پاسِ ناموسِ تمنا ہر اک آزار میں تھا
نشۂ نکہتِ گل بھی خلشِ خار میں تھا
کس سے کہیے کہ زمانے کو گراں گزرا ہے
وہ فسانہ کہ مری حسرتِ گفتار میں تھا
دل کہ آتا ہی نہیں ترکِ تمنا کی طرف
کوئی اقرار کا پہلو ترے انکار میں تھا
کچھ تجھے یاد ہے اے چشم زلیخائے جہاں
ہم سا یوسف بھی کوئی مصر کے بازار میں...
وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا
مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا
ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا
تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم...