس لینڈ کے جانوروں میں آئس لینڈ کی بھیڑ، مویشی اور آئس لینڈک گھوڑے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آئس لینڈ کے گرد موجود پانیوں میں مچھلیوں کی کئی اقسام آئس لینڈ کے معاشی نظام کا اہم حصہ ہیں اور آئس لینڈ کی کل برآمدات کا نصف حصہ بھی۔ جنگلی ممالیہ جانوروں میں آرکٹیک لومڑی، منک، جنگلی اور گھریلو چوہے، خرگوش اور رینڈئیر شامل ہیں۔ ۱۹۰۰ کے لگ بھگ کبھی کبھار برفانی ریچھوں نے بھی ادھر کا چکر لگایاتھا جو کہ گرین لینڈ سے گلیشئر پر بہتے ہوئے ادھر پہنچے۔ پرندے خصوصاً بحری پرندے یہاں کی جنگلی حیات کا اہم جزو ہیں۔ پفن، سکوا اور کٹی ویک، ساحل کی چٹانوں پر گھونسلہ بناتے ہیں۔ آئس لینڈ کا اپنا بیڑہ ہے جو بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود وہیل کا شکار جاری رکھتا ہے۔


 

قیصرانی

لائبریرین
زبان

آئس لینڈ میں آئس لینڈ زبان بولی اورلکھی جاتی ہے۔ یہ زبان جنوبی جرمن زبان ہے جو کہ پرانی نورس زبان سے بہت نزدیک ہے۔ ابتداٗ کے لحاظ سے یہ زبان نارڈک ہے اور یورپ کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ واحد قدیم زبان ہے جس میں رونک لفظ Þ شامل ہے۔ انگریزی اور ڈینش زبانیں یہاں عام سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ ان دونوں زبانوں کی تعلیم سکول کے نصاب کا لازمی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سوئیڈش، ناوریجیئن اور جرمن بھی عام بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔

 

قیصرانی

لائبریرین
آبادی

آئس لینڈ کی اپنی آبادی نارڈک اور سیلٹک النسل تھی۔ اس کا ثبوت تحاریر اور سائنس جیسا کہ خون کے نمونوں اور جینیاتی تجزیے سے ملتا ہے۔ جینیاتی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آباد کاروں میں مردوں کی اکثریت نارڈک اور عورتوں کی اکثریت سیلٹک تھی۔ آغاز سے انیسویں صدی کے درمیان تک آبادی کا اندازہ 40000 سے 60000 لگایا جاتا ہے۔ اگرچہ سخت سردیوں، آتش فشانی راکھ اور طاعون کے باعث آبادی میں فرق پڑتا رہا تھا۔ 1703 میں پہلی مردم شماری کے نتیجے میں آبادی کی تعداد 50358 معلوم ہوئی۔ لاکی آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد، جو کہ 1783 سے 1784 تک رہا، آبادی 40000 کی انتہائی کم حدتک پہنچی۔ حالات کے بہتر ہونے پر انیسویں صدی کے درمیان تک اور موجودہ دور میں یہ آبادی تیزی سے بڑھتی چلی گئی ہے۔ 1850میں آبادی 60000 تھی اور 2007 میں 310000۔2006میں20669 افراد جو کہ آئس لینڈ میں رہ رہے تھے، آئس لینڈ سے باہر پیدا ہوئے، لیکن ان کے والدین آئس لینڈکے شہری تھے۔ 10636 افراد کے پاس دوسرے ممالک کی شہریت ہے۔ آئس لینڈ میں سب سے زیادہ پولس کے 7000افراد ہیں، 890 ڈینش، 670 سابقہ یوگوسلاوین، 647 فلیپائینی اور 560 جرمن ہیں۔

 

قیصرانی

لائبریرین
سیاست

جدید پارلیمان جسے التھنگ بھی کہتے ہیں، 1845 میں قائم کی گئی تھی اور اس کی حیثیت ڈینش بادشاہ کی مشاورتی کونسل کی سی تھی۔ عمومی طور پر اسے 930 میں قائم ہونے والی اسمبلی کی نئی شکل کہا جاتا ہے اور جسے 1799 میں معطل کیا گیا تھا۔ آج کل اس کے کل 63 ممبران ہیں۔ ہر ممبر کا انتخاب چار سال کے لئے ہوتا ہے۔ آئس لینڈ میں صدر کا عہدہ نمائشی ہوتا ہے جو سفارت اور مملکت کے سربراہ کا کام کرتا ہے۔ لیکن اس کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ یہ پارلیمان سے منظور ہونے والے کسی قانون کو روک کر عوامی رائے کے لئے پیش کر سکتا ہے۔ حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جو کابینہ کے ساتھ مل کر حکومت کو چلاتا ہے۔ کابینہ کا تقرر صدر کی طرف سے التھنگ کے انتخابات کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم عموماً یہ عمل سیاسی پارٹیوں کے سربراہ انجام دیتے ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ کون کون سی پارٹیاں مل کر کابینہ کی تشکیل کریں گی اور اس میں نشستوں کی تقسیم کیسے کی جائے گی۔صرف اس صورت میں کہ پارٹیوں کے سربراہ مناسب وقت میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں، صدر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کابینہ تشکیل دیتا ہے۔ جمہوریہ کی تشکیل یعنی 1966 سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ لیکن 1962 میں ایک بار غیر پارلیمانی حکومت قائم کی گئی تھی۔ لیکن یہ حکومت ایک ریجنٹ نے قائم کی تھی اور ریجنٹ کا تقرر التھنگ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ہر طرح سے ریجنٹ کا عہدہ صدر کے مساوی تھا۔ اس ریجنٹ کا نام بیورنسن تھا۔ 1966 میں جمہوریہ کے قیام کے بعد یہ اس کے پہلے صدر بھی بنے۔ تقریباً ہمیشہ ہی آئس لینڈ کی حکومت دو یا زیادہ پارٹیوں کے اشتراک قائم کی جاتی ہے۔ صدر کے اختیارات کے حوالے سے آئینی ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ کچھ ماہرین صدر کو کچھ اہم اختیارات دیتے ہیں لیکن کچھ ماہرین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ آئس لینڈ میں دنیا میں سب سے پہلی خاتون صدر کا انتخاب 1980 میں عمل میں آیا۔ ان کا نام ویگڈس فنبوگاڈوٹر ہے اور وہ 1996 میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئیں۔ ٹاؤن کونسلوں کے انتخابات، پارلیمان اور صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات بالترتیب 2010، 2011 اور 2008 میں اگلی بار منعقد ہوں گے۔ مئی 2007 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد، موجودہ حکومت دائیں بازو کی آزاد پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹک اتحاد جو کہ وزیر اعظم گئیر ہارڈی کے تحت ہے، کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ حکومت کو التھنگ میں واضح برتری حاصل ہے اور انہیں کل 63 میں سے 43نشستیں ملی ہوئی ہیں۔


 

قیصرانی

لائبریرین
معیشت

آئس لینڈ فی کس قوت خرید کی جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ پیداور رکھنے والا ملک ہے۔انسانی ترقی کے حوالے سے یہ دنیا کا دوسرا بہترین ملک ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذخائر ملکی توانائی کا 70 فیصد حصہ رکھتا ہے اور ملک کے بارے کہا جاتا ہے کہ 2050 تک یہ توانائی کے لحاظ سے خودمختار ہو جائے گا۔ اپنے آبی بجلی کے ذخائر اور ارضی حرارتی توانائی کے باوجود آئس لینڈ میں قدرتی ذخائر کا فقدان ہے۔ تاریخی طور پر اس کی معیشت کا عمومی دارومدار ماہی گیری پر رہا ہے اور ابھی بھی ملکی معیشت کا بڑا حصہ ماہی گیری سے حاصل ہوتا ہے۔ مچھلیوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی اہم برآمدات جیسا کہ المونیم اور فیروسیلیکان کی کم ہوتی ہوئی قیمت کی وجہ سے ملکی معیشت خطرے کا شکار ہے۔ اگرچہ آئس لینڈ کی معیشت ابھی تک ماہی گیری پر ہی انحصار کرتی ہے، سیر و سیاحت اور دیگر خدمات ، ٹیکنالوجی اور دیگر صنعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ماہی گیری کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی حکومت اپنی بجٹ کی کمی کی اور موجودہ خسارے کی پالیسی، بیرونی قرضہ جات میں کمی، معیشت میں تنوع اور نجکاری کی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہ رہی ہے۔ حکومت یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت کرتی ہے جس کی سب سے اہم وجہ ماہی گیری کے ذرائع آئس لینڈ کے ہاتھ سے نکل جانا ہے۔ آئس لینڈ کی معیشت میں تنوع پیدا کرنے کے لئے پچلی دہائی میں مینوفیکچرنگ اور خدمات کی صنعتیں اور موجودہ دور میں سافٹ وئیر کی تیاری، بائیو ٹیکنالوجی اور فنانشل سروسز کا اہم کردار ہے۔ سیاحت کا سیکٹر بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جس میں ایکو ٹورزم اور وہیل کا مشاہدہ کرنا شامل ہیں۔ 2000 اور 2002 کے درمیان ترقی کی رفتار کچھ کم رہی لیکن معیشت نے 2003 میں 2،3 فیصد اور 2004 میں 6٫2 فیصد کے حساب سے ترقی کی۔ شرح بے روزگاری 1٫3 فیصد ہے جو کہ یورپی اکنامک ایریا میں سب سے کم شرحوں میں شمار ہوتی ہے۔ ملکی بجلی کا نناوے فیصد حصہ پن بجلی اور ارضی حرارتی توانائی سے حاصل ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا ارضی حرارتی توانائی کا مرکز نیسیاویلیر میں واقع ہےجبکہ کاراہنیوکر ڈیم ملک کا سب سے بڑا پن بجلی کا پلانٹ ہوگا۔ آئس لینڈ کی زرعی صنعت کا بڑا حصہ آلو، ہلدی، تازہ سبزیوں (گرین ہاؤس میں)، مٹن، ڈیری مصنوعات اور مچھلیوں پر مشتمل ہے آئس لینڈ کی کرنسی کو آئس لینڈک کرونا کہتے ہیں۔ آئس لینڈ کے سابقہ وزیر اعظم والگیرور سویریسڈوٹر نے 15 جنوری 2007 میں ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ آیا کیا وہ یورپی یونین میں شامل ہوئے بغیر یورو کو اپنا سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی یورو مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی معیشت کا اپنی کرنسی اختیار کیے رکھنا کافی مشکل ہو سکتا ہے۔ بورگارٹن کو ریکیاوک کا معاشی مرکز ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں کمپنیاں اور تین انوسٹمنٹ بینک موجود ہیں۔ آئس لینڈ کی سٹاک مارکیٹ، دی آئس لینڈسٹاک مارکیٹ 1985 میں قائم ہوئی۔

 

قیصرانی

لائبریرین
مذہب

آئس لینڈ میں آئین کے تحت ہر فرد کو مذہبی آزادی ہے۔ یہاں ویسے چرچ اور ریاست کو الگ نہیں سمجھا جاتا۔ آئس لینڈ کے قومی چرچ کو جو کہ ایک لوتھیرین چرچ ہے، ریاستی چرچ کی حیثیت حاصل ہے۔ سرکاری طور پر ہر فرد کا مذہبی لگاؤ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ 2005 میں آئس لینڈ کے افراد کو درج ذیل کے مذہبی گروہوں میں تقسیم کیا گیا:
• 82٫1 فیصد افراد آئس لینڈ کے قومی چرچ کے ممبر ہیں
• 4٫7 فیصد افراد فری لوتھیرین چرچوں کے ممبر ہیں
• 2٫6 فیصد افراد کسی مذہب کی طرف رحجان نہیں رکھتے
• 2٫4 فیصد افراد رومن کیتھولک چرچ کی پیروی کرتے ہیں
• 5٫5 فیصد افراد کسی خاص بیان کردہ مذہب سے نہیں تعلق رکھتے
باقی 2٫7 فیصد افراد زیادہ تر 20-25 عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم آبادی عیسائیت سے تعلق نہیں رکھتی۔

 

قیصرانی

لائبریرین
ثقافت

آئس لینڈ کی ثقافتی جڑیں وائیکنگ اور نورس روایتوں سے جا ملتی ہیں۔ آئس لینڈ کا ادب مقبول ہے بالخصوص ساگاز اور ایڈاز جو کہ آئس لینڈ کی آبادکاری کے دوران لکھے گئے تھے۔ آئس لینڈ کے لوگوں کے خدوخال عام نارڈک نوعیت کے ہیں جو کہ ناروے اور سوئیڈن کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ عیسائیت قبول کرنے سے قبل تک یہاں بہت سارے وائی کنگ اعتقادات کو مانا جاتا تھا۔ آج بھی آئس لینڈ کے کچھ لوگ روحوں یا پریوں پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم ان کے وجود کا انکار نہیں کرتے۔ اسی طرح انسانی ترقی کے پیمانے پر آئس لینڈ کا درجہ بہت بلند ہے اور اسے دنیا کا چوتھا خوش ترین ملک گردانا جاتا ہے۔ عام خوراک عموماً مچھلی، بکری اور دودھ کی مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہے۔ Þorramatur کو قومی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں کئی مختلف ڈشیں موجود ہوتی ہیں۔ اس کو روزانہ نہیں کھایا جاتا لیکن عموماً Þorri کے مہینے میں کھاتے ہیں۔ روایتی ڈشوں میں skyr، scrota, shark, بھیڑ کی سری اور بلیک پڈنگ شامل ہیں۔ حالیہ تبدیلیوں کے باوجود آئس لینڈ کے لوگ بحیثیت ایک قوم، بہت صحت مند ہیں۔ بچے اور نوجوان مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ مقبول کھیلوں میں فٹبال، ٹریک اینڈ فیلڈ، ہینڈ بال اور باسکٹ بال شامل ہیں۔ گالف، ٹینس، تیراکی، شطرنج اور آئس لینڈی گھوڑوں پر گھڑسواری کرنا بھی کافی مقبول ہیں۔ آئس لینڈ مشہور ٹی وی چینل نک جونئیر کے اینیمیٹڈ پروگرام لیزی ٹاؤن کا گھر ہے۔ یہ بچوں کا ایک مقبول سلسلہ وار پروگرام ہے جو دنیا بھر کے 98 مختلف ممالک میں دکھایا جاتا ہے۔ آئس لینڈ "دی شوگر کیوب" نامی میوزک گروپ کا بھی وطن ہے جو کہ 80 اور 90 کی دہائی میں بہت مشہور رہا تھا۔ Björk اس کے ایک مشہور رکن ہیں۔ 1996 میں پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی جس سے ہم جنس رجسٹرڈ پارٹرشپ کو قانونی قرار دیا گیا ہے اور انہیں تقریباً عام شادی کے حقوق اور فوائد ملیں گے۔ 2006 میں پارلیمان کے متحدہ ووٹ کی مدد سے ایک اور قانون منظور کیا گیا کہ ہم جنسوں پرستوں کو عام جوڑوں کی طرح یکساں حقوق ملیں گے جن میں بچہ گود لینا، بچے کی دیکھ بھال اور مصنوعی طریقے سے نطفے کی منتقلی شامل ہیں
 
Top